ظالم کا انجام
فاطمہ ثریا بجیا
۔۔۔۔۔
بچو…! کسی جنگل میں ایک بڑا ظالم اور خونخوار شیر رہتا تھا۔ شیر تو اپنا پیٹ بھرنے کے لیے شکار کرتا ہی ہے۔ کبھی ہرن پکڑ لیا۔ کبھی جنگلی بکرا ،کبھی نیل گائے، کبھی اور کوئی بڑا جانور نہ ملے تو چلو خر گوش ہی کو پکڑ کر پیٹ بھر لیا کرتا ،لیکن جنگل کے جانور اس وقت شکار کرتے ہیں جب انہیں بھوک لگتی ہے بھوک نہ ہو تو گائے بھینس بکریاں اور ریوڑ کے ریوڑ بھی سامنے سے گزر جائیں تو شیر صاحب یعنی جنگل کے بادشاہ سلامت نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے۔ چین سے یا تو ٹہلتے ہیں یا جنگل کی ہری ہری گھاس پر لیٹے انگڑائیاں لیتے اور لوٹیں لگاتے ہیں۔ مگر یہ لنگڑا شیر جس کی کہانی ہم سنا رہے ہیں۔ لالچی، ظالم اور بڑا غصیلہ تھا… اپنے لنگڑ اپن کی وجہ سے بہت تیز نہیں دوڑ سکتا تھا۔ شکار ہاتھ سے نکل جاتا تو سخت غصے میں آکر اتنی زور سے دھاڑتا کہ جنگل کے تمام جانور ڈر جاتے اور جلدی جلدی اپنے بچوں کو اپنے پاس بلا کر جنگل کے اندھیرے کونوں میں چھپ جاتے تھے۔ کبھی بکری اور ہرن کے بچوں کو پکڑ لیتا تھا اور اگر وہ ہاتھ نہیں لگتے تھے اور کسی نہ کسی طرح کلبلا کر شیر کے پنجوں سے باہر نکل جاتے تھے تو زخمی ہو جاتے تھے۔ پھر ان کے زخم پکنے لگتے تو بیمار ہو کر مر جاتے تھے۔ جنگل کے سارے جانور اس بوڑھے شیر کی وجہ سے ہر وقت پریشان رہتے تھے۔ لکڑ ہارے نے تو جنگل سے گزرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ ظالم شیر کئی لکڑ ہاروں اور ایک بڑھئی کو کھا چکا تھا۔ جب سے اسے انسان کے گوشت کا مزا لگا تھا اسے ہر وقت انسان کی تلاش رہتی تھی… یہ پاگل شیر جھنجھلا کر پرندوں تک کو نہیں چھوڑتا تھا۔ ایک دن مور اور مورنی بہت دنوں کے بعد جنگل کے ہرے بھرے میدان میں ناچ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ شاید شیر کھاپی کر سورہا ہے۔ مگر لنگڑا شیر تاک میں چھپا بیٹھا تھا …لپک کر حملہ جو کیا تو مور بچ گیا لیکن مور کی خوبصورت دم شیر نے نوچ لی …مور بے چارہ اپنی رنگ برنگی خوبصورت بڑے پنکھے جیسی دم کا یہ حشر دیکھ کر بہت رویا …مگر کیا ہو سکتا تھا وہ لنگڑا شیر تو خود کو جنگل کا بادشاہ سمجھتا تھا… ہرنی بیچاری کا صرف ایک بچہ تھا… اسے بھی شیر کھا چکا تھا… خرگوش، جنگلی بلیاں، بکریاں بکرے، نیل گائے، چیتل وغیرہ سب اس شیر کی خونخواری کی وجہ سے سخت پریشان رہتے تھے…ہاتھی سب سے زیادہ ذہین جانور ہوتا ہے ،وہ سارے جانوروں کی فریاد یںسنتا تھا اور سوچتا تھا کہ اس شیر کے ظلم سے بچنے کے لیے کیا کیا جائے… مگر کسی کی سمجھ میں کوئی ترکیب نہیں آتی تھی۔ ہاتھی چاہتا تو ایک جھٹکے میں سونڈ میں دبوچ کر شیر کو کچل سکتا تھا …اسے چیر سکتا تھا مگر یہ کام اس لیے نہیں کرتا تھا کہ کہیں جنگل کے دوسرے طاقتور جانور کمز ور جانوروں کو مارنا نہ شروع کر دیں۔
ایک دن جنگل کے سارے جانور بہت اداس تھے …شیر نے چار ہرن زخمی کیے تھے اور ایک کو مار کر کھا گیا تھا۔ زخمی ہرن پہاڑ کے غار میں چھپے ہوئے تھے۔ شام ہو رہی تھی۔ دُم کٹا مور اور مورنی مارے خوف کے ایک بہت ہی اونچے درخت کی اونچی شاخ پر افسردہ بیٹھے تھے ۔مورنی بیچاری جنگل سے دور ایک پگڈنڈی کو دیکھ رہی تھی۔ پگڈنڈی چھوٹے راستے کو کہتے ہیں جو عام طور سے دیہاتوں اور جنگلوں میں چلنے کے لیے لوگ بنا لیتے ہیں۔ برسوں اس پگڈنڈی پر چل کر لکڑ ہارے جنگل میں لکڑی کاٹنے کے لیے آتے تھے، شام ہونے سے پہلے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے اور جنگل کے کسی جانور کو بھی نہیں مارتے تھے۔ جنگل کا کوئی ہرا بھرا درخت نہیں کانٹے تھے۔ سوکھے درختوں کی لکڑی لے جا کر سامان بناتے تھے ۔اچانک مورنی نے شام کی دھندلی روشنی میں ایک بوڑھے انسان کو لکڑی تھا مے پگڈنڈی پر چلتے دیکھا۔ کتنے برسوں کے بعد اس پگڈنڈی پر کوئی انسان چلتا ہوا دکھائی دیا تھا۔ مورنی خوش ہو گئی۔ مور کی طرف دیکھا تو وہ رورہا تھا۔ مورنی بولی ۔’’آنسو پونچھو۔ مورجی دیکھو تو سہی، آج پگڈنڈی پر کون چل رہا تھا؟‘‘
مور نے اپنے پر سے آنسو پونچھے اور جو پگڈنڈی کی طرف دیکھا تو نظر آیا کہ ایک بوڑھا بڑھئی جس کے نوجوان بیٹے کو بہت دن پہلے لنگڑا شیر کھا چکا تھا جنگل کی طرف آرہا ہے۔ مور بوڑھے بڑھئی کو دیکھ کر کچھ اور اُداس ہو گیا۔ اور بولا۔’’ ارے بھولی مورنی! یہ بوڑھا بڑھئی بیچارا، اس کی زندگی کی تو ساری خوشیاں یہ وحشی لنگر اشیر کھا گیا ۔یہ ہر سال اسی دن یہاں آتا ہے اور پگڈنڈی پر بیٹھ کر اپنے بیٹے کو یاد کرتا ہے ۔روتا ہے ،پھر واپس چلا جاتا ہے۔‘‘
مورنی بولی۔ ’’مورجی انسان ساری دنیا کا بادشاہ ہے۔ پہاڑ، سمندر، دریا، زمین، درندے، پرند ،سب اس کا حکم مانتے ہیں۔ گھوڑوں کو ایسا دوست بناتا ہے کہ وہ انسانوں سے زیادہ اسے چاہنے لگتے ہیں۔ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر سواری کرتا ہے ۔پرندے پالتا ہے تو انہیں اپنی طرح بولنا سکھا دیتا ہے ۔لکڑی، پتھر ،مٹی ،چونے سے ایسے اونچے مکان اور محل بناتا ہے۔ لکھتا پڑھتا ہے اور ایسی شان سے کہ آسمان سے جو کتابیں نبیوں کے لیے بھیجی جاتی ہیں ان کو بھی سمجھ کر اللہ تعالیٰ کا حکم بجالاتا ہے۔ کسی طرح ان بڑے میاں کو یہاں لے آؤ یہی انسان ہے جو ہمیں اس ظالم شیر کے ظلم سے بچا سکتا ہے۔‘‘
مورنے مورنی کی بات غور سے سنی ۔دل میں سوچا ،مورنی ٹھیک کہہ رہی ہے۔ مور نے ادھر ادھر جنگل پر نظر دوڑائی تو دیکھا ہا تھی دریا پر کھڑا پانی پی رہا تھا۔ مور تیزی سے اُڑ کر ہاتھی کی پیٹھ پر جا بیٹھا اور بولا:
’’بھائی ہاتھی یاد ہے نا وہ بڑھئی جس کے بیٹے کو شیر کھا گیا تھا؟‘‘
بھائی ہاتھی ایک ٹھنڈی سانس بھر کر بولا۔ ’’بے چارے بڑھئی پر جانے کیا گزر رہی ہوگی۔‘‘
مور بولا۔’’ وہ بڑے میاں آج پگڈنڈی پر دکھائی دیے ہیں اور میری مورنی کہتی ہے کہ انسان کے سوا کوئی دنیا میں اتنا سمجھدار نہیں جو ہمیں اس ظالم شیر کے ظلم سے بچا سکے گا۔‘‘
’’بات تو ٹھیک ہے نا ہا تھی بھائی…‘‘
’’تو کیا اٹھا لاؤں بڑھئی بابا کو…؟‘‘
ہاتھی بھی شاید ایسا ہی سوچ رہا تھا کہ بڑھئی بوڑھا سہی مگر جنگل کے تمام جانوروں سے سمجھ دار ہوگا؟ یہ سوچ کر ہاتھی بھاگا… اور بھاگم بھاگ بڑھئی کے پاس پہنچ گیا ۔بڑھئی اتنے بڑے پہاڑ جیسے ہاتھی کو اپنی طرف دیکھ کر ڈر گیا لیکن بیٹے کی موت کے بعد اس کا دل جینے کو چاہتا نہیں تھا۔ بڑھی نے دل میں سوچا:
’’میرے جوان بیٹے کو شیر کھا گیا تو اس ہاتھی سے کیوں ڈروں؟ ابھی چاہے آئے اور مجھے کچل ڈالے۔‘‘
لیکن ہاتھی تو سونڈ اٹھا کر بڑے میاں کو سلام کرنے لگا اور پیروں کے پاس آکر ادب سے بیٹھ گیا۔ ہاتھی پہنچ تو گیا اب بات کیسے کرے بڑھئی سے؟ بڑھی بیچارا الگ پریشان کہ ہاتھی اس طرح قدموں میں آکر بچوں کی طرح بیٹھ گیا ماجرا کیا ہے؟ بڑھئی ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ اتنے بڑے پہاڑ جیسے جانور کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ ہاتھی اپنی بے بسی اور بے زبانی پر رورہا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہا تھا کہ اے میرے اور ساری دنیا کے مالک !کاش کہ میں بھی انسانوں کی طرح بول سکتا۔ اور اس انسان کو یہ بتا سکتا کہ اس کے جوان بیٹے کا غم ہم جانوروں کو بھی ہے اور یہ بھی بتا سکتا کہ ہم جانور اس انسان سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس ظالم شیر سے چھٹکارہ کیسے مل سکتا ہے؟
بچو! اللہ میاں کی رحمت جوش میں آئی۔ بڑھئی کو ایسا لگا جیسے وہ ہاتھی کی بات سمجھ رہا ہے اور ہاتھی انسانوں کی طرح بولنے لگا ہاتھی بولا: ’’اے بزرگ انسان آپ نے دنیا دیکھی ہے ،ہماری مدد کیجئے اور ہمیں اس ظالم شیر کے ظلم سے نجات دلوائیے۔ بڑھئی ہاتھی کو انسانوں کی طرح بات کرتا دیکھ کر حیران ہو گیا ۔پھر اس کے دل میں خیال آیا جب ظلم بہت بڑھ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ظالم کو سزا دینے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہاتھی کو اسی لیے زبان دی ہے۔ بڑھئی نے ہاتھی سے پوچھا:
’’ٹن ٹن ہاتھی میاں میرے ایک سوال کا جواب دو۔‘‘
ہاتھی نے کہا۔ ’’آپ سوال کریں میں ہر سوال کا جواب دوں گا۔‘‘
بڑھئی نے پہلا سوال کیا:
’’یہ بتاٹن ٹن ہاتھی، کیا جانور بھی انسانوں کی طرح خوشامد کو پسند کرتے ہیں؟‘‘
ہاتھی بڑھئی کی بات سمجھا ہی نہیں بولا۔’’ بابا خوشامد یہ کیا چیز ہوتی ہے؟‘‘
بڑھئی نے دل میں سوچا، ہاں بھئی بے چارے جانور خوش آمد کو کیسے سمجھیں گے۔ یہ تو شاید انسانوں کی سب سے بڑی کمزوری اور خرابی ہے۔ خوشامد کیا چیز ہوتی ہے۔ بڑھئی نے ہاتھی کو اس طرح سمجھایا۔
’’دیکھوٹن ٹن! انسانوں میں تو یہ ہوتا ہے کہ جو آدمی بہت کمزور ہوتا ہے مگر خود کو سب سے بڑا اور طاقتور سمجھتا ہے یا یہ چاہتا ہے کہ سارے دوسرے لوگ ہر وقت اس کا حکم سنیں، بڑا مانیں ،وہ ذہن کی چالاکی سے بُرے انسانوں کو اپنے آس پاس جمع کر لیتا ہے۔ انہیں طرح طرح کے فائدے پہنچاتا ہے۔ تو وہ بُرے لوگ خوشامدی کہلاتے ہیں اور ہر وقت کہتے ہیں کہ حضور آپ سب سے بڑے ہیں۔ عالی جناب آپ اتنے خوبصورت ہیں۔ اعلیٰ حضرت آپ سب سے اچھے ہیں۔ پھر وہ بے وقوف انسان اپنے آپ کو اس سے بڑا خوبصورت اور سب سے اچھا سمجھنے لگتا ہے۔‘‘
ہاتھی بڑھئی بابا کی بات سن کر بہت خوش ہوا ،جلدی سے بولا:
’’بابا جی !یہ باتیں تو اس بوڑھے شیر کو بھی اچھی لگتی ہیں۔ وہ تو خود کو جنگل کا بادشاہ کہتا ہی ہے ۔بڑا ہو نے کو تو میں جنگل کے تمام جانوروں سے بہت بڑا ہوں۔ دانتوں اور پنجوں سے شکار نہیں کر سکتا تو کیا ہوا۔ اپنے دولمبے دانتوں سے شیر کا پیٹ پھاڑ سکتا ہوں۔ پیروں سے دبادوںتو قیمہ بن جائیگا شیر صاحب کا۔ مگر بابا جی اپنی طاقت کا زور دکھا کر اپنے سے کمزوروں کو ڈرانا ،مار دینا تو بہت بُری بات ہے۔‘‘
بڑھئی ہاتھی کی بات سن کر خوش ہوا اور اس نے ہاتھی کو یہ کہہ کر دعا دی ۔’’تم نے اتنی اچھی بات کہی ٹن ٹن کہ کاش یہ بات میری انسانوں کی دنیا کے ان تمام بڑے اور خوشامد پسند انسانوں سے کہی جاسکتی جو دوسرے انسانوں کو اپنا نو کر سمجھتے ہیں اور اگر کوئی بہادر اور غیرت مندان بیوقوف انسانوں کو روکتا اور ٹوکتا ہے تو اسے باغی کہہ کر اپنے غلاموں اور نوکروں سے سزائیں دلواتے ہیں یہاں تک کہ مروا بھی دیتے ہیں۔ اب تم یہ کرو کہ جنگل کے سارے جانوروں کو جمع کر کے اس بے وقوف شیر کے پاس جاؤ اور کہو کہ حضور ہم سب جنگل کے جانوروں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم آپ کو اپنا با دشاہ مانتے ہیں۔ ہم آپ کی رعایا اور آپ کے نوکر ہیں۔ ہم کو اچھا نہیں لگتا کہ ہمارا بادشاہ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ہمارے پیچھے بھاگتا پھرے ۔ہم ہر تیسرے دن آپ کا شکار آپ کے محل میں پہنچادیں گے۔ محل کی بات سن کر شیر چونکے گا اور کہے گا ہم تو جنگل کے بادشاہ ہیں ہم محل میں کیسے رہ سکتے ہیں؟ تو اس وقت تم کہنا کہ حضور بادشاہ سلامت یہی تو ہم جانوروں کا جنگلی قانون ہے۔ انسانوں کا بادشاہ اگر سو برس کا بھی ہو جائے تو ولی عہد کی مجال نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بوڑھے باپ کا حکم نہ سنے۔ بادشاہ سواری کے لائق نہیں رہتا تو رعایا اسے تخت پر بیٹھا کر کندھوں پر اٹھا کر چلتی ہے۔ ہزار دشمن آجائیں بوڑھا بادشاہ تخت سے ہلتا نہیں۔ اس کے سپہ سالار دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اتنے بڑے محل میں رہتا ہے ،نہ اسے رعایا کی خبر ہوتی ہے نہ رعایا کو بادشاہ کی مگر کھانے پینے، آرام سے رہنے کا سارا سامان محل کے اندر ہوتا ہے اور بادشاہ کو کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوتی ۔آخر جب آپ ہمارے بادشاہ ہیں تو ہمیں بھی انسانوں کی طرح آپ کے آرام اور خدمت کا خیال رکھنا چاہیے اور خدمت کرنی چاہیے، اور جب تمہارا شیر بادشاہ محل میں رہنے پر تیار ہو جائے تو فوراً مجھے بتا دینا میں تمہارے جنگل سے قریب لکڑ ہاروں کی بستی میں رہتا ہوں۔ مجھے بستی والے بھی بابا جی پکارتے ہیں۔‘‘
بچو کمال ہو گیا۔ ہاتھی نے وہی کیا جو بڑھئی بابا نے کہا تھا ۔لنگڑا شیر اپنی خوشامد سن کر مارے خوشی کے اتنا اچھلا کودا کہ لنگڑا نہ بھی ہوتا تو اتنی اچھل کود کے بعد لنگڑا کر ہی چل سکتا تھا۔ شیر کی تو ہنسی بھی کتنی ڈراؤنی تھی اللہ تو بہ۔ دھاڑنے کے ساتھ عجیب عجیب طرح کی خوفناک آواز یںشیر کے گلے سے نکل رہی تھیں۔ جنگل کے سارے جانور یہ تماشا دیکھ رہے تھے ۔اچانک شیر سنبھل گیا ۔اسے یاد آ گیا کہ وہ تو بادشاہ ہے مگر اب انسانوں کے بادشاہ کی طرح شاندار زندگی گزارے گا، ہاتھی کو حکم دیا ۔’’سارے جانوروں سے کہو ہمارے سامنے جھک جائیں۔‘‘ سب جھک گئے۔
’’اچھا سیدھے کھڑے ہو جاؤ اور یہ بتاؤ کہ ہمارا شاندار محل کہاں ہے؟‘‘
ہاتھی نے جواب دیا۔ ’’حضور محل تو اب بنے گا اور اس محل کے بن جانے کے بعد انسان بھی آپ کو اپنابادشاہ مان لیں گے۔‘‘
انسان کا نام سن کر شیر کے منہ میں پانی بھر آیا۔ زبان ہونٹوں پر پھیرتے ہوئے خوش ہو کر بولا ۔’’اچھا یہ کیسے ہوا؟ یہ تو کمال کر دیا تم جانوروں نے ۔انسان اگر میری رعایا بن جائیں گے تو تم جانوروں کا شکار بند کر دوں گا ۔‘‘
’’حضور آپ کا محل انسان ہی بنائیں گے۔ یہ کام تو خدا نے اس کو سکھایا ہے ۔‘‘
شیر کو یقین نہیں آرہا تھا کہ انسان اس کا محل بنادے گا۔ برسوں سے انسانوں نے جنگل میں آنا چھوڑ دیا تھا۔ مارے خوشی کے پھر اچھلا کودا، قلابازیاں کھا ئیں، کئی بار لڑھک بھی گیا اور مزید خوش ہو کر بولا:
’’جلدی لاؤ انسان کو ،جلدی جلدی، میرا محل بنائے اور پھر میں جلدی سے اسے ہڑپ کر جاؤں۔‘‘
بڑا بندر بولا۔’’ اللہ نہ کرے حضور آپ اس بوڑھے کا گوشت کھائیں۔ ہڈی چمڑا ہے بوڑھے کے بدن میں خون کا قطرہ بھی نہیں ہے اور دو چار قطرے بدن میں خون کے ہوں گے تو ناگ، سانپ دو بارا سے کاٹ چکا ہے۔ زہر بھرا ہوگا۔‘‘
پاگل شیر یہ سن کر ڈر گیا بولا:
’’شاباش بڑے بندر عقلمند ہو تم بہت …دیکھو سنو کیا اچھی بات بتادی اس نے مجھے۔ میں تجھ ہی کو بڑا وزیر بنادوں گا ۔بس اب جلدی جاؤ بوڑھے کو لاؤ، اچھا یہ بتاؤ یہ ہمارا محل کتنے دن اور کتنی راتوں میں بن جائے گا؟‘‘
’’حضور یہ تو بوڑھا بڑھئی با باہی بتا سکتا ہے۔‘‘ ہاتھی نے بہت ادب سے شیر کو جواب دیا ۔
شیر پھر دھاڑا اور بولا: ’’کم بختو! مجھے اتنا بڑا بادشاہ بنالیا ہے تو میرے کھانے پینے کے لئے تو کچھ لاؤ ،کل سے بھوکا ہوں میں۔‘‘
بڑے بندر نے بندروں کو اشارہ کیا۔ ہر ایک کے ہاتھ میں پھلوں سے لدی ہوئی شاخیں تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے شیر کے سامنے پھلوں کا ڈھیر لگ گیا۔ شیر چڑ گیا دھاڑ کر بولا:
’’یہ کیا بد تمیزی ہے ،یہ گھاس پھوس میں کیسے کھا سکتا ہوں؟ کوئی نیل گائے، ہرن، بکریاں بکرے پیش کرو!‘‘
لومڑی جواب اپنی لومڑیوں میں دبی بیٹھی تھی آگے آئی اور بولی:
’’حضور بادشاہ سلامت میری جان آپ پر فدا ہو۔ تو بہ تو بہ گوشت کا نام بھی نہ لیجئے آپ۔ یہ مکار شوق تو آپ کو جیتے جی مار ڈالے گا۔ شکر کا مرض ،خون کا دباؤ ،پتہ نہیں کیسی کیسی بیماریاں آپ کو لگ جائیں گی۔ آپ کو تو ابھی سو سال زندہ رہناہے۔ آخر انسانوں کا بادشاہ بھی تو بڑی عمر کا ہے۔ پھل کھاتا ہے ،پھلوں کا رس پیتا ہے ،یہ گوشت اور وہ بھی ہم جیسے جنگلی جانوروں کا تو بہ تو بہ۔ اب تو آپ ہر وہ کام کریں گے جو انسانوں کا بادشاہ کرتا ہے۔ باورچی خانے میں خانساماں رکھے جائیں گے وہ حضور کے لیے کھانے اور یخنی بنائیں گے۔ دستر خوان بچھائے جائیں گے اور جب تک آپ بادشاہ سلامت کھانا نہیں کھالیں گے آپ کی رعایا بھوکی رہے گی۔ آپ حکم دیںگے تو ہم اور ہمارے بال بچے اپنا پیٹ بھریں گے۔‘‘
پاگل شیر سوچنے لگا۔’’یہ بادشاہ بننا بڑا مشکل کام ہے۔ خیر چلو دو چار دن پھلوں پر گزارہ کرلوں، بادشاہ بنتے ہی پھر دیکھنامیں صرف اپنا حکم چلاؤں گا۔‘‘
ہاتھی اور بندر جا کر بڑھئی بابا کو لے آئے۔ اب مزا آیا نا بچو! بڑھئی نے لوہاروں سے کیلوں کی جگہ موٹی موٹی لوہے کی سیخیں خرید لیں ۔بڑے بڑے آرے لیے۔ آرے لکڑی چھیلنے کے لیے خریدے۔ سارا سازو سامان لے کر ہاتھیوں کی پیٹھ پر لاد کر جنگل پہنچ گیا۔ ہاتھیوں نے شیشم، چیڑ اور دوسرے مضبوط سوکھے سوکھے درختوں کے موٹے موٹے تنے جڑ سے اکھاڑ کر ایک جگہ جمع کر دیے۔ اتنے موٹے موٹے تنوں کو جوڑ کر جنگل کے بادشاہ سلامت کے محل کے لیے دیواریں بنائیں۔ اتنی چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں بنا ئیں کہ اس میں شیر کا پنجہ بھی نہیں گھس سکتا تھا ایک بڑا سا دروازہ بنایا جس میں لوہے کی موٹی موٹی سلاخیں جڑ دیں۔ تین دن کے اندر اندر بادشاہ سلامت کا محل تیار کر دیا۔ شیر دور بیٹھا سارے جنگل کے جانوروں کو غلاموں کی طرح کام کرتا دیکھ کر خوش ہو رہا تھا لیکن تین دن لگا تار سبزیاں اور پھل کھا کر شیر کمزور ہورہا تھا۔ اچانک چنگھار تا ،شور مچا تا بادشاہ سلامت زندہ باد کہتا ہاتھیوں کا غول بادشاہ سلامت کے پاس پہنچا اور اعلان کر دیا ۔’’حضور بادشاہ سلامت محل تیار ہو چکاہے۔ گینڈا آپ کی شاہی سواری کے لیے پہنچنے والا ہے۔‘‘
گینڈے کا نام سن کر بادشاہ مارے خوف کے تھر تھرا گئے بولے: ’’ارے کون سا گینڈا کم بختو ،وہ ترائی والا تو نہیں ہے جس نے ایک بار مجھے دھکا دے کر دلدل میں پھینک دیا تھا۔‘‘
شیر کو ترائی والے اس غصیلے گینڈے سے ہمیشہ ڈر لگتا تھا۔ بندر نے جواب دیا ۔’’حضور! ڈر کی تو کوئی بات ہی نہیں ،اب تو ترائی والا گینڈا بھی آپ کی غلامی کے لیے تیار ہے ،بس اب ہم سب یہاں سے آپ کے محل کی جگہ واپس جا رہے ہیں۔ جب جنگل کی تمام چڑیاں چہچہانا شروع کر دیں گی تو آپ گینڈے پر سوار ہو جائیے گا۔ جب ہم بندروں کی تالیوں کی آواز آپ سنیں گے تو آپ گینڈے کو چلنے کا حکم دے دیجئے گا۔ جیسے ہی آپ چلنے لگیں گے۔ پرندے اڑ کر آپ پر پھول برسائیں گے۔ اس کے بعد آپ کو ہاتھیوں کی چنگھاڑ سنائی دے گی۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ انسان بادشاہ کی طرح آپ کی سلامی دی جا رہی ہے۔ گینڈا ایک جگہ جا کر رک جائے گا۔ یہاں آپ کو زمین پر اتر نا ہو گا۔ سامنے آپ کا محل ہوگا۔ آپ آہستہ آہستہ اپنے محل کی طرف بڑھیں گے۔ جیسے ہی محل کی سیڑھی پر قدم رکھیں گے،چڑیاں پھر پھول برسانا شروع کر دیں گی۔ بلبلیں، مینا ئیں گیت گائیں گی۔ آپ شان کے ساتھ محل کے اندر پہنچ جائیں گے۔ یہاں پھولوں کا ایک بستر ہو گا جس پر آپ بیٹھ جائیں گے پھر آپ بڑھئی بابا کی جان بخشی کا اعلان کریں گے جس نے اتنی جلدی رات دن محنت کر کے آپ کا عمل تیار کر دیا ہے۔‘‘
بچو! شیر بہت بھوکا اور بے صبرا ہو رہا تھا ،روہانسا ہو کر بولا:
’’ارے کم بختو !تم چنگھاڑتے ،بکواس کرتے اور مجھ پر پھول برساتے ہی رہو گے کہ کچھ کھانے کو بھی دو گے۔ یہ گھاس پھوس کھاتے کھاتے میں تو اتنا کمزور ہو گیا ہوں۔ اب مجھے گینڈے کی بیٹھ پر سوار ہو جانا بھی آسمان دکھائی نہیں دیتا۔‘‘
خیر لالچ بری بلا ہے۔ آدمی ہو یا شیر جیسا پاگل جانور ، خود کو سب سے بڑا، سب سے زیادہ طاقتور اور دوسروں کو کمزور سمجھتا ہے اس کے ساتھ پھر ایسا ہی کچھ ہو جاتا ہے۔ شیر بادشاہ بن جانے کے لالچ میں گینڈے پر سوار ہو کر اپنے محل پہنچا۔ یہاں تو سچ مچ پھولوں کا بستر بچھا ہوا تھا۔ بلبلیں اور مینا ئیں گا رہی تھیں، طوطے شور مچار ہے تھے، ہاتھی چنگھاڑ رہے تھے ،بندر ناچ رہے تھے ۔شیر محل کے اندر گیا، پھولوں کے بستر پر بیٹھا ،سامنے نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک بوڑھا کمزور بڑھئی ہاتھیوں کی مدد سے محل کا سلاخوں والا دروازہ بند کر رہا تھا۔ شیر گھبرا کر اُٹھا، وہ اب سمجھ گیا کہ اس کی موت آگئی ہے، چلا کر بولا:
’’یہ کیا بدتمیزی ہے۔ ہمارے محل کا دروازہ کیوں بند کر رہے ہو۔ ہم بادشاہ سلامت نے ابھی دروازہ بند کرنے کا حکم نہیں دیا ہے۔‘‘
مگر بچو کہانی تو ختم ہوگئی۔ انسان اگر اچھا ہو تو وہ سچ مچ دنیا کا سب سے اچھا بادشاہ بن کر انسانوں کو سکھ پہنچا سکتا ہے۔ جنگل کے ستائے ہوئے جانوروں کے غصے اور ایک بوڑھے کمزور انسان کی عقل نے اس ظالم شیر کو ہمیشہ کے لیے قید کر دیا ۔شیر چلا تا رہا ،اپنے غصے اور طاقت سے سب کو ڈراتا رہا۔
’’توڑ دوں گا دروازہ میں، تم کو میری طاقت کا پتہ نہیں ہے، میں جنگل کا بادشاہ ہوں ،میں دوسرے شیروں سے کہوں گا کہ وہ تم کو خاص طور پر اس بوڑھے انسان کو کھا جائیں۔ پھاڑ ڈالیں تم سب کو…!‘‘
شیر چلا تا رہا ،دھاڑ تا رہا مگر سب بیکار… بوڑھے بڑھئی نے لکڑ ہاروں کی بستی کی راہ لی۔ وہ گھر چلا گیا۔ پرند، چرند اور بڑے جانور سب اپنے اپنے گھروں کی طرف خاموشی سے چلے گئے۔ کسی نے اس پاگل شیر کی کسی بات کا جواب نہیں دیا ۔جب دشمن مجبور ہو جائے اور عاجزی کرنے لگے تو اسے اور زیادہ ذلیل نہیں کرنا چاہیے، رات ہوگئی۔ اندھیرا بڑھتا چلا گیا شیر پنجرے کے اندرا کیلا روتا ،چلا تا ،دھاڑ ،مارتا رہامگر کوئی اس کی مدد کو نہیں آیا یہاں تک کہ جنگل کے دوسرے شیر بھی اپنی کچھار میں خاموش بیٹھے رہے۔
یہ ہوتا ہے دوسروں پر ظلم اور زیادتی کرنے کا انجام۔