skip to Main Content

بڑا مجرم

محمد یونس حسرت
۔۔۔۔۔

سلطان محمود غزنوی بہت بہادر بادشاہ گزرا ہے۔ بہادری کے علاوہ نیکی اور رحم دلی کی وجہ سے بھی اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اس کی عادت تھی کہ بھیس بدل کر رات کے وقت شہر کی گلی کوچوں کا چکر لگایا کرتا تھا تا کہ اسے رعایا کی تکلیفوں کا اندازہ ہو سکے۔
ایک بار وہ رات کو اسی طرح پھرتے پھراتے ایک سنسان اور ویران جگہ پر جا نکلا۔ وہاں اسے چار آدمی دکھائی دیے جو آپس میں آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے۔ سلطان نے ان کے قریب جا کر کہا: ’’بھائیو! یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘
انہوں نے جواب دیا: ’’میاں ہم چور ہیں اور چوری کے متعلق صلاح مشورہ کر رہے ہیں۔‘‘
سلطان نے کہا ۔’’پھر تو تم میرے ساتھی ہو۔ مناسب سمجھو تو مجھے بھی اپنے ساتھ شامل کر لو۔‘‘
وہ کہنے لگے: ’’میاں ہم کسی کو اپنے ساتھ اس وقت تک شامل نہیں کرتے، جب تک اس میں کوئی خاص خوبی نہ ہو۔ تم اپنی خوبی بیان کرو تو پھر ہم فیصلہ کریں گے کہ تمہیں اپنے گروہ میں شامل کریں یا نہیں۔‘‘
یہ سن کر سلطان نے کہا: ’’خوبی تو مجھ میں ہے لیکن اگر تم بُرا نہ مانو تو پہلے اپنی اپنی خوبیاں بیان کرو۔ پھر میںبتاؤں گا کہ مجھ میں کیا خوبی ہے۔‘‘
اس پر ایک چور نے کہا: ’’میری خوبی یہ ہے کہ میں سونگھ کر خزانے کی جگہ معلوم کر لیتا ہوں، چاہے وہ کسی پہاڑ کے غار میں چھپا ہوا ہو یا سمندر کی تہہ میں پوشیدہ ہو۔‘‘
دوسرے چور نے کہا: ’’میں جانوروں کی بولی سمجھتا ہوں۔‘‘
تیسرا چور بولا: ’’میں مضبوط سے مضبوط تالے کو بغیر کسی چابی کے کھول دیتا ہوں۔‘‘
چوتھے چور نے کہا: ’’میری خوبی یہ ہے کہ جس شخص کو ایک بار دیکھ لوں چاہے اندھیرے ہی میں کیوں نہ دیکھوں دوسری بار دیکھنے پر اسے فوراً پہچان لیتا ہوں۔‘‘
چاروں چور اپنی اپنی خوبیاں بیان کر چکے تو سلطان نے کہا۔ ’’میری خوبی یہ ہے کہ اگر کوئی مجرم پھانسی کے تختے پر بھی کھڑا ہو اور میں ذرا سا سر ہلا دوں تو وہ فورا رہا ہو سکتا ہے۔‘‘
چاروں چور یہ سن کر حیران بھی ہوئے اور خوش بھی۔ وہ بولے۔’’ بھئی تمہارا کمال تو ہم سب سے بڑھ کر ہے۔ تم ہمارے ساتھ ہو گئے تو پھر ہمیں کس بات کا ڈر ہے۔‘‘
اس کے بعد وہ اس رات کی چوری کے متعلق صلاح مشورے کرنے لگے۔ آخر صلاح یہ ٹھہری کہ آج رات شاہی محل میں چوری کی جائے۔ یہ فیصلہ کر کے وہ شاہی محل کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں ایک گلی سے گزرے توکتا بھونکا۔ سلطان نے کہا:
’’یہ کتا کیا کہہ رہا ہے؟‘‘
جس چور نے جانوروں کی بولی سمجھنے کا دعویٰ کیا تھا اس نے جواب دیا۔’’ یہ کہہ رہا ہے کہ تم پانچوں میں سے ایک سلطان ہے۔‘‘
سلطان نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
’’بھلا ہم میں سے کون سلطان ہو سکتا ہے؟‘‘
چور نے کہا ’’معلوم نہیں۔ کتے نے تو بس اتنا ہی کہا تھا۔‘‘
بات آئی گئی ہوگئی اور وہ پانچوں شاہی محل کی طرف بڑھ گئے۔ شاہی محل میں داخل ہونے میں انہیں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ ایک چور نے سونگھ کر خزانے کی جگہ معلوم کی، دوسرے چور نے چابی کے بغیر خزانے کے ایک صندوق کا تالا کھولا، جو اشرفیوں اور ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے سارا مال سمیٹ لیا، مگر سلطان کے کہنے پر ایک قیمتی ہیرا و ہیں صندوق میں پڑا رہنے دیا۔ اس کے بعد وہ جس طرح خاموشی سے محل میں داخل ہوئے تھے اسی طرح باہر نکل آئے۔
باہر نکل کر انہوں نے جنگل کی راہ لی۔ اس جنگل میں ایک غار تھا جو ان چوروں کا ٹھکا نہ تھا۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے سارا مال پانچ حصوں میں برابر تقسیم کیا اور جب ایک حصہ سُلطان کو دینے لگے تو اس نے کہا: ’’دوستوں، تم سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے اور میں اس خوشی میں اپنا حصہ تمہاری نذر کرتا ہوں۔‘‘
اس کے بعد سلطان وہاں سے چلا آیا، مگر آنے سے پہلے اس نے باتوں باتوں میں آئندہ ملاقات کے بہانے ان کے نام اور پتے معلوم کر لیے تھے۔
ادھر شاہی محل میں شاہی خزانے کا محافظ جب خزانے والے کمرے میں آیا تو اس نے دیکھا کہ خزانے کا ایک صندوق کھلا ہوا ہے اور اس میں جو اشرفیاں اور جواہرات تھے، وہ غائب ہیں۔ صرف ایک ہیرا پڑا ہے وہ سمجھ گیا کہ چوری ہو گئی ہے۔ اس نے سوچا کہ چور صندوق کا مال جلدی جلدی سمیٹ رہے ہوں گے تو یہ ہیرا ان کے ہاتھ سے گر پڑا ہوگا۔ یہ سوچتے ہوئے اسے خیال آیا کہ کیوں نہ اس ہیرے کو اپنے قبضے میں کرلوں اور اسے بھی چوری کے کھاتے میں ڈال دوں۔ کسی کو کیا پتہ چلے گا؟ سب یہی سمجھیں گے کہ چور جہاں اور مال لے گئے، وہاں یہ ہیرا بھی لے گئے۔ آخر ایسا کون احمق ہو گا جو جان بوجھ کر یہ ہیرا چھوڑ دے گا؟
یہ سوچ کر اس نے ہیرا تو اپنی جیب میں ڈالا اور خود سلطان کی خواب گاہ کی طرف روانہ ہو گیا تا کہ اسے چوری کی اطلاع دے سکے۔ شاہی خواب گاہ میں پہنچ کر اس نے سلطان کو اطلاع دی کہ شاہی خزانے میں چوری ہو گئی ہے اور چور ایک صندوق سے اشرفیاں، سونا چاندی اور ہیرے جواہرات چُرا کر لے گئے ہیں، جلدی شہر میں ہرطرف شور مچ گیا۔ صبح ہونے تک بچے بچے کو علم ہو چکا تھا کہ رات شاہی خزانے میں چوری ہوگئی ہے۔ سلطان نے اپنے سپاہیوں کا ایک دستہ چوروں کے ٹھکانے کی طرف روانہ کیا۔ چور رات بھر کے تھکے ماندے آرام کر رہے تھے۔ سپاہیوں نے انہیں مال سمیت گرفتار کر لیااورباندھ کر شاہی محل میں لے آئے۔
سپاہیوں نے چوروں کی گرفتاری کی اطلاع سلطان کو دی تواس نے ہدایت کی کہ ان کو فی الحال میرے سامنے نہ لایا جائے اور پھانسی کی کوٹھڑی میں بند کر دیا جائے مگر پہلے اس مال کو خزانے کی فہرست سے ملا کر دیکھ لیا جائے کہ اس میں کوئی چیز کم تو نہیں ہے۔ سلطان کے حکم کے مطابق چاروں چوروں کو پھانسی کی کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا۔ جو مال ان کے پاس سے برآمد ہوا تھا، اسے خزانے کی فہرست سے ملا کر دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ اس میں ایک قیمتی ہیرا کم ہے۔ پڑتال کرنے والے افسر نے جب یہ بات چوروں کو بتائی تو انہوں نے کہا:
’’میاں جس ہیرے کی تم بات کر رہے ہو وہ ہم نے اٹھایا ہی نہیں تھا۔ اپنے پانچویں ساتھی کے کہنے پرو ہیں صندوق میں چھوڑ دیا تھا۔‘‘
سلطان کو یہ بات بتائی گئی تو اس نے محافظ کو بلایا اور کہا ۔’’چوروں سے جو مال برآمد ہوا ہے، اس میں سے ایک قیمتی ہیرا کم ہے۔ ان چوروں کا بیان یہ ہے کہ انہوں نے وہ ہیراو ہیں صندوق میں چھوڑ دیا تھا۔ کیا تم بتا سکتے ہو کہ وہ ہیرا کہاں گیا؟‘‘
محافظ بولا: ’’حضور ان چوروں کی بات کا کیا اعتبار؟ بھلا ایسا کون احمق ہو گا جو چوری کرنے آئے اور ایسا قیمتی ہیرا چھوڑ جائے۔ یقینا وہ ہیرا بھی ان میں سے کسی کے پاس ہوگا اور اسے کہیں چُھپا دیا ہوگا۔‘‘
سلطان نے محافظ کی یہ بات سن کر اسے رخصت کر دیا مگر دل میں وہ کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ اس نے ایک خاص مقصد کے تحت ہی چوروں سے یہ کہا تھا کہ وہ ہیرا و ہیں صندوق میں پڑا رہنے دیا جائے۔ اب وہ اگلا قدم مناسب وقت آنے پر اٹھانا چاہتا تھا۔
ادھر چور پھانسی کی کوٹھڑی میں حیران ہو کر سوچ رہے تھے کہ سلطان کے جن سپاہیوں نے ہمیں گرفتار کر لیا ہے وہ ابھی تک ہمارے پانچویں ساتھی کو کیوں نہیں پکڑ سکے؟ ایک چور کہنے لگا:’’ یا ررات کتے نے جس بادشاہ کی خبر کی تھی کہیں وہ ہمارا پانچواں ساتھی نہ ہو۔‘‘
دوسرا چور کہنے لگا: ’’اگر رات بادشاہ واقعی ہمارے ساتھ تھا تو میں اسے پہچان لوں گا۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے سپاہیوں سے کہا:
’’ہمیں اپنے کیے کی سزا تو بھگتنی ہے۔ تم اتنی مہربانی کرو کہ ہمیں ایک بار بادشاہ کے سامنے پیش کر دو۔ ‘‘
سپاہیوں نے سلطان کو اطلاع کی تو اس نے محافظ خزانہ سے کہا تم ان چوروں کے پاس جاؤ اور کہو کہ شاہی خزانے کی فہرست کے مطابق تمہارے پاس سے برآمد ہونے والے مال میں سے ایک قیمتی ہیرا کم ہے۔ جب تک تم وہ ہیرا پیش نہیں کر دیتے تمہیں سلطان کے حضور پیش نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
محافظ خزانہ نے جا کر سلطان کی یہ بات چوروں سے کہی تو وہ چور جو سونگھ کر خزانے کی جگہ معلوم کر لیتا تھا حیرانی سے محافظ کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر اس نے محافظ سے کہا:
’’جناب ہمیں سلطان کے دربار میں لے چلئے۔ ہم وہ ہیر او ہیں، دربار میں ان کے حضور پیش کر دیں گے۔‘‘
محافظ خزانہ نے واپس جا کر یہ بات سُلطان کو بتائی تو اس نے حکم دیا ۔’’اچھا انہیں لے آؤ۔‘‘
محافظ خزانہ واپس چوروں کے پاس گیا اور انہیں سپاہیوں کے پہرے میں سلطان کے دربار میں لے آیا۔ سلطان کے اشارے پر اس کے وزیر نے چوروں سے پوچھا:
’’وہ ہیرا کہاں ہے؟‘‘
اس پر وہ چور جو سونگھ کر خزانے کی جگہ معلوم کر لیتا تھا، آگے بڑھا اور سلطان کو آداب کرنے کے بعد بولا:
’’عالی جاہ، وہ ہیرا اسی دربار میں موجود ہے مگر اس سے پہلے کہ وہ حضور کی خدمت میں پیش کیا جائے میں یہ درخواست کرتا ہوں کہ ہماری اچھی طرح تلاشی لی جائے تا کہ حضور کو اس بات کا اطمینان ہو جائے کہ ہیرا ہم چاروں میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔‘‘
سلطان نے محافظ خزانہ کو اشارہ کیا اور اس نے باری باری تمام چوروں کی تلاشی لے کر اعلان کیا کہ کسی کے پاس ہیرا نہیں ہے۔ اس پر وہی چور آگے بڑھا اور ایک دفعہ پھر سلطان کی خدمت میں آداب بجالا کر کہنے لگا:
’’عالی جاہ! آپ کے اس افسر نے ہماری تلاشی لے کر اطمینان کر لیا ہے کہ ہیرا ہم چاروں میں سے کسی کے پاس موجود نہیں۔ اب میں ہیرا آپ کی خدمت میں پیش کرنے لگا ہوں۔ آپ کے اس افسر کی ایک خفیہ جیب ہے۔ اس خفیہ جیب کے اندر ایک ڈبیا ہے اور وہ ہیرا اس ڈبیا کے اندر موجود ہے۔ اگر غلام کو اجازت ہو تو ہیرا اس ڈبیا سے نکال کر حضور کی خدمت میں پیش کرے۔‘‘
سلطان نے کہا ۔’’اجازت ہے۔‘‘
چور محافظ خزانہ کی طرف بڑھا تو اس کا رنگ فق ہو گیا۔ چور نے اس کی خفیہ جیب سے ڈبیا نکالی اور اسے کھول کر ہیر اسلطان کی خدمت میں پیش کر دیا۔
چور ہیرا پیش کر کے پیچھے ہٹا تو سلطان نے محافظ خزانہ کی طرف نگاہ کی۔ خوف سے اس کا رنگ زرد ہو گیا۔ چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ سلطان نے سپاہیوں کو اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’گرفتار کر لو اسے اور لے جا کر قید خانے میں ڈال دو۔‘‘
سپاہی فورا ًآگے بڑھا اور محافظ خزانہ کو گرفتار کر کے لے گئے۔ تمام اہل دربار حیرت سے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ ‘‘سلطان نے کہا:
’’اس نامراد کے متعلق ہمیں ایک عرصے سے اطلاعات مل رہی تھیں کہ یہ امانت میں خیانت کر رہا ہے مگر اس کی خیانت ظاہر نہیں ہو رہی تھی کیوں کہ یہ اپنا کام بڑی ہوشیاری سے کرتا تھا مگر ہوشیار سے ہوشیار چور بھی ایک دن قابو میں آجاتا ہے۔ اب ہم اسے ایسی عبرت ناک سزا دیں گے کہ آئندہ کسی کو امانت میں خیانت کرنے کی جرات نہ ہو۔‘‘
یہ کہہ کر سلطان نے چوروں کی طرف دیکھا اور ابھی کچھ کہنے نہ پایا تھا کہ چوتھا چور، جس نے سُلطان کو پہچان لیا تھا ،اس نے آگے بڑھ کر عرض کیا:
’’عالی جاہ! ہم چاروں کی خوبیاں تو آپ پر ظاہر ہو گئیں۔ اب آپ کے سر ہلانے کی دیر ہے۔‘‘
چور کی بات سن کر سلطان کو ہنسی آگئی۔ اس نے وہ ہیرا جو ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھا، اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:
’’ لو یہ ہیرا اور وہ تمام مال بھی جو تمہارے پاس سے برآمد ہوا تھا۔ تم سب آزاد ہو اور جہاں جانا چاہو جاسکتے ہو۔ تم پر یہ نوازش اس لیے نہیں کی جا رہی کہ تمہاری وجہ سے ہم ایک بددیانت افسر کو پکڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں، بلکہ ہم دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ امانت میں خیانت بہت بڑا جرم ہے۔ چوری کو معاف کیا جا سکتا ہے مگر امانت میں خیانت چاہے وہ معمولی سی ہی کیوں نہ ہو، معاف نہیں کی جاسکتی۔‘‘
چاروں چور، جو اپنے خیال میں، اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، اشرفیاں اور ہیرے جواہرات سمیت خوش خوش سلطان کو دعائیں دیتے ہوئے، دربار سے رخصت ہوئے۔ سلطان کی اس مہربانی نے ان کے دل پر ایسا اثر کیا کہ آئندہ کے لیے انہوں نے چوری سے توبہ کر لی اور باقی ساری زندگی شریف اور نیک انسانوں کی طرح بسر کی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top