ملاپ
سراج انور
۔۔۔۔۔
ایک اچھا اور ہمدرد دوست خدا کی دی ہوئی ایک نعمت ہے جو زندگی میں بار بار نہیں ملا کرتی۔ میں آج آپ کو ایسے ہی ایک دوست کی کہانی سنا رہا ہوں اور یہ کہانی دراصل میری ہی ہے۔
پندرہ سال کا عرصہ ہوا، میں دلی کے ایک انگریزی اسکول کی ساتویں جماعت میں پڑھ رہا تھا۔ اُن دنوں میرا ایک لنگوٹیا یار تھا، اسلم۔ہم دونوں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ۔ساتھ ہی اسکول جاتے اور ساتھ ہی واپس آتے۔ ہماری دوستی اسکول میں مثال بن گئی تھی۔ جہاں کہیں اچھے دوستوں کا ذکر چھڑا، ہمارا نام پہلے آیا۔ ہر شخص ہماری تعریف کرتا۔ بہت سے لڑکے ایسے تھے جو ہماری اس دوستی سے خواہ مخواہ جلتے تھے، مگر ہم دونوں کو بس اپنے کام سے کام تھا۔ ہم ان کی جلن کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے تھے۔
سستا زمانہ تھا۔ مجھے والد صاحب صرف چار آنے روز جیب خرچ کے لیے دیا کرتے تھے اور میں اُن چار آنوں میں خوب عیش کرتا تھا۔ اب سوچتا ہوں تو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ ان چار آنوں میں اسکول کا پہاڑ سا دن کس طرح کٹ جاتا تھا ۔عموماً ہوتا یہ کہ اسلم اور میں دونوں تفریح کی گھنٹی بجتے ہی اسکول کے کینٹین میں پہنچ جاتے اور چاٹ، دہی بڑے، کچالو اور ایسی ہی مزے دار چیزیں خوب پیٹ بھر کر کھاتے۔ اس کے باوجود بھی ایک دو پیسے ہمارے پاس بچ جاتے۔ غرض اسکول کے دن اسی طرح گزر رہے تھے۔
نہ جانے کیا بات تھی، اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد اب میں ٹھیک ٹھیک نہیں بتلا سکتا، مگر اس دن میں صبح ہی سے بے زار تھا۔ گھر سے اسکول تک کا راستہ میں نے دل پر جبر کر کے طے کیا تھا۔ شاید راستے میں ایک دو آدمیوں سے خواہ مخواہ لڑ بھی پڑا تھا۔ ایک مسکین سے سادھو قسم کے کتے کی دم پر جان بوجھ کر پیررکھ دیا تھا۔
چھوٹے سے گائے نے کے بچھڑے پر یونہی جوش میں آکر چڑھنے کی کوششیں کیں اور نتیجے کے طور پر منہ کے بل زمین پر گرا۔ ان سب باتوں کی وجہ سے موڈ اتنا خراب ہو گیا تھا کہ اسکول میں ہر ایک کو کاٹنے کو دوڑتا۔ تفریح تک جتنے پیریڈ آگئے، ان میں بالکل دلچسپی نہیں لی۔ ماسٹروں کے سوالوں کے عجیب عجیب سے جواب دیے۔ غرض دماغ خراب ہونے کی جتنی بھی نشانیاں ہو سکتی ہیں وہ سب اس وقت مُجھ میں موجود تھیں۔
تفریح کے گھنٹے سے پہلے ہی میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے اور جب تفریح کا گھنٹا بجا تو چوہوں کے ساتھ ساتھ بلیاں بھی دوڑنے لگیں ۔سخت پریشانی کے عالم میں میں نے کینٹین کا رخ کیا۔ اسلم ایسے موقعوں پر ہمیشہ میرے ساتھ رہا کرتا تھا۔ مگر اس وقت اپنے خراب موڈ کی بدولت میں نے اُسے ساتھ لینا گوار نہیں کیا اور اکیلا ہی کینٹین میں پہنچ گیا۔ خدا جانے یہ صبح کی ورزش کا اثر تھا یا اسکول تک راستے کی محنت اور مشقت کی وجہ کہ میں نے پورے چار آنے کی پوریاں منگالیں۔ کھاتا جاتا تھا اور ایک ہی سمت ٹکٹکی لگائے نہ جانے کیا سوچتا جاتا تھا۔ یکا یک میرے آگے سے دو پوریاں ہوا میں اڑ گئیں۔ جلدی سے پلٹ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ پوریاں اس وقت اسلم کے گالوں میں ٹھنسی ہوئی تھیں۔
اب ذرا آپ خود سوچیے، ایک تو صبح ہی سے میں بھڑوں کا چھتا بنا ہوا تھا اور اوپر سے اسلم صاحب کی بدمذاقی۔ بس خون ہی تو کھول گیا۔ شاید میں خاموش ہی رہتا مگر اسلم نے مجھے جلا جلا کر پوریاں کھانی شروع کر دیں۔ اس پربس نہ کر کے اُس نے مجھے منہ بھی چڑایا اور انگوٹھے بھی دکھائے۔ دل میں غصہ تو پہلے ہی بھرا ہوا تھا، اس لیے انگریزی کا مک سپرمین کے ہیرو کی طرح چھلانگ لگا کر میںنے اسلم کو دبوچ لیا اور روئی دُھننے کی جتنی بھی مشق ہو سکتی تھی ،وہ کی۔ وہ غریب’’ارے، ارے! ‘‘کہتا رہ گیا مگر میں نے اُس کی خوب خبر لی۔ پہلے تو تھپڑ گالوں پر مارے تا کہ پھولے ہوئے گال دب جائیں۔ پھر کمر پر ڈھول بجایا اور آخر میں دھوبی کے کپڑوں کی طرح اسے سر سے اٹھا کر زمین پرپٹخ دیا۔
اس آخری حرکت سے اسلم بھی جھلا گیا۔ خون اس کے جسم میں بھی تھا۔ وہ بھی یہ بھول گیا کہ میں اس کا عزیز دوست ہوں۔ اُس وقت وہ کینٹین ہم دونوں کے لیے لڑائی کا میدان بن گیا۔ کبھی میں اُس پر جھپٹتا اور کبھی وہ مجھ پر۔ اتفاق ہے اُس کے حملے سخت ہونے لگے اور میں ان حملوں سے پیچھے ہٹنے لگا۔ ہارے ہوئے دوشمن کی طرح میں نے ایک آخری اور زور دار حملہ کیا اور یہ حملہ ہاتھ میں تلوار یعنی کھلا ہوا قلم لے کر کیا۔ اسلم کا خیال ہوگا کہ میں شاید اسے ڈرا رہا ہوں۔اس لیے حملے کی پروا نہ کرتے ہوئے وُہ مُجھ پر جھپٹا ۔خود کو بچانے کی کوشش کون احمق نہ کرے گا؟ جیسے ہی اُس نے اپنا مکا میری طرف بڑھا یا، میں نے جلدی سے قلم آگے کردیا۔
اچانک ہی جنگ کا رخ پلٹ گیا۔ پہلے تو میں سمجھا ہی نہیں کہ یہ کیا ہوا لیکن جب لڑکوں نے شور مچایا اور اسلم بھی۔’’ ہائے مر گیا!‘‘ کا نعرہ لگا کر زمین پر بیٹھ گیا تو مجھے احساس ہوا کہ جو کچھ بھی ہوا وہ بہت برا ہوا۔ قلم کی نکیلی نب اسلم کی کلائی میں آدھی سے زیادہ گھس گئی تھی اور خون کے قطرے لگاتار زمین پر گر رہے تھے۔ خون دیکھ کر میرا دل پسیجا تو ضرور لیکن جب اسلم کی زیادتی کا خیال آیا تو یہ ہلکی سی ہمدردی ناراضی کے بہاؤ میں بہہ گئی۔ میں اپنے ہاتھ جھاڑتا ،منہ ہی منہ میں بڑ بڑا تا آگے بڑھ گیا۔ اسلم اسی طرح اپنی کلائی کو پکڑے بیٹھا رہا۔ چلتے چلتے میں نے لڑکوں کی کانا پھوسی سنی۔
’’اس احمق کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔‘‘
’’یار !یہ سراج پہلے تو ایسا نہیں تھا ۔‘‘
’’میاں زیادہ دوستی بھی بری۔ ہم تو پہلے ہی جانتے تھے کہ ایک دن یہی ہوگا ۔‘‘
’’خیر صاحب! زیادتی سراج کی ہے۔ ‘‘وغیرہ وغیرہ ۔
میں نے یہ باتیں سنیں مگر اس کان سے سُن کر اس کان سے نکال دیں۔ کلاس روم میں آکر جلدی سے اپنے ڈیسک سے کتابیں نکالیں اور اسکول کے دروازے سے نکل کر گھر کی راہ لی۔ غصے کے مارے میرا خون کھول رہا تھا۔ وہ تو خدا نے کچھ کرم کیا کہ راستے میں بیل، کتایا کوئی خوانچے والا نہیں ملا، ورنہ یہ غصہ ان پر ضرور اترتا۔ دل ہی دل میں جلتا ہوا نہ جانے میں کب گھر تک آگیا۔ معلوم بھی نہ ہوا کہ یہ طویل راستہ کس طرح کٹا۔ گھر پہنچ کر اپنے کمرے میں گھس کر میں نے چٹخنی بند کر لی اور خاموش بیٹھ کر نہ جانے کیا کیا سوچنے لگا۔
دوسرے دن اسکول گیا تو اسلم کی کلائی پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ ہم دونوں کا رول نمبر برابر برابر تھا۔ اس لیے وہ دُعا میں میرے ساتھ ہی کھڑا ہوتا تھا اور ہم دونوں بیٹھتے بھی ایک ہی ڈیسک پر تھے۔ میں نے سوچ رکھا تھا کہ اب اسلم سے بات نہ کروں گا۔ لیکن یہ دیکھ کر دل جل گیا کہ اسلم خود بھی مجھ سے بات نہیں کر رہا ہے۔ بیوقوف کہیں کا! ایک تو اپنی زیادتی اور پھر خود ہی روٹھ گیا! لیکن میرا کیا ہے؟ کیا میں اس کے بغیر مر جاؤں گا یا اگر وہ مجھ سے بات نہ کرے گا تو میرا کھانا ہضم نہ ہوگا! ہم دونوں اجنبیوں کی طرح کھڑے رہے۔ کلاس میں بھی خاموش بیٹھے رہے اور ایک دوسرے سے ذراسی بھی بات نہ کی۔ لڑکے ہم دونوں کو دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ مگر مجھے غصہ اتنا تھا کہ لڑکوں سے الجھنا مناسب نہ سمجھا کیونکہ ہو سکتا تھا کہ اُن کا بھی وہی حشر ہوتا جو اسلم کا ہوا تھا اور دوسرے دن اُن کے ہاتھوں پر بھی پٹیاں بندھی ہوئی نظر آتیں۔ بیٹھنے کو تو میں اسلم کے ساتھ بیٹھا رہا، لیکن ایمان کی بات ہے اُس کے قریب بیٹھے رہنے سے مجھے وحشت بہت ہوتی رہی۔ آخر کار میں نے بھی تہیہ کرلیا کہ چھوڑ و ،اگر یہ خود نہیں بولتا تو پھر میری جوتی کوکیا غرض کہ اس سے بولے!
آپ کو یہ سوچ کر حیرت ہوگی کہ ہم دونوں اسی طرح منہ میں گھنگھنیاں ڈالے ایک ہفتہ تک بیٹھے رہے۔ اسلم کی دیکھا دیکھی دوسرے لڑکوں نے بھی مجھ سے بولنا چھوڑدیا۔ اب تو سچی بات ہے میں بہت گھبرایا۔ اکیلا آدمی نہ روتا ہوا اچھا نہ ہنستا ہوا۔ مجھے شدت سے اپنے اکیلے پن کا احساس ہونے لگا۔ جی چاہنے لگا کہ میں اسلم سے بولوں لیکن آخر خود داری بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ دل پر جبر کئے بیٹھا رہا مگر اس سے بات نہیں کی۔ اس تنہائی کے احساس نے مجھے ایک حد تک چڑ چڑا بنا دیا۔ بات بات میں، میں دوسروں سے اُلجھ جاتا اور ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ۔
ایک دن کی بات ہے کہ تفریح کے وقت میں کشمیری دروازے کے قریب بنے ہوئے رین بو ریستوران میں چلا گیا ۔(جب سے اسلم سے لڑائی ہوئی تھی، میں نے سکول کے کینٹین میں کھانا پینا بند کر دیا تھا )خیال تھا کہ یہاں رس گلے کھا کر واپس چلا جاؤں گا۔ لیکن جیسے میں نے اندر قدم رکھا، یہ دیکھ کر بے حد حیرت ہوئی کہ اسلم بھی ایک میز پر بیٹھا ہوا ہے۔ میرے لیے یہ بڑا کٹھن وقت تھا۔ واپس جاتا تھا تو خواہ مخواہ اسلم کے سامنے نگاہیں نیچی ہو تیں اور آگے بڑھتا تو عجیب سی جھینپ سوار ہوتی۔ بڑی کش مکش کی حالت میں کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ پھر یکایک خیال آیا کہ اس طرح تو میں بز دل سمجھا جاؤں گا۔ کیوں نہ ہمت کر کے اسلم کے برابر والی میز پر بیٹھ جاؤں! ہمت کا خیال آتے ہی ہمت بھی پیدا ہو گئی اور میں اسلم کے برابر والی میز پر جا کر بیٹھ گیا۔ اسلم بار بار کنکھیوں سے مجھے دیکھ رہا تھا اور شاید مسکرا بھی رہا تھا۔ مجھے اس کی یہ مسکراہٹ زہر لگ رہی تھی۔ بیرا آیا تو میں نے اس کو کچھ چیزوں کا آرڈر دیا اور پھر خاموش بیٹھ کر سوچنے لگا۔ خیال آیا کہ دیکھو، ہم کتنے اچھے دوست تھے اور اب بالکل اجنبیوں کی طرح بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہمارے والدین بھی ہم دونوں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتے ہیں۔ انھیں اگر علم ہوگا تو بھلاوہ کیا سوچیں گے۔ ایسی ہی ہزاروں باتیں سوچتے سوچتے دماغ پریشان ہو گیا۔ چونکا تو اس وقت جبکہ بیرے نے بل سامنے لاکر رکھا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ مگر حقیقت یہ تھی کہ بل پورے ایک روپے کا تھا اور میری جیب میں صرف چار آنے تھے۔ بیرے کو بلا کر پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ صاحب آپ خود ہی تو آرڈر دیتے رہے تھے جو آپ نے منگا یا وہ میں نے لا کر دے دیا۔
اُس وقت کی پریشانی کا حال مت پوچھیے ۔جیب میں صرف چار آنے ۔بل ایک روپے کا اور میرا نیا نیا دشمن سامنے بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کروں ۔میں بیٹھا سوچ ہی رہا تھا کہ یکا یک اسلم مسکراتا ہوا اپنی جگہ سے اُٹھا اور کاؤنٹر پر اپنا بل ادا کر کے ریستوران کے باہر چلا گیا۔ مجھے بہت افسوس ہوا کہ اس مشکل کے وقت وہ خاموشی سے باہر چلا گیا۔ اس کے انداز سے ظاہر ہوتا تھا جیسے اُسے اب میری پروا نہیں ہے۔ دو تین منٹ کے بعد بیرا میرے پاس آیا۔ میں نے اُس سے ڈرتے ڈرتے کہا:
’’دیکھو!…میرے پاس بل ادا کرنے کے لیے پورے پیسے نہیں ہیں۔ ‘‘
’’بل …؟‘‘بیرے نے حیرت سے کہا ۔’’مگر صاحب! آپ کا بل تو ادا ہو گیا ۔‘‘
’’کب…؟‘‘
’’ابھی ابھی آپ کے دوست دے گئے ہیں۔‘‘
یہ سنتے ہی مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے پورے ریستو را ن میں زلزلہ آ گیا ہو۔ شرمندگی کے باعث میرا ماتھا پسینے میں ڈوب گیا۔ دل اندرسی اندر بیٹھنے لگا ۔بغیر کچھ کہے سنے میں تیزی سے اسکول کی طرف بھاگنے لگا۔ اسلم مجھ سے آگے آگے جا رہا تھا۔ میں اُس کے قریب پہنچ کر اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ کچھ دیر تک تو میں سوچتا رہا کہ کیا بولوں۔ آخر میں نے آہستہ سے کہا:
’’اسلم…!‘‘
’’ہوں…!‘‘
’’اسلم !میں بہت برا ہوں۔ مجھے معاف کر دو۔ نہ جانے اُس دن مجھے کیا ہو گیا تھا؟ ‘‘
اسلم اب بھی خاموشی سے مُسکراتا رہا۔
’’ مجھے معاف کر دو۔ اسلم! تم تو بہت اچھے دوست ہو۔ اچھے دوست تو دوسروں کو معاف کر دیتے ہیں۔‘‘
’’ بکواس مت کرو۔ ورنہ تھپڑ مار دوں گا۔‘‘ اسلم نے غصے سے کہا۔
’’اگر تمہارا غصہ اسی طرح ٹھنڈا ہو سکتا ہے تو لو مارو میرے تھپڑ…‘‘میں نے اپنا گال آگے کر دیا۔
اسلم تھوڑی دیر تک مجھے غصے سے گھورتا رہا اور پھر اچانک اُس کی آنکھوں میں محبت کی چمک پیدا ہوئی۔ اس نے میرے گال پر آہستہ سے تھپڑ مار کر پھر یہی ہاتھ میرے گلے میں ڈال دیا۔