روگا
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
سہیل بھیا، یہ اپنے روگا کو اپنے پاس ہی رکھا کریں۔“ننھی شبانہ نے چیخ کر کہا۔”دیکھیے تو اس نے میری اتنی پیاری گڑیا توڑ دی۔“
”او ہو، ننھی بہن میں تمہیں دوسری گڑیا لا دوں گا۔ میرے روگا کو کچھ نہ کہنا۔“ سہیل نے روگا کو پکڑ کر اس کا سوئچ بند کرتے ہوئے کہا۔
”رو گا کہاں ہے، یہ تو روگی ہے روگی!“ باجی ہنس کر بولیں۔
”اوہ باجی…… آپ دیکھتی جائیے، ایک دن، یہ سچ مچ کا روگا بنے گا، ابھی یہ بچہ ہے نا۔“
”اوہو ……تو کیا تمہار ی طرح بڑا بھی ہو گا؟“باجی مسکرائیں۔
”جی ہاں …… میں اسے کھول کر اس میں بہت سارے پرزوں اور سرکٹ کا اضافہ کر دوں گا، پھر یہ بڑا ہو جائے گا۔“ سہیل نے روگا کو پیار سے اپنے ساتھ لگا لیا۔
”روگا“ دراصل ایک روبوٹ تھا جسے سہیل نے کئی ماہ کی محنت کے بعد تیار کیا تھا۔ اسے رو گا کانام سہیل ہی نے دیا تھا۔ یہ نام دراصل دو الفاظ کومختصر کر کے بنایا گیا تھا۔ یعنی، روبوٹ کا ’رو‘ اورگارڈ (محافظ) کا ’گا‘……”رو گا!“ سہیل کا خیال تھا کہ یہ روبوٹ گھر کا اچھا محافظ بن سکتا ہے، لیکن فی الحال یہ روبوٹ محض ایک کھلونا تھا جو بٹن دبانے پر لڑ کھراتا ہوا چلنے لگتا تھا اور نازک چیزوں کو روند تاہوا گزر جاتا تھا۔ اسی لئے روگا سے سب لوگ عاجزتھے، البتہ سہیل کے اسکول کے ساتھی روگا کو دیکھنے کے لئے اکثر آیا کرتے تھے۔
کئی ماہ گزر گئے، ایک دن سہیل نے ڈرائنگ روم میں آکر فخریہ لہجے میں اعلان کیا:
”آیئے حضرات، رو گا کا نیا روپ ملاحظہ فرمائیے۔ آپ کی خاطر اس تعارفی شو پر کوئی ٹکٹ نہیں لگایا گیا ہے۔“
گھر کے بچے دوڑ کر ڈرائنگ روم میں جمع ہو گئے۔ سہیل نے سب کو حکم دیا کہ امی، ابو، باجی، بھائی جان، پھوپھی جان، اور نانی جان کو بلا لائیں۔ نادر، رخسانہ، شبانہ اور طفیل، دوڑے دوڑے گئے اور گھر کے بڑوں کو کھینچ لائے۔
جب سب لوگ جمع ہو گئے تو سہیل صاحب نے ایک بڑا سا ڈبہ کھولا۔
”دیکھئے خواتین و حضرات اور بچو……!رو گا اب بڑا ہو گیا ہے، اب یہ میری آواز سن کر پہچاننے لگا ہے، میں اسے حکم دوں گا، یہ میرا حکم مانے گا……روگا!“ سہیل نے آواز دی۔
رو گا ذرا سا ہلا اور اس میں سے آواز آئی۔”جناب!“
”روگا……! جاؤ دروازہ بند کر دو۔“ سہیل نے حکم دیا۔
”بہتر جناب۔“ روگا نے مشینی لہجے میں جواب دیا اور دروازے کی طرف چل دیا۔ راستے میں بیٹھے لوگ ہٹ گئے۔ رو گانے دروازہ بند کیااور وہیں کھڑا ہو گیا۔
”کمال کر دیا تم نے سہیل۔“ ابو نے تعریفی لہجے میں کہا۔”یہ سب کیسے کیا تم نے؟“
”ابو میں نے اس میں بڑی محنت سے کمپیوٹر کا ایک پروگرام تیار کر کے لگا دیا ہے۔ اب یہ میری آواز سن کر چند مخصوص کام کر سکتا ہے۔“
سہیل کا اب زیادہ تر وقت رو گا کے ساتھ گزرتا تھا۔ آہستہ آہستہ اس نے روگا میں کئی تبدیلیاں کر دیں۔ اب رو گا کئی باتیں سمجھنے لگا تھا۔ سہیل نے اس میں کئی ہدایات فیڈ کر دی تھیں۔ روگا، مقررہ وقت پر بجلی کے بلب روشن کر دیتا تھا اور مقررہ وقت پر انہیں بجھا دیتا تھا۔ وہ اپنے مشینی ہاتھوں سے گلاس اٹھا کر لے آتا تھا لیکن خاص بات یہ تھی کہ وہ رات بھر ”جاگتا“رہتا تھا اور ٹہلتے ہوئے گھر کی چوکیداری کرتا رہتا تھا۔
ایک رات سب لوگ گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔ اچانک تین چار فائروں کی آواز سے فضا گونج اٹھی۔ پھر کتے بھونکنے لگے، اس کے بعد ایک گاڑی کا انجن غرایا اور پھر گاڑی کے تیزی سے چلے جانے کی آواز آئی۔ کتے کچھ دیر بھونکتے رہے پھر خاموشی چھا گئی لیکن فائروں کی آواز سن کر بہت سے لوگ گھبرا کر اٹھ گئے۔ سہیل کی بھی آنکھ کھل گئی۔ اس نے آواز دی۔”روگا!“
عام طور پر سہیل کی آواز سن کر رو گا فوراً چلا آتا تھا لیکن رو گا کی جوابی آواز نہیں آئی۔ سہیل نے دو تین بار روگا کو پکاراپھر وہ پریشان ہو کر کمرے سے باہر نکل آیا۔ ”رو گا کہاں ہے؟“ سہیل نے پوچھا۔
”اونہہ…… باہر فائرنگ ہو رہی ہے اور تمہیں روگا کی پڑی ہے۔“ امی نے جھنجلا کر کہا۔
”اسی لئے تو پوچھ رہا ہوں۔رو گا کہاں ہے؟“
”ہو گا کسی کونے میں، تم جاؤ سو جاؤ۔“
سہیل بستر پر آکر لیٹ تو گیا مگر اسے بڑی دیرتک نیند نہ آئی۔اگلے دن اسکول کی چھٹی تھی۔ صبح صبح سہیل کی آنکھ کھل گئی۔ سورج طلوع ہونے میں پندرہ منٹ باقی تھے۔ سہیل نے جلدی سے اٹھ کر وضو کیا اورنماز ادا کی۔ نماز کے بعد اس نے بڑے خلوص سے دعا مانگی۔”یا اللہ میاں رو گامل جائے۔“
دعا مانگنے کے بعد اس نے گھر کا کونا کونا چھان مارا مگر رو گا پتا نہیں کہاں چھپ گیا تھا۔ وہ پریشان ہو کر گھر سے باہر نکل آیا۔گلی میں اسے ریحان ملا۔
”کچھ سنا تم نے؟“ ریحان نے اسے دیکھتے ہی کہا۔ ”رات کو فائرنگ ہوئی تھی۔“
”ہاں ہوئی تھی۔ پتا ہے مگر ہوا کیا تھا؟“
”معلوم نہیں کیا ہوا تھا۔ لوگ بتارہے ہیں، وہ پیچھے والی پرانی سی عمارت ہے نا، پیلی سی۔ اس کے پاس فائرنگ ہوئی تھی۔“
”وہ عمارت؟ وہ تو کئی سال سے خالی پڑی ہے۔“
”چلو چل کر دیکھیں۔ دور سے دیکھ کر آجائیں گے۔“ ریحان نے اسے گھسیٹتے ہوئے کہا۔
سہیل، ریحان کے ساتھ پچھلی سڑک پر پہنچ گیا۔ دور سے انہیں عمارت نظر آرہی تھی۔ یہ دو منزلہ عمارت کئی سال سے ویران تھی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ کسی شخص کی ملکیت تھی۔ اس کا انتقال ہو گیا تو اس کے وارثوں میں اس عمارت کے لئے جھگڑا ہو گیا تھا اور مقدمہ عدالت میں چل رہا تھا۔ عمارت کے ارد گرد گھنی جھاڑیاں اگ آئی تھیں۔ اچانک سہیل دوڑ پڑا۔
ریحان۔”ارے سنو تو……!ارے وہاں نہ جاؤ……!“کہتا رہ گیا مگر سہیل، جھاڑیوں کے پاس پہنچ کر ہی رکا۔ دراصل اسے جھا ڑیوں کے پاس اپنا رو گا کھڑا نظر آگیا تھا۔
”روگا، رو گا۔“ سہیل نے آواز دی۔
”جناب۔“ رو گا کی مشینی آواز سنائی دی۔
”ادھر آؤ۔“
روگا آواز کی سمت چل پڑا۔ سہیل نے جوش میں، روگا کو گود میں اٹھالیا۔ اسے خوب پیار کیا اور گود میں اٹھائے اٹھائے گھر لے آیا۔ ”روگا آگیا۔ روگا آگیا!“ گھر کے بچوں نے شور مچایا۔
”سہیل!“ امی کی غصہ میں بھری آواز آئی۔”صبح صبح اس روگی کے پیچھے چل دیا۔ نہ منہ دھونے کی فکر نہ ناشتے کا خیال۔ چھوڑ اسے۔“
”امی، میں نے صبح وضو کرکے نماز پڑھی ہے۔ اور رہا ناشتہ تو میں ابھی کرتا ہوں۔“
سہیل نے روگا کا ایک بٹن دبا کر اسے ایک کونے میں کھڑا کیا اور دانت صاف کرنے کے لئے ہاتھ روم میں گھس گیا۔ ویسے وہ سوچ رہا تھا کہ رو گا گھر سے باہر نکلا کیسے؟
ناشتے کے بعد سہیل نے روگا کا معائنہ کیا۔ اس کا خیال تھا کہ روگا کے سرکٹ کچھ خراب ہو گئے ہیں، اسی لئے وہ اپنی ڈیوٹی بھول کر گھر سے باہر چلا گیا تھا۔ اچانک سہیل کی نظر، روگا کی پشت پر بنی چھوٹی سی اسکرین پر پڑی اور حیرانی سے اس کے ہونٹ سکڑ گئے۔
”اوہ۔“
اس نے جلدی سے رو گا کی پشت پر لگا ایک بٹن دبایا۔ ایک خانہ کھل گیا اور اس میں سے ایک فلم رول باہر آگیا۔ سہیل نے الماری سے دوسرا فلم رول نکالا اور خانے میں رکھ دیا۔ خانہ خود بخود بندہو گیا۔ سہیل نے پہلا فلم رول ایک اور مشین میں ڈال دیا۔ ذرا سی دیر میں اس مشین کی ایک جانب سے کچھ تصویر یں نکلنے لگیں۔ تصویریں دیکھتے ہی حیرت سے سہیل کی آنکھیں پھیل گئیں۔
”ارے، روگا۔“ وہ بڑ بڑا یا۔”یہ تم نے کس کی تصویر یں کھینچ ڈالی ہیں؟“
پہلی تصویر میں ایک آدمی ایک باکس اٹھارہا تھا، دوسری تصویر میں وہ کسی پرپستول سے فائر کر رہاتھا۔ تیسری تصویر میں اس کاصرف چہرہ نظر آ رہا تھا۔ چوتھی تصویر میں ایک کار نظر آرہی تھی، کار کی نمبر پلیٹ بھی صاف پڑھی جا رہی تھی۔ پانچویں تصویر میں دو تین کتے بھونکتے
ہوئے نظر آرہے تھے۔
سہیل نے جلدی، ساری تصاویر سمیٹیں اور اپنے ابو کے پاس لے گیا جو اطمینان سے اخبار پڑھ رہے تھے۔ تصاویر دیکھ کر ابو سناٹے میں رہ گئے۔
”ضرور یہ رات کی واردات سے تعلق رکھتی ہیں۔“
”جی ہاں ابو۔ مجھے روگا، پچھلی سڑک پر ویران عمارت کے قریب کھڑا ملا ہے۔ رات کو بچوں نے دروازہ کھلا چھوڑ دیا ہو گا، رو گا باہر نکل گیا ہو گا، پھر ہم لوگ تو دروازہ بند کر کے سو گئے تھے اور روگا، اس عمارت کے پاس جا کر ٹہل رہا ہو گا۔ پہلی تصویر میں اس آدمی نے باکس زمین پر زور سے پٹخاہو گا۔ اس آواز سے رو گا چوکنا ہو گیا ہو گا۔ میں نے اس میں جو پروگرام فیڈ کیا ہے، اس کے مطابق رات میں اگر اسے کوئی تیز آواز آئے، یا شیشہ ٹوٹنے کی صدا آئے یا درجہ حرارت میں اچانک تبدیلی ہو یعنی کوئی آگ لگانے کی کوشش کرے تو یہ موقع کی تصاویر کھینچ لے گا۔ میرا خیال ہے کہ روگا نے فائر ہونے پر اس آدمی کی تصویریں کھینچ لی ہیں، پھر گاڑی کی آواز آنے پر کار کی تصویر لے لی اور پھر کتوں کے بھونکنے پر کتوں کی تصویریں کھینچ لی ہیں۔ ابو پولیس کو اطلاع دینی چاہیے۔“
”ٹھہرو، آئی جی کامران میرے ایک دوست کے دوست ہیں، میں انہیں فون کرتا ہوں۔“ ابو نے ڈائریکٹری میں آئی جی کامران کا نمبر دیکھ کر فون ملایا۔ خوش قسمتی سے وہ گھر پر مل گئے۔ ابو نے اپنا اور اپنے اس دوست کا تعارف کروایا جس کے آئی جی کامران دوست تھے۔ ابو نے ان سے کہا۔ ”آپ میرا پتا سمجھ لیں اور سادہ لباس میں آجائیں بہت خاص بات ہے۔“
پھر انہوں نے آئی جی کامران کو پتا سمجھایا۔ پندرہ منٹ بعد آئی جی کامران اور ان کے دو ساتھی سادہ لباس میں پہنچ گئے۔ آئی جی کامران، تصاویر دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑے۔ انہوں نے سہیل کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے جوش سے کہا۔”بیٹاتمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے روبوٹ نے کتنا بڑاکارنامہ انجام دیا ہے۔ یہ عمارت ایک عرصے سے ویران تھی۔ اس کی ملکیت کے لئے تین افراد کے درمیان مقدمہ بازی ہو رہی ہے۔ یہ شخص جوتصویر میں فائز کرتا نظر آرہا ہے، دشمن کا جاسوس ہے۔ یہ ہمیں کئی وارداتوں میں مطلوب ہے۔اب ہم اس کا سراغ لگالیں گے۔ دیکھو تو کار کانمبر بھی پڑھا جارہا ہے۔ اٹھو ایس پی نیاز۔“انہوں نے اپنے ساتھی سے کہا۔”اور ہمیں دیر نہیں کرنی چاہئے۔“
”ارے چائے تو……“ سہیل کے ابو نے جلدی سے کہا۔
”پھر کبھی فضل صاحب۔ اس وقت ہم جلدی میں ہیں۔ آپ لوگ ذرا اس معاملے کو راز ہی رکھئے گا۔ اچھا خدا حافظ۔ بیٹے خدا حافظ۔“
اگلے دن شام کو سہیل کے گھر میں فون کی گھنٹی بجی۔ آئی جی کامران کا فون تھا۔ انہوں نے سہیل اور اس کے ابو کو ہیڈ کوارٹر بلایا تھا۔ سہیل اپنے ابو کے ساتھ پولیس ہیڈ کوارٹر پہنچا۔ آئی جی کامران کے کمرے میں دو بڑے افسران بھی بیٹھے تھے۔
”سر یہ ہے وہ بچہ جس نے بہت لاجواب روبوٹ تیار کیا ہے۔ اس روبوٹ کی وجہ سے ہم دشمن ملک کے جاسوسوں کے پورے گروہ کو پکڑنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اگر یہ گروہ نہ پکڑا جاتا تو ملک میں بڑی تخریب کاری ہوتی۔“ آئی جی صاحب نے بڑے افسران سے سہیل کا تعارف کروایا۔
”وہ کار بھی پکڑی گئی ہے جس کی تصویر تمہارے روبوٹ نے کھینچی تھی اور بہت سا اسلحہ بھی بر آمد ہوا ہے۔“ آئی جی صاحب نے بتایا۔ پھر وہ بولے:
”حکومت نے اس عظیم کارنامے پر تمہارے روبوٹ کو، ہمارا مطلب ہے کہ تمہیں پچاس ہزارروپے انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔ تم جیسے بچوں پر مجھے ہی نہیں، پوری قوم کو فخر ہے۔“ آئی جی کامران کی آواز خوشی سے بھرا گئی تھی۔