skip to Main Content

افضلا

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔

”کچھ سنا آپ نے؟“
جمیل صاحب نے اس آواز پر مڑ کر دیکھا۔ شیخ صاحب اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی نچاتے ہوئے اپنی کراری آواز میں کہہ رہے تھے۔”محلے سے گٹر کے ڈھکن پھر غائب ہو گئے!“ ان کا چہرہ غصے کے مارے سُرخ ہو رہا تھا اور وہ اپنے ایک ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی کو بار بار اپنے دوسرے ہاتھ پر بجارہے تھے۔
”جی ہاں مجھے معلوم ہے۔“ جمیل صاحب نے آہستہ سے کہا۔
”یہ سب……یہ سب اس اوّل نمبر کے غنڈے افضلے کا کیا دھرا ہے۔ میں خوب جانتا ہوں، اس کے اشارے پر محلے میں چوریاں ہوتی ہیں، دکان داروں سے بھتہ لیا جاتا ہے اور اب یہ گٹر کے ڈھکن تیسری مرتبہ غائب ہو گئے ہیں۔“ شیخ صاحب سانس لینے کورکے اور پھر شروع ہو گئے۔”ارے میں کہتا ہوں، ہم بچوں والے لوگ ہیں، بچے گلیوں میں کھیلتے ہیں، اللہ نہ کرے کوئی بے دھیانی میں کسی کھلے ہوئے مین ہول میں جاپڑے، اس کا ہاتھ پیر ٹوٹ جائے تو کیا افضلا اس کا علاج کرائے گا، ارے بچے تو بچے بڑے بھی بعض اوقات چلتے ہوئے خیال نہیں کرتے۔ ڈپٹی صاحب کا لڑکا پندرہ دن سے بھاگ دوڑ میں لگا ہوا تھا۔ بے چارے نے سرکاری محکموں کے کتنے چکر کاٹے جب کہیں جا کر بلدیہ والے یہ گٹرکے ڈھکن لگا گئے۔ ابھی کل ہی تو لگے تھے یہ ڈھکن اور راتوں رات غائب۔ اور پتا ہے؟ بلدیہ والے کہہ گئے تھے کہ اگر اب یہ ڈھکن غائب ہوئے تو پھر نہیں لگنے کے ڈھکن۔ حد ہوگئی۔“
شیخ صاحب پھر سانس لینے کو رکے تو جمیل صاحب نے اس موقع پر کہا۔”پھر میں اس سلسلے میں کیا کر سکتا ہوں شیخ صاحب؟“
”جی کرنا کیا ہے، میں تو کہتا ہوں، سب محلے والے مل کر پولیس میں رپٹ لکھوا دو مگر کوئی آگے آتا ہی نہیں۔“
لیکن کیا پولیس جانتی نہیں کہ یہاں افضلا اور اس کے ساتھی کیا کر رہے ہیں؟“
”جانتی کیوں نہیں …… اچھا یوں کرو، مقدمہ کر دو اس بدمعاش پر، عدالت خود ہی نمٹ لے گی۔“
”ارے نہیں شیخ صاحب، آپ کس چکر میں پڑرہے ہیں؟“
”بس تو پھر بھگتو…… کل کلاں کو آپ کا بچہ اللہ نہ کرے کسی کھلے ہوئے مین ہول میں گر گیا تو کرتے رہیے گا ماتم… ہمارا کیا۔ یہاں تو کوئی بھلی بات سننے کو تیار ہی نہیں۔“ شیخ صاحب بڑ بڑاتے ہوئے آگے چل دیے۔
افضلے کا اصل نام شاید افضل دین یا افضل محمد تھا جواب بگڑ کر افضلا بن گیا تھا۔ اس کی یوں تو بازار میں دودھ دہی کی اچھی خاصی بڑی دکان تھی، لیکن معلوم نہیں اس کو بدمعاشی کرنے میں کیا لطف آتا تھا یا اسے دولت کی کتنی حرص تھی کہ اس نے دس بارہ غنڈے پال رکھتے تھے جو اس کے اشاروں پر چلتے تھے۔ افضلے کی دھاک اس محلے ہی میں نہیں بلکہ دور دراز کے علاقوں تک میں بیٹھی ہوئی تھی۔ محلے والے اس سے بری طرح پریشان تھے لیکن افضلے کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ افضلا جو مضبوط جسم والا، اونچے قد کا پہلوان نما شخص تھا اور جو اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اکثر ادھر ادھر گھومتا نظر آتا تھا۔ اس کے چہرے پر بڑی بڑی مونچھیں تھیں جنھیں وہ بار بار تاؤ د یتار ہتا تھا۔
اس رات لوگ گھروں میں بیٹھے ٹیلی وژن پر ڈرامہ دیکھ رہے تھے کہ اچانک لائٹ چلی گئی۔ لوگ اندھیرے اور گرمی سے گھبرا کر چھتوں پر یا گلیوں میں آ نکلے۔ شیخ صاحب بھی اپنے گھر کے باہر کرسی ڈالے بیٹھے اپنے داماد اور بہنوئی سے باتیں کر رہے تھے۔ چاروں طرف بلیک آؤٹ کا سا سماں تھا۔ وہ چاندنی رات بھی نہ تھی۔ شیخ صاحب کا مکان سڑک پر ہی تھا، کبھی کبھار کوئی گاڑی گزرتی تو اس کی بتیوں سے چند لمحوں کے لیے سڑک پر روشنی کے لہریے سے بن جاتے۔
اچانک ایک طرف سے ایک موٹر سائیکل نمودار ہوئی، موٹر سائیکل چلانے والا شاید بڑی جلدی میں تھا، جب ہی تو وہ موٹر سائیکل کو طوفانی رفتار سے دوڑارہا تھا۔ اس وقت شیخ صاحب اور اُن کے ساتھ بیٹھے لوگ اپنی جگہ سے اچھل پڑے کیوں کہ ان کے سامنے ابھی ابھی تیزی سے گزرنے والی موٹر سائیکل کسی چیز سے ٹکرا کر ہوا میں اُچھلی تھی اور دھماکے کے ساتھ زمین پر گر کر دور تک گھسٹتی چلی گئی تھی۔
شیخ صاحب اپنے داماد اور بہنوئی کے ساتھ موٹر سائیکل کی طرف بھاگے۔ گری ہوئی موٹر سائیکل کا انجن تھر تھرا کر خاموش ہو چکا تھا۔ اندھیرے میں انھیں موٹر سائیکل کی جگہ ایک ڈھیر سا نظر آرہا تھا۔ کسی نے ماچس جلائی۔ اس کی ہلکی سی روشنی میں موٹر سائیکل سوار ایک طرف پڑا ہوا نظر آیا۔ اس کے منہ سے خون بہہ رہا تھا اور ایک ٹانگ بھی سرخ ہو رہی تھی۔
”ہائے ہائے مر جائے گابے چارہ، بھئی کوئی گاڑی مل جائے، ارے کسی اسپتال کو فون کر و۔“ شیخ صاحب گھبرا کر بولے۔
محلے کے اور بہت سے لوگ جمع ہو گئے تھے۔ ایک شخص کے ہاتھ میں ٹارچ تھی، اس نے ٹارچ روشن کی، کئی آدمی زخمی پر جھک گئے۔
”ارے!“ ایک ساتھ کئی افراد کے منہ سے نکلا۔”یہ تو افضلا ہے……افضلا……“
”ا فضلے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔“بچے شور مچانے لگے اور سارے لوگ افضلے کو اچانک اس طرح چھوڑ کر دس قدم پیچھے ہٹ گئے جیسے وہ کوئی ناپاک چیز ہو۔
”اس کی موٹر سائیکل کھلے ہوئے مین ہول سے ٹکرا کر ہوا میں اُچھلی ہے۔“ شیخ صاحب اس جگہ کا جائزہ لیتے ہوئے بولے۔
”دیکھ لیا، گٹر کے ڈھکن اٹھوانے کا انجام!“کوئی اور بزرگ بولے۔
”مرنے دو کم بخت کو، جینا حرام کر رکھا تھا اس نے۔“کچھ اور آوازیں آئیں۔ افضلے کے سینے سے خون بہہ رہا تھا……وہ لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا۔ شاید بے ہوش تھا۔ اُسی وقت لائٹ آگئی۔ لوگ اب ذرا دور کھڑے افضلے کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے، جو موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ افضلا ان کے لیے اتنی قابل نفرت چیز بن چکا تھا کہ کوئی شخص اس کی مدد کے لیے تیار نہ تھا حتیٰ کہ ہجوم میں افضلے کے پالے ہوئے تین چار غنڈے بھی تھے۔ کسی نے ان کو دیکھ کر کہا:
”ارے بالے، شیرے، کرمو،دیکھو تو تمہارا استاد مر رہا ہے، لے جاؤ…… مرہم پٹی کرو اس کی۔“
”مرتا ہے تو مرنے دو۔ اس نے ہمیں بھی کون سا سکھ دیا ہے۔“ یہ شیدے کی آواز تھی۔
”اور کیا، روز گالیاں، روز تھپڑ، ہمیں تو اس نے جانور سمجھ لیا تھا۔“ بالے نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔ کرمو کچھ نہیں بولا، بس اُس نے نفرت سے ایک جانب تھوک دیا۔ پھر وہ تینوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ایک طرف کو چل دیے۔
ہجوم ابھی تک اپنی جگہ موجود تھا اور شیخ صاحب بڑے زور و شور سے افضلے کی بدمعاشیوں کا پچھلا ریکارڈ بیان کر رہے تھے۔ اسی وقت ایک لڑکا بھاگتا ہوا وہاں پہنچا۔ یہ رضوان تھا جو نویں جماعت میں پڑھتا تھا۔
”کیا ہوا یہاں؟“ اس نے پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان پوچھا۔
”دیکھتے نہیں، افضلے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے، وہ پڑا ہے۔“ کسی نے کہا۔
”تو اسے اسپتال لے جائیں۔“ رضوان نے بے قراری سے کہا۔
”کیوں لے جائیں۔ مرنے دو اسے، تمھیں پتا نہیں اس نے محلے والوں کی زندگی عذاب کر رکھی تھی۔“ شیخ صاحب لال پیلے ہو کر گرجے۔
”کمال کرتے ہیں آپ!“ رضوان نے بھی غصے سے کہا۔”ایک شخص مر رہا ہے۔ آپ کہتے ہیں مرجانے دو۔ جناب یہ بھی تو انسان ہے۔“
”شیطان کہو شیطان۔انسانیت اس میں ہے کہاں؟“ شیخ صاحب کے پڑوسی وکیل صاحب تیزی سے بولے۔
”کچھ بھی ہو اس کی جان بچانا آپ کا فرض ہے۔ اگر آپ اسے نہیں لے جائیں گے تو میں خود لے جاؤں گا۔“ رضوان نے کہا اور ایک جانب دوڑ گیا۔
”باؤلا ہو گیا ہے۔“
”کہیں یہ بھی افضلے کے ساتھ تو نہیں ملا ہوا ہے۔“
“ اتنا سالڑ کا ہے، کسی چکر میں پھنس جائے گا۔ ارے یہ تو پولیس کیس ہے۔“ جتنے منہ اتنی باتیں۔
رضوان دوڑتا ہوا واپس آگیا تھا۔”میں نے اسپتال فون کر دیا ہے۔ ابھی ایمبولینس آتی ہوگی۔“
لوگ اب ذرا اور پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔ سب رضوان کو سمجھا رہے تھے کہ وہ اس معاملے میں نہ پڑے لیکن رضوان ایک ہی بات دہرار ہا تھا۔”یہ بھی تو ایک انسان ہے۔“
ذرا دیر میں ایک ایمبولینس سائرن بجاتی ہوئی آگئی۔ اس کی چھت پر لگا سُرخ بلب تیزی سے گھوم رہا تھا۔ ایمبولینس میں سے دو آدمی اُترے۔ انھوں نے اسٹریچر نکال کر افضلے کو اس پر ڈالا اور اسٹریچر ایمبولینس میں رکھ دیا۔ رضوان بھی ان کے ساتھ ہی ایمبولینس میں سوار ہو گیا اور ایمبو لینس سائرن بجاتی تیزی سے چلی گئی۔
افضلے کو ہوش آیا تو اس کا سینہ اور ایک ٹانگ پٹیوں میں جکڑی ہوئی تھی اور ایک ڈاکٹر اس کی نبض دیکھ رہا تھا۔
”مبارک ہو جوان!“ ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”وہ تو کہو تمہاری قسمت اچھی تھی، جان بچ گئی، اگر اسپتال پہنچنے میں ذراسی اور دیر ہو جاتی تو تم تو گئے تھے اگلی دنیا میں۔ خون بہت بہہ گیا تھا تمہارا۔“
”مجھے ہوا کیا تھا……؟ شاید میں موٹر سائیکل پر جارہا تھا۔“ افضلے نے کمزورسی آواز میں پوچھا۔
”ہاں، ہاں تم موٹر سائیکل پر جارہے تھے، ایک کھلے ہوئے مین ہول سے تمہاری گاڑی ٹکرا کر الٹ گئی، تم گاڑی کے ساتھ گھسیٹتے ہوئے دُور تک چلے گئے۔ پھر تم زخمی حالت میں دیر تک وہیں پڑے رہے تھے۔“
”تو…… تو…… مجھے یہاں کس نے پہنچایا……؟“افضلے نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
”ایک لڑکا ہے رضوان، وہ تمھیں لایا تھا…روز تمہاری خیریت پوچھنے آتا ہے۔ تم چار دن بعد آج ہوش میں آئے ہو۔ اور یہ بھی سن لو کہ تمہارے محلے کا کوئی آدمی تمھیں اسپتال لانے کے لیے تیارنہ تھا۔ بلکہ کئی افراد تو بعد میں آکر میری منت سماجت کر رہے تھے کہ افضلے کو زیادہ دن اسپتال میں رکھوں تاکہ وہ جلدی تندرست ہو کر پھر انھیں پریشان نہ کرنے لگے۔“ ڈاکٹر نے افضلے کے بستر کے قریب پڑی چھوٹی میز پر موجود فائل کھول کر کچھ لکھا اور وارڈ کے دوسرے مریضوں کو دیکھنے لگا۔
افضلا کچھ نہیں بولا۔ اس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو چکے تھے۔
”تو…سب لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں، لیکن وہ لڑکا…کیا نام بتا یاڈاکٹرنے…؟ رضوان…کیا وہ مجھ سے نفرت نہیں کرتا؟“ اس نے سوچا۔
اس وقت وارڈ کے دروازے سے ایک لڑکا اندر داخل ہوا اور سیدھا افضلے کے بیڈ کی طرف آگیا۔ افضلے کو ہوش میں دیکھ کر اس کا چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا۔
”کیسے ہیں آپ؟“ اس نے پوچھا۔
”میں…میں ٹھیک ہوں، مگر تم کون ہو؟“
”میں رضوان ہوں…“
”تم… تم رضوان ہو…؟“ افضلے نے حیرانی سے کہا، اس نے اُٹھنے کی کوشش کی لیکن رضوان نے اُسے جلدی سے تھام کر کہا۔ لیٹے رہیے، ہلیے مت۔ آپ کے سینے پر بہت چوٹیں آئی ہیں۔“
افضلے کے ایک ہاتھ میں ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ اس نے دوسرا ہاتھ بڑھا کر رضوان کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
”تم… تم یہ بتاؤ کہ تم نے میری جان کیوں بچائی، میں نے سُنا ہے کہ جب میرا ایکسیڈنٹ ہوا تو کوئی مجھے اسپتال لانے پرتیار نہ تھا۔“ افضلے نے رک رک کر کہا۔
”اس لیے کہ آپ بھی ایک انسان ہیں۔“رضوان نے بڑی سادگی سے کہا۔
”انسان…!“افضلے نے آہستہ سے کہا۔ پھر اُس نے آنکھیں بندکرلیں،چند لمحوں بعد اس نے آنکھیں کھول کر بڑی دھیمی آواز میں کہا۔
”رضوان محلے والوں کو بتا دینا، اب میں ایک انسان ہوں، میری زیادتیوں کو معاف کر دیں…اللہ کے واسطے…انہیں بتا دینا کہ ایک معصوم لڑکے نے مجھے انسان بنا دیا ہے۔“
افضل دوبارہ آنکھیں بند کر کے گہری گہری سانسیں لینے لگا تھا؟

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top