skip to Main Content

قلفیاں

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
موسم گرما کے لیے کلیم چغتائی کا خصوصی تحفہ
۔۔۔۔۔

راشد نے حساب کا کام ختم کر کے کاپی بستے میں رکھی۔ آج کے سوالات خاصے مشکل تھے لیکن وہ بھی دھن کا پکا تھا۔ سارے سوالات حل کر کے ہی دم لیا۔ بستے کو اس کی مخصوص جگہ رکھ کر اس نے ایک گلاس پانی پیا اور کمرے کی لائٹ بند کر کے اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ لیٹنے سے قبل وہ کمرے کی چھوٹی لائٹ جلانا نہ بھولا تھا۔ اسے معلوم تھا، بالکل تاریک کمرے میں سونے سے حضور ﷺنے منع فرمایا ہے۔
سونے سے پہلے راشد روزانہ چند دعائیں پڑھا کرتا تھا، یہ دعائیں آنحضرت محمدصلی اللہ علیہ سلم پڑھا کرتے تھے اور انہوں نے تمام مسلمانوں کو سونے سے پہلے یہ دعائیں پڑھنے کی ہدایت کی ہے۔ راشد نے دعائیں پڑھیں اور سونے کے لئے آنکھیں موند لیں۔ اسی وقت برابر والے کمرے سے اس کے ابو کی آواز آئی:
”ارے بھئی سنتی ہو۔“ وہ شاید راشد کی امی کو آواز دے رہے تھے۔
”کیا ہوا۔“ راشد کی امی کی آواز دُور سے آئی۔ وہ غالباًبا ور چی خانے میں تھیں۔
”بھئی یہاں تو آؤ۔“ راشد کے ابو کی گھبرائی ہوئی آواز آئی۔”یہ کیا ہو گیا۔“
”کیا ہوا؟“ راشد کی امی برابر والے کمرے میں آگئیں۔ دونوں کمروں کے درمیان بنے دروازے پر پردہ لٹک رہا تھا۔ دوسرے کمرے میں روشنی تھی اور پردے پر راشد کی امی کا سایہ حرکت کر رہا تھا۔
”بھئی یہ دودھ خراب ہو گیا ہے۔“ راشد کے ابو کی پریشان پریشان آواز آئی۔
”ہئے! کیسے ہو گیا۔“ راشد کی امی کی آواز آئی۔
”مجھے کیا معلوم۔ تم نے گرم نہیں کیا ہو گا۔“ راشد کے ابو غصیلی آواز میں بولے۔
”نہیں!گرم تو کیا تھا۔ مگر اب کیا کریں؟“ راشد کی امی بولیں۔
”کرنا کیا ہے؟ نقصان ہونا تھا ہو گیا۔“
”اب قلفی کیسے بنے گی؟“
”جاتا ہوں، اور دُودھ کا انتظام کرتا ہوں کہیں سے۔“
راشد کے ابو بولے۔
”مفت میں بیٹھے بٹھائے تیس روپے کی چپت پڑگئی۔“ راشد کی امی کی آواز سے صاف ظاہرتھا کہ انہیں دودھ خراب ہو جانے کا بہت افسوس ہے۔”سنیے! اس دُودھ کو کام میں نہیں لاسکتے؟“
”کیسے؟ خراب دُودھ کی قلفی بنا دوں؟“ راشد کے ابو نے پوچھا۔
”میں کب کہہ رہی ہوں کہ سارا دودھ استعمال کر لیں۔ آدھا دُودھ استعمال کرلیں۔ اس طرح کام تو چل جائے گا۔“
”چھوڑو، میں تازہ دودھ لے آتا ہوں۔“ راشد کے ابو اٹھ کر چپل پہننے لگے۔ ان کا سایہ بھی دروازے کے پردے پر لرزنے لگا۔
”یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟“ راشد کی امی بولیں۔ ”یہ دودھ کس کام آئے گا، کچھ پتا بھی ہے آپ کو تیس روپے کا تازہ دودھ آئے گا۔ میری مانیے، اس دودھ میں سے آدھا دودھ استعمال کر لیجئے۔“
”اچھا بھئی جیسے تمہاری مرضی۔“ راشد کے ابو کی آواز آئی۔”راشد سو گیا؟“
”ہاں، کب کا۔“ دور سے راشد کی امی کی آواز آئی۔ شاید وہ واپس با در چی خانے میں چلی گئی تھیں۔
چھوٹے سے بلب کی دھیمی دھیمی روشنی میں راشد بستر پر لیٹا آنکھیں پھاڑے چھت سے لٹکے بلب کو گھورے جا رہا تھا۔ کمرے میں ٹھنڈک تھی لیکن اس کے چہرے پر پسینے کی بوندیں نمودار ہو گئیں تھیں اور سانس تیز تیز چل رہی تھی۔
”اگر ابو نے خراب دودھ سے قلفی بنادی تو؟“ اس کے ذہن میں بار بار یہ سوال ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا۔”اگر اس قلفی کو کھا کر کوئی بچہ بیمار پڑ گیا تو……؟“
راشد کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔اس کے ابو قلفیاں بنا بنا کر اسکول کے سامنے فروخت کرتے تھے۔ انہوں نے گلے سڑے پھل بیچنے والوں، چھولے والوں اور سستی قسم کی پیسٹری، بسکٹ لے کر کھڑے ہونے والوں کو سختی سے منع کر دیا تھا کہ وہ اسکول کے سامنے کھڑے ہو کے یہ خراب اشیاء فروخت نہ کریں۔ صرف ایک پھل والے بوڑھے چاچا اور راشد کے ابو نے بھی ہیڈ ماسٹر صاحب سے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ ہمیشہ اچھے دودھ کی قلفی بنا کر فروخت کریں گے۔
”لوبھئی میں لے آیا تھوڑا سا دُودھ۔“ راشد کے ابو نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
”بس ٹھیک ہے۔ یہ تازہ دودھ خراب والے دودھ میں ملا کر قلفی بنا دیجئے۔“راشد کی امی کی آواز آئی۔
ٍٍ ”اف!“ راشد نے گھبرا کر سوچا،”اب کیا ہوگا؟“ ابھی چند دن پہلے تو اس نے اخبار میں خبر پڑھی تھی کہ زہریلی قلفی کھا کر ایک ہی خاندان کے چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے اور دیگر دس افراد بیمار پڑگئے تھے۔ اس نے سوچا کہ وہ اُٹھ کر اپنے ابو کو قلفی بنانے سے روک دے لیکن وہ ایسا نہ کر سکا۔ اندرہی اندر کڑھتا رہا۔ پھر اسے خیال آیا کہ ابو نے خراب دودھ استعمال کرنے کا فیصلہ اس لئے تو کیا ہے کہ گھر کے مالی حالات اچھے نہیں ہیں۔ اگر وہ تیس روپے کا تازہ دودھ لے آتے تو گھر کا خرچ کیسے چلتا؟ ابو کو آخر میرے اسکول کی فیس دینی ہوتی ہے، کتابیں خرید کر دینی ہوتی ہیں، روزانہ گھر میں کھانا پکتا ہے،سال میں دو تین جوڑے کپڑے بنتے ہیں۔ پھر گھر کا ہر ماہ کرایہ جاتا ہے۔ سو طرح کے خرچ ہیں، کہاں سے پورے کریں۔ اس کے کانوں میں اپنے اسکول کے استاد شرافت حسین کی آواز گونجنے لگی:
”بچو! یہ بات اچھی طرح یاد رکھو، ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو بدن حرام مال سے پر ورش پائے، وہ جنت میں جا نہیں سکتا۔ اس کے لئے جہنم کی آگ ہی بہتر ہے۔“
”جہنم! راشد کو جھر جھری سی آگئی۔ کتنی تکلیف دہ جگہ ہوگی جہنم۔“
اس کی نظروں کے سامنے آگ کے بڑے بڑے شعلے رقص کرنے لگے، ایک بار اس کے گھر کے قریب ایک عمارت کو آگ لگ گئی تھی، اسے وہ منظر آج تک یاد تھا جب عمارت سے نکلتے ہوئے آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے اور اندر پھنسی ہوئی عورتوں اور بچوں کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں، پھر جب فائربریگیڈ کے کئی انجنوں نے چار گھنٹے کی کوشش کے بعد آگ بجھا دی تھی تو اندر سے جلے ہوئے زخمیوں کو نکالا گیا تھا، ان کا پورا بدن جھلس گیا تھا اور کھال جل کر اندر سے گوشت جھلک رہا تھا۔
”نہیں نہیں۔“ راشد نے گھبرا کر اپنے بستر کے قریب بچھی میز کے ایک پائے کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ ”میں جہنم میں نہیں جانا چاہتا، مگر میں کیا کروں؟ میں کیا کر سکتا ہوں؟ میں ابو کو کیسے منع کروں کہ وہ قلفی نہ بنائیں۔ کیا وہ میرے کہنے سے مان جائیں گے؟ مجھے ان سے ڈر بھی تو لگتا ہے؟“
وہ کچھ سوچتا ہوا اٹھا۔ کمرے سے باہر نکلا اور باتھ روم کی طرف جانے لگا، اس کے ابو قلفی بنا رہے تھے۔ اس کی امی نے اسے دیکھ کر کہا۔”بیٹا چینی بالکل ختم ہوگئی، اب تم اٹھ گئے ہو تو جاکرلے آؤ ورنہ صبح کو مشکل ہوگی۔“
”اچھا امی۔“ راشد یہ کہہ کر باتھ روم چلا گیا۔ فارغ ہو کر اس نے امی سے پیسے لیے اور گھرسے باہر نکل آیا۔
اس کا رُخ دکان کی جانب نہیں بلکہ اسکول کی سمت تھا۔اسکول کے قریب پہنچ کر وہ ایک مکان کے دروازے پر رک گیا۔ جھجکتے ہوئے اس نے گھنٹی کے بٹن پر انگلی رکھ دی۔ چند لمحوں کے بعد مکان کااندرونی دروازہ کھلا اور روشنی کی کرنیں باہر جھانکنے لگیں، دروازہ کھولنے والے ہیڈ ماسٹر صاحب ہی تھے۔انہوں نے راشد کو پہچان لیا، اور حیرانی سے بولے:
”ارے راشد تم؟ اس وقت خیریت تو ہے؟“
”جی آپ سے ایک بات کہنی تھی۔“ راشد نے ذرا ہچکچاتے ہوئے کہا۔
”ہاں،ہاں آؤ اندر آجاؤ۔“ ہیڈ ماسٹر صاحب نے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا اور بولے۔”ہوں، اب بتاؤ کیا بات ہے؟“
”جی! وہ…“راشد کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کرے۔
”بولو بیٹے، گھبر اؤمت۔خود اعتمادی پیدا کرو اپنے اندر۔“ ہیڈ ماسٹر صاحب نے نرم لہجے میں کہا، ان کے اس جملے سے راشد نے اپنے اندر اچانک تبدیلی محسوس کی، اس نے مضبوط لہجے میں کہا:
”میں چاہتا ہوں کہ آپ کل ابو کو قلفیاں فروخت کرنے سے روک دیں۔“
”کیا؟“ ہیڈ ماسٹر صاحب حیران رہ گئے،”یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ روک دوں؟ مگر کیوں؟“
”اس لیے کہ آج ابو نے جو قلفی بنائی ہے، اس میں خراب دودھ استعمال ہوا ہے۔“
”تمہیں یقین ہے؟“ہیڈ ماسٹر صاحب نے پوچھا۔
”جی ہاں میں نے خود سنا ہے۔ دودھ خراب ہوگیا تھا لیکن ابو نے اس میں کچھ تازہ دودھ ملا کر قلفی بننے کے لئے رکھ دی ہے۔“
ہیڈماسٹر صاحب کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھا گئی۔ وہ کچھ دیر تک غور سے راشد کی طرف دیکھتے رہے پھر انہوں نے پوچھا:
”بیٹا! تم نے مجھے شدید الجھن میں ڈال دیا ہے اور میں سخت حیران ہوں کہ تم اپنے والد کی شکایت لے کر بے دھڑک میرے پاس چلے آئے ہو، کیا تم بتا سکتے ہو، تم نے ایسا کیوں کیا؟“
”آپ کے پاس آنے سے پہلے خود میں بھی بہت پریشان تھا اور دیر تک سوچتا رہا۔“ راشد نے کہنا شروع کیا پھر مجھے خیال آیا کہ ایک تو خراب دودھ سے بنی ہوئی قلفی کی کمائی ناجائز ہوگی۔ دوسرے اگر اس قلفی کوکھا کر کوئی بچہ بیمار پڑ گیا یا اللہ نہ کرے۔ کچھ اور… ہوگیا …… تو…… تو ……اس بچے کے ماں باپ کاکیا حال ہوگا، سر آپ کل ابو کو روک دیجئے ……ورنہ…… ورنہ……“ راشد کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
”صبر… صبر بیٹے،ذراٹھہرو…… تم بالکل فکرمت کرو،کل ان شاء اللہ خراب قلفیاں فروخت نہیں ہوں گی۔ بس تم جاؤ۔“
راشد نے ہیڈ ماسٹر صاحب کو سلام کیا اور ان کے مکان سے نکل آیا۔ راستے میں اس نے ایک دکان سے چینی خریدی اور اپنے گھر چلا آیا۔ اسکی امی انتظار کر رہی تھیں۔
”کہاں رہ گئے تھے؟ تمہاری یہی عادت خراب ہے۔راستے میں کوئی دوست مل جائے تو کھڑے ہو جاتے ہو۔“ اس کی امی نے ڈانٹا۔
راشد نے کوئی جواب نہیں دیا اور چینی کی تھیلی امی کو پکڑا کر بستر میں گھس گیا۔کچھ دیر اس کے ذہن میں خیالات کی جنگ ہوتی رہی۔ وہ آنے والے کل کے متعلق سوچتا رہا، پھر آخر کار اسے نیند آگئی۔
صبح سویرے اس کی آنکھ کھل گئی۔ اذانیں ہو رہی تھیں، وضو کر کے اس نے فجر کی نماز ادا کی اور راشد نے دعا مانگی کہ ”اللہ میاں ہمیں ہمیشہ حلال رزق دیجئے اور اس میں برکت دیجئے، اور ہم سب کی حفاظت کیجئے، اللہ میاں ہر ایک کو خراب قلفیوں سے محفوظ رکھنا۔“
تیار ہو کر اس نے جلدی جلدی ناشتہ کیا اور اسکول پہنچ گیا۔ اسکول کی چھوٹی سی عمارت کے سامنے چند ہی بچے جمع تھے جو پھل والے چاچاسے پھل خرید رہتے تھے۔ راشد کے اسکول پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد راشد کے ابو قلفیوں کا ٹھیلا لے کر اسکول پہنچ گئے، اسی وقت اسکول کے چپر اسی نے آکر ان سے کہا:”آپ کو ہیڈ ماسٹر صاحب بلا رہے ہیں۔“
”اچھا ابھی آتا ہوں۔“ راشد کے ابو ٹھیلا چھوڑ کر اندر چلے گئے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب اپنی کرسی پر بیٹھے تھے۔ دیگر استاد ابھی شاید آئے نہیں تھے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے راشد کے ابو کو کرسی پیش کی، جب راشد کے ابو بیٹھ گئے تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہا:
”میں نے آپ کو مبارک باد دینے کے لئے بلایا ہے۔“
”مگر کس بات کی؟“ راشد کے ابو نے حیران ہو کر پوچھا۔
”اس بات کی کہ اللہ نے آپ کو اتنا پیارا، ہیرے جیسا بیٹا عطا کیا ہے۔“
”جی۔“ راشد کے ابواب بھی کچھ نہ سمجھ سکے تھے۔
”میں کچھ کہہ کر آپ کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا، صرف آپ کو یہ اطلاع دینی ہے کہ آپ آج اسکول کے باہر قلفیاں فروخت نہیں کر سکتے۔“

راشد کے ابو نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا لیکن ہیڈ ماسٹر نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روک دیا اور بولے۔”مجھے آپ کے بچے راشد نے بہت متاثر کیا ہے، اللہ اس کی عمر دراز کرے، میں اسے ایک انعام دینا چاہتا ہوں۔“ یہ کہہ کر انہوں نے گھنٹی بجا کر چپراسی کو بلایا اور اسے راشد کو بلانے کی ہدایت کی،چند لمحوں بعد راشد ہیڈ ماسٹر صاحب کے کمرے کے دروازے پر کھڑا تھا،اس کے چہرے سے ظاہر تھاکہ وہ بہت گھبرایا ہوا ہے۔
”آجاؤ بیٹے!“ ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہا۔”اندر آجاؤ، میں نے تمہیں صرف یہ دینے کے لئے بلایا ہے۔“ انہوں نے ایک لفافہ راشد کی طرف بڑھا دیا۔”اس میں تین سو روپے ہیں، یہ کوئی خیرات نہیں ہے، تمہارا انعام ہے، اصل انعام اور اصل اجر تو تمہیں اللہ سے ملے گا، تم نے آج بہت سے بچوں کی زندگیوں کو خطرے میں پڑنے سے بچا لیا ہے، حالانکہ تمہارے گھر کے مالی حالات اچھے نہیں ہیں لیکن تم نے ذرا سے فائدے کی خاطر بے ایمانی کو پسند نہیں کیا، اور اس معاملے میں اپنے والد تک کی پروا نہ کی، میں تمہیں سلام کرتا ہوں میرے بچے۔“
”مجھے معاف کر دیجیے ماسٹر صاحب۔“ راشد کے ابو نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔”میں بھول گیا تھا کہ رزق دینے والی ذات تو اللہ تعالیٰ کی ہے۔“
کمرے میں گہرا سناٹا طاری ہو گیا تھا۔ راشد کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے، شاید خوشی کے آنسو!!

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top