skip to Main Content

اچھا بچہ

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔

دفتر کی ائر کنڈیشنڈ عمارت سے جونہی باہر نکلا، گرم گرم ہوا کا تھپیڑا میرے چہر ے سے ٹکرایا۔ میں بے اختیار ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گیا۔ اس بار گرمی کچھ زیادہ ہی پڑ رہی تھی۔ آج مجھے کام تھا، اس لئے دفتر سے جلدی نکل آیا تھا اور جلدی نکل آنے کی سزا بھگت رہا تھا۔ مشکل تو یہ تھی کہ میری موٹر سائیکل میرا چھوٹا بھائی لے گیا تھا۔ صبح تو رکشہ کر کے وقت پر دفتر پہنچ گیا تھا، اب دوپہر کے تین بجے چلچلاتی دھوپ میں سنسان سڑک میرا منہ چڑا رہی تھی۔ دونوں جانب خوبصورت شور وم والی دکانیں بھی بھائیں بھائیں کررہی تھیں اور ان میں اکا دکا ہی گاہک نظر آتا تھا البتہ کچھ دور آگے گنے والے کی ریڑ ھی کے پاس بھیڑ لگی ہوئی تھی۔
“ حد ہو گئی!“ میں نے سخت کوفت محسوس کرتے ہوئے سوچا۔”موٹر سائیکل ہوتی تو اب تک گھر پہنچ بھی چکا ہوتا۔“ اس کے ساتھ ہی ذہن میں دوسرا خیال آیا۔”اور جو موٹر سائیکل ہمیں پیچ سڑک پر دغا دے جاتی تو؟“ اور پھر میں نے سر جھٹک کر جیسے ان اوٹ پٹانگ خیالات سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی۔”فی الحال تو گھر پہنچنے کی سوچو۔“
سٹرک ابھی تک ویران تھی۔ میں امید بھری نظروں سے اس طرف تکنے لگا جہاں سٹرک آگے جا کر قدرے دائیں جانب گھوم جاتی تھی۔ شاید اس موڑ سے کوئی مہربان رکشہ یا ٹیکسی والا اپنا رکشہ یا ٹیکسی آہستہ آہستہ چلاتا ہوا میرے قریب لاکر روک دے اور سر نکال کر کہے، ”آؤ بابو جی، کہاں جانا ہے؟“ لیکن رکشہ یا ٹیکسی کے بجائے دور سٹرک کے موڑ سے سرخ اور سیاہ رنگ کی ایک بس نمودار ہوئی۔
یہ ایک عمر رسیدہ بس تھی جو چل رہی تھی تو یوں لگ رہا تھا جیسے احسان کر رہی ہو۔میں تیز دھوپ میں زیادہ دیر کباب بننے کے لئے تیار نہ تھا چنانچہ میں نے چھلانگ لگائی اور رینگتی ہوئی اس بس میں سوار ہو گیا۔ جس جانب کی کھڑ کیوں پر دھوپ نہیں پڑ رہی تھی اس طرف کی ایک نشست پر دھم سے بیٹھ گیا۔میں نے بس کے اندرونی حصہ کا جائزہ لیا۔ بیشتر نشستیں خالی تھیں۔ گنتی کے چار پانچ مسافر بیٹھے تھے جو نہایت اطمینان سے اونگھ رہے تھے۔ خواتین کے حصے میں کوئی خاتون نہیں تھیں۔ البتہ کنڈ یکٹر صاحب ایک نشست پر تقریباً لیٹ کر ڈرائیور صاحب سے خاصے خوش گوار موڈ میں باتیں کر رہے تھے۔ بس کے انجن کا شور اتنا تھا کہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کنڈیکٹر صاحب کس موضوع پر اظہار خیال کر رہے ہیں۔
بس گھر گھراتی ہوئی چلی جارہی تھی۔ سٹرک پہلے کی طرح سنسان تھی۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ میں نے بس پر سوار ہو کر سواری کی وہ دعا تو پڑھی ہی نہیں جو ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے۔ میں نے جلدی سے دعا پڑھی۔ اتنے میں بس ایک اسٹاپ پر رک گئی۔ چند لمحوں بعد بس میں حرکت پیدا ہوئی۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا، لیکن پتہ چلا کہ ڈرائیور صاحب بس کو ذرا کھسکا کر فٹ پاتھ کے بالکل ساتھ لگا ر ہے تھے۔”تو اب اس مصیبت میں ……“ میں نے سوچا۔”خیر اب کیا ہو سکتا ہے۔“ میں نے بیزار ہو کر بس کے دیگر مسافروں کی طرح آنکھیں بند کر لیں اور اونگھنے لگا۔
ذرا دیر بعد مجھے یوں لگا جیسے کسی نے میرا بازو ہولے سے ہلایا ہو۔ میں نے چونک کر آنکھیں کھولیں تو ایک کم عمر لڑ کے کو اپنے سامنے ہاتھ پھیلاتے کھڑا پایا۔ اس کے چہرے پر شرمندگی کے آثار تھے جیسے مجھے گہری نیند سے بے وقت جگا کر وہ سخت پشیمان ہو۔ اس نے سستے سے کپڑے کی شلوار قمیص پہن رکھی تھی جس میں تین چار پیوند تھے۔ پیروں میں اسفنج کی گھسی ہوئی چپل تھی۔ سر کے بال الجھے ہوئے تھے اور ایسا لگتا تھا جیسے وہ کئی دنوں سے نہ نہایا ہو۔ عام حالات میں مجھے کوئی اس حلیہ میں ملتا تو لاحول پڑھ کر گزر جاتا، اس وقت حالانکہ میں سخت بوریت محسوس کر رہا تھا۔ شدید گرمی اور اس پر عجائب گھر میں رکھے جانے کے قابل اس بس کا سفر اور پھر گھر پہنچ کر اپنا کام نمٹانے کی جلدی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ میں اس لڑکے سے کہتا،”معاف کر و بھئی۔“ اور پہلے کی طرح اونگھنے لگتا لیکن اس سانولے سلونے لڑکے کے چہرے میں کچھ ایسی بات تھی کہ میں اسے،”معاف کر و بھئی۔“ کہہ کر آگے چلتا نہ کر سکا۔ بڑا معصوم سا چہرہ تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنی مرضی کے خلاف بھیک مانگنے کے لئے نکل کھڑا ہوا ہو۔ میں نے بہت سے ”تجربہ کار“ گداگروں کو دیکھا ہے۔ بھیک مانگ مانگ کر ان کے چہروں کی رونق ختم ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ عجیب بے غیرتی اور پھٹکارسی برسنے لگتی ہے،لیکن اس نوعمر لڑکے کے چہرے پر ایسی کوئی علامت نہ تھی جو شرمندگی سے نظریں جھکائے اور ہاتھ پھیلائے میرے سامنے کھڑا تھا۔
بس حرکت میں آچکی تھی اور شاید پیچھے اسی روٹ کی ایک اور بس آگئی تھی، جب ہی ڈرائیور صاحب تیز رفتاری کے ریکارڈ توڑ رہے تھے۔ میں نے اس لڑکے کو نظر بھر کر دیکھا۔
”کہاں رہتے ہو؟“ میں نے ذرا نرمی سے پوچھا۔
”جی؟“ اُسے شاید اس قسم کے سوال کی توقع نہ تھی۔ ”جی ادھر پرانی مارکیٹ کے پاس۔“
”والد کہاں ہیں تمہارے؟“
”والد؟ اچھا۔ ابا؟ انہوں نے تو مجھے یہ کام کرنے کے لئے کہا ہے۔“ اس نے اداسی سے بتایا۔
”خیریت ہے۔“ میں نے سوچا، ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی معصوم اولاد سے بھیک مانگنے کا کام لے ر ہے ہیں۔
”میرے ساتھ چلو، میں تمہیں پیسے دے دوں گا۔“ میں نے کہا۔
”نہیں نہیں۔مجھے دیر ہو جائے گی۔ا با ماریں گے۔“ اس نے خوف زدہ ہو کر کہا۔
”تم چلتے ہو یانہیں؟“ میں نے ذرا سخت لہجے میں کہا۔”نہیں چلو گے تو پولیس پکڑ کر لے جائے گی۔ معلوم نہیں بھیگ مانگنے والوں کو پولیس پکڑ لیتی ہے۔“
پولیس کے نام پر تو اس کا رنگ اڑ گیا۔
”چلو۔“ میں نے اس کا بازو پکڑ لیا اور اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا، کیونکہ میرا مطلوبہ بس اسٹاپ قریب آرہا تھا۔
بس رکی۔ میں نے جلدی سے کنڈیکٹر کو ٹکٹ کے پیسے تھمائے اور نیچے اتر گیا۔ وہ ڈری ڈری نظروں سے دائیں بائیں دیکھتا میرے ساتھ چل رہا تھا۔ گھر پہنچ کر میں نے اسے اپنے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ پنکھا چلایا۔ کچھ پھل اس کے سامنے رکھے اور شربت بنوایا۔ اب اس کا خوف قدرے کم ہو چکا تھا، البتہ وہ اب بھی صوفے کے کنارے پر ٹکا ہوا تھا۔
”نام کیا ہے تمہارا؟میں نے تو تمہارا نام پوچھا ہی نہیں۔“ میں نے دریافت کیا۔
”میرا نام خالد ہے۔“ اس نے بدستور نظریں جھکائے جواب دیا۔
”خالد! دیکھو تم ابھی بہت چھوٹے ہو۔ یہ عمر تعلیم حاصل کرنے کی ہے۔ اس عمر میں تم اگر تعلیم حاصل کر لو گے تو آگے جا کر یہ تمہارے بہت کام آئے گی۔ اور اگر خدا نہ کرے تم یہ ہی کام کرتے رہے جو آج کر رہے تھے تو پھر سخت مصیبتیں اٹھاؤ گے، سمجھے۔“
اس نے سر ہلایا۔
”میں جانتا ہوں، بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے لئے پیسے نہیں لیکن میں تمہیں بتاؤں کہ ایسے بہت سے لڑکوں کو میں جانتا ہوں جو صبح اسکول جاتے ہیں اور دوپہر میں چھٹی ہونے کے بعد کسی دکان پر یا کسی ور کشاپ میں کام کرتے ہیں۔“
”جی، پڑھنے کا تو مجھے بھی بہت شوق ہے۔“ اس نے رک رک کر کہا۔”میں جی تیسری جماعت ہیں پڑھتا تھا۔مجھے کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق ہے۔“
پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ تمہیں پڑھنے کا شوق ہے تو تم ضرور تعلیم حاصل کرو گے۔ تمہیں کہانیاں اچھی لگتی ہیں نا۔ تو میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔“
”جی سنائیے۔“ اس کی آنکھوں سے اشتیاق چھلکنے لگا۔
”اچھا سنو۔ مگر یہ پھل تو لو۔“ میں نے پھل اٹھا کر اس کی طرف بڑھائے۔”بسم اللہ۔“ وہ سیب کا ٹکڑا اٹھا کر منہ کی جانب لے جا رہا تھا۔ میرے بسم اللہ کہنے سے چونک گیا اور جلدی سے بسم اللہ پڑھ کر سیب کا ٹکڑا منہ میں ڈال لیا۔
تمہیں یہ تو پتہ ہو گا کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو مسلمان رہتے تھے،ان کو کیا کہتے ہیں؟“
”جی، مجھے پتہ ہے۔میں نے کتاب میں پڑھا تھا۔ ان کو صحابی ؓ کہتے ہیں۔“
”بالکل ٹھیک۔ تو ایسا ہوا کہ ایک صحابیؓ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے آپ ﷺ سے کچھ مدد مانگی۔ آپ ﷺنے ان صحابیؓ سے پوچھا۔’آپ کے گھر میں کچھ سامان بھی ہے؟‘ صحابیؓ نے بتایا۔’یا رسول اللہ! صرف دو چیزیں۔ ایک ٹاٹ کا بچھونا ہے جس کو ہم اوڑھتے بھی ہیں اور بچھاتے بھی ہیں اور پانی پینے کا ایک پیالہ ہے۔‘ آپ نے فرمایا:’یہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آیئے۔“
یہاں پہنچ کر میں رکا اور شربت کا گلاس اٹھا کر ہونٹوں سے لگایا۔
خالد سے صبرنہ ہو سکا اور وہ بڑی بے چینی سے بولا۔”پھر؟ وہ صحابیؓ دونوں چیزیں لے کر گئے؟“
مجھے ہنسی آگئی اور میں نے کہا۔”سنارہا ہوں بھئی۔ تو وہ صحابی اپنے گھر گئے اور دونوں چیزیں لاکر پیش کر دیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں چیزیں دو درہم میں نیلام کر دیں۔ درہم جانتے ہو کیا ہوتا ہے؟“
اس نے پہلے ’ہاں‘ میں پھر ’نہیں‘میں سر ہلایا۔
”بھئی جیسے ہمارے پاس روپیہ، پیسہ ہوتا ہے اسی طرح اُس زمانے میں درہم ہوتا تھا۔ تو حضور نے دونوں درہم صحابی کو دے دیئے اور فرمایا۔’جاؤ ایک درہم میں تو کچھ کھانے پینے کا سامان خرید کر گھر والوں کو دے آؤ اور ایک درہم میں کلہاڑی خرید لاؤ۔‘ پھر جب کلہاڑی آگئی تو ہمارے پیارے رسولﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کلہاڑی میں دستہ لگایا۔ دستہ جانتے ہو؟“
”بستہ؟“
”بستہ نہیں دستہ۔ کلہاڑی کے جس حصے کو ہاتھوں میں پکڑتے ہیں، اسے کہتے ہیں دستہ۔تو آپ ﷺ نے دستہ لگایا اور ان صحابی سے فرمایا۔’جائیے، جنگل سے لکڑیاں کاٹ کاٹ کر لائیے اور بازار میں بیچئے۔ پندرہ دن کے بعد آئیے گا اور پھر حال بتائیے گا۔‘
پندرہ دن کے بعد جب وہ صحابیؓ آپ ﷺکے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے پتہ ہے کتنے درہم جمع کر لیتے تھے؟ پورے دس درہم۔ آپﷺ کو جب معلوم ہوا کہ صحابی نے محنت سے لکڑیاں کاٹ کر دس درہم جمع کرلئے ہیں تو آپ ﷺ بہت خوش ہوئے اور آپﷺ نے فرمایا:
’یہ محنت کی کمائی تمہارے لئے اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم لوگوں سے مانگتے پھرو اور قیامت کے روزتمہارے چہرے پر بھیک مانگنے کا داغ ہو؟‘
”کیا سمجھے؟“میں نے کہانی ختم کر کے پوچھا۔ دیکھو جو لوگ بھیک مانگتے ہیں۔ قیامت کے دن ان کے چہرے پر بھیک مانگنے کا داغ ہوگا۔ قیامت تو جانتے ہو؟“
”جی۔“ اس نے آہستہ سے کہا۔میں نے اس کی آواز میں لرزش محسوس کی۔صاف ظاہر تھا وہ اپنے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”سنو! اگر تم بھیک نہ مانگنے کا وعدہ کرو تو میں تمہارے تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کے لئے تیار ہوں۔“ میں نے نرمی سے کہا۔
”صاحب مجھے اجازت دیں۔“وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور تیر کی طرح دروازے سے باہر نکل گیا۔میں اسے روک بھی نہ سکا۔
اچانک مجھے اپنا وہ کام یاد آگیا جس کی خاطر میں دفتر سے جلدی نکل آیا تھا۔ چند دن بعد شاداب نگر کی مارکیٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ یوں ہی میں ایک دکان پر رکھے ہوئے موزے دیکھنے لگا۔ مجھے موزے خرید نے تو تھے لیکن کوئی ڈیزائن پسند نہیں آرہا تھا۔
”صاحب السلام علیکم!“
میرے کانوں میں ایک مانوس آواز ٹکرائی، میں نے چونک کر نظریں اٹھا ئیں۔ طرح طرح کی اشیاء سے بھرے شوکیس کی دوسری جانب خالد کھڑا مسکرارہا تھا۔ آج اس کا سانولا سلو نا چہرہ پہلے سے بھی زیادہ دمک رہا تھا۔ اس نے معمولی مگر صاف ستھرے کپڑے پہن رکھے تھے اور سر کے بال سلیقے سے جمے ہوئے تھے۔
”تم یہاں کہاں؟“ میں نے حیرت سے پوچھا۔
”جی اب میں یہاں دوپہر سے رات آٹھ بجے تک کام کرتا ہوں۔“ خالد خوش ہو کر بتانے لگا۔”میں نے ابا سے کہہ دیا تھا کہ میں پڑھوں گا، پھر ابا کے ایک دوست نے یہاں پر نوکر کروا دیا۔ صبح کو میں اسکول جاتا ہوں۔“
پھر اس نے معصومیت سے پوچھا:
”اب تو میں اچھا بچہ بن گیا ہوں نا……؟“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top