فاتح قادسیہ
کلیم چغتائی
…..
’’بحر ظلمات میں دوڑادیے گھوڑے ہم نے‘‘
…..
وہ نوجوان بہت پریشان تھا!
اس کی والدہ اس سے ناراض ہوگئی تھیں۔ وجہ یہ تھی کہ نوجوان نے ایک نیا مذہب، اسلام قبول کرلیا تھا۔ تین دن ہوچکے تھے۔ ماں نے کہا تھا کہ جب تک بیٹا اس مذہب کو ترک نہ کرے گا، میں نہ کھاؤں گی، نہ پیوں گی، نہ بیٹے سے بات کروں گی۔
آخر نوجوان اپنی ماں کے پاس گیا اور بولا: ’’ماں آپ مجھے بے حد عزیز ہیں لیکن آپ کے جسم میں ہزار جانیں ہوں اور ایک ایک کرکے ہر جان نکل جائے، تب بھی میں اسلام کو نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
بیٹے کی یہ بات سن کر اس کی ماں حیران رہ گئیں لیکن جب بیٹے نے اسلام کی تعلیمات دل نشیں انداز میں بیان کرنی شروع کیں تو ماں کا دل پگھل گیا۔ اب وہ بھی اسلام کے دائرے میں داخل ہوچکی تھیں۔
یہ نوجوان تھے، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان دس خوش نصیب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں سے ہیں، جن کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا ہی میں جنت کی خوشخبری سنادی تھی۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ’’عشرہ مبشرہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ آئیے آپ کو حضرت سعد بن ابی وقاص کے بارے میں کچھ باتیں بتائیں۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام سعد اور کنیت ابواسحق ہے۔ آپ کو ابن ابی وقاص اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ کے والد محترم مالک بن وہیب کی کنیت ابو وقاص ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص ان سات افراد میں شامل ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لائے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ہدایت فرمائی تھی کہ وہ اپنے قبولِ اسلام کو ظاہر نہ کریں چنانچہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ مکرمہ کی قریبی پہاڑیوں میں جا کر سنسان جگہوں پر نماز ادا کرتے۔ ایک دن چند مشرکین نے آپ کو نماز پڑھتے دیکھ لیا تو چھیڑ چھاڑ کی۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نوجوان تھے۔ اسلام قبول کرنے کے وقت آپ کی عمر صرف سترہ برس تھی۔ آپ کو جوش آگیا۔ آپ نے قریب پڑی اونٹ کی ایک ہڈی سے ایک مشرک پر حملہ کردیا اور اس کا سر پھٹ گیا۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ پہلے مسلمان ہیں جن کے ہاتھ سے اسلام کی حمایت میں کسی کا خون بہا۔
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے خاندان کو کفار نے ۷ سے ۱۰ ہجری تک شعب ابی طالب کی گھاٹی میں قید کیے رکھا تو حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنے بھائی عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے۔ مملکت کی حفاظت کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مہمات روانہ فرمائیں جن سب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود شریک نہ ہوئے، ان کو ’’سریہ‘‘ کہتے ہیں۔ ایک سریہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص نے کفار کی سمت تیر چلایا۔ یہ کفار کے مقابلے میں چلایا جانے والا پہلا تیر تھا۔
رمضان المبارک ۲ ہجری (مارچ ۶۲۴ء) میں غزوہ بدر کا معرکہ ہوا جس میں اللہ تعالیٰ نے صرف ۳۱۳ مجاہدین کو ایک ہزار کفار کے لشکر پر فتح بخشی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص اس جنگ میں بے جگری سے لڑے۔ آپ نے کفار کے ایک سردار سعدی بن العاص کو قتل کیا۔ بعد میں اس سردار کی تلوار، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کو دی گئی۔
صرف ایک سال بعد یعنی ۳ ہجری میں اُحد کا معرکہ پیش آیا۔ اس غزوہ میں کچھ مسلمانوں کی کوتاہی سے لڑائی کا پانسہ پلٹ گیا اور اسلامی لشکر منتشر ہونے لگا۔ اس نازک موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاص، چند صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے ڈٹ گئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑی جرأت کے ساتھ کفار پر تیر برسا رہے تھے جسے دیکھ کر سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے: ’’اے سعد، تیر چلا، میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں۔‘‘
بدر و اُحد کے بعد غزوہ خندق میں بھی حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ جواں مردی سے لڑے۔ آپ خود ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں۔ اس جنگ میں، ایک کافر اپنے گھوڑے کو اِیڑ لگا کر خندق پار کرگیا۔ اس نے زرہ پہنی ہوئی تھی۔ سر پر خود تھا جس میں صرف آنکھیں نظر آرہی تھیں۔ میں نے اس پر تیر کا نشانہ لیا۔ وہ ٹھہر گیا، اپنی ڈھال کو ناک کے بھی اوپر، کبھی نیچے کرتا ، جیسے ہی اس نے یہ حرکت بند کی، میں نے کمان پر چڑھا ہوا تیر تاک کر اس کی آنکھ پر مارا، وہ گھوڑے سے گر کر تڑپنے لگا۔ یہ دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بے ساختہ مسکرا اُٹھے۔
حضرت سعدؓ بن ابی وقاص اس کے بعد خیبر، فتح مکہ، حنین، طائف، تبوک تمام غزوات میں بڑی بہادری کے ساتھ لڑے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ بنے۔ اُنھوں نے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہوازن کے علاقے کا حاکم مقرر کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۱۳ ہجری میں وفات پاگئے۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلافت کی ذمہ داری دی گئی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں جب مجوسیوں (اہل فارس) نے لڑنے کے لیے ایک بڑی فوج تشکیل دی تو ان سے مقابلے کے لیے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسلمانوں کا سپہ سالار مقرر کیا۔ اس فوج نے قادسیہ کے مقام پر تاریخی جنگ ’’جنگ قادسیہ‘‘ لڑی جس میں فتح کے نتیجے میں پورے عراق اور عرب پر مسلمانوں کا غلبہ ہوگیا اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فاتح ایران کہلائے جانے لگے۔
جنگ قادسیہ میں اللہ نے دو لاکھ مجوسیوں کے مقابلے میں تیس ہزار مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔ اس کے بعد حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بابل تک، دشمنوں کا پیچھا کیا۔ مختلف علاقے فتح کرتے ہوئے آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دارالحکومت مدائن تک جا پہنچے۔ مسلمانوں کے لشکر اور مدائن کے درمیان صرف دریا دجلہ حائل تھا۔ دشمنوں نے دریا پر بنے تمام پُل توڑ دیے تھے تاکہ مسلمان اسے پار نہ کرسکیں مگر حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے اس موقع پر بے حد جرأت سے کام لیا اور اللہ کا نام لے کر اپنا گھوڑا دریا میں اُتاردیا۔ امیر لشکر کا دریا میں اُترنا تھا کہ سارا لشکر ان کے پیچھے دریا میں کود پڑا۔ دریا میں بارش کی وجہ سے طغیانی تھی مگر سارا لشکر دریا کی تند موجوں سے لڑتا ہوا دریا پار پہنچ گیا۔ مجوسیوں نے دیکھا تو وہ دہشت زدہ ہوگئے اور ’’دیو آگئے دیو آگئے‘‘ کہتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے۔
’مدائن‘ کی فتح کے بعد حکمران کسریٰ کے دیوان میں اذان دی گئی اور پہلی بار یہاں جمعہ کی نماز ادا کی گئی۔ ادھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیغام بھیجوایا کہ اب آگے بڑھنے کے بجاے علاقے کے انتظامات درست کیے جائیں۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امور مملکت کو بہت عمدگی سے چلایا۔ پورے علاقے کی زمین کی پیمائش کروائی۔ لگان اور جزیہ کے اصول بنائے۔ مدائن میں ایک جامع مسجد تعمیر کروائی۔ حضرت سعدؓ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے نیا شہر کوفہ ۱۷ ہجری (۶۳۸ء) میں آباد کیا۔ ’کوفہ‘ میں چالیس ہزار افراد کے لیے مکانات بنوائے گئے۔ شہر میں ہر قبیلے کی ایک آبادی تھی۔ ہر آبادی کی ایک مسجد تھی۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شہر میں چھوٹی چھوٹی نہریں کھدوائیں، پُل، مسافر خانے بنوائے، ذاتی سرماے سے کئی مدارس قائم کیے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی توجہ کے نتیجے میں ’کوفہ‘ اس وقت عالم اسلام کی سب سے بڑی فوجی چھاؤنی بن گیا۔ ۲۳ ہجری (۶۴۴ء) میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کردیا گیا۔ وفات سے قبل حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کے لیے جن صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام تجویز کیے ان میں سے ایک حضرت سعد بن ابی وقاص بھی تھے۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلیفہ بنتے ہی حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دوبارہ ’کوفہ‘ کا حاکم مقرر کیا۔ تین سال بعد حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ سے دس میل دور عقیق کے مقام پر رہنے لگے۔ بقیہ عمر آپ نے وہیں گزاری۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے حد متقی اور صاحب علم صحابی تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ عیلہ وسلم کی دو سو پندرہ احادیث روایت کی ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کثرت سے روزے رکھتے تھے۔ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ کے خوف سے جسم لرزنے لگتا۔
آخری عمر میں بہت ضعیف ہوگئے تھے۔ ۵۵ ہجری (۶۷۵ء) میں حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے رب سے جاملے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ منورہ کے قبرستان ’جنت البقیع‘ میں سپرد خاک کیا گیا۔
*۔۔۔*
اس تحریر کے مشکل الفاظ
کنیت: وہ نام جو باپ، ماں، بیٹی وغیرہ
کے تعلق سے بولا جائے
ایڑ لگانا: پاؤں کی ایڑی سے گھوڑے
کو دوڑنے کا اشارہ کرنا
زِرَہ: فولاد کا جالی دار کُرتا جو لڑائی میں پہنتے ہیں
خود: لوہے کی ٹوپی جو لڑائی میں پہنتے ہ