skip to Main Content

سمندر کنارے

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

خالو جان نے کار کا ہارن بجایا۔
تمام لوگ کار میں بیٹھ چکے تھے، صرف عثمان کسی وجہ سے ابھی تک گھر کے اندر تھا۔ چند لمحوں بعد وہ گھر سے باہر نکلا اور کار کا دروازہ کھول کر اُس میں سوارہو گیا۔ اُس نے معذرت کی:
”میری ٹوپی ذرا میلی ہو گئی تھی۔ دوسری صاف ٹوپی سامان کے اندر تھی، اُسے تلاش کر کے نکالنے میں کچھ وقت لگ گیا۔“
”کوئی بات نہیں، ساحل پر تو رات گئے تک رونق رہتی ہے۔“ خالو جان نے تسلی دی، اُس کے ساتھ ہی انھوں نے چابی تھمائی۔ کار کا انجمن سٹارٹ ہو گیا۔
سب نے سواری کی دعا پڑھی اور کار روانہ ہو گئی۔ سلمان اور عثمان اپنے ابو جان کے ساتھ پہلی بار کراچی آئے ہوئے تھے جہاں اُن بچوں کے خالو جان عمر سعید صاحب رہتے ہیں۔ بچوں نے کراچی پہنچتے ہی خالو جان سے فرمائش کی تھی کہ انہیں سمندر دیکھنا ہے کیونکہ انہوں نے اس سے پہلے سمند ر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ خالو جان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بہت جلد انہیں ساحل سمندر کی سیر کروائیں گے، اور آج عمر سعید صاحب اپنے دونوں بچوں، انور سعید، اظہر سعید اور مہمانوں کے ساتھ ساحل سمندر کی سیر کے لیے جا رہے تھے۔

٭……٭……٭

خالو جان کی کار کراچی کی مصروف شاہراہوں سے گزر رہی تھی۔ طرح طرح کی گاڑیوں، بسوں، ٹیکسیوں، رکشوں، کاروں کی وجہ سے خالو جان کو کم رفتار سے کار چلانی پڑ رہی تھی۔ جگہ جگہ چوراہوں پر گاڑیوں کو روکنے کے لیے سرخ، زرد اور سبز بتیوں کے اشارے بھی نصب تھے۔
”بچو، ہمارا شہر کراچی، سمندر کے کنارے واقع ہے، اس لیے ساحل کے ساتھ ساتھ کئی تفریح گاہیں بن گئی ہیں۔“خالو جان کار چلاتے ہوئے کہ رہے تھے۔”ان میں منوڑہ، ہاکس بے، سینڈ زپٹ، پیراڈائز پوائنٹ، گڈانی وغیرہ شامل ہیں لیکن ہم آپ کو کلفٹن لے جا رہے ہیں، جو شہر سے سب سے زیادہ قریب ہے۔ چونکہ کلفٹن جانے کے لیے بسیں آسانی سے مل جاتی ہیں اور تھوڑے سے کرائے کے بدلے کم وقت میں کلفٹن پہنچا دیتی ہیں، اس لیے کراچی کے شہریوں کی بڑی تعداد اس تفریح گاہ کا رخ کرتی ہے۔“
تھوڑی دیر میں خالو جان نے کار ایک مقام پر لے جا کر ایک احاطے میں داخل کر دی۔ یہاں کاریں کھڑی کرنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ سب لوگ کار سے اترآئے۔ خالو جان بولے:
”یہ ہے بھئی کلفٹن!“
”لیکن خالو جان، یہاں تو بھیڑ بھاڑ ہے، ادھر جھولے وغیرہ نظر آ رہے ہیں۔ سمندر کہاں ہے؟“سلمان نے مایوسی سے کہا۔
”سمندر بہت قریب ہے بیٹے، آپ کو اس کی مخصوص ٹھنڈی ہوا محسوس نہیں ہو رہی؟“ خالو جان نے پوچھا پھر کہنے لگے: ”دراصل ہم نے سوچا کہ آپ کو کلفٹن بالکل شروع سے دکھا ئیں۔ آئیے آگے چلتے ہیں۔“
کچھ آگے چلنے کے بعد ایک طویل پختہ راستہ نظر آیا جس کی دونوں طرف دیوار بھی تھی۔ اس راستے کا ایک بڑا دروازہ بھی تھا۔
”یہ راستہ جہانگیر کوٹھاری پریڈ کہلاتا ہے۔ آئیں اس راستے سے چلتے ہیں۔“
جیسے ہی بچے آگے بڑھے اور اس پختہ راستے پر بنے دروازے سے اندر داخل ہوئے، انہیں دُور سمندر کا نیلا پانی چمکتا ہوا نظر آیا۔ سلمان اور عثمان خوشی سے شیخ اٹھے۔
”وہ رہا۔۔۔ سمندر، وہی ہے نا؟“
”بالکل، یہی سمندر ہے، بحیرہ عرب جو پاکستان کی جنوبی سمت واقع ہے۔ کسی زمانے میں سمندر کی لہریں اس جگہ تک آتی تھیں جہاں جہانگیر کوٹھاری پریڈ ختم ہوتا ہے۔ اب سمندر خاصا پیچھے چلا گیا ہے، لیکن اس جگہ کی زمین دیکھیے، چمکیلی ساحلی ریت ہر جگہ بکھری ہوئی نظر آتی ہے۔“ خالو جان نے کہا۔
دھیرے دھیرے چلتے ہوئے سب لوگ ساحل سمندر تک پہنچ گئے۔ ساحل پر ایک پختہ دیوار تعمیر کر دی گئی ہے۔ اس دیوار کی دوسری طرف سیڑھیاں تھیں۔ ان سیڑھیوں سے اتر کر سب ساحل پر پہنچ گئے۔
”کلفٹن کے سوا کراچی کی جتنی ساحلی تفریح گاہیں ہیں، وہاں ساحلی زمین دُور تک ہموار نہیں ہے، ذرا آگے بڑھیں تو زمین تیزی سے نشیب میں چلتی جاتی ہے، سمندر گہرا ہو جاتا ہے، وہاں موجیں بھی بہت تیزی سے آتی ہیں اس لیے وہ مقامات خطرناک ہیں۔ بہت سے جوشیلے نوجوان تیز موجوں میں ڈوب چکے ہیں۔ ویسے یہاں کلفٹن پر بھی اسی قسم کے واقعات ہو چکے ہیں، اس لیے موجوں میں آگے جانے سے گریز کرنا چاہیے۔“ خالو جان نے بتایا۔
سلمان اور عثمان سمندر کو دیکھ کر بہت پر جوش ہو رہے تھے۔ سمندر کی تیز موجیں اُوپر اٹھتی ہوئی آتیں اور ساحل پر کچھ دور تک آتے آتے اُن کا زور ٹوٹ جاتا پھر وہ تیزی سے واپس لوٹ جاتیں۔ کبھی کبھی ان موجوں کے واپس لوٹنے کے دوران میں ہی، موجوں کا دوسرا ریلا آ جاتا۔ بہت سے لوگ جوتے اتار کر ساحل پر کھڑے آنے والی موجوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ خالو جان، اُن کے بچوں، سلیمان احمد صاحب اور اُن کے بچوں نے بھی جوتے اتار لیے۔ سلمان اور عثمان کے لیے یہ بالکل انوکھا تجربہ تھا۔ سمندر کی تیز لہریں آتیں اور ان کے پیروں سے جیسے لپٹتی ہوئی آگے نکل جاتیں، پھر وہی موجیں چند لمحوں بعد واپس اُن کے پیروں کو چھوتی ہوئی جاتیں تو ایسا لگتا کہ پیروں کے نیچے سے ریت ہٹنے کی وجہ سے ہلکی ہلکی گد گدی سی ہو رہی ہے۔ بہت سے لوگ اونٹوں کی سواری کر رہے تھے۔ کچھ لوگ گھوڑے دوڑا رہے تھے۔
”خالو جان، دریا بھی بہت بڑا ہوتا ہے مگر اُس کی موجیں اس طرح نہیں آتیں۔“ عثمان نے پوچھا۔
”بیٹے، ساحلی ہوا کا بھی اس میں دخل ہے۔ ویسے آپ نے شمالی علاقوں مثلاً سوات کے دریا بھی دیکھے ہوں گے۔ اُن کا بہاؤ کتنا تیز ہوتا ہے۔ بہرحال یہ سمندر ہے۔ دریاؤں کا پانی اس میں آ کر گرتا ہے۔ یہ سب اللہ کی بے پناہ قدرت ہے۔ اُس کی عظمت کی نشانیاں ہیں۔ دریا کا پانی میٹھا ہوتا ہے اور سمندر کا سخت نمکین، لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ اللہ نے سمندر میں کسی جگہ ایسا انتظام بھی کر دیا ہے کہ نمکین اور میٹھے پانی کی لہریں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں اور وہ آپس میں ملتی بھی نہیں۔“ خالو جان نے وضاحت کی۔
”اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں بڑی حکمتیں ہیں۔ اب یہی دیکھو کہ دنیا کے مختلف ممالک بحری راستوں کے ذریعے سے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ قدیم زمانے سے انسان ان بحری راستوں کے ذریعے سے تجارت کر رہا ہے۔ اللہ ہی نے انسانوں کو یہ عقل عطا کی کہ وہ کشتیاں بنائے اور پانی میں ان کشتیوں کے ذریعے سے سفر کرے۔ پھر انسان نے ہوا کی اہمیت کو محسوس کر کے بادبان والی کشتیاں بنائیں، پھر لانچیں اور بھاپ سے چلنے والے جہاز بنائے، پھر جدید بحری جہاز بنائے۔ یہ بھی اللہ کی قدرت ہے کہ ذراسی سوئی پانی میں ڈوب جاتی ہے لیکن ٹنوں وزنی بحری جہاز آرام سے تیرتا رہتا ہے۔ اللہ ہی نے پانی کو بعض اصولوں کا پابند کر دیا ہے جس کے نتیجے میں انسان پانی پر سفر کرتا ہے اور اس سے بہت سے کام لیتا ہے۔“ سلیمان احمد صاحب نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
”ابو جان، اللہ تعالیٰ نے سمندر میں مخلوقات بھی تو بہت پیدا فرمائی ہیں۔“ انورسعید نے کہا۔
”بہت زیادہ، زمین پر موجود مخلوقات سے بھی زیادہ۔ سورۃ رحمن میں اللہ نے اپنی نعمتوں کا ذکر فرماتے ہوئے یاد دلایا ہے کہ ان سمندروں سے موتی اور مونگے بھی نکلتے ہیں۔“سلمان کے خالو جان بولے۔”آپ یہ دیکھیں کہ سمندر سے کتنی طرح طرح کی سیپیا ں، کوڑیاں، گھونگھے نکلتے ہیں۔ یہ سب سمندری مخلوقات کے گھر ہیں۔ کسی کسی سیپی سے موتی نکل آتا ہے جو بہت قیمتی ہوتا ہے۔ ابھی یہاں ساحل پر بھی آپ کو کچھ سیپیاں وغیرہ نظر آئیں گی، لیکن کراچی کے بعض ساحلوں پر جہاں پانی پتھروں میں آ کر ٹھہرتا ہے، وہاں تو طرح طرح کی سیپیاں، کوڑیاں وغیرہ مل جاتی ہیں۔ ہمارے بچے کئی مرتبہ سمیٹ کر لا چکے ہیں۔ ان سیپیوں، کوڑیوں اور گھونگھوں کے خول کو دیکھیں۔ اس قدر خوب صورت نقش و نگار ان پر ہوتے ہیں اور ان کے رنگ اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ بے اختیارزبان سے سبحان اللہ نکلتا ہے۔“
”ابو جان، جہانگیر کوٹھاری پریڈ کے قریب، سیپیوں، کوڑیوں وغیرہ سے بنی ہوئی چیزیں بھی تو فروخت ہوتی ہیں۔“ انور نے یاد دلایا۔
”ہاں، ابھی واپس اسی طرف چلتے ہیں تو آپ لوگوں کو دکھائیں گے۔“
سب واپس اسی جگہ پہنچے جہاں خالو جان نے کار کھڑی کی تھی۔ وہاں طرح طرح کی دکا نیں تھیں جہاں سیپیوں اور کوڑیوں وغیرہ سے بے شمار گلدان، سنگھار دان، چابیوں کے چھلے اور آرائشی اشیاء فروخت ہو رہی تھیں۔ عثمان کو گھونگھوں سے بنی ہوئی ایک تسبیح بہت پسند آئی۔ اس نے فوراً خرید لی۔ سلیمان صاحب نے بھی چند اشیاء بطور یادگار خرید لیں۔
”یہاں طرح طرح کے مشینی جھولے، رولر کوسٹر وغیرہ ہیں۔ آئیے آپ کو ان میں تفریح کروائیں۔“خالو جان نے کہا۔
سب جھولوں کی طرف گئے۔ عجیب عجیب قسم کے مشینی جھولے تھے۔سلمان اور عثمان کے لیے بالکل نئے۔ کچھ جھولوں میں بیٹھوتو وہ اتنی تیزی سے اور ایسے زاویوں پر حرکت کرتے تھے کہ بہت سے لوگوں کی چیخیں نکل جاتی تھیں۔سلمان اور عثمان کو ڈر تو لگا لیکن لطف بھی آیا۔
اب مغرب کا وقت ہو رہا تھا۔ سب نے مسجد میں جا کر نماز مغرب اداکی۔ نماز کے بعد خالو جان کہنے لگے:
”بچو، اب واپس چلیں۔!“
سب نے تائید کی۔ ذرا دیر بعد سب گاڑی میں بیٹھے گھر جا رہے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top