مرغزار
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
ویگن کی رفتار کم ہوئی اور وہ منگورہ کے بس اڈے میں داخل ہو گئی۔
سلمان اور عثمان اپنے ابو سلیمان احمد کے ساتھ ویگن سے اترے۔ منزل پر خیرت سے پہنچنے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ ابھی یہ لوگ ادھر اُدھر دیکھ ہی رہے تھے کہ سلیمان احمد صاحب کے گہرے دوست فضل جان صاحب ”السلام علیکم“ کہتے ہوئے، سلیمان احمد صاحب سے لپٹ گئے۔ دونوں بڑی گرم جوشی سے گلے ملے۔ دونوں بچوں نے بھی فضل جان صاحب کو سلام کیا۔ فضل جان صاحب نے دونوں کو باری باری گلے لگایا۔ پھر وہ سب کو بس اڈے سے باہر لے گئے جہاں اُن کی جیپ کھڑی تھی۔ سب لوگ اُس جیپ میں بیٹھ کر فضل جان صاحب کے گھر پہنچے۔ یہ لوگ فضل جان صاحب کی دعوت پر یہاں آئے تھے۔
گھر میں فضل جان کے بچوں عمر جان اور خضر جان نے سلمان، عثمان اور ان کے ابو کا استقبال کیا۔ سلام کے تبادلے کے ساتھ گلے ملے۔ اندر عمر جان اور خضر جان کی والدہ اور بہن عائشہ بھی تھیں۔ سب نے مہمانوں کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا۔
”ہم تو پہلے نماز عصر ادا کریں گے۔“ سلیمان احمد صاحب نے کہا۔ فضل جان صاحب نے فورا ًغسل خانہ کھلوا دیا۔ سلیمان صاحب اور ان کے بچوں نے وضو کیا۔ سب نے نماز عصر ادا کی۔ سلیمان صاحب اور ان کے بچے چونکہ سفر کی حالت میں تھے اس لیے انھوں نے قصر نماز پڑھی یعنی چار رکعتوں کی بجائے دو رکعتیں پڑھیں۔ فضل جان صاحب اور ان کے بچے نماز پہلے ہی پڑھ چکے تھے۔ نماز کے بعد، چائے آ گئی۔ کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں، پھر مغرب کا وقت ہو گیا تو سب نے محلے کی مسجد میں نماز مغرب باجماعت ادا کی۔ سلیمان احمد صاحب نے کہا:
”سفر کر کے ہم تو تھک گئے ہیں۔ ہم نے کھانا بھی ہلکا پھلکا کھایا تھا۔ یوں کریں کہ آپ عشاء سے پہلے کھانا کھلا دیں۔ عشاء پڑھ کر ہم سو جائیں گے، پھر کل ان شاء اللہ گھوم پھر لیں گے۔“ سلیمان صاحب نے کہا۔
کچھ دیر بعد دستر خوان بچھا کر کھانا چن دیا گیا۔ سب نے کھانا کھایا۔ نماز عشاء محلے کی مسجد میں ادا کی۔ تھوڑی دیر بعد سلمان، عثمان اور ان کے ابوبے خبر سو گئے۔
فضل جان صاحب نے فجر کی اذان ہوتے ہی سب کو بیدار کر دیا۔ سب نے وضو کر کے نماز فجر ادا کی۔ واپس آکر فضل جان صاحب نے چائے منگوالی۔ بھاپ اڑاتی چائے صبح صبح بڑی خوشگوار لگ رہی تھی۔ فضل جان صاحب نے پوچھا:
”آج کہاں کی سیر کا ارادہ ہے؟“
”فضل چاچا، آج کالام چلتے ہیں۔“ سلمان نے کہا تو فضل جان صاحب بولے:
”بیٹے، کالام ان شاء اللہ ہفتے کے روز چلیں گے۔ آج تو جمعرات ہے۔ہم ہفتے کو کالام جا کر اتوار کو واپس آئیں گے۔ اس طرح مجھے آسانی رہے گی اورعمر اور خضر کو بھی۔ آج یوں کرتے ہیں کہ مرغزار چلتے ہیں۔“
ناشتے سے فارغ ہو کر سلمان اور عثمان اپنے ابو کے ساتھ جیپ میں جا بیٹھے۔ عمر جان بھی آ گیا۔ خضر کو کوئی کام تھا اس لیے وہ ساتھ نہیں گیا۔ فضل جان صاحب نے ڈرائیور کی نشست سنبھال لی۔ سب نے سواری کی دعا پڑھی اور جیپ روانہ ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد جیپ سیدو شریف کے قریب دریائے سیدو کی مخالف سمت میں ایک پتلی پختہ سڑک پر دوڑنے لگی۔
”مرغزار، سیدو شریف سے تیرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔“ فضل جان صاحب نے بتایا۔سڑک کے ساتھ ساتھ باغات نظر آ رہے تھے۔ سلیمان نے پوچھا:”یہ کون سے درخت ہیں؟“
”بیٹے، یہ سیب، اخروٹ اور ناشپاتی کے باغات ہیں۔“ فضل جان صاحب نے بتایا۔ پھر وہ بولے۔”یہ جو دائیں طرف پہاڑی سلسلہ ہے،یہ وادی سیدو کو یو ڈی گرام سے الگ کرتا ہے۔“
کچھ دیر میں یہ لوگ کلی گرام گاؤں کے پاس سے گزرے۔ فضل جان صاحب نے بتایا کہ دائیں طرف پہاڑی کے اوپر ایک تاریخی محل ہے، جواب کھنڈر بن چکا ہے۔ پہاڑی کی دوسری طرف یو ڈی گرام میں بھی پرانے زمانے کے آثار ہیں، جو اُس زمانے سے تعلق رکھتے ہیں جب یہاں بدھ مت کو ماننے والوں کی کثرت تھی۔ جیپ ذرا آگے پہنچی تو سڑک کی بائیں طرف ایک سڑک جاتی نظر آئی فضل جان صاحب کہنے لگے:
”اس سڑک پر آگے جائیں تو وہاں گاؤں اسلام پورہ ہے۔ وہاں بڑے ہنرمند کاریگر رہتے ہیں۔ وہ کر گھے پر کپڑا لکھتے ہیں۔“
”فضل چاچا، کرگھا کیا ہوتا ہے؟“ سلمان نے پوچھا۔
”بیٹے، کھڈی یعنی ہاتھ سے کپڑا بننے کی مشین کو کر گھا کہتے ہیں۔ یہ لوگ ہاتھ سے بن کر شالیں اور کمبل بناتے ہیں جو پورے پاکستان میں بلکہ پاکستان سے باہر بھی پسندکیے جاتے ہیں۔“
جیپ جوں جوں آگے بڑھتی جا رہی تھی، وادی کا پھیلاؤ کم ہوتا جا رہا تھا۔ آخر یہ لوگ مرغزار پہنچ گئے۔ بہت حسین جگہ تھی۔ ہر طرف ہریالی تھی۔ خوب صورت پھول کھلے ہوئے تھے۔ سلمان اور عثمان کو محسوس ہوا کہ وہ ایک بے حد پرسکون جگہ پر آ گئے ہیں۔
”مرغزار کا پرانا نام تو مینہ تھا۔“ فضل جان صاحب کہ رہے تھے۔”ریاست سوات کے پہلے حکمراں، میاں گل عبدالودود نے اسے ترقی دی اور اسے مرغزار بنا دیا۔ لوگ انھیں ”بادشاہ صاحب“ کہتے ہیں۔ انھوں نے یہاں ایک تاریخی محل بنانے کا فیصلہ کیا اور انیس سو پینتیس (1935 ء) میں اس محل کی بنیاد ’موتی محل‘ کے نام سے رکھی۔ انیس سو اکتالیس (1941ء) میں یہ شاندار محل بن کر تیار ہو گیا جو بعد میں سفید محل کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اگر چہ اب یہ محل، ہوٹل میں تبدیل ہو چکا ہے اور اس کا نام ’ہوٹل گرین مرغزار‘ ہے لیکن اب بھی یہ ’سفید محل‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ہم اس سفید محل کے سامنے پہنچنے والے ہیں۔“
سلمان اور عثمان نے چونک کر سامنے دیکھا۔ سنگ مرمر سے بنی ہوئی ایک بہت خوب صورت اور باوقار عمارت اُن کی نگاہوں کے سامنے تھی۔ محل کے حسین باغ میں ماربل کی کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ خوب صورت پھولوں کی کیاریاں بہت اچھی لگ رہی تھیں۔ حوض میں شفاف پانی چمک رہا تھا۔
سب لوگ ٹہلتے ہوئے دُور تک نکل گئے۔ فضل جان صاحب سفید محل کے قریب بہنے والی ندی پر بنے لکڑی کے پل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے:
”وہاں سے ایک راستہ ندی کے ساتھ ساتھ ایک پہاڑی گاؤں ایلم کی طرف جاتا ہے۔ یہ مسلسل چڑھائی ہے اور پیدل ہی جاسکتے ہیں۔ ایلم کا پہاڑ، جس کے دامن میں مرغزار واقع ہے، تقریباً دس ہزار فٹ بلند ہے۔ اسی علاقے میں کئی گاؤں ہیں مثلاً جو گیا نوسر، ایام کلے، جوز، کڈونہ، جو براوغیرہ۔ وہاں جوار کی روٹی کے ساتھ تازہ لسی اورساگ کھایا جاتا ہے۔ بہت لذیذ ہوتا ہے۔“
”فضل چاچا، یہاں کون سے جانور پائے جاتے ہیں؟“ عثمان نے پوچھا۔
”ایلم کے علاقے میں اعلیٰ نسل کے چکور، مرغ زریں، بھیڑیں اور بکریاں پائی جاتی ہیں۔ ریچھ بھی خاصے ہیں جو خصوصاً اکتوبر کے مہینے میں مرغزار کے نشیبی علاقوں میں اتر آتے ہیں اور گنے کی فصلوں میں گھس جاتے ہیں۔“فضل جان صاحب نے بتایا۔
”شکر ہے، ابھی جون کا مہینہ چل رہا ہے؟“ سلمان نے ڈر کر کہا تو فضل جان صاحب اور عمر جان ہنس پڑے۔ عمر نے کہا:”یہ ریچھ انسانوں پر حملہ نہیں کرتے۔“
”ایلم گاؤں کے قریب میں نظر ڈالیں تو آپ کو درختوں میں آگ سی لگی نظر آئے گی مگر یہ آگ نہیں، یہ مخصوص درخت ہیں جن کو پشتو زبان میں ’نمیر‘ کہتے ہیں۔“فضل جان صاحب نے کہا۔
”فضل چاچا، یہاں شہد بھی ملتا ہو گا؟“ عثمان نے سوال کیا۔
”ہاں کیوں نہیں، خالص شہد ملتا ہے۔ گنا اور گندم یہاں کی خاص پیداوار ہے۔ معدنیات بہت ہیں۔ سنگ مر مر بھی ہے، تانبا اور ابرق بھی ہے۔۔۔ اب میرا خیال ہے واپس چلیں، ہم پیدل چلتے ہوئے خاصی دور نکل آئے ہیں۔ آئیں آپ کو سفید محل میں چائے پلائیں، پھر کچھ گھوم پھر کر واپس چلیں گے۔“
تھوڑی دیر بعد سب لوگ سفید محل میں داخل ہورہے تھے۔