جیب والا جانور
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
”صبح ناشتے کے لیے انڈے منگوانے ہیں، آپ کے پاس کھلے پیسے ہوں تو دے دیجیے۔“بیگم سلمان نے کہا۔
سلمان صاحب، کمرے میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے، انھوں نے چونک کر کہا:
”ہاں، ہاں، میرے پاس پیسے ہیں۔“ پھر انھوں نے اپنی قمیص کی جیب سے پیسے نکال کر بیٹے کو آواز دی:
”ریحان، بیٹے، یہ پیسے لے لو اور انڈے لے آؤ۔“
ریحان نے آکر پیسے لیے اور چلا گیا، اُسی وقت ننھے فرخ نے اپنی تو تلی زبان میں معصومیت سے کہا:
”ماموں دان! آپ تے تپڑوں میں ایک دیب ہے، میری تمیز میں دو دیبیں ہیں۔“ (ماموں جان آپ کے کپڑوں میں ایک جیب ہے، میری قمیص میں دو جیبیں ہیں۔)
ماموں جان اور ماہ رخ مُسکر ا پڑے۔ ماموں جان نے کہا:
”آپ کو معلوم ہے ماہ رخ، اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا جانور بھی اس دنیا میں پیدا فرمایا ہے، جس کے جسم میں جیب ہوتی ہے۔“
”جیب! اچھا میں سمجھ گئی، آپ کنگرو کی بات کر رہے ہیں نا، جس کے پیٹ میں تھیلی سی لگی ہوتی ہے، مگر وہ تو تھیلی ہوتی ہے، جیب تو نہیں۔“
”وہی! جیب کی شکل کی تھیلی ہوتی ہے۔ اچھا تو کنگر و اس جیب میں کیارکھتا ہے، جنگلی پھل وغیر؟“
”مجھے معلوم ہے، ماموں جان، میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا، مادہ کنگر واپنی اس جیب جیسی تھیلی میں اپنے چھوٹے بچوں کو رکھتی ہے۔“
”شاباش، یہ اچھی بات ہے کہ تم مطالعہ کرتی رہتی ہو، جو پڑھتی ہوا سے یاد بھی رکھتی ہو۔“ ماموں جان نے خوش ہو کر کہا۔
”مگر ماموں جان، مجھے کنگرو کے بارے میں اور کچھ بتائیے۔“ ماہ رخ اٹھ کر ماموں جان کے قریب آ بیٹھی۔ ماموں جان نے اخبار تہ کر کے ایک طرف رکھ دیا اور کہنے لگے:
”اچھا تو سنو۔ کنگرو، واحد جانور نہیں ہے جس کے پیٹ میں قدرتی طور پر جیب لگی ہوئی ہے بلکہ اللہ نے اور کئی ایسے جانور پیدا فرمائے ہیں۔ یہ سب آسٹریلیا، تسمانیہ اور نیوگنی میں پائے جاتے ہیں۔ اس خاندان سے تعلق رکھنے والا صرف ایک جانور، او پوسم، جنوبی امریکہ میں ملتا ہے۔“
”ماموں جان، کنگر و اس دنیا میں کب سے موجود ہیں؟“
”بیٹی، کنگرو اس دنیا میں بہت پرانے زمانے سے موجود ہیں۔ تحقیق کرنے والے ماہرین کو ایسے ثبوت اور نشانیاں ملی ہیں، ان سے معلوم ہوا ہے کہ آج سے تقریباً ایک کروڑ پچاس لاکھ سال پہلے بھی کنگر و اس دنیا میں پائے جاتے تھے، البتہ اُس زمانے کے کنگرو، آج کل کے خرگوش کی طرح چھوٹے سے ہوتے تھے لیکن ان کی تمام خصوصیات کنگرو کی ہوتی تھیں۔“
”ماموں جان کنگرو، آسٹریلیا اور نیوگنی کے علاوہ اور کہاں پائے جاتے ہیں؟“
”کنگرو، پورے آسٹریلیا اور نیوگنی میں پائے جاتے ہیں، اس کے علاوہ امریکا کے بعض علاقوں، جرمنی، نیوزی لینڈ اور برطانیہ میں بھی کنگر و پائے جاتے ہیں۔ اچھا یہ بتاؤ، کنگرو کی کتنی قسمیں ہیں؟“
”میرا خیال ہے، ایک ہی قسم کا کنگرو ہر جگہ ملتا ہوگا۔“ ماہ رخ نے سوچ کر کہا۔
”نہیں!“ ماموں جان مسکرائے۔”کنگرو کی تقریباً ساٹھ قسمیں ہیں۔ ماہرین کے مطابق بڑے کنگرو کو ’کنگر‘ کہتے ہیں اور جس کنگرو کی پچھلی ٹانگوں کی لمبائی دس انچ سے کم ہوتی ہے، اسے ’ولابی‘ کہتے ہیں۔ ویسے دو قسم کے کنگرو زیادہ مشہور ہیں۔“
”وہ کون سے ماموں جان؟“ ماہ رخ نے دلچسپی سے پوچھا۔
”سرخ کنگرو اور سرمئی کنگرو۔“ ماموں جان نے بتایا۔”اس قسم کے کنگرو کے جسم کی لمبائی دُم کو چھوڑ کر تقریباً پانچ فٹ ہوتی ہے۔ اس کی دم ہی چارفٹ لمبی ہوتی ہے۔ اچھا تمہیں معلوم ہے کہ کنگر و کتنی لمبی چھلانگ لگا سکتا ہے۔“
”نہیں ماموں جان۔“
”بڑا کنگر و تیس فٹ لمبی چھلانگ لگا سکتا ہے۔ عام طور پر یہ چھے فٹ اونچی چھلانگ لگاتا ہے لیکن کبھی کبھی نوفٹ بلند چھلانگ بھی لگا لیتا ہے۔ کنگرو کے دوڑنے کی رفتار، انسان کی رفتار سے تیز ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ آٹھ میل فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑنا ہے لیکن خطرہ محسوس کرنے پر یہ پچیس میل فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے، اچھا اب ذرا پانی پلاؤ، پھر میں تمہیں بتاؤں گا کہ کنگر و کھاتے کیا ہیں۔“
ماہ رخ اُٹھی، اُس نے پانی لا کر ماموں جان کو ادب سے پیش کیا۔ ماموں جان نے بسم اللہ پڑھ کر تین سانسوں میں پانی پیا اور الحمد للہ کہتے ہوئے بولے:
”مختلف اقسام کے کنگر و مختلف چیزیں کھاتے ہیں، لیکن عام طور پر یہ پتے، پھل اور کھمبیاں کھاتے ہیں۔ کھُمبیاں سمجھتی ہونا؟ چھتری کی شکل کے پودے ہوتے ہیں۔ کچھ کنگر و سخت گھاس اور کیڑے مکوڑے بھی کھاتے ہیں۔ تیس قسم کے کنگرو ایسے ہیں جو پیٹ بھرنے کے بعد، گائے بھینسوں کی طرح باقاعدہ جگالی کرتے ہیں۔“
”ماموں جان، کنگرو تو ہمیشہ اچھلتے ہوئے چلتے ہیں، ان کا سانس نہیں پھول جاتا؟“
”بیٹی، اللہ تعالیٰ نے کنگرو کا جسم ایسا بنایا ہے کہ ایک تو اچھلنے کی وجہ سے جو جھٹکے اور دھچکے لگتے ہیں، ان کا کنگرو کے جسم پر کوئی اثر نہیں پڑتا، دوسرے یہ کہ کنگرو اپنی رفتار بڑھانے کے لیے چھلانگیں لگانا شروع کر دیتا ہے اس لیے اس کا سانس نہیں پھولتا۔ ہم جب دوڑتے ہیں تو ہمیں زیادہ آکسیجن کی ضرورت پڑتی ہے، اسے حاصل کرنے کے لیے ہم تیز تیز سانس لینے لگتے ہیں۔“
”ماموں جان، کنگر و آپس میں مل جل کر رہتے ہیں۔“
”مل کر تو رہتے ہیں مگر کبھی لڑائی بھی ہو جاتی ہے، ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ کنگر و آپس میں کشتی بھی لڑتے ہیں، اس کشتی میں یہ انسانوں کی طرح داؤ پیچ استعمال کرتے ہیں، کشتی کے باقاعدہ راؤنڈ ہوتے ہیں جن کے درمیان میں آرام کا وقفہ دیا جاتا ہے۔“
”بہت دلچسپ اب اور کچھ بتائیے ماموں جان۔“
”ایک اور عجیب بات سنو۔ کنگر و کا بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اتنا چھوٹا ہوتا ہے جیسے کسی مونگ پھلی کا دانہ، یعنی ایک انچ کے بھی تین چوتھائی حصے کے برابر۔ اس کا وزن صرف دس گرام ہوتا ہے۔ اس وقت اس کی نہ آنکھیں ہوتی ہیں، نہ کان، نہ پچھلی ٹانگیں۔ ہاں اس کی سونگھنے کی صلاحیت اچھی ہوتی ہے، یہ خود رینگتا ہوا، اپنی ماں کے پیٹ میں بنی ہوئی تھیلی میں پہنچ جاتا ہے، وہیں ماں کا دودھ پیتا ہے اور پانچ سے نو ماہ تک وہیں رہتا ہے۔“
”اس کے بعد ماموں جان؟“
”آٹھ ماہ بعد اسی دس گرام وزنی بچے کا وزن تقریباً ساڑھے چار کلوگرام ہو جاتا ہے، پھر یہ ماں کے پیٹ میں بنی تھیلی سے باہر نکل آتا ہے لیکن مزید بارہ سے اٹھارہ ماہ تک ماں کے ساتھ رہتا ہے اور ماں کا دودھ پیتا ہے۔“
”ماموں جان، کنگرور ہتے کہاں ہیں؟“
مختلف قسم کے کنگر و مختلف جگہوں پر رہتے ہیں۔ کچھ کنگرو ’چٹانی کنگرو‘ کہلاتے ہیں جو چٹانوں کی دراڑوں میں رہتے ہیں۔ کچھ کنگر و ’ٹری کنگرو‘ یعنی درخت پسند کنگر و کہلاتے ہیں جو درختوں پر رہتے ہیں۔ اچھا بھئی اب رات خاصی ہو گئی ہے۔ صبح فجر کی نماز کے لیے اٹھنا ہے، اب جا کر سو جاؤ۔“
”ماموں جان، آپ کا بے حد شکریہ، آپ نے اتنی ساری کام کی باتیں بتائیں، اب تو میں کنگرو پر ایک مضمون لکھ سکتی ہوں۔“ ماہ رخ خوش ہو کر بولی اور ماموں جان اُٹھ کر سونے کے لیے چلے گئے۔