سچی قربانی
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
سیاہ اور سفید رنگ کے بکرے نے گردن گھما کر حنیف کی طرف دیکھا اورزور سے بولا:
”میں۔۔۔ میں!“
بکرے کے ساتھ کھڑے ہوئے بچے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ حنیف ان بچوں کو جانتا تھا وہ اس کے گھر سے دو گلیاں چھوڑ کر رہتے تھے۔ ان میں سے جس نے بکرے کے گلے میں بندھی ہوئی رسی تھام رکھی تھی، اس کا نام محمود تھا۔ اس کے ساتھ اس کا بھائی مسعود تھا جس نے اپنے ہاتھ میں گھاس کا گٹھا پکڑ رکھا تھا۔ پڑوس کے دو تین بچے بھی تفریح کی غرض سے ساتھ آگئے تھے۔
حنیف کو بکرا بڑا اچھا لگا۔ اسے معلوم تھا کہ ایک ہفتے بعد عید الاضحی ہے۔ اس نے بکرے کی نرم ملائم اور چمک دار بالوں سے بھری پشت پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور پوچھنے لگا:
”کتنے میں لائے؟“
”آٹھ ہزار کا ہے، سمجھو سستا مل گیا۔ ابھی تو دام اور چڑھیں گے۔“ محمود نے فخر سے کہا۔
”آٹھ ہزار؟ ہمارے پڑوس والے تو پانچ ہزار میں بکری لائے ہیں۔“ حنیف نے بتایا۔
”وہ؟ صدیقی صاحب کی بکری؟ وہ تو ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے، پانچ ہزار میں اور کیا ملے گا۔“ مسعود نے تبصرہ کیا۔
”اور کیا، وہ تو بکری ہے اور یہ بکرا؟۔۔۔ بکرا بھی دیکھو کیسا تگڑا ہے۔“محمود نے بھی شان سے کہا۔ پھر اس نے سب بچوں کو ڈانٹ پلائی۔
”چلو، اب کیا شام تک یہیں کھڑے رہو گے؟“
”وہ سب بکرے کو دوڑاتے ہوئے بھاگتے چلے گئے اور حنیف نے دکھ کے ساتھ سوچا:
”میرے ابو تو کبھی بکر الاتے ہی نہیں۔ آج میں ان سے کہوں گا کہ ہمارے لیے بھی بکر الا ئیں۔“
وہ گھر کی طرف چل دیا۔ راستے میں کئی بچے، بکروں کی رسیاں تھامے ٹہلتے ہوئے نظر آئے۔ دو تین گھروں کے باہر گائیں بھی بندھی ہوئی تھیں۔ کوئی گائے کو چارہ دے رہا تھا، کوئی گائے کے گلے میں گھنٹیاں باندھ رہا تھا تو کوئی صفائی کرنے میں مصروف تھا۔
٭……٭……٭
حنیف گھر میں داخل ہوا تو اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ اس نے بڑی ہلکی سی آواز میں سلام کیا۔ اس کی امی سلام کا جواب دے کر بولیں:
”تمہیں کیا ہوا، کسی سے لڑائی ہوگئی؟“
”جی جی نہیں!“
”پھر اتنا اداس منہ کیوں بنا رکھا ہے؟“
”امی۔۔۔ سب لوگ گائیں اور بکرے لے کر آ رہے ہیں۔“ حنیف نے جھجکتے ہوئے کہا۔
”ہاں بیٹے، عید الاضحی قریب ہے۔ پڑوس کے جاوید صاحب بھی بکرا لے آئے۔“
”اچھا؟ جاوید چاچا بکرا لے آئے؟ کیسا ہے، کتنے کا ہے؟“
”مجھے کیا معلوم؟ کوئی میں پوچھنے گئی، مجھے تو پڑوس والی خالہ نے بتایا کہ جاوید صاحب بکر الائے ہیں۔“
”امی، ابو ہمارے لیے بکرا کیوں نہیں لائے؟“
”بیٹے! آپ کو معلوم ہے، بکرا مہنگا ملتا ہے، اصل مقصد تو قربانی ہے، ہم گائے میں دو حصے لے لیتے ہیں۔“
”مگر مجھے بکرا چاہیے!“ حنیف نے مچل کر کہا۔
”بیٹے، آپ ضد شروع کر دیتے ہیں، اچھا آپ منہ ہاتھ دھو لیں، کھانا کھالیں، میں آپ کے ابو سے پوچھوں گی۔“
حنیف اسی طرح منہ بنائے ہوئے، منہ ہاتھ دھونے چلا گیا۔
رات میں حنیف کی امی نے حنیف کے ابو سے بات کی اور انہیں حنیف کی خواہش کے بارے میں بتایا۔ حنیف کے ابوسعید احمد، بات سن کر کچھ دیر کے بعد سوچ میں پڑ گئے، پھر انہوں نے عزم کے ساتھ کہا:
”ٹھیک ہے، ان شاء اللہ اس بار ہم ایک بکرے کی قربانی کریں گے اورایک حصہ گائے میں لے لیں گے۔“
”مگر۔۔۔ بکرا تو مہنگا ملے گا۔۔۔ اتنے پیسے؟“ حنیف کی امی نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
”ہو جائے گا انتظام تم فکر نہ کرو، ان شاء اللہ مجھے دفتر سے کچھ واجبات مل جائیں گے۔ کچھ رقم عرصے سے دفتر نے ادا نہیں کی ہے، میں دفتر والوں سے بات کروں گا۔“
٭……٭……٭
دو دن بعد حنیف کے ابو، حنیف کے ماموں اور حنیف کو لے کر بکروں کی منڈی گئے، جب وہ واپس آئے تو حنیف کے ہاتھ میں ایک عدد سیاہ وسفید بکرے کی رسی تھی اور حنیف کا چہرہ خوشی کے مارے کھلا جا رہا تھا۔
اب تو حنیف صاحب ہوتے یا محلے کے بچے اور حنیف کا بکرا۔ سب مل کر بکرے کا خیال رکھتے، اس کی خدمت کرتے۔ کوئی اسے چارہ کھلانے کی کوشش کرتا تو کوئی پیٹھ سہلاتا، کوئی بکرے کے گلے میں رنگ برنگے موتیوں کاہار باندھ رہا ہوتا۔ حنیف صاحب بات بات پر بگڑ رہے ہوتے اور دوستوں پر حکم چلا رہے ہوتے۔
”ارے بھئی، بکرے کے لیے صاف پانی لے کر آؤ۔“
”پھر! بکرے نے مینگنیاں کر دی ہیں، صفائی کرو۔“
”بکرے کو چارہ اب اور زیادہ مت دینا!“
”بکرے کی ایک ٹانگ میں دو کڑے کس نے پہنائے؟؟“
حنیف کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ رات میں بکرے کو بھی اپنے ساتھ ہی بستر پر سلائے یا کمرے کے قریب ہی بستر ڈال کر سو جائے۔
شام ہوتی تو بکرے صاحب کو جھاڑ پونچھ کر تیار کیا جا تا اور حنیف صاحب اپنے بکرے کی رسی تھامے، محلے کے بچوں کے ساتھ باہر ٹہلنے نکل جاتے۔
عید الاضحی کی آمد میں ابھی تین دن باقی تھے۔ ایک شام کو حنیف اپنے دوستوں کے ساتھ بکرے کی رسی تھامے، محلے میں گھومنے نکلا تو چند گلیاں چھوڑ کر ایک بڑے مکان کے سامنے شامیانہ لگا دیکھا۔ وہاں مجمع لگا ہوا تھا۔ قریب جانے پر پتا چلا کہ سیٹھ فیض محمد نے کوئی بہت مہنگا بکرا خریدا ہے، لوگ اسے دیکھنے کے لیے دور دور سے آ رہے ہیں۔
حنیف نے اپنے بکرے کی رسی ایک دوست مسعود کو تھمائی اور مجمع میں گھس گیا۔ مجمع کے بیچ ایک بڑی چار پائی رکھی ہوئی تھی اور اس پر ایک بھاری بھر کم بکرا آرام سے بیٹھا جگالی کر رہا تھا۔ اس کے سامنے تھال میں کشمش، بادام، پستے، خوبانیاں وغیرہ رکھی ہوئی تھیں۔ سیٹھ صاحب کے دو تین ملازم بکرے کا جسم سہلا رہے تھے۔ بجلی سے چلنے والا ایک پنکھا بھی قریب رکھا ہوا تھا، جس کا رُخ بکرے کی جانب تھا۔
حنیف کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اتنا بڑا بکرا اس نے زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا۔ اس نے سیٹھ صاحب کے ایک ملازم سے پوچھا:
”کتنے کا ہے یہ بکرا؟“
”کیوں؟ تم خریدو گے؟ اسی ہزار کا ہے، اسی ہزار کا۔۔۔!“ ملازم نے شان سے کہا۔
”اسی ہزار؟“ حنیف نے حیران ہو کر سوچا۔ اس کا بکرا تو صرف چار ہزار روپے کا تھا۔ وہ بھیڑ میں سے راستہ بناتا ہوا باہر نکلا تو اس کا منہ بنا ہوا تھا۔ اس نے مسعود کے ہاتھ سے بکرے کی رسی لی اور چپ چاپ گھر چلا گیا۔ اس کے دوست اسے حیرت سے دیکھتے رہ گئے۔
حنیف نے گھر میں داخل ہو کر بکرے کی رسی کو کھونٹے سے باندھ دیا اور سر جھکا کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ حنیف کی امی نے اسے دیکھتے ہی کہا: ”اللہ خیر! اب کیا ہو گیا؟“
”کچھ نہیں امی۔“ حنیف نے سر جھکائے جھکائے کہا۔
”پھر سر جھکا کر کیوں بیٹھے ہو، بکرے کو ٹہلا نے نہیں لے گئے؟“
”گیا تھا!“
”اتنی جلدی واپس کیسے آگئے؟“
”وہ۔۔۔ سیٹھ فیض محمد بھی بکرالے آئے ہیں۔“
”تو اس میں انوکھی بات کیا ہے؟“
”وہ بکرا بادام، پستے اور کشمش کھاتا ہے۔۔۔ اتنا بڑا سا ہے۔“ حنیف نے دونوں بازو پورے کھول کر بکرے کا سائز بتایا۔ ”اور۔۔۔۔ اسی ہزار کاہے۔۔۔“
”اچھا میں سمجھ گئی۔ بیٹے، عید الاضحی کے موقع پر جانور کی قربانی اس لیے کی جاتی ہے کہ ہم اللہ کے پیارے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس سنت کو یاد کریں، جب وہ اللہ کے حکم پر اپنے پیارے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو قربان کرنے لگے تھے۔ اللہ نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی جگہ ایک مینڈھا بھیج دیا اور اللہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ قربانی اتنی پسند آئی کہ اس نے تمام مسلمانوں کے لیے عید الاضحی کے موقع پر یہ قربانی واجب قرار دے دی۔“
”امی، یہ باتیں مجھے معلوم ہیں، اسلامیات کے استاد نے ہمیں بتائی تھیں۔“
”بیٹے پھر حیرت ہے کہ تم قربانی کا اصل مقصد سمجھ نہ سکے۔ اللہ تعالیٰ تو نیت کو دیکھتا ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ الحج میں فرمایا گیا ہے:
’اللہ تعالیٰ کو ان جانوروں کا گوشت اور خون ہر گز نہیں پہنچتا بلکہ اس کوتمہاری جانب سے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘(الحج۔37)
اس لیے بیٹے، اہمیت اس بات کی نہیں کہ کتنا مہنگا جانور خریدا بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ کتنے خلوص اور تقویٰ کے ساتھ خریدا۔ اب تم دیکھو کہ ہمارے گھر میں مجھ پراور تمہارے ابو پر قربانی فرض ہے۔ حکم یہ ہے کہ جس شخص کے پاس اس کی بنیادی ضرورتوں سے زائد اتنا مال ہو کہ اس پر زکوٰۃ عائد ہو جاتی ہے، اس کے لیے قربانی کرنا بھی واجب ہے۔ اس لیے ہم ہر سال گائے میں دو حصے لیتے تھے۔ اب تم نے ضد کی کہ بکرا چاہیے تو تمہارے ابو نے کسی نہ کسی طرح ایک بکرا خرید لیا اور ایک حصہ گائے میں لے لیا۔ اُدھر سیٹھ فیض محمد کے گھر میں دس بارہ افراد تو رہتے ہوں گے؟“
”ہاں، اتنے تو ہوں گے۔!“ حنیف نے کہا۔
”ان میں سے سات آٹھ پر قربانی واجب ہوگی لیکن مجھے معلوم ہے کہ سیٹھ صاحب، اسی ہزار کے ایک بکرے کی قربانی دے کر مطمئن ہو جائیں گے، ان کے گھر میں کبھی آٹھ بکروں کی یا گائے کی قربانی نہیں ہوئی، گائے میں تو پھر بھی سات حصے نکل آتے ہیں، اس طرح سات افراد کی طرف سے قربانی ہوسکتی ہے۔“
”ہاں یہ تو ہے۔“ حنیف نے اتفاق کیا۔
”پھر، اس میں نمود و نمائش اور دکھاوا بھی آ جاتا ہے۔ سیٹھ صاحب نے مہنگا بکرا خریدا، خوب دھوم مچ گئی۔ اخبار میں تصویریں، خبریں آ گئیں، سیٹھ صاحب کا نام ہو گیا۔ یہ قربانی تو نہ ہوئی؟“
”میں سمجھ گیا امی، ہمیں اللہ نے جتنا دیا ہے، ہم اسی میں سے قربانی کرتے ہیں۔“
”شاباش، چلو اب بکرے کو ذرا ٹہلا کر لے آؤ۔“
حنیف چھلانگ لگا کر اٹھا اور بکرے کی رسی کنڈے سے کھول کر اسے لیے ہوئے باہر چلا گیا۔
٭……٭……٭
عیدالاضحی کی نماز سے واپسی پر حنیف نے دیکھا کہ کئی گلیوں میں قصائی گائیں ذبح کر رہے ہیں، کچھ گلیوں میں بکرے ذبح ہو بھی چکے تھے، کئی مقامات پر گایوں کے پیروں میں رسیاں باندھ کر انہیں گرایا جا رہا تھا اور محلے کے بچے گھیرا باندھے کھڑے ہوئے تھے۔ گھر پہنچ کر حنیف نے امی اور خاندان کے دوسرے بڑوں کو سلام کیا، عید کی مبارکباد دی۔ آج حنیف کا دل بہت اداس تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے اپنے بکرے سے بہت محبت ہو گئی تھی۔ اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ اس بکرے کی قربانی ہو۔ وہ سوچ رہا تھا، کاش ابو گائے میں دو حصے لے لیتے اور اس بکرے کی قربانی نہ ہوتی!
تھوڑی دیر بعد حنیف کے دونوں ماموں بھی چلے آئے۔ ایک کے ہاتھ میں ٹوکری تھی، جس میں چھریاں لکڑی کا کندہ وغیرہ رکھا ہوا تھا۔ دونوں کو بکرا ذبح کرنے میں مہارت حاصل تھی۔ ہر عید الاضحی پر محلے کے کئی گھروں میں بکرا ذبح کر کے اس کی بوٹیاں بنانے کی خدمات انجام دیتے تھے۔ حنیف اپنے دونوں ماموؤں کو دیکھ کر اور اداس ہو گیا۔ اس نے بڑی دھیمی سی آواز میں انہیں سلام کیا اور عید کی مبارکباد دی۔
ذرا دیر بعد، حنیف کے ابو، دعاؤں کی کتاب لے کر آگئے۔ حنیف کے ایک ماموں، ابراہیم نے بکرے کے گلے سے ہار وغیرہ اتارنے شروع کر دیے۔ حنیف کے دوسرے ماموں اسمٰعیل بیٹھ کر چھریاں تیز کرنے لگے۔
حنیف سے یہ منظر دیکھا نہ گیا، وہ تیزی سے اٹھ کر اندرونی کمرے میں چلا گیا اور اپنے بستر پر لیٹ کر منہ ہاتھوں میں چھپائے سسکیاں بھرنے لگا۔ چند منٹ بعد حنیف کے ابو نے، حنیف کے کندھے کو تھپتھپایا اور بولے:
”بیٹے تم نے تو کمال کر دیا۔ کیا تم اللہ تعالیٰ کو خوش نہیں کرنا چاہتے؟“
”جی؟“ حنیف ایک دم اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔
”ہاں! ہم قربانی اسی لیے تو کرتے ہیں کہ اللہ ہم سے خوش ہو، راضی ہو۔ ہمیں اپنے پیسے سے محبت ہوتی ہے، ہم اس کو خرچ کر کے جانور خریدتے ہیں۔ پھر اس جانور سے ہمیں محبت ہو جاتی ہے، ہم اللہ کے حکم پر، اس جانور کو بھی اللہ کا نام پڑھ کر قربان کر دیتے ہیں۔ اس طرح ہم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اللہ کے حکم پر ہم اپنی عزیز ترین چیز حتیٰ کہ اپنی جان بھی قربان کر دیں گے۔“
”جی!“ حنیف اب ذرا سنبھل کر بیٹھ گیا تھا۔
”اور بیٹے، تمہارا نام تو حنیف ہے۔ جانتے ہو، اس کا مطلب کیا ہے؟ حنیف کا مطلب ہے یک سو یعنی صرف ایک جانب ہونے والا۔ یہ لقب اللہ نے اپنے پیغمبر اور پیارے نبی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیا، یعنی وہ ہر طرف سے کٹ کر ایک اللہ کے ہو گئے تھے۔ قربانی کرنے سے پہلے جو دعا پڑھنے کی ہدایت دی گئی ہے، اس میں بھی تمہارا نام آتا ہے، دیکھو یہ کیا لکھا ہے۔“
حنیف کے ابو نے دعاؤں کی کتاب حنیف کے آگے رکھ دی۔ لکھا تھا:
جانور کو ذبح کرنے سے پہلے یہ دعا پڑھیں:
إِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا وَّ مَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، إِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذَالِکَ أُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْن،َ الْلّٰہُمَّ لَکَ وَمِنْکَ۔
اس کا ترجمہ پڑھو۔ میں تمہیں سناتا ہوں:
’میں نے ہر طرف سے یک سو ہو کر اپنا رخ ٹھیک اس ذات کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت، سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اس کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلم اور فرماں بردار ہوں۔ اے اللہ یہ تیرے حضور پیش ہے اور تیرا ہی دیا ہوا ہے۔“
”ابو!“ حنیف نے مضبوط آواز میں کہا۔ ”میں بالکل سمجھ گیا۔ اللہ تعالیٰ ہماری نیت دیکھتا ہے۔ میں اب ہمیشہ ہر کام سچی نیت سے کروں گا۔“
حنیف کے ابو نے بڑھ کر حنیف کو گلے لگالیا اور اس کی پیشانی چومنے لگے۔ ذرا دیر بعد حنیف کے ابراہیم ماموں، بکرے کولٹا چکے تھے۔ حنیف کے ابو نے دعا پڑھی اور بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر بکرے کے گلے پر چھری پھیر دی۔
”کیا ہوا حنیف، تم ٹھیک تو ہو؟ غم نہ کرنا، اگلی عید الاضحی پر ان شاء اللہ دو بکرے لا ئیں گے۔“ حنیف کے اسمٰعیل ماموں پوچھ رہے تھے۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں ماموں، میں تو یہ دعا کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس قربانی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔“ حنیف نے پرسکون لہجے میں جواب دیا اور حنیف کی امی اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے، اپنی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسوپونچھنے لگیں۔