جگری دوست
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
شرافت علی صاحب نے نئی آبادی میں، مکان کی تعمیر کے لیے زمین خریدی تو جس نے سنا، اس نے برا سا منہ بنایا۔ کسی نے کہا: ”بھئی شرافت صاحب، کہاں جنگل میں زمین خرید لی!“کوئی بولا:”روزانہ آپ کو تین چار گھنٹے تو شہر آنے جانے میں خرچ ہو جائیں گے۔“ کسی نے ہمدردی ظاہر کی:”ایسے ویرانے میں تو جنگلی جانور گھومتے رہتے ہیں۔“ فوراً ہی کوئی اور بول پڑا:”چور اُچکے اور ڈاکو بھی تو نئی آبادیوں ہی میں وارداتیں کرتے ہیں۔“
شرافت علی صاحب ہر ایک کی بات سنتے اور ہنس کر کہتے: ”بھئی دیکھیں شہر میں تو زمین بہت مہنگی ہے، اسی لیے شہر سے باہر زمین ڈھونڈی ہے۔ رہا سوال ویرانے کا، تو بھائی، دس پندرہ سال پہلے، اس شہر کے بہت سے حصے بھی ویران تھے، لیکن اب وہاں اتنی رونق ہے کہ مت پوچھو۔ ہماری نئی آبادی بھی جب ذرا پرانی ہو جائے گی تو ان شاء اللہ وہاں بھی رونق ہو جائے گی۔ مجھے اللہ کی ذات پر بھروسا ہے۔ اس سے مانگتا ہوں، اس کا شکر ادا کرتا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو تین چار برسوں میں کسی نہ کسی طرح مکان اس حد تک تعمیر کرواؤں گا کہ رہنے کے قابل ہوجائے گا۔“
ایک دن شرافت علی صاحب اپنے بھائی کے ساتھ نئی آبادی میں اپنی زمین کا جائزہ لینے گئے۔ آبادی خاصی بڑی تھی۔ دور دور اکا دُکا مکانات بنے ہوئے تھے۔ کچھ تلاش کے بعد شرافت علی صاحب اپنا پلاٹ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کا پلاٹ، کونے والے پلاٹ کے برابر والا تھا۔ کونے والے پلاٹ پر ایک مکان بنا ہوا تھا۔ شرافت علی صاحب کو معلوم تھا کہ آبادی کے اس حصے کے تمام مکانات کا رقبہ برابر تھا، انہیں محسوس ہوا کہ کونے والا مکان، آبادی کے دیگر مکانوں کے مقابلے میں خاصا بڑا ہے۔ شرافت علی صاحب نے جب پلاٹ کی پیمائش کی تو انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ کونے والے پڑوسی نے ان کے پلاٹ کے بھی کچھ حصے پر قبضہ کر رکھا تھا۔ شرافت علی صاحب کے بھائی کرامت علی نے مشورہ دیا کہ مکان کے مالک سے مل کر اسے توجہ دلائی جائے۔ شرافت صاحب مان گئے۔ انہوں نے کونے والے مکان کے دروازے پر دستک دے دی۔
بڑی بڑی مونچھوں والے ایک شخص نے دروازہ کھولا۔ اس کے گلے میں ریشمی رومال پڑا ہوا تھا۔ وہ اپنے حلیے ہی سے کوئی اچھا آدمی نہیں لگ رہا تھا۔ اس وقت وہ ایک تنکے کی مدد سے اپنے دانتوں میں خلال کر رہا تھا۔
”السلام علیکم، میرا نام شرافت علی ہے۔“ شرافت صاحب نے اپناتعارف کروایا۔”اور یہ میرے بھائی ہیں، کرامت علی۔“
”ہونہہ، تو پھر؟“ اس آدمی نے سلام کا جواب دیے بغیر کہا۔
”ہم آپ کے پڑوسی ہیں، مطلب یہ کہ ہم آپ کے پڑوسی ہوں گے،ان شاء اللہ، جب ہمارا مکان یہاں بن جائے گا۔“
”اچھا، مکان بن جائے گا، پھر کیا ہوگا؟ اس آدمی نے بدتمیزی سے کہا۔
”ان شاء اللہ آپ ہمیں اچھا پڑوسی پائیں گے۔ ہم تو اس وقت یہ کہنے آئے تھے کہ ابھی ہم نے اپنے پلاٹ کی پیمائش کی تو پتا چلا کہ شاید غلطی سے آپ نے ہمارے پلاٹ کا کچھ حصہ اپنے پلاٹ میں شامل کر لیا ہے۔“
”غلطی؟ اور وہ بھی گاما سے؟ ناممکن!‘‘اس شخص نے دانت صاف کرنے والے تنکے کو توڑ مروڑ کر پھینکتے ہوئے کہا: ”صوفی صاحب! ہماری پیمائش بالکل ٹھیک ہے۔ آپ کا فیتہ غلط ہے۔ اب آپ جائیں، اس پلاٹ پر مکان بنائیں، ایسا نہ ہو کہ کوئی اور سارے پلاٹ ہی پر قبضہ کر لے۔“اتنا کہتے ہی وہ شخص دھڑسے دروازہ بند کر کے اندر چلا گیا۔
شرافت علی صاحب حیران کھڑے رہ گئے۔ ان کے بھائی نے کہا: ”لگتاہے، تھانہ کچہری کرنی پڑے گی۔“
”نہیں، نہیں!“ شرافت صاحب چونک کر بولے۔”تھانے یا کچہری جانے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا، اب واپس چلتے ہیں۔“
شرافت صاحب نے کچھ دن بعد اپنے مکان کا نقشہ منظور کروایا اور تعمیر کا سارا کام ایک ٹھیکے دار کو سونپ دیا۔ وہ ہر دوسرے تیسرے دن نئی آبادی جا کر تعمیری کام کا جائزہ لے لیا کرتے۔
مکان کی تعمیر کا کام چل رہا تھا کہ ایک دن مزدوروں نے اطلاع دی کہ ان کے پلاٹ پر زیر زمین ٹنکی بنا کر جو پانی ذخیرہ کیا گیا تھا، اسے پڑوس والے گاما نے پمپ کے مدد سے کھینچ لیا ہے۔ کئی مزدور غصے میں تھے۔ ایک مزدور نے کہا:”صوفی جی!آپ حکم کر دیں، میں اس گامے کو دیکھ لوں گا۔“ شرافت صاحب نے مزدوروں کو سمجھایا کہ بھئی فساد اچھا نہیں ہو گا، آپ لوگ تحمل سے کام لیں۔ انہوں نے شہر جا کر پانی کا ٹینکر بھیجوا دیا جو ان کو بہت مہنگا پڑا۔
کچھ دنوں بعد مزدوروں نے بتایا کہ سیمنٹ کی دس بوریوں میں سے آٹھ بوریاں غائب ہیں۔ ایک مزدور نے گواہی دی کہ گاما کے نوکر راتوں رات، سیمنٹ کی بوریاں چوری کر کے لے گئے ہیں۔ چند مزدوروں نے شرافت صاحب سے کہا:
”صوفی جی، شرافت کا زمانہ نہیں ہے، تھانے میں پرچا کٹواؤ، نہیں تو ہمیں حکم کرو، ہم گامے کے نوکروں کو ٹھیک کر دیں۔“
شرافت صاحب نے مزدوروں کو نرمی سے منع کر دیا اور خود گاما کے گھر چلے گئے۔ دستک دینے پر گاما ہی باہر نکلا۔ شرافت صاحب نے سلام کے بعد اس کی خیریت دریافت کی، پھر کہنے لگے:
”ہمارے پاس تو تعمیر کا کام چل ہی رہا ہے۔ اگر آپ کے گھر میں بھی کوئی مرمت وغیرہ کا کام ہو تو بتا ئیں۔ ہمارے پاس سیمنٹ اور دوسرا سامان بہت ہے، اور مزدور بھی ہیں۔“
”نہیں جی، مجھے آپ نے کوئی منگتا سمجھ رکھا ہے جو میں مانگ مانگ کر اپنے گھر کی مرمت کرواؤں گا۔“ گاما نے بدتمیزی سے کہا اور دھڑ سے دروازہ بند کر لیا۔
کچھ عرصے بعد مزدوروں نے اطلاع دی کہ مکان میں بجلی کے کام کے لیے جو تار خریدا گیا تھا، اس کے کچھ بنڈل غائب ہیں۔ تین مزدوروں نے یقین سے کہا کہ یہ کام گاما کے نوکروں کا ہے۔ غرض روز کوئی نہ کوئی واردات ہونے لگی۔ شرافت صاحب کو گاما نے جب بھی کوئی نقصان پہنچایا، شرافت صاحب اس کے لیے ہمیشہ خصوصی دعا کرتے۔
کچھ دنوں بعد شرافت صاحب کے گھر کی چھت پڑنی تھی۔ اس دن مزدور مٹھائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ شرافت صاحب نے شہر سے مٹھائی خریدی۔ مزدوروں نے چھت ڈال دی تو شرافت صاحب نے مزدوروں میں مٹھائی تقسیم کی اور اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کیا۔ پھر انہوں نے محلے والوں کو مٹھائی بانٹی۔ اس کے بعد مٹھائی کا ایک ڈبا لے کر گاما کے گھر چلے گئے۔ دستک دینے پر گاما آنکھیں ملتا ہوا باہر نکلا۔ شرافت صاحب نے معذرت کی: ”ارے بھئی، مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ سورہے ہیں۔، معاف کیجیے، آپ کو تکلیف ہوئی۔ آج الحمد للہ ہمارے مکان کی چھت ڈالی گئی ہے۔ اس خوشی میں یہ مٹھائی آپ کے لیے ہے۔“ شرافت صاحب نے مٹھائی کا ڈبہ گاما کی طرف بڑھا دیا۔
گاما کی نیند سے بند بند آنکھیں،کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس نے شرافت صاحب کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور کچھ کہے بغیر، مٹھائی کا ڈبہ لے کر اپنے گھر میں چلا گیا۔ دروازہ بند کرتے ہوئے اس نے شرافت صاحب کو ایک بار دیکھاضرور تھا۔ اس کی نگاہوں میں حیرانی تھی۔
چند روز بعد شرافت صاحب نئی آبادی گئے تو مزدوروں نے بہت خوش ہو کر بتایا کہ گاما ہسپتال میں ہے۔ شرافت صاحب نے گھبرا کر پوچھا:”کیا ہوا اسے؟“ ایک مزدور نے کہا: ”وہ جی، گاما شہر گیا تھا، وہاں اس نے رس ملائی کھائی، وہ شاید خراب تھی، اس سے گاما کی حالت خراب ہو گئی، الٹیاں ہونے لگیں، اب وہ ہسپتال میں ہے۔“
شرافت صاحب نے مزدور سے ہسپتال کا نام پوچھا اور اسی وقت شہر روانہ ہو گئے۔ ہسپتال پہنچ کر خاصی مشکل سے انہیں معلوم ہو سکا کہ گاما کس وارڈ میں ہے۔ انہوں نے وارڈ میں قدم رکھا۔ کونے والے بستر کے برابر والا بستر گاما کا تھا۔ وہ آنکھیں بند کیے لیٹا، لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں ڈرپ کی نلکی لگی ہوئی تھی۔
شرافت صاحب نے گاما کی پیشانی پر دھیرے سے ہاتھ رکھا اور بولے:”گاما……!“ گاما نے آنکھیں کھول دیں۔ شرافت صاحب کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ اس کی آنکھوں سے صاف ظاہر تھا کہ وہ شرمندگی محسوس کر رہا ہے۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر شرافت صاحب نے اسے نرمی سے روک دیا اور راستے میں خریدے ہوئے پھل اس کے سرہانے رکھ دیے۔
”گاما، کیا حال ہے؟“ شرافت صاحب نے محبت سے پوچھا۔
”ٹھیک ہوں۔“ گاما نے کمزورسی آواز میں کہا۔ یہ آواز پہلے والے گاما کی تو نہ تھی، وہ تو اونچی اور کرخت آواز میں بات کیا کرتا تھا۔ پھر گاما نے شرافت صاحب کی کلائی اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑ لی۔ وہ کہہ رہا تھا:
”صوفی صاحب! آپ کو کس نے کہا کہ میرے ساتھ نیکی کرو؟“
شرافت صاحب مسکرائے اور بولے: ”اللہ نے!“
گاما نے انہیں حیرت سے دیکھا تو شرافت صاحب بولے:
”قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے رفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی دشمنی تھی، وہ تمہارا جگری دوست بن گیا ہے۔“ (حم السجدہ)
”جگری دوست؟“ گاما بڑبڑایا۔ اس نے شرافت صاحب کی کلائی کواور بھی مضبوطی سے پکڑ لیا۔ وہ کہہ رہا تھا:
”شرافت صاحب! آپ نے میری برائیوں کو اپنی نیکیوں سے دفع کرکے مجھے اپنا جگری دوست بنالیا ہے۔“
شرافت صاحب کی آنکھوں میں شکر کے آنسو چمک رہے تھے۔