انا سیول(Anna Sewell)
محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔
اناسیویل 30 مارچ 1820کو برطانیہ کے قصبے نورفولک کے ایک علاقے گریٹ یارموتھ میں کوئکر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ایک عیسائی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کا نام اسحاق فلپ سیول (1793-1879) تھا اور ان کی والدہ کانام میری رائٹ سیول (1798-1884) تھا، جو بچوں کی کتابوں کی ایک معروف اورکامیاب مصنفہ تھیں۔ سیول کا ایک ہی چھوٹابھائی تھا جس کا نام فلپ تھا۔ اسکول کی تعلیم کے لیے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ان کی ماں نے اپنے دونوں بچوں کو زیادہ تر گھر ہی میں پڑھایا۔
1822 میں،ان کے والد اسحاق کا کاروبار،جو ایک چھوٹی سی دکان کی صورت میں تھا، ناکام ہو گیا اور خاندان ڈالسٹن، لندن چلا گیا۔ یہ ان کے خاندان کے لیے زندگی کے مشکل ترین دن تھے،یہی وجہ تھی کہ ان کے والدین(اسحاق اور میری)اکثر فلپ اور انا سیول کو میری کے والدین یعنی ان کے ننھیال، جو بکسٹن، نورفولک میں واقع تھا،رہنے کے لیے بھیجاکرتے تھے۔
1832 میں، جب انا بارہ سال کی تھیں، ان کاخاندان سٹوک نیونگٹن چلا گیا اور سیول نے وہاں پہلی بار اسکول میں داخلہ لیا۔ چودہ سال کی عمر میں، سیول پھسل گئیں اور انکا ٹخنہ شدید زخمی ہوگیا۔ ساری زندگی وہ بغیر بیساکھی کے کھڑی ہو سکتی تھیں اور نہ ہی تھوڑی دیر سے زیادہ چل سکتی تھیں۔نقل و حرکت کے لیے، وہ اکثر گھوڑا گاڑیوں کا استعمال کرتی تھیں، جس کی وجہ سے ان کی گھوڑوں سے محبت اور جانوروں کے ساتھ انسانی سلوک کے حوالے سے ان کی فکر میں اضافہ ہوا۔
1836 میں، سیول کے والد نے اس امید پر برائٹن میں ملازمت اختیار کی کہ شایدوہاں کا ماحول ان کے حالات بہتر کرنے میں سازگار ثابت ہو۔ تقریباً یہی وقت تھا،جب سیول اور ان کی والدہ دونوں نے چرچ آف انگلینڈ میں شامل ہونے کے لیے سوسائٹی آف فرینڈز کو خیرباد کہا۔ ان کی والدہ نے بچوں میں اپنے مذہبی عقائد کی ترویج کے لیے کتابوں کا ایک سلسلہ بھی تصنیف کیا، جس میں سیول نے ترمیم و تصحیح کرنے میں ان کی مدد کی۔
1845 میں،ان کا خاندان لانسنگ منتقل ہوگیا، اور سیول کی صحت خراب ہونے لگی۔ انہوں نے اگلے سال علاج کے لیے یورپ کا سفر کیا۔ خاندان کی منتقلی جاری رہی۔پہلے 1858 میں ’ایبسن نیئر وِک‘ اور 1864 میں ’باتھ‘ چلے گئے۔
1866 میں، فلپ کی بیوی کا انتقال ہو گیا، اور وہ سات چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال اس کے لیے چھوڑ گئی،یہی وجہ تھی کہ اگلے ہی سال سیول خاندان،ان کی مدد کے لیے ’اولڈ کیٹن‘ نامی گاؤں میں منتقل ہوگئے جو نورفولک ہی میں واقع تھا۔
اولڈ کیٹن میں رہتے ہوئے، سیول نے 1871 اور 1877 کے درمیانی عرصے میں اپنے مشہور ناول’بلیک بیوٹی‘ کا مسودہ لکھا۔ اس دوران ان کی صحت تیزی سے گر رہی تھی، کئی بار تو وہ اس قدر کمزور پڑ جاتی تھیں کہ بستر سے لگ کر رہ جاتی تھیں۔بہر حال لکھنا ایک چیلنج تھا۔ انہوں نے یہ متن اپنی والدہ کو املا کروایا اور 1876 سے کاغذ کی پرچیوں پر لکھوانا شروع کیا جسے ان کی والدہ نے بعد میں دوبارہ نقل کیا۔
اس کتاب کو غیر انسانی یعنی ایک جانور (جو گھوڑا ہے)کے نقطہ نظر سے لکھے جانے والے ابتدائی انگریزی ناولوں میں شمار کیاگیا ہے۔ اگرچہ یہ بچوں کا کلاسک سمجھا جاتا ہے، مگر سیول نے اصل میں یہ ان لوگوں کے لیے لکھا تھا جو گھوڑوں کے ساتھ کام کرتے تھے۔ اس نے کہا کہ ”اس کا ایک خاص مقصد گھوڑوں کے ساتھ اپنے رویے میں رحم دلی، ہمدردی اور سمجھ بوجھ پیدا کرنا تھا“ اس کتاب کو گھوڑوں کے پالنے، عمدہ انتظام اور انسانی تربیت کے طریقوں جیسے بہت سے معاملات میں رہنما کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر،اس ناول میں بیان کیے گئے گھوڑوں کو اذیت دینے والے طریقوں میں سے ایک سخت لگام کا استعمال ہے جس کا ذکر نمایاں طور پر کیا گیا ہے۔
سیول نے یہ ناول، نارویچ کے پبلشر ’جارولڈز‘ کو24 نومبر 1877 کو اس وقت فروخت کیا، جب وہ 57 سال کی تھیں۔ اسی سال کتاب شائع ہوگئی۔
ان کے واحد ناول ’بلیک بیوٹی‘ کی اشاعت کے بعد سیول شدید بیمار ہو گئیں۔ وہ انتہائی تکلیف میں تھیں اور اگلے چندمہینوں میں مکمل طور پر بستر سے لگ گئی تھیں، یہاں تک کہ بلیک بیوٹی کی اشاعت کے صرف پانچ ماہ بعد ہیپا ٹائٹس یا تپ دق کے باعث 25 اپریل 1878کو 58 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔
انا سیول کا یہ ناول ان کا واحد مطبوعہ کام ہے جو ان کی پہچان بن گیا۔