اتفاق میں برکت ہے
سندھی کہانی: اکبر جسکانی
اردو ترجمہ: پیر نوید شاہ
۔۔۔۔۔
اس مرتبہ گاؤں پہنچا تو سب بچے جاویدؔ کی اوطاق(بیٹھک) کے سامنے جمع تھے۔ معصوم جاویدؔ تقریر کر رہا تھا۔ بچوں کو ہجوم کی صورت میں اکٹھا دیکھ کے میں بڑا خوش ہوا۔ گھر کی جانب جاتے ہوئے جاویدؔ کے الفاظ سنتا گیا۔ وہ بول رہا تھا:
”پیارے بھائیو! عید قریب قریب ہے لہٰذا ہم نے کوشش کر کے غریب اور نادار بچوں کے لیے نئے کپڑے سلوائے ہیں، جو آج تقسیم کیے جا رہے ہیں۔“
میں کافی آگے نکل چکا تھا،لیکن وقتاً فوقتاً تالیوں کی گونج سن رہا تھا۔ گھر پہنچا تو اماں سے ملنے کے بعد کچھ دیر تھکاوٹ اتارنے کی غرض سے کمرے میں جا کے چارپائی پر لیٹ گیا۔ ماضی کی کچھ جھلکیاں سامنے نظر آنے لگیں۔
آج وہی محلہ ہے،جہاں بچے چاؤ کے ساتھ علم حاصل کر رہے ہیں،لیکن ماضی میں جب کوئی بچہ پڑھنے جاتا تھا تو دیگر بچے اسے ٹوکتے اور بڑی مخالفت کیا کرتے تھے۔ آج بچوں میں ایسا شعور آ چکا ہے کہ مِل جُل کر اپنے مسائل حل کر رہے ہیں۔ ننھا جاویدؔ کس قدر معصوم اور بھولا ہے۔ ایک مرتبہ میرے پاس پہنچا تو خوش ہو کے بتانے لگا:
”ادا! ہم نے بچوں کے لیے ایک تنظیم قائم کی ہے، جس کا مقصد غریب بچوں کی امداد کرنا اور جو والدین اپنے بچوں کو پڑھاتے نہیں، انھیں آمادہ کرنا ہے کہ اپنے بچوں کو پڑھائیں اور جو بچے سکول جانے سے کتراتے ہیں یا پڑھتے نہیں، انھیں علم کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہے۔ اگر کوئی ہماری باتوں سے اتفاق نہیں کرتا تو ہم سب اس کا سوشل بائیکاٹ کرتے ہیں اور آئندہ کوئی بھی ایسے بچے سے تعلق نہیں رکھتا، کھیل کود میں اسے شامل نہیں کیا جاتا، جس سے وہ مجبور ہو جاتا ہے اور ہمارے پاس آ کے کہتا ہے کہ بھائیو! میں نے تو بہ کی، اب سکول جاؤں گا۔“
”ادا! تب ہم اس بچے کو سکول میں داخلہ دلواتے ہیں۔ وہ اگر مفلس گھرانے سے ہے تو اسے کتابیں بھی فراہم کرتے ہیں۔ شام کے وقت ہم سب بچے بیٹھک میں جمع ہوتے ہیں، کھیل کود پاس والے گراؤنڈ میں کرتے ہیں۔ رات کو بیٹھک ہی میں مطالعہ کرتے ہیں۔ ہم سب بچوں نے اپنی جیب سے بچت کر کے شہر کے بینک میں اپنے اکاؤنٹس بھی کھلوائے ہیں، جوتنظیم کے اخراجات پورے کرنے میں مدد دیتے ہیں، جب کہ مزید معاونت کے لیے ہم مخیر حضرات اور ملازمت پیشہ افراد سے ملتے ہیں۔“
”ادا! آپ سے بھی ممکن مالی امداد کی اپیل ہے، ہماری معاونت کیجیے تاکہ یہ تعمیری مشن خوش اسلوبی سے پورا ہو سکے۔“
جاوید ؔ کی لمبی چوڑی تمہید کے بعد سے میں نے تنظیم کے لیے ہر ماہ تنخواہ سے دو ہزار روپے دینے کا آغاز کیا۔میری معاونت پا کے جاوید بہت خوش ہوا اور کہنے لگا:
”ادا! عید قریب تر ہے۔ عید پر کئی بچے پرانے کپڑے زیب تن کرتے ہیں، لیکن اس مرتبہ ہم نے انھیں نئے کپڑے فراہم کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ادا! غریب بھی تو انسان ہیں، ان کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے، جذبات و احساسات ہوتے ہیں۔ عید کے دن امیروں کے بچے خوش ہوں اور غریبوں کے ناخوش، تو بات کچھ بنتی نہیں۔“
میں بڑا خوش ہوا کہ ہمارے بچے یہ تعمیری خیالات رکھتے ہیں وگرنہ ہمارے بچپن میں تو گاؤں میں صورت حال مختلف تھی۔ سب کے مابین فاصلے تھے۔ بلاشبہ اتفاق میں برکت ہے۔ بڑوں نے درست کہا ہے کہ ایک اور ایک گیارہ۔ ننھے جاویدؔ نے جو کہا وہ کر کے دکھایا۔ کاش وطنِ عزیز کے تمام بچے جاوید ؔ بن جائیں تو دھرتی پر کوئی بچہ ناخوش نہ رہے۔
٭٭٭