مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
اگر آپ سے کوئی کہے کہ اقبال شاعر نہیں تھے تو آپ کا کیا ردِ عمل ہوگا؟
ارے ارے ٹھیک ہے، میں سمجھ گیا، میرا بھی بالکل ایسا ہی ردِ عمل تھا۔ میں نے بھی اپنے دوست کی طرف جتنی حیرت سے دیکھ سکتا تھا دیکھا اور تیز آواز میں پوچھا: ’’اگر شاعر نہیں تھے تو پھر کیا تھے؟‘‘اگلے ہی لمحے اس نے علامہ اقبال کا ایک شعر سنا کر میری حیرانی میں مزید اضافہ کردیا اور کہا کہ :’’ دیکھ لو، یہ بات میں نہیں کہہ رہا بلکہ علامہ اقبال خود کہہ رہے ہیں۔‘‘اس سے پہلے کہ میں اپنی دوچند ہوتی حیرت کا اظہار کرتا، سر فہد ہمارے ساتھ آکر بیٹھ گئے، وہ شاید ہماری باتیں سن رہے تھے۔ ’’سر، علی کہہ رہا ہے کہ علامہ اقبال شاعر نہیں تھے؟‘‘میں نے سر فہد کو بھی حیران کرنا چاہا۔ جواب میں سر نے لمبی سی’’ہوں‘‘ کی اور مسکراتے ہوئے علامہ اقبال کا شعر سنایا ، جو پہلے علی بھی سنا چکا تھا۔
’’مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ میخانہ‘‘
ابھی میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ سر گویا ہوئے:’’ دیکھو! ہر دور میں بڑے انسان پیدا ہوئے ہیں ،جوانسانیت اور اس کے مسائل کو جانتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں ،اس دور کے انسان کو بھی اس کے مسائل سے خبر دار کریں، جو وہ خود دیکھ اور سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے کوئی مصوری کرتا ہے توکوئی تقریر،کوئی ڈراما لکھتا ہے توکوئی ناول ، کہانی اور نظم کو اظہار کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔ علامہ اقبال بڑے آدمی ہیں، وہ اپنے دور کے انسان اور اس کے مسائل کا فہم رکھتے ہیں۔ انھوں نے انسان کو اس کی تفہیم کی طرف راغب کرنے کے لیے شاعری کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ اس احسن انداز میں اُنھوں نے اپنے مقصد کے لیے نظم کو اختیار کیا کہ آپ اور میں ہی نہیں،آج اردو دنیاانھیں بڑے شاعر کے طور پر جانتی ہے۔
علامہ اقبال کی اپنے بارے میں جو راے بالِ جبریل میں درج ہے۔
’’میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا۔۔۔ فنِّ شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی، ہاں! بعض مقاصدِ خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کے لیے حالات و روایات کی رُو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کرلیا ہے۔