اللہ میاں!
کاوش صدیقی
’’ تو پھر کب ملنے کا پروگرام ہے؟‘‘ تقویم نے تمیم سے پوچھا۔
’’پرسوں اسکول کی چھٹیاں ختم ہورہی ہیں، پھر ملتے ہیں ان شاء اللہ!‘‘ تمیم نے کیا۔
’’اور ہاں، میں تمھیں اپنی نئی کتا بیں بھی دکھاؤں گا جو میں نے اس دوران میں خریدی ہیں۔‘‘ تمیم نے بتایا۔
’’ کون سی کتابیں؟ ‘‘تقویم نے فوراً پوچھا۔
’’کہانیوں کی کتابیں۔ بہت مزے مزے کی کہانیاں ہیں ان میں۔‘‘ تمیم نے کہا۔
’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ مجھے بھی کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے۔‘‘ تقویم نے کہا۔’’ پھر ملتے ہیں ان شاء اللہ!‘‘
’’ ان شاء اللہ!‘‘ تمیم نے بھی جواب دے کر فون بند کر دیا۔
تمیم اور تقویم،دونوں ہم جماعت تھے اور آٹھویں میں ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔ طویل موسم گرما کی چھٹیوں کا جہاں گھومنے پھرنے، کھیلنے ، لمبی تان کر سونے کا اپنا ہی مزہ تھا، وہیں مزے دار کہانیاں پڑھنے کا الگ ہی چسکا تھا۔ تمیم کو نصابی کتابوں کے علاو ہ دیگر کتابیں پڑھنے کا شوق بھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کا ذخیرہ الفاظ اور انداز گفتگو ایسا تھا کہ اس سے باتیں کر کے ذرا بھی بوریت کا احساس نہیں ہوتا تھا۔
کتاب چاہے اردو کی پڑھیں یا انگریزی کی، ان سے نہ صرف معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، بل کہ گفتگو میں بھی اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ معلومات اور ذخیر ہ الفاظ میں روز بروز اضافہ ہوتا ہے، ورنہ اکثر لوگ تو چند منٹ بعد ہی ہر دو چار جملوں کے بعد کہنا شروع کر دیتے ہیں: ’’ہاں بھئی اور سناؤ۔‘‘’’ ہاں بھئی، پھر کیا ہوا۔’’’’ اچھا اور کیا ہوا؟‘‘
اس کا مطلب صر یحاً یہی ہوتا ہے کہ اب بات کرنے کو الفاظ نہیں مل ر ہے، جب کہ تقویم با تیں کرتا تھا تو جی چاہتا تھا کہ وہ بولتا رہے اور سنتے رہیں۔
چھٹیاں ختم ہوتے ہی جیسے گہما گہمی کا آغاز ہو گیا۔تمیم، تقویم، آصف، تو قیر، ارشد، سب آپس میں مل کر بہت خوش ہوئے اور گزری چھٹیوں کی تفصیل ایک دوسرے کو بتانے لگے۔
ارشد نے کہا:
’’میں تو اپنے گاؤں گیا ہوا تھا۔ وہاں ٹیوب ویل کے ٹھنڈے ٹھنڈے پانی میں خوب نہا یا، پھر درختوں کی چھاؤں اور مزے دار آم۔ چھٹیاں گزرنے کا پتاہی نہیں چلا۔ ‘‘
’’صحیح کہتے ہو…‘‘ تو قیر نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔’’ میں نے بھی اس دوران میں کمپیوٹر کلاسز جوائین کر لی تھیں اور تھوڑ ا سا ڈیزائننگ کا کام سیکھا۔‘‘
’’ یہ تو بہت اچھا ہے۔‘‘ تمیم نے کہا۔’’ تمھیں تو نت نئے ڈیزائن بنانے میںخوب مزہ آتا ہوگا۔‘‘
’’بالکل۔‘‘ توقیر نے مسکرا کے کہا۔
’’اور آصف تم نے کیا سیکھا؟ ‘‘تمیم نے پوچھا اور پھر سب ہی آصف کی طرف دیکھنے لگے۔
’’میں نے…‘‘ آصف نے کہا۔ ’’میں نے معارف الحدیث پڑھی اور اپنے پیارے نبی ﷺ کی باتوں کو یاد کیا اور ان پر عمل کرنے کا عہد کیا۔‘‘
اس سے پہلے کہ مزید بات چیت ہوتی، آدھی چھٹی ختم ہونے کی گھنٹی بجنے لگی۔سبھی طالب علم کمر ہ جماعت کی طرف دوڑ پڑے۔
اردو کے استاد صاحب نے بتایا کہ اسکول میں بزم ادب کی کمیٹی بنائی جارہی ہے۔ اس کمیٹی میں جولڑ کے شریک ہونا چا ہیں، وہ اپنے نام لکھوائیں اور بتائیں کہ وہ کس طرح کام کریں گے اور اسکول کے ادار یے، کہانی یا نظم میں کس طرح حصہ لیں گے، پھر ان کے پروگرامز کو تمام طلبہ کے سامنے رکھا جائے گا اور تمام طلبہ کی رائے لی جائے گی۔ جسے طلبہ سب سے زیادہ ووٹ دیں گے وہ بالترتیب صدر اور جنرل سیکرٹری وغیرہ بنے گا۔
’’ سریہ تو الیکشن ہور ہا ہے۔‘‘ تمیم نے کہا۔
’’بالکل۔ ‘‘سر غفران نے کیا۔ اس طرح تم سب کو اپنے اپنے نقطہ نظر کو بیان کرنے کا موقع ملے گا اور لڑکوں کو تمھارے پروگراموں کو سمجھنے میں آسانی ہوگی، پھر وہ ووٹ دیں گے۔‘‘
’’سر!اس سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟‘‘ آصف نے پوچھا۔
اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ جنھیں آپ اپنی رائے سے کوئی عہد ہ دیتے ہیں وہ کیا کام کرتے ہیں۔ اگر وہ اچھا کام کریں گے تو آپ کے فیصلے سے کام آگے بڑھیں گے۔ بین الاضلاعی اسکول مقابلے میں آپ کے اسکول کا نام روشن ہوگا اور اگر آپ نے غلط لوگوں کو چنا تو کام خراب ہوں گے اور آپ کا فیصلہ غلط ثابت ہو گا اور اس کا نقصان مجموعی طور پر پورے اسکول کو ہوگا۔‘‘ سر غفران نے سمجھایا۔
تمیم نے کہا:’’یعنی کہ ہم صحیح فیصلے سے ہی کام کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔‘‘
’’درست سمجھے۔‘‘ سرغفران نے کیا۔’’ تو پھر کون کون اپنے نام لکھوانا چاہتاہے؟‘‘
بزم ادب کے الیکشن میں سب سے زیادہ مصروفیت تمیم کی تھی۔ جو جو امیدوار تھے صدر اور جنرل سیکرٹری کے عہدے کے، وہ سب تمیم سے اپنی تقریر لکھوارہے تھے۔
پھر ایک دن تمیم سے شمیم ملا۔ وہ بھی صدر کے لیے الیکشن میں حصہ لے رہا تھا۔ اس نے تمیم سے کہا:’’ تم بہت اچھی تقریر یں لکھتے ہو، میرے لیے بھی تقریر لکھ دو۔‘‘
’’مگر میں تو دوسرے پینل کے لیے تقر یر لکھ رہا ہوں۔‘‘
’’ تو کیا ہوا؟‘‘ شمیم نے جواب دیا۔’’ تمھیں تو صرف لکھنا ہے، تمھیں خود الیکشن میں حصہ تو نہیں لینا۔‘‘
’’اور کیا! شمیم کے ساتھ کھڑے لڑ کے شمشاد نے کہا، جو جنرل سیکرٹری کے لیے امیدوار تھا۔’’ تمہیں تو بس لکھناہی ہے، ہم کون سا تم سے ووٹ مانگ رہے ہیں؟‘‘
’’اچھا…‘‘ تمیم سوچنے لگا۔ واقعی بات تو درست تھی۔
شمیم نے اسے سو چ میں ڈوبے دیکھ کر کہا:’’ ہم کسی کو بتائیں گے تھوڑی کہ تم نے ہمیں بھی تقر یرلکھ کر دی ہے۔‘‘
’’ اچھا۔ ‘‘تمیم مطمئن ہو گیا۔ اسے بہت خوشی ہورہی تھی کہ وہ دونوں گروپ کے لیے کتنا اہم ہے۔ اس نے ہامی بھر لی۔ شمیم اور شمشاد خوش ہو کر چلے گئے۔ گھر آ کر تمیم نے تقریر تیار کرنا شروع کر دی۔ پہلے اس نے اپنے گروپ کے توقیر کے لیے تقر لکھی، پھر اس نے شمشاد اور شمیم کے لیے تقریرلکھی، پھر دونوں کو پڑھا۔ دونوں ہی میں بہت اچھی باتیں تھیں۔ وہ مطمئن ہو کر سو گیا۔
۔۔۔۔۔
جوں جوں الیکشن کے دن قریب آرہے تھے، مقابلے کا زور اور طلبہ میں شوق اور جذبات بڑھتے جار ہے تھے۔ دونوں فریق اپنے اپنے پروگرام پیش کر رہے تھے اورلڑ کے دونوں کی ہی تقریر یں سن رہے تھے۔
’’یہ لو، مزے دار چاٹ ہے۔‘‘ آصف نے آلو چنے کی چٹ پٹی چاٹ کی پلیٹ تمیم کی طرف بڑھائی۔
’’واہ…‘‘‘تمیم نے جلدی سے ایک چمچ بھرکے منہ میں ڈالا اور پھرفوراً سی سی کرنے لگا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ آصف نے پوچھا۔
’’بہت مرچیں ہیں بھئی۔‘‘ تمیم نے کہا۔
’’ ہاں چٹ پٹی ہے، مجھے تو مزہ آ رہا ہے۔‘‘ تو قیر نے کیا۔
’’ مگر میری زبان میں بہت جلن ہورہی ہے۔‘‘ تمیم نے کہا:’’ میں نہیں کھارہا۔‘‘
’’ جیسے تمھاری مرضی۔‘‘ تو قیر نے کندھے اچکائے۔
’’ لاؤ مجھے دے دو۔‘‘ تقویم نے چنا چاٹ کی پلیٹ تمیم سے لے لی۔
دو تین دن سے تمیم کے منہ میں چھالے ہور ہے تھے۔ زبان پر کوئی چیز رکھی ہی نہیں جارہی تھی۔ نہ گرم چائے، نہ سالن، نہ چنا چاٹ۔ ہر چیز زبان کو لگتی تھی۔
۔۔۔۔۔
شام کوامی نے اس کی زبان دیکھی جو بہت عجیب سی ہورہی تھی۔
’’اے ہے۔ یہ تو چھالوں سے بھری پڑی ہے۔ دیکھو، بیچ میں سے کیسی پھٹی پھٹی ہورہی ہے۔‘‘ وہ پریشان ہو گئیں۔
ابو نے کہا:’’ لگتا ہے، معدے میں گرمی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے زبان میں چھالے نکل آئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ فوراً ڈاکٹر کو دکھا یا جائے۔‘‘
’’جی ابو!‘‘ تمیم نے کہا۔ ’’بہت تکلیف ہورہی ہے۔ مجھ سے تو بولا بھی نہیںجا رہا۔‘‘
’’چلو شام کو چلتے ہیں۔‘‘ ابو نے پیار سے کہا۔
’’یہ لو، دہی کھا لو۔ صبح سے تم نے کچھ نہیں کھایا۔‘‘ آپی نے اسے دہی میں چینی ملا کر دیتے ہوئے کیا۔
مگر نجانے کیسے دانے اور چھالے نکلے تھے زبان میں کہ ذرا سی کھٹی میٹھی چیز بھی جلن کر رہی تھی۔حال آں کہ دہی اور وہ بھی ٹھنڈا اور میٹھادہی تمیم کو بہت پسند تھا۔
شام کو ابوتمیم کو لے کر ڈاکٹر کے پاس گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اچھی طرح معائنہ کر تے ہوئے کہا:
’’لگتا ہے انفیکشن ہو گیا ہے۔ ایک تو اپنے گلاس کے علاوہ کوئی اور گلاس استعمال نہ کرو اور یہ دو الگاؤ۔ ٹھیک ہو جاؤ گے ان شاء اللہ!‘‘
وہ دوالے کر گھر چلے آئے۔
مگر دوا کے باوجود کوئی فرق نہیں پڑا۔ اور زبان کے چھالے بڑھتے ہی رہے۔
اب تو تمیم سے بولا بھی نہیں جار ہا تھا۔
دوسری طرف اسکول میں انتخابات کا دن آرہا تھا، مگر زبان کی تکلیف کی وجہ سے آج تمیم اسکول نہ جاسکا، کیوں کہ اسے بخار بھی تھا۔
شام کو آصف اس سے ملنے آیا۔
’’کیا بات ہے، اسکول کیوں نہیں آئے؟ ‘‘اس نے پوچھا۔
’’یہ دیکھو۔‘‘ تمیم نے اسے زبان دکھائی جو دانوں اور چھالوں سے بھری ہوئی تھی۔’’ یہ ٹھیک نہیں ہورہی، اوپر سے بخار بھی تھا۔‘‘ بڑی مشکل سے تمیم نے بتایا، پھر آہستہ سے پوچھا:
’’الیکشن کا کیا حال ہے؟‘‘
’’ الیکشن پرسوں ہے مگر لڑ کے پریشان ہیں کہ کسے چنیں؟‘‘
’’ مگر کیوں؟‘‘ تمیم نے اشارے سے پوچھا۔
’’ شاید اس لیے کہ دونوں کے پروگرامز بہت اچھے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا، حالاں کہ ایک طرف کے پینل کے لڑ کے بھی اچھے نہیں۔ مارکٹائی، گالم گلوچ ان کی عادت ہے۔ کرکٹ ہو یافٹ بال، سب میں ہی لڑتے ہیں، مگر تقریر یں ایسی زبردست کہ کیا بتائیں ۔ ‘‘
’’اچھا۔‘‘ تمیم نے آہستہ سے کہا۔
’’ سب ہی شمیم اور شمشاد کی تقریروں پر حیران ہیں۔‘‘ آصف نے کہا اور اسے دیکھنے لگا۔
’’مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟‘‘ تمیم نے پوچھا، مگر اندر سے جیسے وہ خوف زدہ ہو گیا تھا۔
آصف نے پوچھا:’’ سچ سچ بتائو، کیا تم نے شمیم اور شمشاد کو تقریریں لکھ کردی ہیں؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ تمیم نے غصے سے کہا،’’ تم سے کس نے کہا؟‘‘
’’ کسی نے نہیں۔‘‘ آصف نے کہا،’’ میں نے انداز ہ لگا یا ہے، کیوں کہ میں تمھارے اندازِ تحریر اور جملوں سے خوب واقف ہوں، مگر تم نے یہ نہیں سوچا کہ وہ لوگ اپنے کردار اور برتاؤ میں کیسے ہیں!‘‘
تمیم کچھ بولا نہیں۔ بس سر جھکائے بیٹھا رہا۔ اس کا انداز صاف بتارہا تھا کہ آصف کا انداز ہ درست ہے۔
آصف نے کہا:’’تمھیں ایک بات بتاؤں؟‘‘
’’ کیا؟‘‘ تمیم نے اس کی طرف دیکھا۔
’’شاید تمھاری زبان کی تکلیف بیماری نہیں بل کہ تمھارے لیے تنبیہ اوروار ننگ ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘تمیم نے پوچھا۔ اس کا دل زور سے دھڑ کنے لگا۔
’’ میں تمھیں ایک حد یث سنا تا ہوں۔‘‘ آصف نے کہا:
’’ ہمارے پیارے رسول مقبول ﷺ کی حدیث پاک کو ایک صحابی حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ، دنیا میں جو دورُخا ہوگا (اور منافقوں کی طرح مختلف لوگوں سے مختلف قسم کی باتیں کرے گا) قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی دوز بانیں ہوں گی۔‘‘
(عمدۃ القاری البر و الصلۃ ما قبل فی ذی الوجہ)
آصف یہ کہہ کر چپ ہو گیا۔
تمیم کا سر جھکا ہوا تھا، پھر وہ بولا:
’’مگر میں نے تو خود کچھ نہیں کیا۔ بس تقریر یں ہی تو لکھ کر دی ہیں۔‘‘
’’تمہارے لفظ تمہاری زبان ہی تو ہیں۔‘‘ آصف نے کہا۔’’ تم نے شمیم اور شمشاد کو جانتے ہوئے بھی کہ وہ کیسے ہیں، اچھا بنا کر پیش کیا۔ تم نے اپنے ساتھیوں سے بھی دھوکا کیا اور یہی منافقت ہے کہ جہاں جاؤ اور جس کو دیکھواس جیسی ہی بات کرو۔‘‘
’’شاید تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘ تمیم نے کہا۔’’ واقعی میں نے غلط کیا۔ اب میں کیا کروں؟‘‘
’’ تم اپنے ساتھیوں سے معافی مانگو،مگر …‘‘آصف نے کہا۔’’ مگر سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو۔‘‘
آصف تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا گیا۔
اس کے جاتے ہی مغرب کی اذان ہونے لگی۔ تمیم اٹھا۔ اس نے وضو کیا اور نماز ادا کرنے لگا، پھر اس نے اللہ تعالیٰ سے رور وکر معافی مانگی۔ اس کادل ہلکا ہوگیا۔ اپنی خطا کو تسلیم کر لینے سے انسان چھوٹا نہیں،بل کہ اونچا ہو جاتا ہے۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ کل کی آخری تقریر وہ شمیم اور شمشاد کو لکھ کر نہیں دے گا، بل کہ اپنے گروپ سے معافی بھی مانگے گا۔
اسی وقت شاز یہ شامی کباب اور چائے لے کر آ گئی اور سامنے بیٹھ کر کھانے گئی۔
’’ مجھے بھی دو۔ ‘‘تمیم کا جی للچا یا۔
’’لیجیے ۔‘‘ شازیہ نے کبابوں کی پلیٹ آگے بڑھادی۔
تمیم نے جلدی سے ایک کباب اٹھا کر منہ میں رکھ لیا اور کھانے لگا۔
’’بھائی! آپ کو جلن نہیں ہورہی؟‘‘ شازیہ نے حیرت سے پوچھا۔
’’ نہیں۔ ‘‘تمیم منہ چلاتے چلاتے رک گیا۔ اس نے زبان کو منہ میں چاروں طرف گھمایا مگر اسے جلن کا احساس نہیں ہوا۔
تمیم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، پھر وہ رو نے لگا۔
شازیہ نے حیران ہو کر اسے دیکھا اور پوچھا:’’ کیا بات ہے بھائی! آپ کیوں رورہے ہیں؟‘‘
تمیم نے اسے دیکھا ، مگر چپ رہا۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا اللہ پاک کتنے اچھے ہیں، ادھر توبہ کرو ادھر قبول ہو جائے۔ واقعی اللہ تعالیٰ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہیں۔ اپنے ہر بندے پر نگاہ ر کھتے ہیں۔ اس کے اعمال اور افعال کو جانتے ہیں۔
’’اللہ میاں! آپ کتنے اچھے ہیں!‘‘ بے ساختہ تمیم کے منہ سے نکلا۔
۔۔۔۔۔
کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے