پراسرار مکان
شوکی
۔۔۔۔۔
ہمارے اس گھر میں شفٹ ہونے کے ایک مہینے تک تو سب ٹھیک ہی رہا ۔ زیادہ وقت گھر سیٹ کرنے میں ہی گزر گیا ۔پھر یہ جگہ میری آفس سے بھی کچھ دور ہی تھی اس لئے جلدی نکلنا اور دیر سے گھر پہنچنا بھی معمول کا حصہ ٹھہرا ۔پھر سردیوں کے دن۔ بہرحال سلمیٰ میری بیوی گھر میں اکیلی ہی ہوتی تھی اور وہ اس ماحول اور روٹین کی عادی ہوگئی ۔
یہ گھر ایک کالونی میں واقع تھا جو ابھی زیر تعمیر تھی ۔غالباً لوگ یہاں پلاٹ خرید خرید کر گھر بنوا رہے تھے اسی وجہ سے کچھ کچھ گھر بن چکے تھے اور کچھ زیر تعمیر تھے مگر اکثر پلاٹ خالی تھے اور شاید خریداروں کے منتظر تھے ۔ ہمارا گھر بھی ایسا ہی تھا، اس گھر کے چاروں طرف خالی پلاٹ ہی تھے۔ ان خالی پلاٹوں میں خودرو قسم کے پودے اور اکا دکا بیری کے درخت تھے،قریب سے قریب گھر بھی ہم سے چار چار پانچ پانچ فرلانگ کے فاصلے پر تھا ۔اس گھر کی تعمیر بھی تھوڑی باقی تھی مگر مالک نے نجانے کیوں کام بند کر رکھا تھا اور کسی سٹیٹ ایجنٹ دوست کے توسط سے یہ گھر مجھے مل سکا تھا ۔ سلمیٰ اور میں نے اس کو اس لئے کرائے پر لے لیا تھا کہ اس میں بجلی اور گیس وغیرہ آچکی تھی اور کرایہ بھی کم تھا۔ البتہ اطراف میں آبادی بہت کم ہونے کی وجہ سے، خصوصا ًرات کو بہت وحشت ہوتی تھی ۔مگر سلمیٰ اور اس کی ساس یعنی میری ماں کے مزاج نہیں ملتے تھے، اس لئے وہ یہاں اکیلی رہنے پر بھی راضی ہوگئی ۔
اس سے پہلے میں آپ کو ان عجیب حالات کی تفصیل بتاؤں جو ہمیں پیش آئے ۔میں آپکو اس گھر کا بھی کچھ نقشہ بتادوں۔گھر چار سو گز کا تھا اور اس کے ایک طرف دو کمروں اور ایک ایک ہال پر مشتمل پکی چھت پر مشتمل کورڈ حصہ تھا پھر درمیان میں خالی حصہ جو کچی زمین پر مشتمل تھا اور مخالف جانب لائن سے باورچی خانہ، غسل خانہ اور بیت الخلاء تھے۔ اس کے تھوڑے فاصلے پر بڑا مین گیٹ تھا اور اس گیٹ کے ساتھ گھر کے اندر ہی ایک گھنا بیری کا درخت تھا ۔ یعنی گھر سادہ سا تھا شاید مالک مکان نے عارضی طور پر کرائے پر دینے ہی کی نیت سے بنوایا تھا ۔
گھر میں شفٹ ہونے کے ایک مہینے تک تو سب ٹھیک ہی تھا جیسا کہ میں نے بتایا ۔ گھر میں ٹی وی اور رسائل و جرائد میں مشغول رہتے ھوے شاید سلمیٰ کو بھی وقت گزرنے کا احساس نہ ہوتا ہوگا دوسرا وہ دلی طور پر الگ گھر ملنے پر مسرور بھی بہت تھی ۔
یہ تقریبا ًدوسرے مہینے کے پہلے ہفتے کی کوئی رات تھی ۔ تقریباً دو بجے میری آنکھ کھلی تو سلمیٰ بیڈ پر موجود نہیں تھی ۔ ویسے تو یہ کوئی انہونی بات نہ تھی اور میں نے بھی یہی سوچا سلمیٰ شاید واش روم گئی ہو جو کہ دوسرے حصہ میں کچے صحن کے پار تھا۔ مگر کافی دیر تک سلمیٰ نہیں آئی تو میں نے سوچا چلو دیکھ لوں۔میں آنکھیں ملتا ہوا اٹھا اور چپل پہن کر باہر صحن میں نکلا۔ ہوا میں کافی خنکی تھی جیسا کہ میں نے بتایا سردی کی آمد تھی ۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا واش روم کی لائٹ تو آف تھی مگر غسل خانہ کی لائٹ کھلی تھی اور کچھ آواز بھی آرہی تھی ۔میں حیران ہوتا ہوا اس جانب بڑھا ۔میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا سلمیٰ پلاسٹک کے سٹول پر بیٹھی ہاتھ سے کپڑے دھو رہی تھی ۔ نل کھلا ہوا تھا۔ پانی مسلسل بہہ رہا تھا اور ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے سلمیٰ کافی دیر سے کپڑے مسلسل رگڑ رہی ہو ۔
’’سلمیٰ…سلمیٰ…‘‘پہلے تو سلمیٰ نے سنا ہی نہیں مگر جب میں زور سے چلایا۔’’ سلمیٰ…‘‘ تو سلمیٰ نے ہڑبڑا کر میری طرف ایسے دیکھا جیسے اس نے اچانک میری آواز سنی ہو ۔اسکی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں ۔
’’ کیا کر رہی ہو سلمی؟‘‘
’’جی میں نے سوچا کپڑے میلے تھے دھو لوں…‘‘سلمیٰ نے اپنے مخصوص لہجے میں کہاں۔
’’بھئی یہ کون سا وقت ہے کپڑے دھونے کا۔چلو اندر …‘‘میں نے نل بند کر کے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اوپر اٹھاتے ھوئے کہا۔ اسکے ہاتھ ٹھنڈے اور سرخ ہورہے تھے ۔
سلمیٰ بستر پر لیٹتے ہی سوگئی ۔جلد ہی میں بھی سوگیا ۔ صبح ظاہر ہے سلمیٰ کا اٹھنا مشکل تھا۔ حسب توقع وہ سورہی تھی۔ میں نے خود ہی چائے بنا لی اور پی کر جلدی سے آفس کی طرف جانب روانہ ہوا ۔گھر آیا تو سلمیٰ ہشاش بشاش نارمل تھی۔ کھانا بھی بنا چکی تھی۔رات ہم کافی دیر تک باتیں کرتے رہے ۔بہرحال رات کی بات آئی گئی ہوگئی اسکے بعد کافی دنوں تک کچھ نہ ہوا اور میں بھی اس رات کا واقعہ بھول بھال گیا مگر پھر کچھ دنوں بعد رات تو میری آنکھ کھل گئی۔ آج سردی کافی بڑھ چکی تھی۔ سلمیٰ کو نہ پاکر میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اس لئے کہ وہ واقعہ میرے ذہن میں تازہ ہوگیا ۔میں چادر لپیٹ کر جلدی میں باہر نکلا،یقین مانیے آج پھر وہی منظر سامنے تھا۔ سلمیٰ ہسٹیریائی انداز میں نل کھولے ایک قمیض کو مسلسل رگڑے جارہی تھی۔
’’سلمیٰ سلمیٰ…یہ کیا ہے سب…‘‘
اس دفعہ بھی سلمیٰ نے وہی جواب دیا۔’’ کپڑے دھورہی تھی…‘‘
’’چھوڑو یہ سب…‘‘میں نے غصے سے سلمیٰ کو پکڑ کر کھینچامگر سلمی کا ہاتھ یخ برف ہورہا تھا اور وہ سردی سے کانپ رہی تھی۔میرا دل پسیج گیا۔میں کچھ کہے بغیر سلمیٰ کو اندر لایا اور لحاف میں لپیٹ کر اسے سلادیا ۔وہ فوراً ہی خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی مگر اس رات میں نہیں سوسکا اور سوچتا رہا سلمیٰ یہ سب کیوں کر رہی ہے ۔کہیں یہ کسی فرمائش منوانے کا نیا طریقہ تو نہیں ۔اگلے دن چھٹی تھی۔ میں نے جلدی اٹھ کر خود ہی ناشتہ بنایا اور سلمیٰ کو اٹھایا ۔اب سلمیٰ فریش لگ رہی تھی ۔ ناشتہ کے بعد میں نے سلمیٰ سے رات کے واقعہ کا ذکر کیا مگر اسے کچھ یاد نہیں تھا،مجھے بہت حیرت ہوئی ۔ میں نے سلمیٰ سے پوچھا کیا اسے کسی چیز کی ضرورت ہے۔مگر سلمیٰ نے کہا اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ بہرحال اس دفعہ بھی بات آئی گئی ہوگئی ۔
مگر اس دفعہ دو دن بعد ہی سلمیٰ بیگم رات کو دو تین بجے کے قریب باورچی خانے میں برتن ’’دھوتے ‘‘ ہوئے پائی گئی۔ مجھے اس کا کچھ حل سمجھ نہیں آیا۔ایک خیال یہ آیا کہ کہیں سلمیٰ روزانہ ہی تو یہ عمل نہیں کرتی،اور ہوسکتاہے کئی بار میری آنکھ ہی نہ کھلتی ہو۔ جب یہ عمل کئی بار ہوا اور تقریباً معمول سا بن گیا تو میںسلمیٰ کی صحت میں بھی واضح فرق محسوس کرنے لگا۔ اسکا یہی حل مجھے سمجھ آیا کہ سلمیٰ کو کچھ دنوں کے لئے اسکی ماں کے ہاںبھجوادوں۔
سلمیٰ کی ماں بھی سلمیٰ کی صحت اور آنکھوں کے گرد بڑے بڑے سیاہ حلقوں کو دیکھ کر پریشان ہوگئی مگر میں نے سلمیٰ کی ماں یعنی اپنی ساس کو معاملہ بتادیا تھا ۔وہ خود بھی حیران تھی۔
بہرحال سلمیٰ کے میکے جانے کے بعد گھر اور سونا سونا سا لگنے لگا تھا۔ اس کا حل میں نے یہ نکالا کہ آفس سے واپسی پر اپنے سسرال ہی جاتا اور رات دیر گئے گھر آتا ۔ آتے ہی بستر پر لیٹتا تو یہ بھی معلوم نہ ہوتاکہ میں پہلے لیٹا یا نیند پہلے آئی ۔ اس روٹین میں دو تین ہفتے ہوگئے ۔ اس دوران دو باتوں کا آپ سے ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔
پہلی تو یہ کہ اس دوران سلمیٰ کے ساتھ ایک بار بھی وہ واقعہ پیش نہیں آیا جیسا کہ ہمارے نئے کرائے کے گھر میں آیا تھا ۔ سلمیٰ کی صحت بہت بہتر ھو گئی تھی۔ اس پر ہم خوش بھی تھے مگر حیران بھی کہ الٰہی ماجرا کیا ہے۔
دوسرا واقعہ یہ ہوا بلکہ واقعہ کہنے کہ بجائے خیال کہہ لیں کہ میں نے سوچا رات کو کسی پہر غسل خانے کا جائزہ لوں کہیں کوئی اور تو نہیں آتا وہاں۔لہٰذا اس کے بعد کئی دفعہ ایسا ہوا کہ میری رات کو جب بھی آنکھ کھلتی میں اس جانب جاکر دیکھ لیا کرتا تھا مگر کچھ بھی نہیں ہوا۔ کوئی واقعہ، نہ آواز۔ سب نارمل رہا ۔ آخر پورے مہینے بعد مشورہ سے یہ طے پایا کہ سلمیٰ کو واپس لے آیا جائے، یوں سلمیٰ واپس آگئی۔
سب ٹھیک ٹھاک تھا ۔سلمیٰ بھی خوش تھی۔ میں بھی مطمئن تھا کہ مسئلہ حل ہوا۔ مجھے یہی خیال راسخ تھا کہ سلمیٰ کے ساتھ کچھ نفسیاتی مسئلہ تھا۔ غالباً اس کے ذہن نے نئے گھر کو اور الگ رہنے کو قبول نہیں کیا تھا۔
سلمیٰ کی واپسی کو چوتھا دن تھا کہ وہ بات ہوئی جس کو میں سوچتا ہوں تو آج بھی ڈر جاتا ہوں ۔سخت سردی کی رات میں رات کے دو بجے کا عمل۔ میری آنکھ کھلی اور یہ دیکھ کر میری ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی لہر سرایت کر گئی کہ سلمیٰ بستر سے غائب تھی۔غیر ارادی طور پر بغیر چادر لئے اور چپل پہنے میں غسل خانے کی طرف بھا گا اور وہی منظر میرے سامنے تھا،،نل کھلا ہوا، سلمیٰ صابن سے مسلسل قمیض کو رگڑے جارہی تھی۔
’’ سلمیٰ…‘‘میں نے بے اختیار چلاتے ہوئے سلمیٰ کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جانب کھینچا۔
اف خدا میں بھول نہیں سکتا ۔سلمیٰ نے اتنی طاقت سے مجھے دھکا دیا کہ میرا سر دیوار سے ٹکرایا۔مگر جب اس نے میری طرف گردن گھما کر دیکھا تو اسکی انتہائی سرخ آنکھوں میں ایک عجیب نفرت نظر آئی ۔ ایک لمحے کے لیے تو میں ڈر ہی گیا مگر ہمت کر کے دوبارہ سلمیٰ کو تقریباً گھسیٹتا ہوا کمرے میں لے آیا۔ میں حیران تھا، سلمیٰ میں اتنی طاقت کہاں سے آگئی ۔بہرحال میں نے سلمیٰ کو بستر پر لٹایا، اور لحاف اس پر اچھی طرح لپیٹ دیا۔اس رات میں کرسی پر بیٹھا سلمیٰ ہی کو گھورتا رہا۔ سلمیٰ کچھ دیر بعد ہی سوگئی اور نجانے میں بھی کب نیند کی وادیوں میں گم ہوچکا تھا ۔
صبح کافی دیر بعد میری آنکھ کھلی ۔آفس کا ٹائم نکل چکا تھا اور حقیقت میں میرا خود بھی آفس جانے کا ارادہ نہیں تھا۔ میں سلمیٰ کے مسئلے میں کچھ پیش رفت چاہتا تھا ۔ سلمیٰ ابھی تک سورہی تھی۔میں نے اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو اس کو کچھ بخار سا بھی محسوس ہوا۔
میں نے پہلا کام تو یہ کیا کہ سلمیٰ کے گھر فون کیا۔ دوسرا میں نے پہلی بار اپنی امی کو بھی بلالیا ۔انکو میں نے ابھی تک سارے معاملے سے بے خبر بھی رکھا تھا اس لئے کہ وہ پہلے ہی ہم سے کچھ ناراض سی تھیں ۔اگرچہ وہ دل کی بہت اچھی ہیں ۔سارا معاملہ سن کر کہا۔’’ تم ٹھہرو میں فورا ًہی آتی ہوں۔‘‘ اور واقعی ادھر میری ساس پہنچیں اور ادھر میری والدہ بھی چھوٹے بھائی کے ساتھ آن پہنچیں۔
مگر ایک بات انوکھی یہ ہوئی کہ انکے ساتھ ایک سفید کپڑے پہنے اور بڑی سی داڑھی والے ایک انتہائی ضعیف بابا بھی تھے ۔میں انکو جانتا نہیں تھا مگر انکے چہرے پر ایک نور سا تھا اور آنکھوں میں بہت شفقت تھی۔ میں نے جھک کر انہیں سلام کیا ۔ امی نے بتایا کہ وہ بہت متقی شخص ہیں اور عملیات وغیرہ کا کام بھی کرتے ہیں ۔جی ہاں یعنی بھوت پریت اتارنے کا کام۔یہ سن کر میں بہت متذبذب ہوا ،اس لئے کہ میں ان چیزوں پر نہ یقین رکھتا تھا اور نہ اس جھنجھٹ میں پڑنا چاہتا تھا۔ میری ساس بھی کچھ اسی قسم کی تھیں، اس لئے انہوں نے اس سارے عرصے میں اس قسم کی بات اشارتاً بھی نہیں کی تھی، مگر میری امی محترمہ تو اس معاملے میں اتنی پر یقین تھیں کہ عالم بابا کو بھی ساتھ ہی لے آئیں ۔
بہرحال میں نے والدہ کے احترام میں بابا کو کام کرنے کا موقع بلا چوں وچراں دے دیا ۔ بابا نے سب سے پہلے تو کہا کہ وہ سلمیٰ کو دیکھنا اور اس سے کچھ سولات کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم سلمیٰ کو بابا کے سامنے لے کر آگئے۔میرا خیال تھا کہ اگر واقعی سلمیٰ پر کچھ جنات وغیرہ کا اثر ہے تو وہ یقینا بابا کو دیکھ کر چلانا شروع کردیگی مگر سلمیٰ نے نہ صرف کچھ نہیں کیا بلکہ بابا کے سوالوں کے جواب بہت معقول طریقے سے اور شائستہ انداز میں دیتی رہی ۔بابا نے اس پر کچھ قرانی آیات کا دم بھی کیا اور دم کیا ہوا پانی بھی ہمیں دیا ۔ اس تمام عرصے میں سلمیٰ پرسکون رہی ۔ البتہ ایک بات رہی کہ سلمیٰ اس بات کا جواب نہ دے سکی کہ وہ ہر بار رات کو غسل خانے میں کیا کرتی رہی ہے اور نہ اس بات کو صحیح طور پر یاد کرسکی ۔
اس کے بعد بابا نے گھر کا معائنہ بھی اپنے انداز میں کیا اور غسل خانے کو بھی دیکھا ۔ اس دوران ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بابا گھر میں موجود بیری کے درخت کے پاس آکر رک گئے اور بہت دیر تک اسکو گھورتے رہے ۔ بابا نے ہمیں بتایا کہ انکے خیال میں اس درخت پر اثرات ہیں ۔ یہ سن کر ہم سب سکتے میں آگئے ۔ میں کچھ کہہ نہ سکا ۔
’’ میرا یہی خیال ہے، اس درخت پر کوئی اثر ہے ،آپ یہ گھر تبدیل کر لیں ۔میری درخواست ہے۔‘‘ بابا نے کہا ۔
کہتے ہیں عورتیں زیادہ وہمی ہوتی ہیں۔ واقعی بابا کی یہ بات سن کر سلمیٰ کی ماں غیر متوقع طور پر سلمیٰ کو اس گھر سے لے جانے پر ا ڑ گئی – میں حیران پریشان کہ الٰہی اتنی مشکل سے یہ گھر ملا ہے۔ اب کہاں دوبارہ گھر ڈھونڈھتا پھروں گا مگر میری ماں بھی میری ساس کے ساتھ ہوگئی ۔ خیر طے یہ پایاکہ پہلی فرصت میں گھر تبدیل کیا جائے گا۔ بابا، میرا بھائی جو امی کے ساتھ آیا تھا چلے گئے اور میری ماں اور میری ساس گھر پر ہی رک گئے اور پھر اس رات وہ رونگھٹے کھڑے کردینے والا واقعہ پیش آیا جو میری زندگی کا سب سے زیادہ خوفناک واقعہ تھا ۔ ہم سب ہال میں باتیں کر رہے تھے۔ رات کے دو بجے کا عمل تھا کہ اچانک سلمیٰ کمرے سے باہر نکلی اور جیسے بندہ نیند میں چلتا ہے اسی انداز میں چلتی ہوئی دروازہ کھول کر باہر نکل گئی ۔ میری امی نے اسے متوجہ کرنا چاہا تو میںنے انہیں آنکھ کے اشارے سے منع کردیا ۔سلمیٰ مکمل طور پر ارد گرد سے بے خبر تھی ۔آہستہ آہستہ چلتی ہوئی وہ عین بیری کے درخت کے نیچے جاکر رک گئی اور سر گھٹنوں میں دیکر اکڑوں انداز میں بیٹھ گئی ۔ہم خاموشی سے دیکھتے رہے مگر کچھ کیا نہیں، تقریباً آدھے گھنٹے کے جان لیوا انتظار کے بعد سلمیٰ اٹھی اور غسل خانے میں جاکر کپڑے دھونے کا وہی عمل دہرانے لگی ۔ اب مجھے بھی کچھ ہوش آیا اور میں سلمیٰ کو تقریباً کھینچتا ہوا ہال میں واپس لے آیا ۔ میری امی نے آیت الکرسی پڑھ پڑھ کر سلمیٰ پر دم کرنا شروع کردیا ۔ باقی رات کچھ عجیب واقعہ نہ ہوا اور رات سوتے جاگتے ہی گزر گئی ۔
صبح کو وہی ہوا جو آپ سوچ رہے ہوں گے۔ میں نے سلمیٰ کو امی کے ساتھ گھر روانہ کیا اور گھر خالی کرنے کی نیت سے سٹیٹ ایجنٹ دوست کے پاس چل دیا ۔وہ گھر ہم نے تقریباً اسی دن ہی چھوڑ دیا ۔ ایڈوانس کے پیسے مالک مکان نے بلا چوں چراں واپس کردیے حالانکہ ایگریمنٹ تھا کہ اگر ہم وقت سے پہلے گھر خالی کریں گے تو ایڈوانس آدھا ملے گا۔ البتہ میری کوشش کے باوجود گھر کے بارے میں یا اس کے آسیبی ہونے کے بارے میں اس نے کچھ کہنے سے گریز کیا ۔ اب ہم اپنے پرانے گھر میں ہی رہ رہے ہیں۔ ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ۔ اس عرصے میں اللہ پاک نے ہمیں ایک پھول سے جیسے بچے سے بھی نوازا جس کا نام ہم نے محمد رکھا ۔ سلمیٰ بالکل ٹھیک ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس دن کے بعد سلمیٰ کے ساتھ ایسا واقعہ الحمدللہ کبھی دوبارہ پیش نہیں آیا اور اس کے بعد ہم نے کبھی اس علاقے کا بھی رخ نہیں کیا جہاں وہ پراسرار مکان تھا ۔