skip to Main Content

مولا بخش ہاتھی

طالب ہاشمی

۔۔۔۔۔۔۔۔

عزیز بچو! آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے پالتو جانوروں کو بھی اتنی عقل دی ہے کہ وہ اپنے مالکوں کو یا جس گھر میں رہتے ہوں اس گھر کے رہنے والے سب لوگوں کو پہچان جاتے ہیں اور ان کے اشاروں پر یا ان کی مرضی کے مطابق ایسے کام کرتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ان جانوروں میں چھوٹے بڑے ہرقسم کے جانور شامل ہیں مثلاً کتے، بندر، گھوڑے، اونٹ، ہاتھی وغیرہ۔
آج سے کوئی ڈیڑھ سو سال پہلے ایسا ہی ایک بڑا جانور آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے پاس بھی تھا۔ یہ جانور بہت بڑے قد والا ایک ہاتھی تھا جس کو ”مولا بخش“ کہہ کر پکارتے تھے۔ بہادر شاہ ظفر کے دادا، پر دادا تو واقعی سارے ملک کے بادشاہ تھے لیکن وہ خود بس نام کے بادشاہ تھے اور انگریزوں سے وظیفہ پاتے تھے۔ وظیفہ اس رقم کو کہتے ہیں جو بہادر شاہ کو ہر سال یا ہر ماہ اس مقصد کے لیے دی جاتی تھی کہ وہ خود،ان کا خاندان اور ملازم وغیرہ آسانی سے گزارہ کر سکیں اور وہ انگریزوں کی حکومت اور ان کے معاملات میں دخل نہ دیں۔
بہادر شاہ ظفر کی برائے نام حکومت دلی کے لال قلعے اور کچھ دوسرے علاقے تک سکڑ کر رہ گئی تھی لیکن دربار کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ اور رکھ رکھاؤ کا بھرم قائم تھا۔ مولا بخش ہاتھی خاصی عمر کا تھا اور بہادر شاہ سے پہلے بھی کچھ بادشاہ اس پر سواری کر چکے تھے۔ اس کا قد اتنا بڑا تھا کہ اس سے پہلے کبھی اتنے قد کاٹھ کا ہاتھی ہندوستان میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ دوسرے بڑے بڑے ہاتھی کھڑے ہوتے اور وہ بیٹھا ہوتا تو ان کے برابر دکھائی دیتا تھا۔ اس کی عادتیں بھی انسانوں کی عادتوں جیسی تھیں اور خوبصورتی میں بھی اس کا جواب نہ تھا۔ وہ اکثر مست رہتا تھا اور جوآ دمی اس کی خدمت اور دیکھ بھال پر مقرر تھا، اس کے سوا کسی دوسرے کو (سوائے بادشاہ کے) اپنے قریب نہیں آنے دیتا تھا۔
جس دن بادشاہ کو اس پر سوار ہو کر کہیں جانا ہوتا، اس سے ایک دن پہلے بادشاہ کا چوبدار آ کر اسے حکم سناتا:
”میاں مولا بخش کل تمہاری نوکری ہے، ہوشیار ہو جاؤ۔“
چوبدار بادشاہوں یا امیروں کے اس خاص ملازم کو کہا جا تا تھا جو ان کے آگے عصا (ایک خاص قسم کی لاٹھی) یا نیزہ لے کر چلتا تھا۔
مولا بخش چوبدار کی بات سمجھ جا تا اور ہوشیار ہوکر کھڑا ہو جا تا۔مہاوت (ہاتھی چلانے والا،اسے فیل بان بھی کہتے ہیں) اسے جمنا دریا میں نہلانے کے لیے لے جا تا۔ جب وہ اسے نہلا لیتا تو اس کے ماتھے پر نقش و نگار (بیل بوٹے) بنائے جاتے۔ بادشاہ کے سوار ہونے سے پہلے اسے زیور پہنائے جاتے۔ پھر اس پر عماری کسی جاتی۔ عماری کا مطلب وہ ہودہ یا ہووج ہے جو ہاتھی کی پیٹھ پر بیٹھنے کے لیے رکھا جا تا ہے۔ بادشاہ سلامت سواری کے لیے آتے تو مولا بخش چیخ مارکر تین سلام کرتا (سونڈ کو تین باراو پر اٹھا کر نیچے گرا دیتا)اورخود ہی بیٹھ جا تا۔ جب تک بادشاہ سوار نہ ہولیں،وہ اسی طرح جم کر بیٹھار ہتا۔ جب بادشاہ عماری میں بیٹھ جاتے تو مہاوت اشارہ کرتا۔ مولا بخش فوراً اٹھ کھڑا ہوتا اور بادشاہ نے جہاں جانا ہوتا، انہیں وہاں لے جاتا۔پھر اسی طرح انہیں واپس لے آتا اور مہادت اسے تھان پر لے جاتا۔ اب مولا بخش آنکھیں بند کر کے پہلے کی طرح مست ہو جا تا۔
1857 عیسوی میں ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف بغاوت ہوگئی۔ ہندوستان کے لوگوں نے اسے آزادی کی جنگ اور انگریزوں نے اسے غدر(بغاوت ہنگامہ یابلوہ) کا نام دیا۔ انگریزوں نے جلد ہی اس پر قابو پالیا۔ اس کے نتیجے میں انگریزوں نے بادشاہ کو گرفتار کر لیا۔ بعد میں مقدمہ چلا کر انہیں رنگون (برما) بھیج دیا اور شاہی فیل خانے (ہاتھیوں کے باندھنے یار کھنے کی جگہ) اور اصطبل پر قبضہ کر لیا۔ خدا کی قدرت مولا بخش کو اپنے مالک (یعنی بادشاہ) کی مصیبت کا حال معلوم ہو گیا۔ اس کو اتناغم ہوا کہ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ اس کے مہاوت نے بہت کوشش کی کہ وہ کچھ کھا پی لے لیکن مولا بخش نے کسی چیز کومنہ نہ لگایا۔ اب تو مہاوت سخت پریشان ہو گیا۔ اسے یہ ڈر تھا کہ اگر ہاتھی کو کچھ ہو گیا تو انگریز سمجھیں گے کہ میں ہی اس کا ذمہ دار ہوں اور وہ مجھے پھانسی دے دیں گے۔ اس نے دلی کے انگریز حاکم ”سانڈرس“ کو اطلاع دی کہ حضور مولا بخش ہاتھی نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔ میں نے اسے کھلانے پلانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ کسی چیز کو منہ میں لگاتا۔ اگر اسے کچھ ہو گیا تو سرکار مجھے زندہ نہیں چھوڑے گی۔ آپ اس کا کچھ علاج کر لیں۔
سانڈرس کو مہاوت کی باتوں کا یقین نہ آیا۔ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی جانور اپنے مالک کی مصیبت پر اتنا غم کرے گا کہ کھانا پینا چھوڑ دے گا۔ اس نے مہاوت کو گالیاں دیں اور کہا ”تم نالائق آدمی ہو، ہم خود جا کر اسے کھلائیں گے۔“
پھر سانڈرس نے پانچ روپے کے لڈو اور کچھ پوریاں خرید یں۔ اس زمانے کے پانچ روپے آج کل کے کئی سوروپے کے برابر ہوتے تھے اور ہرقسم کی مٹھائیاں اور دوسری چیز یں بھی بہت سستی تھیں، اس لیے پانچ روپے کے لڈوؤں اور پوریوں سے ایک بڑا ٹوکرابھر گیا۔ سانڈ رس اس ٹوکرے کو لے کر مولا بخش کے تھان پر پہنچا اور اس کو ہاتھی کے سامنے رکھوادیا۔ ہاتھی نے غصے سے اپنے پاؤں یا اپنی سونڈ سے ٹوکرے کو دور پھینک دیا۔ یہ دیکھ کر سانڈ رس غصے سے لال پیلا ہو گیا اور اس نے چلا کہا:
”یہ ہاتھی باغی ہو گیا ہے، اسے نیلام کر دو۔“
مہاوت نے فوراً مولا بخش کو تھان سے کھولا اور اسے نیلام کرنے کے لیے دلی کے صدر بازار کے چوک میں لے گیا۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے نیلامی کا ڈھنڈورا پٹوا دیا۔ نیلام کی بولی ہوئی تو بنسی نام کے ایک کا نے پنساری کے سوامولا بخش کوخریدنے کے لیے اور کوئی سامنے نہ آیا۔ بنسی نے اڑھائی سوروپے کی بولی دی اور سانڈرس نے اسی بولی پر نیلام ختم کر دیا لیکن اس سے پہلے کہ بنسی مولا بخش کو اپنے ساتھ لے جانے کا بندوبست کرتا، وہ کھڑے کھڑے دھم سے زمین پر گرا اور دم دے دیا۔ اس طرح جان دے کر اس نے اپنے مالک سے وفا کا حق ادا کر دیا۔
(مشہور رادیب جناب ظہیر الدین ظہیر مرحوم نے غدر 1857ء کے حالات پر ایک کتاب لکھی تو اس میں مولا بخش ہاتھی کا ”آنکھوں دیکھا“ حال بھی لکھا۔ یہ کہانی ان کے بیان ہی سے لی گئی ہے۔)

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top