حل+واہ
محمد الیاس نواز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منوں حلوا سامنے رکھے بیٹھا ہے اور کھاتا نہیں،کہیں حلوائی اندھا…
محمدالیاس نواز
۔۔۔۔۔
پیپل کے درخت کے نیچے ایک مجمع لگا ہوا تھا،جس میں بوڑھے جوان اور بچے سبھی شامل تھے۔ اسکی وجہ شاید پیپل کی چھاؤں سے کہیں زیادہ دادا جان کی شخصیت تھی جن کی زندہ دلی ہر دل کو عزیزتھی۔اگرچہ حویلی کے اس پیپل کے نیچے دادا کی یہ محفل تو پہلے بھی لگا کرتی تھی مگر جب سے طالب چاچاکی شادی کی تقریبات اور رسومات کا آغاز ہوا تھا تب سے تو اس محفل کو چارچاند(دوبوڑھے)لگ گئے تھے۔ یعنی داداجان کے ساتھ انکے ہم عمردوست بہرام خان بھی محفل کی رونق بنے رہتے تھے جو شادی میں شرکت کیلئے آئے ہوئے تھے۔بس پھر تو جہاں سے دادا جان ختم کرتے وہاں سے بہرام خان شروع کردیتے اور جہاں بہرام خان ختم کرتے وہاں سے داداجان کی شروعات ہوتیں۔
بہرام خان کے بارے میں ہم بتاتے چلیں کہ وہ دادا جان کے بچپن کے دوست تھے اور شہر سے دور صحرائی علاقے کے رہنے والے انتہائی سادہ انسان تھے۔ان میں ایک عادت انتہائی نرالی تھی جو ان پندرہ دنوں میں ہمارے لئے دل چسبی کا باعث بنی رہی کہ جن دنوں وہ ہمارے گھر ٹھہرے رہے۔اور وہ یہ تھی کہ بہرام خان جب چھوڑنے پر آتے تو بغیر آگے پیچھے دیکھے بہت لمبی چھوڑتے اور اتنے سادہ تھے کہ سمجھتے تھے کہ سب نے انکی بات پر یقین کر لیا ہے۔یہی کچھ انہوں نے یہاں بھی کیا۔شاید انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ تھا تویہ بھی گاؤں ہی جہاں وہ ٹھہرنے آئے ہوئے تھے مگر یہ وہ صحرا نہیں تھا کہ جہاں سے وہ خود تشریف لائے تھے اور جہاں ہر کوئی انکی باتوں پر یقین کر لیتا تھا بلکہ اس گاؤں میں بہت سے لوگ پڑھے لکھے تھے اور جو پڑھے لکھے نہیں تھے ان میں اکثر پڑھوں لکھوں میں بیٹھ اُٹھ کر بہت کچھ سیکھ گئے تھے اور بہت سے ایسے اَن پڑھ بھی تھے جو شہر میں رہ کر آ چکے تھے جبکہ ایک بڑی تعداد ایسی تھی جو نوکری پیشہ تھی اور انکا روزانہ شہر آنا جاناہوتا تھا۔
خیر!….ایک دن اسی پیپل کے سائے میں ان بزرگوں کی محفل جمی ہوئی تھی۔ گپ شپ چل رہی تھی۔ خاندان کے علاوہ ارد گرد محلے کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعدادان بزرگوں کو دل چسبی سے سن رہی تھی اور نہایت ادب کے ساتھ ان کی گپ شپ میں شامل تھی کہ بہرام خان نے اپنی عادت کے مطابق ایک لمبی چھوڑی کر محفل کو کچھ یوں گرمایاکہ دادا سے مخاطب ہو کر کہنے لگے”نادر خان!میں نے اپنے کھیتوں میں پچھلے سال باجرہ لگایا ہوا تھا۔آ پکو تو پتا ہے کہ بکریوں کی کیا عادت ہوتی ہے کہ ہر چیز میں منہ مارتی ہیں اور سارا دن منہ مارتی ہیں مگر پیٹ ہے کہ بھرتا نہیں۔ہوا کچھ یوں کہ بڑا والا لڑکا سرگودھا نسل کی بکری لے آیا۔میں دوسرے دن صبح اسے لے کر چرانے نکل گیا۔بکری چرتے چرتے اسی باجرے کے کھیت میں گم ہو گئی……“یہاں کچھ دیر بہرام خان رک گئے اور پھر اپنے مخصوص انداز میں پورے اعتماد کے ساتھ چارپائی پر ہاتھ مارتے ہوئے بولے…”جو ایک مہینے بعد اسی کھیت سے ملی“۔بہرام خان اپنی بات ختم کرکے محفل میں موجودلوگوں کی آنکھوں میں جھانکنے لگے تاکہ اندازہ لگا سکیں کہ انکی اس بات سے نوجوانوں نے کیا تاثر لیا ہے اور وہ انکی اس ”لمبی“سے متاثرہوئے ہیں یا نہیں جبکہ تمام نوجوان دادا جان کا چہرہ دیکھنے لگے کیونکہ سب کو اندازہ تھا کہ دادا جان اس چھوڑی گئی ”لمبی“ کا جواب ضرور دیں گے اور آج شاید دادا جان بھی بہرام خان کو بخشنے کے موڈ میں نہیں تھے۔چند لمحے خاموشی رہی بہرام خان دیکھ رہے تھے کہ دادا جان کیا کہتے ہیں۔داداجان نے حقے کا ایک لمباکش لیا،پھر اطمینان سے دھواں چھوڑا اور بہرام خان کی طرف کچھ یوں مخاطب ہوئے۔”بہرام بھائی!……کل جو میں نے آپ کو اپنے پہاڑ کی طرف والے کھیت دکھائے تھے…..سب سے پہلے تو میں آپکو ان کے بارے میں بتاتا چلوں…. کہ یہ زمین ہم نے خریدی کیوں تھی!!!….اصل میں میرے والد کو اللہ بخشے۔انہیں اللہ نے یہ صلاحیت دی تھی… کہ وہ زمین کی مٹی چکھ کر بتا دیتے تھے کہ زمین اچھی فصل دے گی یا نہیں…….جب اس زمین کو اس کے مالک نے بیچنے کا فیصلہ کیا تو!!….(بہرام خان کی طرف منہ پھیرتے ہوئے)…..بس پھر اباجان نے چلو بھر مٹی چکھی اور زمین خرید لی“…..(ساتھ ہی حقے کا ایک طویل کش اورگہرا دھواں)……بہرام خان یہ بات سن کر بڑے حیران ہوئے حالانکہ دادا جان نے ابھی بہرام خان کے جواب میں چھوڑنا شروع کی تھی۔دادا جان پھر بولے….”پچھلے سے پچھلے سال کی بات ہے کہ میں نے اس میں مکئی لگائی….ایک دن میں صبح بھینس کو لے کر اس زمین پر گیا……توووو…… اللہ کے حکم سے بھینس نے وہاں بچہ دیدیا…..تھوڑی دیر بعد ہی وہ کٹا(بھینس کا بچہ)مکئی میں گم ہو گیا…..میں نے بہت ڈھونڈا مگر وہ نہ ملا،بالآخر میں شام کو گھر آگیا……اگلے کئی روز تک میں وہاں جاکر ڈھونڈتا رہا مگر…. وہ…. نہیں ملا…میں بھی نا امید ہو گیا…کہ…پہاڑی علاقہ ہے… کوئی بھیڑیا کھا گیا ہوگا….(محفل کی خاموشی اورداداجان کی سنجیدگی دونوں انتہا پر تھیں)…..بالآخر مکئی پک گئی…..میں نے فصل کاٹ لی….پھر بھٹوں سے دانے الگ کرکے بوریوں میں بھر لئے….ایک دن طالب کی ماں نے مجھ سے کہا……کہ…… مکئی پِسوا لاتے تو روٹی پکا دیتی…..میں چکی سے مکئی پِسوا لایا…..طالب کی ماں نے مکئی کی روٹی پکاکر…. اور اس پر دیسی گھی لگا کر مجھے دیدی…..اب جو میں نے پہلا نوالہ توڑا!!!!!….. توووووو…… اس میں سے کٹا(بھینس کا بچہ) نکل آیا“…….
دادانے اپنے مخصوص انداز میں اتنی سنجیدگی سے یہ لمبی چھوڑی کہ وہ نوجوان جو دادا کے انداز اور مذاق سے واقف تھے انکے چہروں پر خاموش مسکراہٹیں بکھر گئیں۔ جبکہ دادا جان نے اطمینان کے ساتھ حقے کاایک لمبا کش لیااور آنکھیں بند کئے اسی اطمینان کے ساتھ دھواں چھوڑنے لگے جبکہ بہرام خان پھٹی پھٹی آنکھوں سے دادا جان کا دھویں میں دھندلاچہرہ دیکھنے لگے۔
انہیں کچھ سمجھ نہیں آیا کہ آج ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔انہوں نے باتوں ہی باتوں میں ایک مرتبہ پھرلمبی چھوڑنی شروع کی اور فرمایا”نادر بھائی!….میں نے ابھی نیا گھر بنایا ہے“۔دادا نے پوچھا کہ”کمروں کی چھتیں کس چیز کی بنائی ہیں؟“کہنے لگے”لکڑی کی بنائی ہیں۔شیشم کا ایک ہی درخت کٹواکر تختے نکلوا لئے تھے جو تین کمروں کی چھتوں کے لئے کا فی ہو گئے تھے“۔اتنی لمبی سن کر ایک مرتبہ پھر نو جوانوں کی نظریں دادا جان کی طرف اُٹھ گئیں۔
داداجان نے اپنی عادت کے مطابق داڑھی پر ہاتھ پھیرا پھر پگڑی کو اتار کر چارپائی کے پائے پراس طرح لٹکایاکہ جیسے کہہ رہے ہوں کہ ”لے!میاں ذرادیر کوپگڑی تو اپنے سر پر سنبھال میں ذرااس سے نمٹ لوں“ اورسر کھجاتے بولے”میں نے بھی کچھ عرصہ پہلے چار کمرے بنوائے تھے شہ تیر کی ہی چھتیں بنوائی تھیں“۔بہرام خان نے پوچھا ”شیشم کی؟“دادا بولے ”نہیں!!… ایک آک(پہاڑی جھاڑی جو جڑی بوٹی کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے) کٹوالی تھی اس میں سے چار کمروں کی چھتیں بھی بن گئیں ہیں اور یہ سامنے دیکھو ایک کمرے کی چھت کے شہ تیر کی لکڑی بچ بھی گئی ہے“۔دادا نے جس لکڑی کی طرف اشارہ کیا تھا وہ اصل میں کھجور کے درخت کا کٹا ہوا تنا تھا۔یہ طنز اتنا واضح تھا کہ بہرام خان کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔وہ فوراً سنبھلے اور گفتگو کا رخ موڑا مگر لمبی چھوڑنے سے باز نہیں آئے کہنے لگے ”پچھلے سال میں نے چھوٹے والے بیٹے کی شادی کی تھی تو بڑے والے لڑکے نے شوق میں ولایت(انگلینڈ) سے قوال بلا لئے تھے“۔ایک مرتبہ پھر منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔نوجوانوں کی سوالیہ نظریں کبھی دادا جان کی طرف اٹھتیں تو کبھی طنزیہ نظریں بہرام خان سے کہتیں کہ ”بڑے میاں!کیوں اپنے ساتھ زیادتی کر رہے ہو،بس کرو بہت ہو گئی“۔مگر دادا جان نے کسی قسم کا کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا،نہ حیرانی،نہ غصہ،نہ مسکراہٹ۔
اب پھر دادا کی باری تھی۔انہوں نے پھر حقے کا کش لیا۔دو گھونٹ پانی کے لئے اورپورے اطمینان اور اعتماد کے ساتھ بولے”عبدالستار کی شادی میں!……اسکے کزن نے ہانگ کانگ سے طبلہ بجانے والا بلوایا……مگر!!…. تمہیں تو پتا ہے کہ میں ایسی چیزیں کہاں پسند کرتا ہوں…..میں نے تو پھڈا ڈال دیا اور اسکا طبلہ ہی چھپا دیا مگر وہ بھی اتنا ما ہر تھا کہ…. اس نے پتیلہ رکھ کر اسی پر”تین تال“اور ”روپک تال“ بجا دیں“۔
دادا جان چہرے سے انتہائی سنجیدہ تھے جبکہ بہرام خان ہکا بکا ہو کر غیر یقینی صورتحال کا شکا ر دادا جان کو دیکھ رہے تھے۔اچانک ان کے منہ سے نکلا”تم لو گ کا فی چالاک ہو“۔دادا جان نے یہاں بھی انہیں نہیں بخشا اور فوراً بولے”ہاں..ہاں..پہلے ایسے نہیں تھے…جب سے ہرنائی کو برونائی سے ملانے والی سڑک ہمارے گاؤں سے گزری ہے…تب سے…یہ حال ہے،اور اب تو یہی سڑک جاپان کو ملتان سے ملا رہی ہے“۔اب تو بہرام خان اتنے شرمندہ ہوئے کہ شرمندگی میں انہیں سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہہ رہے ہیں انہوں نے پھر شیخی ماری ”بھئی!ہمارے ہاں صحرا میں بہت بڑے بڑے چھوڑو ہیں“۔داداجان نے پھر آستینیں چڑھائیں اور بولے”ارے تمہارے ہاں کیا چھوڑو ہوں گے جو ہمارے یہاں ہیں۔بھئی!…اپنا…یہ..برابر والی بستی ہے ناں..چھوڑپور….اس میں ایک بہت بڑا چھوڑو رہتا ہے… ”گاما“۔ایک دن وہ جب کھیتوں سے گھر آیا….. تو اسکے بیٹے نے….اسے بتایا کہ آپکا چھوڑو دوست ”شیدا“آیا تھا۔اس نے آپکا پوچھا تھا…..گامے نے بیٹے سے پوچھا کہ… ”تم نے اسے کیا بتایا تھا؟“…بیٹے نے کہا کہ ”میں نے انہیں یہ بتایا کہ ابا چیونٹیوں کا دودھ دوہنے گئے ہوئے ہیں“…..بیٹے کی یہ بات سن کر گامے کو بڑا غصہ آیااور اس نے بیٹے سے کہا کہ…”تم نے اتنی چھوٹی اور پھس پھسی چھوڑی ہے کہ میرا نام ہی ڈبو دیا….،دوست کیا سمجھے گا کہ اتنے بڑے چھوڑو کا بیٹا ایک بھی لمبی نہیں چھوڑسکا“اور ساتھ ہی گامے نے بیٹے کا بازو اور ٹانگ پکڑ کر اسکو نہر میں غوطہ دیا….اور جیسے ہی پانی سے نکالا تو لڑکا چیخا..ابّا..ابّا..گامے نے پوچھا….”کیاہوا؟“….تو لڑکا بولا”ابّاجی!….جب آپ نے مجھے پانی میں غوطہ دیاناں..تومیں نے پانی میں ایک مچھلی پکڑ کر اسے پانی میں ہی بھون کر کھالیا“….اب گامے کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا اور وہ بولا….”ہاں!….کم از کم ایسی تو چھوڑی کرو“…یقین کیجئے دادا جان کی یہ بات جب ختم ہوتی تو بہرام خان بے ہوش ہو چکے تھے۔
یہ تو تھیں داداجان اور ان کے دوست بہرام خان کی باتیں۔اب ایک چھوٹی سی میری بھی پڑھتے جائیے۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے کہ جب چچا طالب کی شادی ہورہی تھی اور بہرام خان شرکت کیلئے آئے ہوئے تھے۔اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چچا طالب کی شادی داداجان کے انتقال سے چھ سال پہلے ہوئی او راب تو داداجان کے انتقال کو بھی چار سال گزر چکے ہیں مگر یقین کیجئے کہ بہرام خان کو ابھی تک ہوش نہیں آیا…..