احساس مسرت
ماریہ ارشاد احمد
۔۔۔۔
حماد بیٹے کل آپ کو مدرسے چھوڑ آؤں گا، میرا بیٹا قرآن پاک حفظ کرے گا۔“
حماد نے تیسری جماعت میں اول پوزیشن حاصل کی تھی رزلٹ کے بعد ابو نے اسے نئی خبر سنائی۔
”نن.. نہیں بابا میں سکول میں ہی پڑھوں گا، مجھے مدرسے جانا اچھا نہیں لگتا، سکول میں میرے اتنے سارے دوست ہیں،مدرسے میں کوئی بھی تو نہیں…“اس نے رونی صورت بناتے ہوئے کہا۔
”یہ تو کوئی بہانہ نہ ہوا، اسکول جانے سے پہلے بھی تو تمہارا کوئی دوست نہیں تھا… جاکر ہی بنے تھے نا… اب بھی بن جائیں گے۔“ اپیا نے ڈپٹتے ہوئے کہا۔
”پر میں مدرسے نہیں جاؤں گا۔“حماد نے ضدی انداز میں جواب دیا۔
”حماد بیٹا اپیا صحیح تو کہہ رہی ہیں۔ان شاء اللہ جب آپ جائیں گے تو وہاں خوب انجوائے کریں گے۔“امی جان نے حماد کو تسلی دی۔
۔۔۔۔۔
”حماد بیٹا قرآن مجید حفظ کرنے کی بہت فضیلت ہے۔عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ: قیامت کے روز صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن مجید پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا، اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسے تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا بس تیرا مرتبہ وہی ہے جہاں تو آخری آیت پر پہنچے۔(ترمذی شریف)
کتنا بڑا مرتبہ ہے حافظ قرآن کا…
اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ:
جس نے قرآن مجید پڑھا، پھر اس کو حفظ کیا اور حلال کو حلال اور حرام کو حرام جانا، اللہ رب العزت اسے جنت میں داخل فرمائیں گے اور اس کے گھر کے دس افراد کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کریں گے جن کے بارے میں جہنم کا فیصلہ ہو گیا ہو (ابن ماجہ)
اسی طرح اور بھی بہت فضائل ہیں قرآن پاک حفظ کرنے کے، قرآن مجید کا ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیوں کا اجر ملتا ہے، حافظ قرآن کو اور اس کے والدین کو تاج پہنایا جائے گا اور یقینا حماد بھی چاہے گا کہ قیامت کے دن اس کے والدین تاج پہنیں۔“
حفظ کے استاد محترم نے حماد کو خوبصورت طریقے سے حفظ قرآن کی فضیلت بتا کر کافی حد تک قائل کر لیا تھا۔
وہ مدرسے میں سب سے چھوٹا تھا۔ شروع میں تو دل نہیں لگا لیکن آہستہ آہستہ وہ سب کا لاڈلا اور چھوٹی چھوٹی باتوں، شرارتوں کی وجہ سے سب کی آنکھ کا تارا بن گیا تھا اور یہ حدیث سننے کے بعد اس کا جذبہ اور جوان ہو گیا تھا جس کا مفہوم ہے کہ جو شخص علم دین کی طلب کے لیے گھر سے نکلتا ہے تو فرشتے اس کے قدموں تلے اپنے پر بچھاتے ہیں اور تمام مخلوقات اس کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہیں۔
استاد محترم کے پاس ہر موقع پر چھٹی چاہیے ہو یا بریک بطور سفارشی اسے ہی بھیجا جاتا۔
طلباء پیٹو خان تھے۔ ایک طالب علم کو دو دو روٹیاں بھی کم لگتی تھیں۔جب بھی زیادہ کھانے کی ضرورت ہوتی تو حماد کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا۔
کھانا کھانے کے لیے چار لوگوں کی گروپنگ کی جاتی تھی۔ باورچی بوڑھے بابا جی تھے جو ہر لڑکے کے لیے دو روٹیاں پکاتے تھے۔ زیادہ کا کہنے پر بابا جی سے اچھی خاصی بے عزتی کا خطرہ ہوتا۔ اس لیے لڑکے کم ہی جرات کرتے زیادہ مانگنے پر، اس دن بھوک شدید تھی جس کی وجہ سے کھانے کی طلب بھی زیادہ تھی،حماد کو کھانا لینے بھیجا گیا۔
”ہاں بھئی کتنے لڑکے ہو؟“بابا جی نے روٹی تندور میں لگاتے ہوئے پوچھا۔
”بابا جی ایک میں، حماد، ارشد، احمد اور ندیم پانچ ہوئے۔“یوں کہہ کر حماد نے اپنا نام بھی لے کر مزے سے چار کو پانچ کرکے بتایا اور یہ شرارت باقی سب کو بھی متعارف کروائی اور بابا جی کو صحت تندرستی اور لمبی زندگی کی دعائیں دیں۔
حماد نے نئی نئی قبرستان میں داخل ہونے کی دعا یاد کی تھی۔ اس دن استاد محترم خوب غصے میں تھے۔ جب اچانک وہ بے خبر کمرہ جماعت میں داخل ہوا اور اپنے خاص پرجوش انداز میں انداز سلام کچھ اس طرح کیا۔”السلام علیکم یا اھل القبور“ جس کا ترجمہ کچھ اسطرح ہے کہ ”تم پر سلامتی ہو اے قبر والو“
شدید غصے میں بیٹھے استاد محترم اس کے اس سلام پر کھلکھلا کر ہنس دیے، پوری محفل کشت زعفران بن گئی۔یوں چھوٹی چھوٹی شرارتیں کرتے دو سال کیسے گزرے پتہ ہی نہیں چلا۔
۔۔۔۔۔
آج حماد بے حد خوش تھا۔ خوش کیوں نہ ہوتا رمضان المبارک کی ستائیسویں رات تھی اور اس مبارک رات میں اس کا مسجد میں تراویح سنانے والے حافظ صاحب کے ساتھ ساتھ حفظ قرآن مجید مکمل ہو گیا تھا، مسجد کے ساتھ متصل مدرسے میں ہی حماد نے قرآن مجید مکمل کیا تھا،اس لیے آج اس کے اعزاز میں ایک پروقار و پرنور تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا، حماد سفید اجلا لباس زیب تن کیے خوشبو لگائے سر پر سفید عمامہ باندھے بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔ خوشی ہوتی بھی کیوں نہ۔ وہ پورا قرآن مجید اپنے سینے میں قیامت تک کے لیے خوب محنت کرکے محفوظ کرچکا تھا، اس نے اپنے والدین کی ایک خواہش کو پورا کر دکھایا تھا، وہ جب امی ابو کے خوشی سے دمکتے چہرے کی طرف دیکھتا تو اس کی خوشی دوچند ہو جاتی۔حماد کو وہ حدیث یاد آرہی تھی کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ:”جو شخص قرآن مجید یاد کرے،قیامت کے دن اس کے والدین کو ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی آفتاب کی روشنی سے زیادہ ہو گی۔“ (رواہ احمد و ابوداؤد)
وہ تصور میں امی جان اور ابو جان کے سر پر وہ چمکدار تاج دیکھ رہا تھا۔
اس کے دوست، محلے کے بڑے چھوٹے تمام افراد اس کی طرف رشک بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ اس کی ایک شہزادے کی طرح خاطر مدارت کر رہے تھے۔ جو شخص تقریب میں شرکت کی غرض سے آتا اس کے ہاتھ میں گلاب کے پھول کا ہار ہوتا جو حماد کے گلے میں ڈال دیا جاتا اور حماد شرم سے لال ہورہا تھا۔پوری مسجد گلاب کی خوشبو سے مہک رہی تھی۔
تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ خوبصورت دل موہ لینے والی تلاوت کے بعد خوبصورت آواز میں نعت رسول مقبول ﷺ پڑھی گئی۔ بعدازاں جید علماء کرام نے قرآن مجید کی اہمیت و عظمت کے ساتھ ساتھ حافظ قرآن کی باقی لوگوں پر فضیلت کو بہت خوبصورتی سے اجاگر کرتے ہوئے حماد کی خوب حوصلہ افزائی کی۔آج اسے اپنی محنت اور قربانی کا صلہ مل گیا تھا، اس نے خود سے ایک عہد کیا تھا کہ قرآن مجید جیسی عظیم دولت جو اس نے دو سال کی محنت کرکے اپنے سینے میں محفوظ کی ہے کبھی اس کی ناقدری اسے بھلا دینے کی صورت نہیں کرے گا۔
وہ خوش تھا لیکن اداس بھی تھا کیونکہ اس کی زندگی کا ایک سنہرا دور اختتام پذیر ہو گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں خوشی اور اداسی کے آنسو جھلملا رہے تھے…اور اس کے اردگرد جمع اس کے دوست احباب اسے ہنسانے کی پرزور کوشش کر رہے تھے۔