تین دوست
زینب اعظم
۔۔۔۔۔
”واہ بھئی بڑے خوبصورت لگ رہے ہو۔“احمر نے حامد کو چھیڑا۔
”میں تو پہلے ہی بہت خوبصورت ہوں، کوئی نئی بات بتاؤ۔“ حامد نے اکڑ کر جواب دیا۔
”اچھا چھوڑو یار، چلو فلم دیکھنے کے لیے مانی کے گھر چلتے ہیں۔“احمر آنکھ مارتے ہوئے بولا۔
”اچھا چلو مگر دور ہو کر چلو۔“حامد نے اپنی قمیص صحیح کرتے ہوئے کہا۔
احمر، حامد اور مانی بہترین دوست تھے۔تینوں ہم عمر ہونے کے ساتھ ساتھ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے۔ حامد کے اندر بہت اکڑ تھی جبکہ احمر کو فلمیں دیکھنے اور گندی باتوں کی جستجو تھی اور اسکے برعکس مانی کی زبان قینچی کی طرح چلتی تھی۔
ایک دن تینوں دوستوں نے مل کر محلے کے بچوں کو تنگ کرنے کا پلان بنایا۔دوسرے دن ہفتہ تھا، تینوں دوست پلان کے مطابق ایک ہی گلی میں مختلف جگہوں پر کھڑے ہوگئے۔
”او بچے!رکو ذرا۔“احمر نے محلے کے سب سے شریف بچے سلمان کو روکتے ہوئے کہا۔
”جی بھائی!“وہ منمناتے ہوئے بولا۔
”تم نے فلاں فلم دیکھی ہے؟ کتنی زبردست ہے، چلو آؤ تمہیں دکھاتا ہوں۔ََ احمر نے اسکو بہکایا۔
”نہیں بھائی مجھے چھوڑ دو، یہ گندی بات ہوتی ہے،امی منع کرتی ہیں۔“سلمان گڑبڑا گیا۔
”اچھااا، چلو میرے ساتھ، کوئی گندی بات نہیں ہوتی۔“احمر نے اسکو کھینچتے ہوئے کہا۔
”اوئے تمیز سے چلو۔“حامد محلے کے سب سے زیادہ غریب بچے فہد پر چیخا۔
”بھائی میں نے کیا کیا ہے؟“ فہد نے حیرت سے پوچھا۔
”تم نے میری قمیص خراب کردی، اندھے ہو کیا؟ کیا چار آنکھیں ہونے کے باوجود بھی نظر نہیں آتا؟ چچ چچ چچ……“
فہد نے چشمہ صحیح کرتے ہوئے سر جھکا لیا۔
”اوئے بات سنو تم نے رات کے کھانے میں کیا کھایا تھا؟“ مانی نے محلے کے سب سے زیادہ پڑھاکو بچے سلیم کو روکتے ہوئے کہا۔
”بھائی مٹر آلو“ سلیم جلدی سے بولا۔
”اچھا، میرے لیے نہیں لے کر آئے؟ مجھے تو بہت پسند ہے۔“مانی دیدے نچاتے ہوئے اسکو بتانے لگا۔
”اچھا بھائی، میں کیا کروں؟ کھانا تو ختم ہو گیا۔“سلیم بیزاری سے بولا۔
”اچھا بات سنو۔“مانی گلا کھنکارتے ہوئے کہنے لگا۔
”جی بھائی، میرے سر میں درد ہو رہا ہے، مجھے گھر جانے دیجئے۔“ سلیم نے بیزار ہو کر بتایا۔
”ارے تمہیں پتہ ہے کہ کل میری سائیکل خراب ہو گئی۔“ مانی اسکی بات نظر انداز کر کے اسکو اپنی کہانی سنانے لگا۔
”بھائی برائے مہربانی خاموش ہو جایئے! آپ کتنا بولتے ہیں، آپکی زبان نہیں تھکتی؟ اس سے اچھا سبق یاد کرلیا کریں۔“ سلیم چلایا۔
اسکی آواز سن کر راہ میں چلتے ہوئے امام صاحب رک گئے، انہوں نے گلی میں رونما ہونے والے تینوں مناظر دیکھے اور پھر احمر، حامد اور مانی کو اپنے پاس بلانے لگے:
”شاباش، تینوں پیارے شہزادوں! ادھر آؤ، چلو میرے ساتھ مسجد چلو، نماز کا وقت ہو رہا ہے۔“
وہ تینوں کو لے کر مسجد پہنچ گئے۔
”بیٹا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
بے شک تم لوگوں میں سے سب سے زیادہ محبت مجھے اس سے ہے اور قیامت کے دن میرے قریب وہ شخص ہوگا جسکے اخلاق اچھے ہوں گے، اور مجھے سب سے زیادہ ناپسندیدہ وہ لوگ ہیں اور قیامت کے دن وہ لوگ مجھ سے بہت دور ہوں گے: کثرت سے کلام کرنے والا، فحش گوئی کرنے والا اور تکبر کرنے والا۔“(راوی: ترمذی، باب: حسن الخلق)
عصر کی نماز کے بعد امام صاحب نے تینوں دوستوں کو حدیث مبارکہ میں موجود وعید سناتے ہوئے کہا:
”بیٹا ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اعلیٰ ترین اخلاق کے مالک تھے، نہ اتنا کم بولتے تھے کہ سمجھ نہ آئے اور نہ اتنا زیادہ بولتے تھے کہ سننے والا اکتا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ جامع اور مختصر الفاظ میں بات چیت فرماتے تھے۔“
امام صاحب نے مانی کی طرف دیکھتے ہوئے بتایا اور مانی کا سر شرم سے جھک گیا۔
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم فحش گوئی سے اجتناب فرماتے تھے اور اس سے بچنے کی ترغیب بھی دیتے تھے۔بیٹا یہ فحش گوئی تو زمانہ جاہلیت میں اسی طرح عام تھی جیسا کہ آج تمہارے جتنے بچوں میں عام ہو رہی ہے۔“امام صاحب نے احمر کو گھورتے ہوئے بتایا۔”اور بیٹا حامد آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ کیا آپ کو نہیں پتا کہ تکبر کی چادر اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور جو بھی اس کو پہننا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے سخت ناراض ہوتے ہیں۔“
”ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تکبر بالکل بھی نہیں پسند، پیارے بچے دیکھا آپ نے حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبر کرنے والے کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔“
”بیٹا ایک بات اور یاد رکھیں کہ تکبر کے معانی ہیں اپنی بڑائی بیان کرنا، یہ صرف الفاظ سے نہیں ہوتا بلکہ یہ اشارہ اور کنایہ سے بھی ہوتا ہے۔“امام صاحب نے حامد کو دیکھتے ہوئے بتایا اور حامد کا سر ندامت سے جھک گیا۔
”چلو شاباش تینوں سر اوپر اٹھاؤ، اور وعدہ کرو کہ آئندہ یہ کام نہیں کروگے۔“ امام صاحب نے پیار بھرے لہجے میں تینوں دوستوں سے پوچھا۔
”جی ان شاء اللہ ہم آئندہ ایسے گندے کام نہیں کریں گے جس سے ہم قیامت کے دن اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت سے محروم ہو جائیں۔“تینوں یک زبان ہو کر بولے اور آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو پونچھنے لگے۔
”اللہ پاک تم تینوں کا حامی و ناصر ہو۔“امام صاحب دعا دیتے ہوئے کھڑے ہو گئے اور وہ تینوں دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے لگے۔