غُصے کا نقصان
آسیہ علی
۔۔۔۔۔
”امی! میں اس کا سر کھول دوں گا۔بتا رہا ہوں میں آپ کو، آج میرے ہاتھ سے نہیں بچنے والا یہ ارحم کا بچہ۔“عاشر آگ بگولا ہوا اپنے کمرے سے باہر نکل کر صحن میں کپڑے دھوتی امی کے پاس جا کر بولا۔
”آرام سے بیٹا کیا ہو گیا ہے؟“اس سے پہلے کہ امی کچھ کہتیں دادی اپنے کمرے سے لاٹھی ٹیکتے ہوئے باہر آکر حیرانی سے پوچھنے لگیں۔
”دادو! میرا اتنا اہم کام تھا جو میں کر رہا تھا لیپ ٹاپ پر، اتنی مشکلوں سے سارا مواد اکٹھا کیا،اتنی محنت کی، پھر لکھا تھا، جس پر اس نے پانی پھیر دیا ہے۔“عاشر جھنجلائے ہوئے لہجے میں بولا۔اتنے میں ارحم بھی فٹ بال سے کھیلتا ہوا گھر میں داخل ہوا۔
عاشر نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور جا کر ارحم پر پَل پڑا۔ ارحم جو اپنے دھیان چلا آ رہا تھا، خود کو مار کے لیے تیار نہ کر پایا اور منہ کے بل نیچے گر گیا۔نیچے گرنے سے اس کا سر پودوں کی کیاری کی اینٹ سے ٹکرایا جس کی وجہ سے اس کا سر پھٹ گیا اور خون بہنا شروع ہو گیا۔ خون دیکھ کرعاشر کے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے۔اتنے میں دادی، امی اور ہانیہ بھی بھاگتی ہوئی ان تک پہنچ چکی تھیں۔ارحم سر پر چوٹ لگنے سے بے ہوش ہو چکا تھا۔ارحم کو ہسپتال لے جایا گیا۔پٹی کرنے کے بعد ڈاکٹر نے دوائی کا پرچہ تھمایا اور دو تین تجاویز دے کر رخصت کردیا۔عاشر کا غصہ اتر چکا تھا۔وہ سب سے منہ چھپائے پھررہا تھا۔دو دن گزرے تو ارحم کی طبیعت بھی سنبھل چکی تھی۔
”عاشر آج رات اکیڈمی سے آنے کے بعد ارحم کے کمرے میں آ جانا،بات کرنی ہے مجھے ……اور ہانیہ تم بھی آنا۔“عاشر اور ہانیہ کو ناشتہ کرتے ہوئے دادو کی سنجیدہ آواز سنائی دی۔
”جی دادو!“دونوں نے مدھم آواز میں کہا۔
رات کو عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر عاشر اور ہانیہ ارحم کے کمرے میں گئے جہاں دادو پہلے سے ہی بیٹھی ارحم پر کچھ پڑھ پڑھ کر پھونک رہی تھیں۔
”السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔“دونوں نے مشترکہ سلام کیا۔
”وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ۔میرا آپ کو یہاں اکٹھے کرنے کا مقصد یقیناآپ سمجھ رہے ہوں گے۔“دادو نے کہنا شروع کیا۔
”جیسا کہ سب جانتے ہیں،ارحم نے عاشر کا کالج کا اہم کام لیپ ٹاپ میں محفوظ کیے بغیر کارٹون لگا کر دیکھ لیے جس وجہ سے عاشر کو نئے سرے سے سارا کام کرنا پڑ رہا تھا تو وہ اپنے غصے پر قابو نہ رکھ پایا۔ پھر نتیجہ آپ لوگوں کے سامنے ہے۔“
بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے دادو نے گلاس میں پانی انڈیل کر پیا پھر گویا ہوئیں۔”میرے پیارے بچو! آج میں آپ کو ہمارے پیارے نبی ﷺکی حدیث مبارکہ سناؤں گی جس میں غصے کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے۔“
اتنے میں امی بھی کچن کا کام سمیٹ کر آئیں اور سب میں شامل ہو گئیں۔
”ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ نے فرمایا۔“
محمدﷺ کے نام پر دادو کی دیکھا دیکھی سب نے ﷺ پڑھا۔
”جس نے غصے پر قابو پایا،اللہ تعالیٰ اس سے اپنا عذاب روک لے گا۔(السلسلتہ الصحیحتہ الالبانی: 2360)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ طاقتور وہی ہے جو غصے میں اپنے اوپر قابو رکھے(بخاری حدیث: 658)
بالکل میرے بچو! غصہ آنا انسان کی نشانی ہے اور اس پر قابو پانا مومن کی نشانی ہے۔“
”جب غصہ آئے تو تعوذ پڑھیں یا پھر ”لا حول ولا قوتہ الا باللہ۔“اگر کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیں یا پھر وضو کر لیں، پانی پی لیں تو بھی غصہ روکا جا سکتا ہے۔“ امی نے مسکراتے ہوئے دادو کی احادیث سن کر خود بھی بچوں کو سمجھایا۔
”میں آئندہ کبھی بھی غصے کو خود پر حاوی نہیں ہونے دوں گا۔ مجھے آپ سب لوگ معاف کردیں دادو،امی اور ارحم میں اپنا وعدہ پورا کروں گا ان شاء اللہ۔“عاشر نے شرمندہ ہو کر کہا۔
”میں نے آپ کو معاف کر دیا بھائی! کیوں کہ معاف کرنا نبی پاک ﷺ کی سنت ہے۔آپ بھی مجھے معاف کر دیں، میں نے بھی آپ کا کام خراب کیا تھا۔“ارحم بولا۔
”ہاں میرے بچے!بغیر پوچھے کسی کی چیز استعمال کرنا، وہ بھی اُس کی غیر موجودگی میں ایک بُری عادت ہے۔“ارحم کے بال سنوارتے ہوئے دادو نے کہا۔
عاشر نے آگے بڑھ کر ارحم کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ لیا۔ بدلے میں اس نے بھی لے لیا۔
”اللہ!میرے بچوں میں ہمیشہ سلوک،اتفاق اور محبت قائم و دائم رکھنا۔ آمین۔“دادی نے بچوں کا پیار دیکھ کر دعا دی تو سب نے صدقِ دل سے آمین کہا۔