اور دل بدل گیا
بنت مسعود احمد
۔۔۔۔۔
”اففف! کیا مصیبت ہے؟آپی کو بھی اپنے گھر میں چین نہیں۔“وہ مدرسے سے گھر آیا تو صحن کے بدلے نقشے نے اسے رجاء کی آمد کا پتا دے دیا۔
اس کی تین پہیوں والی سائیکل جسے چھٹپن میں وہ بڑے دھیان سے استعمال کرتا تھا،صحن کے بیچوں بیچ بے یار و مددگار اوندھی پڑی تھی جب کے سامنے بچھے تخت کی چادر آدھی اوپر اور آدھی نیچے لٹک رہی تھی۔
وہ چابی سے گیٹ کا لاک کھول کر آیا تھا اس لیے کسی کو اس کی آمد کی خبر نہ ہوئی۔
امی ہمارے معاملے میں تو اتنی سخت تھیں اور نواسے پورا گھر الٹ بھی دیتے ہیں تب بھی مسکراتی ہی رہتیں ہیں۔
اندر کمرے سے آتی شور شرابے کی آواز اسے انتہائی ناگوار گزر رہی تھی۔ وہ جلتا بھنتا سیدھا اپنے کمرے میں چلا آیا۔ کپڑے تبدیل کرکے وہ بستر پر سونے کی غرض سے آلیٹا۔ بچوں کی دھما چوکڑی سے وہ ایسے خائف رہتا تھا کہ جیسے اپنے بچپن میں تو اس نے کبھی کوئی شرارت کی ہی نہ تھی۔ہر ماہ جب بھی کچھ دن رجاء رہنے کے لیے میکے آتی،مستقیم کا موڈ آف ہوجاتا۔ابھی بھی یہی ہوا تھا۔وہ شدید بھوک ہوتے ہوئے بھی سونے کی کوشش کررہا تھا اور کچھ ہی دیر میں وہ نیند کی پرسکون وادی میں اترچکا تھا۔
ابھی اسے سوئے آدھا پون گھنٹا ہی گزرا ہوگا کہ پانچ سالہ منیب اس کے کمرے کی دہلیز پر کھڑا زور سے چلایا۔”نانی دیکھیں! چھوٹے ماموں تو اپنے کمرے میں مزے سے سوئے ہیں اور آپ پریشان ہورہی ہیں۔“
منیب کی چنگھاڑتی آواز اس کی نیند کو تہس نہس کرگئی۔اس نے نیند سے بوجھل آنکھیں کھول کر بھانجے کو دیکھا جو بڑے مزے سے آکر ماموں کے برابر آلیٹا تھا۔
”لو تم کب آئے اور کچھ کھائے پیئے بغیر سو بھی گئے۔ میں تمہارا انتظار کرتے پریشان ہوگئی۔ وہ تو شکر ہے اس کی نظر تمہاری چپلوں پر چلی گئی اور وہ پہن کر گھومنے لگا۔میں نے کہا کہ جاؤ ذرا کمرے میں دیکھو ماموں ہیں۔“امی بولتے بولتے اس کے بیڈ پر آبیٹھیں۔
وہ اپنی چپلیں چھپاکر ذرا کونے میں اتار آیا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے آتے ہی امی نواسوں کی فرمائشی لسٹ تھمادیں گی مگر بھلا ہو آجکل کے بچوں کا جن کی تیز نظریں عقاب کی نظروں کو بھی مات دیتی ہیں۔صحن میں بھاگتے دوڑتے ماموں کی چپلوں کا سراغ پاتے ہی ماموں کو کمرے سے برآمد کر ہی لیا۔
”چلو اب جلدی اٹھو، عصر ہونے والی ہے۔نماز پڑھ کر آتے ہوئے بچوں کے لیے گرم گرم جلیبیاں اور نمک پارے لیتے آنا۔“وہ توقع کے عین مطابق اسے ہدایتیں دینے لگی۔
”واہ نانی! جلیبیاں مزا آجائے گا۔“یہ نعرہ لگا کر نواسے میاں بیڈ پر کھڑے ہوکر اچھلنے لگے،گویا یہ ان کی انتہائی خوشی کا اظہار تھا۔وہ جو پیٹ سے آتی گڑگڑ کی آوازیں اور امی جی کی ہدایتیں ایک ساتھ سن رہا تھا۔ اسے اچھلتے کودتے دیکھ گھورنے لگا مگر وہ اس کی گھوریوں کو مکمل نظرانداز کیے اپنی مستی میں مگن رہا۔
”نہیں بیٹے ایسے نہیں کودتے،گر بھی سکتے ہو میری جان۔“امی شہد میں ڈوبے لہجے میں بولیں کہ چھوٹو صاحب بھی بڑے بھیا کو ڈھونڈتے ادھر آنکلے۔
”الے یہ تا ہولا ہے یاں دمپنگ؟“۔۔۔تین سالہ مطیب بھائی کی دیکھا دیکھی فوراً بیڈ پر چڑھ کر کودنے لگا۔
”نیچے اترو تم دونوں ایک منٹ کے اندر اندر۔“اس کے صبر کا پیمانہ چھلکنے کو بے تاب تھا۔ وہ بدمزہ سا اٹھ بیٹھا اور دونوں کو غصے سے ڈپٹ کر بولا۔
”بچے ہی تو ہیں بیٹے یہی بات پیار سے بھی کہہ سکتے ہو۔“امی کی انہی طرف داریوں اور لاڈ پیار نے انہیں سر چڑھا رکھا تھا۔
”امی آپ دیکھ رہی ہیں کہ ان کی بے ہنگم جمپنگ بیڈ کو توڑ بھی سکتی ہے۔“
”سمجھ نہیں آئی میری بات نیچے اترو۔۔۔انسانوں کی طرح رہا کرو سمجھے۔“وہ غصہ سے چلایا۔
دونوں رونی صورت بناکر نانی کے کندھے سے آلگے۔”نانی ماموں اتھے نیں ایں۔“چھوٹے والے نے نانی کے کان میں باآواز بلند سرگوشی کی۔
”چندا آپ بھی تو خراب حرکت کررہے تھے نا۔۔چلو آؤ میرے ساتھ میں آپ کو کلرز دیتی ہوں اور ڈرائنگ بک۔۔ آپ اس میں کلر کرو۔“
”زبردست مجھے کلرنگ کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔“منیب چہک کر بولا۔
”اول مدے بھی۔“۔چھوٹو نے بھی اپنی توتلی زبان میں ان کی تائید کی۔
وہ بچوں کو پیار سے پچکارتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئیں۔جانتی تھیں کہ بیٹے کو ان بچوں کا چلبلا پن ایک آنکھ نہیں بھاتا، اس لیے وہ ہمیشہ ان کو ڈانٹ کر رکھتا تھا۔اسے بہن سے شکایت تھی کہ یہاں آکر بچوں کو ذرا بھی نہیں دیکھتی ہیں کہ وہ کیا کیا چیزیں پھیلاتے پھررہے ہیں۔
رجاء حسب معمول سلائی مشین سنبھالے بیٹھی تھی۔میکے آکر ہی وہ سی پاتی تھی کیونکہ سسرال میں گھر اور بچوں کی مصروفیات میں اسے بالکل وقت نہ ملتا۔ یہاں بچے مکمل طور پر امی کے حوالے کرکے وہ اپنا سلائی کا کافی کام نمٹالیتی۔
۔۔۔۔۔
رجاء اور مستقیم۔ دو ہی بہن بھائی تھے اور ان دونوں میں پورے دس سال کا فرق تھا۔دونوں بچے ہی لاڈ اور پیار میں پلے بڑھے تھے مگر چھوٹا ہونے کی وجہ سے گھر میں سب سے زیادہ ناز نخرے اس کے ہی اٹھائے جاتے، اس لیے وہ کچھ کچھ مغرور ہوگیا تھا۔ابو جی کام کے سلسلے میں زیادہ تر دوسرے شہر رہتے تھے مگر جب بھی آتے اس کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک کھلونا لے کر آتے۔اس کے چھوٹے موٹے کتنے ہی کام رجاء اپنے ہاتھ سے کیا کرتی۔ اس کو نہلاتی دھلاتی،اس کو تیار کرتی۔ کبھی اس کے کپڑے دھوکر ڈال دیتی۔اس کے سر پر تیل کی مالش کرتی،کنگھی کرتی،اس کو کھیلنے کے لیے گویا ایک جیتا جاگتا گڈا میسر آگیا تھا۔وہ دس سال کا ہوا تو رجاء پیادیس سدھارگئی۔وہ آپی کو یاد کرکے بولایا بولایا پھرتا۔
شادی کے بعد اس کو آپی بدلی بدلی لگنے لگیں تھیں۔ منیب کی پیدائش پر وہ بہت خوش ہوا تھا مگر جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا گیا اسے اس کی بے چین طبیعت اور اچھل کود سے چڑ سی ہونی لگی۔ پھر اسے امی ابو کی توجہ بھی بٹی ہوئی لگنے لگی۔اب ابو اس سے زیادہ نواسے کے لیے تحفے لے کر آتے۔ یہاں تک کہ جب مطیب کی پیدائش پر آپی ایک ماہ کے لیے رکنے آئی تو اس کے لیے یہ وقت گزارنا مشکل ہوگیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چھوٹا والا بھی بڑے بھائی کے رنگ میں رنگ گیا۔
یک نہ شد دو شد اب دونوں بھانجے اسے مل کر خوب تنگ کرتے اور وہ ہمیشہ انہیں غصے سے اور ڈانٹ کر اپنے سے دور کردیتا۔
رجاء ایسی سچویشن پر کبھی تو خود بھی بچوں کو ڈانٹ دیتی اور کبھی وہ چپ چپ سی ہوجاتی۔امی کئی بار اسے ٹوک چکی تھیں کہ بہن کا دل دکھتا ہے۔ بچوں کو ہر وقت تم ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہتے ہو مگر اس پر ذرا اثر نہ ہوتا۔وہ یہ مانتی تھیں کہ بچے واقعی شرارتی تھے مگر بچوں کا کام ہی شرارت ہے۔وہ بڑوں کے جیسے حرکتیں کریں گے تو بڑوں اور بچوں میں پھر فرق ہی کیا رہ جائے گا۔
۔۔۔۔۔
اس کے ہاتھ تیزی سے نوٹ بک پر چل رہے تھے۔ اس نے لکھنے کا کام مکمل کیا اور کل کے ٹیسٹ کی تیاری کے لیے فارسی کی کتاب اٹھائی کہ وہ دونوں کمرے میں چلے آئے۔
”کیا ہوا؟“اس نے اکھڑے لہجے میں پوچھا۔
”ماموں امی پوچھ رہی ہیں کہ آپ ہم کو آئسکریم لادیں گے؟“وہ معصومیت چہرے پر سجائے یک زبان بولے۔
ایک پل کے لیے اس کا بھی دل نرم ہوا تھا۔”ہاں لادوں گا مگر تھوڑی دیر میں۔۔ابھی میں اپنا سبق یاد کررہا ہوں۔“وہ بادل نخواستہ ہامی بھرگیا۔
”ہرراہ!“اگلے ہی پل ایک شور سا مچا تھا۔
”خاموش ہوجاؤ! مجھے سکون سے پڑھنے دو۔“
وہ کمرے میں یہاں سے وہاں ٹہل ٹہل کر اپنا سبق دہرارہا تھا کہ میز کے پاس کھڑے منیب نے اس کو متوجہ کیا۔
”یہ کیا ہے ماموں؟“وہ ہاتھ میں دوات کی شیشی لیے پوچھ رہا تھا۔
”رکھو اسے اس کا ڈھکنا ڈھیلا ہے کہیں گر۔۔“ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ چھوٹے والا اس کے ہاتھ سے شیشی کھینچ کر بولا۔”مودے دتھانا ذلا۔“
اسی کھینچاتانی میں شیشی نیچے گر کر ٹوٹ گئی اور دوات فرش کو سیاہ کرگئی۔
وہ طیش کے عالم میں ان تک آیا تھا۔”حد سے زیادہ بے چین ہو تم دونوں۔گرادی نا ساری دوات۔“
وہ سہم کر فرش پر گری سیاہی کو تکنے لگے۔”سوری ماموں غلطی سے گرگئی۔“منیب منمنایا۔
”میں تپلا لا تے تاف تل دوں؟“مطیب صاحب نے پیشکش کی۔
”تم دونوں یہاں سے چلے جاؤ۔میرا دماغ مت کھاؤ اور اب کوئی آئسکریم وائس کریم نہیں لاکے دوں گا میں۔“
وہ اس کی دھاڑ سن کر ڈر کے مارے کمرے سے بھاگ نکلے۔
۔۔۔۔۔
”حضور ﷺ جب بچوں کے قریب سے ہوکر گزرتے تو ان کو خود السلام علیکم فرماتے اور ان کے سر پر ہاتھ رکھتے اور چھوٹے بچوں کو گود میں اٹھالیتے۔
غور کیا جائے تو یہ بچوں سے محبت اور ان کی تربیت کا ایک دلنشین انداز ہے کیونکہ بچے اپنے بڑوں کی ہی نقل کرتے ہیں۔مگر آج ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے چھوٹے ہمیں جھک کر سلام کریں ورنہ ہم برا مان جاتے ہیں کہ جی کیسا بچہ ہے سلام تک نہیں کرتا۔
بھئی سلام ایک سنت ہے۔ اگر بچے نے نہیں کیا،بھول گیا،بچہ ہی تو ہے۔جب آپ سنت کو اپناتے ہوئے خود سے بڑھ کر سلام کریں گے تو بچہ بھی یہی طریقہ سیکھے گا ان شاء اللہ۔
ہمارے حضورﷺ سراپا شفقت و محبت تھے۔ان کی ہر سنت ہماری اندھیری زندگی کے لیے مانند چراغ ہے۔آج انہی چراغوں کو روشن کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
حدیث نبوی ﷺ ہے۔ ”جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔“ترمذی۔
ہم جس نبی کے امتی ہیں وہ ہمیں کیا بتارہے ہیں کہ وہ ہم میں سے نہیں۔۔۔جو بڑوں کا ادب نہ کرے اور ہمارا معاملہ الٹ ہے۔ ہم تو سب بڑوں کے بڑے بنے ہیں اور بچے تو کسی کھاتے میں نہیں۔ جب چاہا پیٹ دیا۔ جب چاہا ڈانٹ دیا۔ پیار سے محبت سے بات کرنے کو ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں۔“
بچے بھی آپ ﷺ سے بڑی محبت کرتے تھے جہاں آپ ﷺ کو دیکھا لپک کر آپ ﷺ کے پاس پہنچ گئے۔آپ ﷺ ایک ایک کو گود میں اٹھاتے،پیار کرتے اور کوئی کھانے کی چیز عنایت فرماتے۔ کبھی کھجوریں،کبھی تازہ پھل اور کبھی کوئی اور چیز۔
نماز کے وقت مقتدی عورتوں میں سے کسی کا بچہ روتا تو آپ ﷺ نماز مختصر کردیتے تاکہ بچے کی ماں بے چین نہ ہو۔
سجدے کے دوران اگر نواسہ رسول آپ ﷺ کی پشت مبارک پر بیٹھ جاتے تو آپﷺ ان کے لیے سجدہ طویل کردیتے۔
ایسی ہزاروں مثالیں ہمارے نبی کی مثالی زندگی سے ہمیں مل جائیں گی۔ان پر عمل ہی اصل مقصود زندگی ہے۔ یہ علمی باتیں نہیں عملی باتیں ہیں۔ ان میں نور ہے ان میں جنت کی کنجیاں ہیں۔
ہمارے نبی کی سیرت ہمیں نرمی اور محبت کا درس دیتی ہے اور ہم بس ڈنڈے اور غصے کے زور پر اپنے بچوں کو قابو کرنے پر تلے ہیں۔
ایک دفعہ آپ ﷺ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو چوم رہے تھے۔ایک دیہاتی نے حیرت کا اظہار کیا تو فرمایا کہ اگر اللہ نے تیرے دل سے رحمت کو نکال دیا تو میں کیا کرسکتاہوں۔بخاری
دیکھیے سنت کا طریقہ آپ علیہ السلام سفر سے واپس تشریف لاتے ہیں۔راستے میں جو بچے ملتے، انہیں نہایت شفقت سے اپنے آگے یا پیچھے سواری پر بٹھالیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔
ماموں مجھے بھی لے چلیں اپنے ساتھ۔“ایک معصوم سی التجا اس کے کان کے قریب سنائی دی۔
خطبہ سنتے سنتے اس کی آنکھیں اشک بار ہوچکیں تھیں اور دل ندامت سے لبریز تھا۔
وہ جمعہ کی نماز کے لیے نکل رہا تھا کہ سفید کرتے شلوار میں منیب اس کے پاس چلا آیا۔ سر پر سفید ٹوپی جمی تھی۔
”ماموں میں بھی چلوں گا نماز پڑھنے۔“
”پاگل ہوئے ہو۔ مسجد میں بچوں کا کیا کام۔جاؤ اندر جاکر بیٹھو۔“
”اب میں ابو کے ساتھ بھی جاتا ہوں جمعہ پڑھنے۔میں پانچ سال کا ہوچکا ہوں اور مجھے۔۔۔“
وہ اور بھی کچھ کہہ رہا تھا مگر اسے جلدی تھی وہ دروازہ بند کرکے باہر نکل گیا۔ننھا سا دل ٹوٹا تو آنسو خود بخود پھولے پھولے گالوں پر پھسل آئے۔
۔۔۔۔۔
آج اس کے محاسبہ کا دن تھا۔ وہ گزرے دنوں کو سوچتا۔ اسے صرف اور صرف اپنی ہی غلطیاں اور کوتاہیاں دکھائی دے رہیں تھیں۔ جانے انجانے میں وہ کتنی ہی مرتبہ ننھے دلوں کو دکھاچکا تھا۔ وہ اپنے کئے پر شرمسار تھا۔
اس نے سوچ لیا تھا کہ غلطی کو سدھارنے میں اب اور دیر نہیں کرنی۔ جو نرمی سے محروم رہا وہ تمام بھلائیوں سے محروم ہے۔ وہ ان بھلائیوں سے مزید محروم نہیں رہنا چاہتا تھا۔وہ اللہ کی رحمت کا متلاشی اور طلبگار تھا۔وہ مسجد سے باہر آیا تو اس کے دل کی دنیا یکسر بدل چکی تھی۔
۔۔۔۔۔
مستقیم دروازہ کھول کر اندر آیا تو سامنے تخت پر وہ دونوں کتابوں پر جھکے رنگ بھرنے میں مصروف تھے۔ امی اور رجاء اسے کہیں نظر نہ آئیں۔وہ چل کر ان کے پاس آیا اور تخت پر بیٹھ گیا۔
”السلام علیکم“دونوں کچھ حیران اور کچھ پریشان ہوکر اسے دیکھنے لگے۔اس نے ہاتھ بڑھا کر پہلے مطیب پھر منیب سے مصافحہ کیا۔”کیا کررہے ہو تم دونوں؟“وہ نرمی اور لگاوٹ سے بولا۔
اب وہ دونوں حیران ہوکر ایک دوسرے کو تکنے لگے۔
”تالالنگ۔۔۔“مطیب میاں حسب عادت تتلاکر بولے۔
”ارے واہ تم لوگوں کو تو بہت اچھی کلرنگ آتی ہے۔“اس نے کتابیں ہاتھ میں لے کر دلچسپی سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”جی مما نے سکھائی ہے۔“ منیب نے اپنی تعریف پر خوش ہوکر جواب دیا۔
”چلو آؤ تم لوگوں کو ذرا گھما کر لاؤں۔“
”سچ میں؟“منیب کی حیرت سوا تھی۔
”ہاں سچ میں۔۔“وہ مسکرایا۔
”ہرارہ!“ وہ دونوں اتر کر فوراً جانے کو تیار ہوگئے۔
”اپنی امی کو بتا کر آؤ۔“
”جی ماموں۔۔۔ابھی بتا کر آیا۔“وہ خوشی خوشی اندر بھاگا۔
۔۔۔۔۔
وہ انہیں ڈھیر ساری ان کی من پسند چیزیں دلا کر لایا اور ساتھ میں چھوٹی چھوٹی کھلونا گاڑیاں بھی۔ماموں کا یہ روپ دونوں بھانجوں کے لیے بیک وقت حیرانی اور خوشی کا باعث تھا۔اب وہ ان کے ساتھ بیٹھا انہی گاڑیوں سے کھیل رہا تھا۔
کچن کے دروازے پر کھڑی امی کے چہرے پر ایک آسودہ سی مسکراہٹ تھی جبکہ رجاء کی آنکھیں فرط جذبات سے بھیگ چکی تھیں۔
مستقیم کے دل میں وہ سکون اترچکا تھا جو اس سے پہلے کبھی اس نے محسوس نہ کیا تھا۔وہ خوش تھا، بہت خوش اور کیوں نہ ہوتا، وہ ایک سنت زندہ کرکے سو شہیدوں کا ثواب پاچکا تھا۔