بے چارہ اونٹ
ڈاکٹر عزیزہ انجم
۔۔۔۔۔
کراچی میں کلفٹن کے ساحل پہ رنگین پھول دار کپڑوں سے سجے ہوئے اونٹ نظر آتے ہیں۔ سمندر کے کنارے کی ریت میں چلتے ہوئے عموماً ہمارے پاؤں اندر کو دھنسنے لگتے ہیں اور مزہ تو آتا ہے، لیکن چلنے میں مشکل بھی ہوتی ہے۔
اونٹ کو ریت پر چلنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔لمبی گردن والے اونٹ پہلے تو اپنی ٹانگوں کو آگے سے موڑتے ہیں پھر پچھلی ٹانگوں کو موڑ کر جب زمین پر بیٹھتے ہیں تو اوپر بیٹھے ہوئے لوگوں کی کبھی کبھی چیخیں نکل جاتی ہیں اور دیکھنے والے ہنس رہے ہوتے ہیں۔اسی طرح کھڑے ہوتے ہوئے بھی اونٹ آگے پیچھے کی ٹانگوں کو موڑتا ہے اور ایک دم کھڑا ہوجاتا ہے، پھر سمندر کی ریت میں تیز تیز دوڑ رہا ہوتا ہے۔اونٹ صحرا کا جانور ہے۔صحرا میں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے اور پہاڑ ہوتے ہیں۔اونٹ ریت میں تیز تیز بھاگتا ہے۔اتنی تیزی سے کہ اونٹ کو صحرا کا جہاز کہا جاتا ہے۔
ہمارے پیارے نبیﷺ کو جانوروں،پرندوں،پودوں اور پیڑوں سب سے محبت تھی۔ پیارے نبیﷺ سب کو بتاتے تھے کہ اللہ کی ان پیاری پیاری مخلوقات کا ہمیں بہت خیال رکھنا چاہیے۔ انہیں ستانا اچھی بات نہیں۔
عرب میں اونٹ بہت ہوتے ہیں، جب گاڑیاں اور جہاز نہیں تھے تو لوگ آمدورفت کے لیے اونٹ ہی استعمال کرتے تھے۔ نبیﷺ نے مکہ سے مدینہ کا سفر جسے ہجرت کا سفر کہا جاتا ہے اونٹ پر بیٹھ کر کیا تھا۔
ایک دن پیارے نبیﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک سامنے سے ایک اونٹ آتا دکھائی دیا۔وہ پیارے نبیﷺ کے قریب آکر کھڑا ہوگیا۔پیارے نبیﷺ کے پیارے صحابہ حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔حیرت کیوں نہ ہوتی۔ اونٹ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ جانوروں کا بھی درد ہوتا ہے۔ انہیں بھی تکلیف ہوتی ہے۔اونٹ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی فریاد لے کر پیارے نبیﷺ کے پاس آیا تھا.۔پیارے نبیﷺ کو اونٹ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔اونٹ چپ چاپ کھڑا تھا کیونکہ وہ انسانوں کی طرح بول نہیں سکتا تھا۔
پیارے نبیﷺ نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔”اس اونٹ کے مالک کو بُلا کے لاؤ۔“
اونٹ کا مالک جب آیا تو آپﷺ ناراض ہوئے اور اس سے کہا کہ اس پر زیادہ بوجھ نہیں لادو۔وقت پر پیٹ بھر کر کھانا کھلاؤ،پانی پلاؤ۔اسے آرام بھی کرنے دو۔اونٹ کا مالک بہت شرمندہ ہوا۔اس نے پیارے نبیﷺ سے معافی مانگی اور آئندہ اونٹ کو اچھی طرح رکھنے کا وعدہ کیا۔
ہم بھی جب پرندہ یا جانور پالیں تو ان باتوں کا خیال رکھیں۔ ہمارا اللہ بھی خوش ہوگا اور ہمارے نبیﷺ بھی۔