skip to Main Content

ستاروں نے کیا لکھا؟

محمد فیصل علی
۔۔۔۔۔

آسمان پہ سالانہ تہوار جوش و خروش سے منایا جارہا تھا۔آج تو آسمان کی چمک دمک پہلے سے کہیں زیادہ تھی۔چاروں طرف ستاروں کی چہل پہل تھی۔جب بھی ستارے مسکراتے تو یکلخت ان کی چمک بڑھ جاتی اور اس لمحے آسمان پہلے سے زیادہ روشن ہوجاتا۔یہ ستاروں کا سالانہ تہوار تھا۔اس تہوار پہ سبھی ستارے نئے نئے اور اجلے اجلے لباس پہن کر آسمان پہ خوب سیریں کرتے،وہ چھپن چھپائی بھی کھیلتے اور آپس میں بیٹھ کر گپیں بھی ہانکتے تھے۔آج بھی آسمان پر یہ سب مشاغل جاری تھے۔کھیل کود اور ہنسی مسکراہٹ کے رنگ جمے ہوئے تھے۔ایسے میں اچانک تیز روشنی ہوئی اور ستاروں کی آنکھیں چندھیا کر رہ گئیں۔انھوں نے آنکھیں ملیں اور ادھ کھلی آنکھوں سے دیکھا اور اگلی ہی لمحے وہ اچھل پڑے۔ان کے سامنے چاند ماموں کھڑے مسکرا رہے تھے۔
”ماموں ماموں!!!“شوخ ستاروں نے نعرے لگانے شروع کر دئیے تھے۔
”خاموش بھئی،بس خاموش ہو جاؤ میرے شرارتی بچو!!“ماموں دھیرے سے مسکرائے۔
”’شکریہ ماموں،آپ نے تو ہماری خوشی کا لطف دوبالا کر دیا ہے۔“ایک ستارہ چہکا۔
”شکریہ بچو، اب سبھی بیٹھ جاؤ،بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔“ماموں نے بیٹھتے ہوئے کہا۔
ان کی یہ بات سن کر سبھی بیٹھ گئے۔ماموں نے سب سے خیریت دریافت کی،ایسے میں ایک ستارہ بولا:
”ماموں جی، آپ ایک لمبے عرصے سے آسمان پر زندگی گزار رہے ہیں۔آج ہمیں کوئی ایسی عجیب وغریب بات بتائیں جو آپ نے دیکھی ہو۔“
”واہ،بڑا دل چسپ سوال کیا ہے۔“ماموں نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔اس پہ سبھی ستارے اشتیاق سے ان کے چہرے کو تکنے لگے۔وہ سب منتظر تھے کہ ماموں کون سا عجیب وغریب واقعہ سناتے ہیں۔ادھر ماموں کے لب ہلے اور وہ کہنے لگے:
”ویسے تو میری آنکھوں نے بے شمار حیرت انگیز واقعات کا مشاہدہ کیا ہے لیکن میری زندگی کا ایک اہم واقعہ سب سے منفرد اور جدا ہے،اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے میرے وجود میں خوشی کی لہریں دوڑ جاتی ہیں۔“
”واہ،اب تو تجسس اور بھی بڑھ گیا ہے۔“ایک ستارہ بے تابی سے بولا۔
چاند ماموں نے ایک گہری سانس لی اور بتانے لگے:
”ہوا کچھ یوں تھا کہ عرب میں اس کائنات کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا اور خوش نصیب لوگوں نے ان کا کلمہ پڑھ لیا لیکن بدنصیب کفار اس سعادت سے محروم رہے۔وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذباللہ جادوگر اور مجنون سمجھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یقین نہیں کرتے تھے۔ایک شب کفار قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نبوت کی نشانی طلب کی۔وہ ایک چاندنی رات تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کے بعد میری طرف نگاہ فرمائی۔یہ میرے لیے بہت بڑی خوش قسمتی کا موقع تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اشارہ فرمایا اور میں ان کی اطاعت میں دو ٹکڑے ہوگیا۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم فرماتے تو میں ان کے حکم کی تعمیل میں ہزار ٹکڑوں میں بھی تقسیم ہوجاتا۔
”اوہ اوہ پھر کیا ہوا۔“ سب ستارے چونکے۔
”پھر کیا ہونا تھا۔میرے دو ٹکڑے سب کفار کے سامنے تھے۔ایک ٹکڑا مشرق میں اور دوسرا مغرب میں،درمیان میں مکہ کا پہاڑ نظر آرہا تھا۔کفار حیران پریشان تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کا نام لے لے کر پوچھا کہ اے فلاں کیا اب مجھے نبی مانتے ہو یا نہیں؟ اس پہ ابوجہل نے کہا کہ ہم اس کی مزید تحقیق کریں گے،ممکن ہے کہ یہ جادو ہو اور صرف ہماری آنکھوں پہ ہوا ہو۔اگلے روز جب اردگرد کے قافلے مکہ پہنچے تو انہوں نے بھی اس واقعہ کی تصدیق کی کہ رات ہم نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا، لیکن ان بدنصیب کفار نے پھر بھی اسلام قبول نہ کیا۔“چاند نے افسوس سے کہا۔
”ماموں آپ کتنی دیر دو حصوں میں بٹے رہے؟“ایک ستارہ معصوم لہجے میں بولا۔
”جتنی دیر عصر اور مغرب کے درمیان وقت ہوتا ہے۔“ماموں مسکرائے۔
”ماموں،میں نے پڑھا ہے کہ آپ کو ہندوستان کے کسی راجہ نے بھی ٹکڑے ہوتے دیکھا تھا۔کیا واقعی؟“ایک ستارے نے تجسس آمیز لہجے میں سوال کیا۔
”ہاں،تاریخ فرشتہ نامی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ ہندوستان کے مہاراجہ مالیبار(یا مہاراجہ بھوج) نے اپنے محل کی چھت سے میرے دو ٹکڑے ہوتے دیکھے تھے۔کہتے ہیں کہ اس راجہ نے یہ واقعہ اپنے روزنامچے میں لکھوایا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں معلومات لیں اور مسلمان ہوگیا۔“ماموں نے سرہلاتے ہوئے بتایا تو سبھی حیران رہ گئے۔
”ماموں جی،آپ نے تو آج کے تہوار کا رنگ ہی بدل ڈالا،ہمیں یہ واقعہ سن کر بہت مزا آیا۔سبحان اللہ“قطبی ستارے نے عقیدت مندی سے کہا۔
”شکریہ بچے، مجھے آج بھی وہ لمحات یاد ہیں،مجھے خوشی ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی، لیکن مجھے آسمان سے جھانک کر یہ دیکھتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ بہت سارے مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے کنارہ کش رہتے ہیں۔“ ماموں نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔
”ہاں ماموں،یہ تو ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہم سب کے محسن ہیں۔محسن کی بات ماننا تو سعادت ہے لیکن پتہ نہیں لوگ کیوں نہیں مانتے۔“قطبی ستارے نے سرہلایا۔
”بے شک! اچھا میرے بچو،اٹھو اور آسمان پر اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تو لکھ کر دکھاؤ۔“ماموں نے کہا تو سبھی ستارے چمک اٹھے۔
وہ ”زن“ کرکے خلا میں پھیل گئے۔کچھ دیر بعد وہ خاص ترتیب میں بکھر گئے اور انہوں نے اپنے وجود سے آسمان پر اسم”محمد“ صلی اللہ علیہ وسلم لکھ دیا۔
”سب درود شریف پڑھیں!!!“قطبی ستارہ زور سے بولا۔
ایسے میں فضا درود وسلام کے ترانوں سے گونج اٹھی،درود شریف پڑھتے وقت ستارے بہت تیز روشنی میں جگمگائے تھے اور آسمان پر لکھا اسم”محمد“ صلی اللہ علیہ وسلم شان و شوکت سے چمک اٹھا تھا۔چاند ماموں بہتے آنسوؤں کے ساتھ وہ پیارا اسم دیکھ رہے تھے اور ان کے لبوں پر درود شریف جاری تھا۔صلی اللہ علیہ وسلم۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top