skip to Main Content
قصہ ایک رات کا

قصہ ایک رات کا

اعظم طارق کوہستانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خزانے کو چھپانے کے لیے ایک عجیب آئیڈیا اپنایا گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اچانک میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ کسی موٹے تگڑے قسم کے مچھر نے میرے پاؤں پر اس زور سے کاٹا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ پاؤں پر نیند کی حالت میں ہاتھ پہنچانا ایک مشکل کام ہے۔ اس لیے دورانِ نیند مچھر کو اگلے جہان پہنچانا ذرا مشکل تھا۔ کان کے قریب مچھر کاٹ لے تو اسے سوتے ہوئے ہی مار کر آپ کروٹ بدل کر دوبارہ سوسکتے ہیں۔

ہم نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنے کی کوشش کی۔ خیمے میں گھپ اندھیرا تھا۔ اچانک باہر سے باتوں کی آوازیں آئیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے دُور کہیں کوئی باتیں کررہا ہو اور ہوا کے دوش پر اس کی آواز پھیل رہی ہو۔ خطرہ محسوس کرتے ہوئے میں نے بندوق ایک ہاتھ میں سنبھالی اور خیمے سے باہر نکل آیا۔ میں نے پوزیشن لی تاکہ کسی بھی خطرے سے فوری طور پر نمٹ سکوں۔ رات کو جلائی گئی آگ اب ٹھنڈی ہوچکی تھی۔البتہ کوئلوں کی حدّت اب بھی محسوس کی جاسکتی تھی۔ اندھیرے نے تمام ماحول کو گھیر رکھا تھا۔

اس وقت ہم اپنے دوستوں کے ساتھ سوات کے کئی ہزار فٹ بلند پہاڑی سلسلے کے ایک سرے پر موجود تھے۔

ایڈونچر کا شوق ہمیں کن خطرات میں ڈالے گا اس کا ہمیں ذرا بھی اندازہ نہیں تھا۔

میں نے آواز کی سُن گُن لینے کی کوشش کی۔ آواز شمالی طرف سے آرہی تھی۔ رات کے اس پہر یہاں کون ہوسکتا ہے؟ میں نے سوچا، جس پہاڑی پر ہم موجود تھے اس کا نام ’منگری‘ تھا۔

ہمارے سوا اس پہاڑی پر اس پہر کسی اور کا ہونا میرے لیے کسی اچھنبے سے کم نہ تھا۔ چاروں طرف ہولناک پہاڑ منھ پھاڑے یوں کھڑے تھے ،جیسے ابھی منھ کھول کر نگل لیں گے۔ چاند بادلوں کے پیچھے چھپ چکا تھا۔ ماحول میں ٹھنڈ بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ دل میں خوف موجزن تھا اور عجیب سے وسوسے آرہے تھے۔ پھر نجانے کیا ہوا۔۔۔ میں ان آوازوں کی سَمت چل پڑا۔

*۔۔۔*

اس بار ہم نے پہاڑوں کا رُخ کیا تھا۔ سبھی اس بات پر متفق تھے کہ پہاڑوں کو سَر کرنا ہے۔ اس سفر میں عبدالرحمن مومن، سید طلال علی، حسام چندریگر، حمزہ منظور، شہیر سلال، اُسامہ شیخ، محمد وجاہت خان اور ابراہیم صدیقی شامل تھے۔

*۔۔۔*

میں آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا۔ سارے ساتھی اس وقت سورہے تھے۔ دل میں عجیب عجیب وسوسے آرہے تھے۔

پہلے دل نے کہا کہ واپس جا کر سوجاؤ۔۔۔ تمھیں کیا پڑی ہے تجسس کرنے کی۔۔۔ پھر دل میں خیال آیا کہ کوئی خطرہ نہ ہو۔۔۔ ایسا نہ ہو ہم سوتے رہ جائیں اور کوئی مصیبت اچانک سر پر نہ آن کھڑی ہو۔

آنکھ اب آہستہ آہستہ اندھیرے سے مانوس ہوگئی تھی۔ میں نے کسی چیتے کی مانند آہستہ آہستہ قدم بڑھانے شروع کردیے۔ کوشش کررہا تھا کہ کوئی آہٹ سنائی نہ دے۔ مجھے اپنے اُلٹے ہاتھ پر دُور کہیں روشنی نظر آئی۔ میں نے اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ وہ تقریباً آٹھ افراد تھے ۔اُن کے ہاتھ میں ایمرجنسی لائیٹس تھیں۔ وہ کچھ کھودنے کی کوشش کررہے تھے۔

’’یہ کیا کررہے ہیں؟‘‘ میں بڑبڑایا اور بھاگتا ہوا واپس لوٹ آیا۔ جلدی جلدی سب کو اُٹھانے لگا۔ صورتحال سے آگاہ کیاتو سب یوں تیار ہوگئے جیسے شرلاک ہومز کے چچا زاد ہوں۔

دوبارہ اس جگہ سب کو لے کر پہنچا۔ وہ سب اسی طرح کھودنے میں لگے ہوئے تھے۔

’’یہ ہمیں دیکھ نہ لیں۔۔۔ سب زمین پر لیٹ جائیں۔‘‘ وجاہت نے کسی ماہر جاسوس کی طرح کہا۔ سب نے بلا چوں چرا وجاہت کی یہ بات مان لی۔

’’مجھے لگ رہا ہے یہ قبر کھود رہے ہیں۔‘‘ اُسامہ کی آواز آئی۔

’’مگر کس کی۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔

’’ہوسکتا ہے کہ۔۔۔ ارے ارے ہم سب تو پورے ہیں ناں۔‘‘ حمزہ نے کہا تو سب نے گھبراہٹ میں ایک دوسرے کی طرف اور حمزہ نے اپنی طرف دیکھا۔ ہم نے گنتی کی۔ سب موجود تھے۔

’’ارے۔۔۔ خدا کی پناہ! یہ کیا۔‘‘

تجسس پیدا کرنا کوئی مومن سے سیکھے۔ اس وقت بھی اُنھوں نے یہی حرکت کی۔ سب ایک بار پھر گھبراگئے۔

’’کیا ہوا!‘ شہیر تھوک نگلتے ہوئے بولا۔

’’ان آٹھ لوگوں میں تین لوگ مقامی نہیں ہیں۔‘‘

’’مقامی نہیں ہیں۔۔۔ مطلب۔۔۔‘‘ حسام چونکا۔ میرے خیال میں چونکے تو سب تھے لیکن اس وقت حسام نے چونکنے کا مظاہرہ کچھ زیادہ اور پھرتی سے کیا تھا۔

’’مطلب وہ انگ۔۔۔ جیسے۔۔۔ میرا مطلب۔۔۔ شاید وہ انگریز ہیں۔‘‘

’’انگریز!‘‘ سب چِلّا اُٹھے۔

’’اور میں نے دیکھا کہ انگریز جہاں جاتے ہیں یا تو تباہی پھیلاتے ہیں یا قتل و غارت گری کرتے ہیں۔‘‘

’’قتل و غارت گری۔‘‘ سب ایک بار پھر گھبراگئے۔ گھبرانے کی اب تک ہٹ ٹرک ہوچکی تھی۔

’’مطلب کیوں قتل کرتے ہیں۔۔۔ ہم نے کس کو قق۔۔۔قتل کیا ہے۔‘‘ ابراہیم صدیقی کے منھ سے بے ربط سے جملے نکلنے لگے۔

’’مجھے لگتا ہے یہ لوگ کسی خزانے کی تلاش میں آئے ہیں۔‘‘ یہ فلسفی طلال تھا۔

’’ان پہاڑوں پر کون خزانہ دفن کرے گا اور کیوں؟ اور تمھیں کیسے پتا کہ یہ یہاں خزانے کی تلاش میں آئے ہیں۔‘‘ہم نے جرح کی۔

’’میں نے فلموں میں دیکھا ہے اکثر۔۔۔ اور خزانے کی تلاش والی زیادہ تر فلمیں انگریزوں نے بنائی ہیں۔‘‘

’’طلال کے بچے! انسان بن جاؤ! یہ فلم نہیں حقیقت ہے۔‘‘

’’اگر ان کے ارادے نیک ہیں تو ہم ان کے ساتھ ہیں اور اگر ارادے نیک نہیں ہیں تو ہم اِنھیں روک کے رہیں گے۔‘‘

مومن نے نعرہ بلند کیا۔ اس سے پہلے کہ میں ان سب کو اس حرکت سے باز رکھتا وہ سب ڈھلوان سے نیچے اُترنے لگے۔ طلال نے بندوق ہمارے ہاتھ سے لے کر اسے لوڈ کیا اور رُخ ان مشکوک لوگوں کی طرف کردیا۔

’’ارے ارے رکو، بیوقوفوں، گدھوں، احمقوں۔‘‘ ہم نے اپنی جمع پونجی ایک ساتھ ہی خرچ کر ڈالی۔ معلوم نہیں ان سب نے میری بات کو نظر انداز کیا تھا یا پھر ہم نے ہی کچھ زیادہ دبے لہجے میں یہ بات کی تھی۔

وہ سب یوں خراماں خراماں جانے لگے جیسے کشمیر فتح کرنے جارہے ہوں۔

ہمیں ڈر تھا کہ یہ لوگ معاملات مذاق ہی مذاق میں بگاڑ نہ دیں۔۔۔ اس لیے اُنھیں اکیلے چھوڑا بھی نہیں جاسکتا تھا۔

’’لگتا ہے اُنھوں نے ہماری آہٹ سن لی ہے۔‘‘ اُسامہ نے کہا۔

’’آہٹ تو نہیں البتہ ہمارے ہیولے اُنھوں نے دیکھ لیے تھے جو ان کی روشنی سے بن رہے تھے۔ روشنی شہیر اور وجاہت پر پڑی تو ان کا ہیولا آسمان سے باتیں کرنے لگا۔

’’خبردار جو کسی نے ہلنے کی کوشش کی۔‘‘

’’ہم نے طلال کو ٹہوکا دیا تاکہ وہ بندوق سے نشانہ باندھ لے لیکن اس سے قبل ہم نے اندازہ لگالیا تھا کہ ان کے پاس کوئی ہتھیار وغیرہ نہیں تھے۔ ویسے بھی کچھ عرصے سے اس علاقے کے حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے اور اسلحے وغیرہ پر سختی سے پابندی تھی، ہمارے پاس جو بندوق تھی وہ ہمارے سوات کے ہی ایک رہائشی ساتھی سے ملی تھی۔ یہ بندوق پہاڑوں پر جانوروں کے شکار وغیرہ کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

’’کون ہو تم لوگ اور کیا کررہے ہو۔‘‘ ہم دوبارہ گویا ہوئے ۔ اب ہم ان کے مزید قریب آچکے تھے۔

یہ واقعی آٹھ لوگ تھے اور تین لوگوں کے نین نقوش واضح انداز میں غیر ملکی ہونے کا ثبوت فراہم کررہے تھے۔

’’یہ غیر ملکی ہیں، یہاں گھومنے آئے ہیں۔‘‘ منحنی سے جسم کے مالک ایک مقامی باشندے نے مقامی لہجے میں بات کی۔

’’وہ تو مجھے بھی نظر آرہا ہے یہ غیر ملکی ہیں، رات کے اس پہر تم لوگ کیا کھود رہے ہو۔‘‘ابھی اس نے جواب دینے کے لیے منھ کھولا ہی تھا کہ ابراہیم کی آواز آئی۔’’ارے باپ رے۔۔۔! ‘‘

ہم سب اُچھل پڑے۔یہ تو کوئی قبر تھی۔۔۔ جسے تقریباً کھودا جاچکا تھا، کیا اُنھوں نے کسی کا قتل کیا ہے جو قبر کھودی جارہی ہے؟

’’یہ کس کی قبر کھود رہے ہو؟‘‘ مومن کی آواز گونجی۔

وہ سب چند ثانیے خاموش رہے ان میں سے ایک بولنے ہی لگا تھا کہ حسام چِلّایا: ’’ارے یہ کوئی بنی بنائی قبر کھود رہے ہیں۔‘‘

’’کیا مطلب!‘‘ سبھی بیک وقت بولے۔

یعنی یہاں کوئی قبر پہلے سے موجود تھی۔۔۔ ارے قبر نہیں بلکہ شاید کوئی مزار کی طرح کی چیز تھی۔‘‘

’’یہ دیکھو۔۔۔!‘‘ حسام بائیں جانب مڑا۔ ان سب نے ہاتھ تو اوپر نہیں اٹھائے تھے لیکن وہ سب خاموش تھے اور اس غیر متوقع صورت حال سے پریشان نظر آرہے تھے۔ ان غیر ملکیوں کی حالت میں شدید بے چینی و بے قراری نظر آرہی تھی۔

حسام نے رنگ برنگے کپڑے دکھائے جو عموماً مزاروں پر ڈالے جاتے ہیں۔

’’تم لوگ مزار کو کیوں کھود رہے ہو۔ آخر کون ہیں یہ لوگ۔۔۔‘‘ میرے لہجے میں سختی آگئی۔

’’تم لوگوں کو شرم نہیں آئی۔۔۔ یہ لوگ ایک مزار کو کھدوارہے ہیں اور تم لوگ بے حرمتی کررہے ہو مزار کی۔۔۔ آخر کیا معاملہ ہے؟‘‘مومن نے مقامی باشندے سے کہا۔

’’مجھے تو یہ کوئی خطرناک کھیل لگتا ہے۔‘‘ وجاہت کے لہجے میں گھبراہٹ تھی۔

’’طلال! یہ لوگ ایسے کچھ نہیں بتائیں گے۔ گولی چلاؤ۔‘‘ آخری لفظ میں نے انگریزی میں کہا تو مخالف کیمپ میں ایک افراتفری سی مچ گئی۔ مقامی افراد مزدور پیشہ تھے۔ گولی کا سن کر تو ان کے اوسان خطا ہوگئے۔

’’اُنھوں نے ہمیں ۵، ۵ ہزار دے کر کہا کہ رات کو یہاں کھدائی کرنی ہے۔‘‘ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر کہا۔ وہ شدید گھبرایا ہوا تھا۔

طلال نے اپنی بندوق سیدھی کرلی تھی۔ اسے اس وقت بھی تفریح سوجھ رہی تھی:’’اعظم بھائی بتائیں پہلے کس کا نشانہ لوں۔‘‘

’’ہم نے کچھ نہیں کیا، ہمیں مت مارو۔‘‘

وہی شخص دوبارہ بولا اور وہ اچانک پیچھے مڑا، اس نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا اور وہ پانچوں سامان چھوڑ کر وہاں سے آناً فاناً ایسے غائب ہوئے کہ ہماری سمجھ میں آنے تک وہ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب تھے۔

’’اب تم بتاؤ۔‘‘ حسام انگریزی میں انگریزوں سے مخاطب ہوا، حسام کی انگریزی اچھی تھی ۔اس لیے یہ محاذ اس نے سنبھال لیا۔

’’کہاں سے آئے ہو، قبر کیوں کھود رہے ہو؟‘‘

ان میں سے ایک کی زبان میں حرکت ہوئی۔ ’’دراصل بات راز کی ہے، ہم کوئی چور یا ڈکیت نہیں ہیں، اگر آپ لوگ مناسب سمجھیں تو بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔‘‘

انھیں شاید اندازہ ہوگیا تھا کہ ہم کم از کم اُنھیں جان سے نہیں ماریں گے۔ وہ تینوں شکل سے چالاک لگ رہے تھے۔

’’ہمیں ان کی باتوں میں نہیں آنا چاہیے۔‘‘ شہیر کو خوف محسوس ہوا۔

’’میرے خیال میں بات سن لینے میں کوئی حرج نہیں، یہ ویسے بھی اب کم ہیں کوئی غلط حرکت نہیں کریں گے۔‘‘ حمزہ نے کہا۔

حمزہ نے شاید کافی لمبے عرصے بعد عقل مندی کی بات کی تھی، اس لیے تعظیماًہم بیٹھ گئے۔ اُنھوں نے اپنا تعارف کروایا۔جو ہم سے مخاطب تھا اس کا نام رچرڈ تھا اور وہی ان کا لیڈر لگ رہا تھا۔ وہ جیسے جیسے ہمیں تفصیلات بتا نے لگا، ہماری ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی سی پھیل گئی۔’’دراصل یہ ۱۹۴۶ء کا واقعہ ہے۔ سوات ایک آزاد اور خود مختار ریاست تھا۔ میرے دادا، دادی اور میرے ابو سوات گھومنے کے لیے آئے، میرے ابو اس وقت چھوٹے تھے، برصغیر کے حالات روز بروز خراب ہوتے جارہے تھے۔ ہمارے دادا دکن میں جس جگہ رہتے تھے وہاں حالات ٹھیک نہیں تھے۔ حالات اتنے خراب ہوئے کہ دادا جان کو اپنا سارا سامان دکن سے فوری طور پر سوات منگوانا پڑا۔ اس سامان میں ایک خزانہ بھی شامل تھا۔ جو ہندوستان میں کلکتہ کے قریب ایک ویران مندر سے اُنھیں ملا تھا۔ اس خزانے میں سونا، ہیرے اور مختلف جواہرات شامل تھے۔ خزانہ سوات تو آگیا لیکن یہاں بھی ایمرجنسی لگادی گئی تھی، اچانک کسی طرح انتظامیہ کو بھنک پڑگئی کہ سوات میں کوئی لوٹاہوا خزانہ دکن سے لایا گیا ہے۔

دادا جان نے اس وقت ’منگری‘ کی اس پہاڑی پر وہ خزانہ دفنادیا۔ اُنھیں خطرہ تھا کہ شک کی بنا پر یہ خزانہ کسی کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ وہ اس جگہ کے لوگوں کو اچھی طرح جانتے تھے، اُن کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ اُنھوں نے خزانے کے اوپر ایک قبر بنائی۔ اس کو تھوڑا سا سجا کر اسے مزار کا روپ دے دیا۔

زمانہ گزرتا گیا۔ دادا جان انگلستان لوٹ آئے۔ وہاں ان کا انتقال ہوگیا۔ والد صاحب بڑے ہوئے لیکن وہ اس وقت چھوٹے تھے۔ اس لیے خزانے کی جگہ کا اُنھیں اندازہ نہیں تھا۔انھوں نے اس خزانے کے بارے میں کئی بار تذکرہ کیا لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا، وہ بھی خزانہ حاصل کیے بغیر اس دنیا سے چلے گئے۔ پچھلے سال گھر کی صفائی کے دوران ایک پرانا صندوق ہاتھ لگا جس میں دادا جان کا سامان موجود تھا، ساتھ میں ایک نقشہ اور خط بھی تھا۔ خط میں خزانے کی تفصیلات بتائی گئی تھیں۔‘‘ رچرڈ یہ کہہ کر خاموش ہوا۔ ہم سب دَم بخود کہانی سن رہے تھے۔ صبح کا اُجالا ابھی نہیں ہوا تھا لیکن صبح زیادہ دور نہیں تھی۔

رچرڈ نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’یہ دونوں میرے دوست ہیں، نقشے کی مدد سے باآسانی ہم یہاں پہنچ گئے، یہاں کے ایک مقامی فرد کو پیسے دے کر ہم ان لوگوں کو یہاں لے آئے، پہلے تو یہ لوگ مزار کو کھودنے سے ڈر رہے تھے کہ یہ سخت گناہ کا کام ہے لیکن بالآخر ہم نے انھیں قائل کرہی لیا۔مجھے تھوڑی بہت اُردو آتی ہے۔ میں نے مارشیس میں ۵ سال کا عرصہ گزارا ہے۔ اردو مارشیس کی بڑی زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔‘‘

’’تو کیا خزانہ نکل گیا۔‘‘ ہم نے قبر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’تقریباً نکل گیا ہے، خزانہ ایک پیٹی میں بند ہے۔‘‘ ہم سب جوش میں اُٹھے اور اس مصنوعی قبر میں کود پڑے، تھوڑی دیر میں ہی ایک بھاری بھرکم پیٹی ہم نکالنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

اس وقت ہماری عجیب ہی کیفیت تھی۔ ایسا سب کچھ ہم نے ناولوں میں یا فلموں میں ہی دیکھا تھا۔ ہمارے رونگٹے کھڑے ہوچکے تھے۔ وہ تینوں خاموشی سے بیٹھے ہمیں دیکھ رہے تھے، جیسے ہی صندوق نکلا وہ بھی اُٹھ کر آگے آگئے۔

کیا یہ خزانہ اُنھیں لے جانا چاہیے؟

کیا یہ حکومت کی ملکیت نہیں ہے۔؟

اگر اسے ہم حاصل کر لیں تو؟ ہم نے دل میں سوچا۔

’’ایک منٹ اسے کھولنے کی چابی ہمارے پاس ہے۔‘‘ رچرڈ آگے بڑھا۔ سب کی نگاہیں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ اس کا ہاتھ باہر آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی گیند تھی۔ اس سے پہلے ہم کچھ سمجھتے اس نے وہ گیند زور سے زمین پر مار دی، گیند سے دھواں نکلنے لگا۔ دھویں نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مجھے ایک زور دار چھینک آئی اور پھر آنکھوں کے سامنے اندھیرے کی دبیز چادر پھیلتی چلی گئی۔

*۔۔۔*

دھوپ آنکھوں پر پڑی تو دھیرے دھیرے ہماری آنکھیں کھلنے لگیں۔

میں فوراً اُٹھ بیٹھا، چاروں طرف سناٹا تھا۔ پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں ماحول میں سُر بکھیر رہی تھیں۔ آہستہ آہستہ باقی سب بھی اُٹھنے لگے۔

رچرڈ اور اس کے ساتھی صندوق سمیت غائب تھے۔ انھوں نے یقیناًکوئی ایسی چیز کھائی یا لگائی تھی جس کی وجہ سے وہ بے ہوش نہیں ہوئے۔ دوپہر کے ۱۲ بج رہے تھے اور اتنی دیر میں سوات سے کیا پاکستان سے نکلنا بھی کوئی مشکل کام نہیں تھا۔

ہم نے بھی فوراً واپسی کی راہ لی کیوں کہ اگر کسی نے ہمیں مزار کے ساتھ دیکھا تو وہ یہی سمجھتا کہ اس متبرک مزار کا یہ حال ہم نے کیا ہے اور آپ تو سمجھ دار ہیں کہ مزار کی قبر کشائی کا مطلب پاکستان میں کیا ہوتا ہے؟

*۔۔۔*

 

نوٹ: اس تحریر کے کردار اصلی ہیں جب کہ روداد افسانوی ہے۔

 

اس تحریر کے مشکل الفاظ

حدت: گرمی ؍ منحنی: کمزور

سن گن لینا: چھپ کر سننا

اچنبھا: تعجب؍ حیرت

عام سفر: سفر کا ارادہ کرنے والے

شرلاک ہومز: آرتھرکونن ڈائل کا مشہور جاسوسی کردار

ٹہوکا دینا: ہاتھ یا پاؤں سے ہلکا سا دھکا دینا؍ خبردار کرن

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top