skip to Main Content

پرستان کی سیر

قرۃ العین حیدر
۔۔۔۔۔۔۔

آپ نے سینکڑوں کہانیاں پڑھی اور سنی ہوں گی جوقریب قریب ایک ہی طرح سے شروع ہوتی ہیں یعنی۔ ”کسی زمانے میں ایک بادشاہ رہاکرتا تھا۔۔۔“لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ کِس زمانے میں کس مُلک میں وہ رہتا تھا۔خیر اب ہماری کہانی سُنیے جس کا لفظ لفظ سچاّ ہے۔
تھوڑے دنوں کا ذکر ہے صبح کا وقت تھا اور بارش ہورہی تھی۔ہم اپنے اسکول کی لائبریری کی کتابیں اُلٹ پُلٹ رہے تھے۔تھوڑی دیر بعد بارش کی وجہ سے مِس بینر جی نے ہماری کلاس کو چُھٹی دے دی گئی اور کہا۔۔۔”جب بارش ذرا کم ہو تو گھر چلی جانا۔“
چنانچہ ہم لوگ لائبریری میں کتابیں ڈھونڈ نے لگے تاکہ پڑھ کر وقت کاٹیں۔ہاں تو ہم کتابیں چھانٹ کر برآمدے کے پکّے فرش پر بیٹھے۔کچھ لڑکیاں موسیقی کے کلاس روم کی طرف چلی گئیں۔اور کُچھ اِدھر اُدھر ٹہلنے لگیں۔
میرے ہاتھ میں انگریزی کی الف لیلہ تھی۔ پاس ہی کچھ اور کتابیں پڑی تھیں۔میں اور سوشیلا برآمدے کی دیوار سے لگے بیٹھے تھے۔سوشیلا کی نظریں سامنے والے آم کے درخت پرتھیں۔شاید وہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ بارش اور ہَوا سے کتنے آم نیچے ٹپکے ہیں۔
میں نے کتاب بند کر کے کہا۔ ”سوشی،ہم ہمیشہ کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں کہ ایک بَونا درخت کے تنے میں سے باہر کُود آیا۔ ایک سنہری بطخ بھاگی۔پریاں چاند کی کرنوں کی سیڑھی پر سے اُتر آئیں اور یہ اور وہ…… ہمیں خود بھی اسی قسم کی چیز نظر آجاتی تو کتنا مزا ہوتا۔ ہیں نا؟“
سوشیلا نے جواب دیا۔ ”ایسا ہو کیوں نہیں سکتا مگر۔۔۔مگر ہمیں ایک پَروالے گھوڑے کی ضرورت ہے تاکہ اس پر بیٹھ کر ہم کہانیوں کی بستی کی سیر کریں۔“
یہ سُن کر مجھے ایک دم کچھ یاد آگیا۔میں نے کہا۔ ”ہاں۔پھر جنگل میں ہمیں ایک جادوگرنی ملے گی۔جس کی جھونپڑی چلتی پھرتی نظرآئے گی۔“
سوشیلابولی۔ ”اور ایک بادشاہ ہوگا۔اس کی لڑکی کو ایک دیونے کہیں قید کر رکھا ہوگا۔پھر ہم سنہرے پرندے کی مدد سے اسے چھڑا لائیں گے۔“
میں نے کہا۔”لیکن شہزادوں کو دیو کی قید سے چُھڑانے کے لئے تو شہزادے جاتے ہیں جنھوں نے چودہ برس سورج کو نہ دیکھا ہویا جنگل میں شکار کھیلتے کھیلتے راستہ بھول گئے ہوں۔ ہم شہزادے تھوڑی ہیں۔“
ہم دونوں پر الف لیلہ پڑھنے لگے۔بارش اور زیادہ تیز ہوگئی۔موسیقی کے کلاس روم میں سے رضیہ اور رمیش کے گانے کی آوازیں آرہی تھیں۔سارے اسکول پر سنّاٹا چھایا ہوا تھا۔آٹھویں کلاس کے پیچھے جو باغ ہے وہاں سے لڑکیوں کے ہنسنے کی مّدھم آوازیں سُنائی دے رہی تھیں۔
میں نے کہا۔”شاید مسزوائٹ نہیں ہیں جب ہی تو لڑکیاں پانی میں بھیگ کر آم چُن رہی ہیں۔“
ہم پھر کتاب پڑھنے میں مشغول ہوگئے۔
یکا یک مجھے ایک آواز نے چونکا دیا۔جو کہیں دُور سے آرہی تھی۔جیسے چاندی کی ننھّی ننھّی سی گھنٹیاں بج رہی ہوں۔وہ آواز کہہ رہی تھی ”سوشیلا دیوی۔سوشیلا دیوی!“ سوشی نے حیران ہوکر پوچھا کون ہے؟ کیا مِس فرینک ہیں؟“
میں نے جواب دیا۔”کہیں یہ پرستان کی آواز تو نہیں؟“
سوشی کہنے لگی۔ ”کیا پتہ کوئی آٹھ فٹ کا لمبی داڑھی والا بونا۔شاہ بلُوط کے تنے میں سے ہم کو پُکار رہا ہے۔“
میں عقل مندی سے سرہلا کر بولی۔”ہوسکتا ہے۔“
سوشی کہنے لگی۔ ”دیکھو شاید باغ میں جادو کا گھوڑا آگیا ہواور ہم سچ مُچ پرستان میں پہنچ جائیں۔“اور ہم دونوں باغ میں اُتر گئے۔
اب میں آپ کو یہ تو بتانا نہیں چاہتی کہ وہاں ”جادوکا گھوڑا“تھا یا نہیں کیونکہ آپ ضرور ہنسیں گے مگر نہ معلوم کس طرح ہم ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جو ہم نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔پرستان سمجھ لیجئے آپ۔یا وہ ملک جہاں کہانیاں بنائی جاتی ہیں۔
پھر ہم نے اپنے آپ کو ایک بڑے سے ہال میں پایا۔ میں نے اُسے غور سے دیکھا کہ کہیں یہ ہمارے اسکول کا اسمبلی ہال تو نہیں۔مگر صاحب وہاں پر تو پریاں بیٹھی تھیں پریاں!میں نے بچپن سے لے کر اب تک کہانیوں میں جن کے متعلق سُنا تھا وہ سب اس ہال میں موجود تھے۔بادشاہ کا عقل مند بوڑھا وزیر،اسنووائٹ سِنڈریلا،جادوگرنیاں،خرگوش دربان،سپاہی۔شہزادے۔سونے کا انڈا دینے والی مرغیاں، جادوکارُو پہلے پروں والا ہنس۔کہاں تک گناؤں۔وہاں کون کون تھا۔
ابھی میں سب کو اچھی طرح دیکھنے بھی نہ پائی تھی کہ اسکول کے گھنٹے بجنے کی آواز سنائی دی۔میں نے جلدی سے سوشیلا کو بلایا۔جو مزے سے بیٹھی اسنووائٹ سے باتیں کررہی تھی۔میں نے کہا ”سوشیلا۔بھاگو جلدی سے اسکول میں چھٹّی ہوگئی، اب تک سب لڑکیاں بس میں بیٹھ چکی ہوں گی۔“
ہم دونوں نے سَر پر پَیر رَکھ کر بھاگنا شروع کیا۔راستے میں مجھے ایک خرگوش نظر آیا۔جو کوٹ پتلون پہنے عینک لگائے اخبار پڑھ رہا تھا۔اس کے پاس ایک لومڑی ہاتھ میں دستی پنکھا لیے بیٹھی چائے پی رہی تھی۔میں نے پرستان کی ایک نشانی ساتھ لے جانے کی غرض سے اُس کی پنکھیا چھین لیں اور پھر بھاگنا شروع کردیا۔
اسکول کے باغ میں داخل ہو کر ہم برساتی کی طرف گئے جہاں لڑکیاں موٹر بسوں میں سوار ہورہی تھیں۔
جب میں اپنی موٹر میں بیٹھ چکی تو مجھے لومڑی کی جاپانی پنکھیاکا خیال آیا۔میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ وہ پنکھیا مسزوائٹ کے ساتھ میں ہے اوروہ اسکول کے برآمدے میں کھڑی اُسے ہلا بلا کر مِس فرینک سے باتیں کر رہی ہیں۔
میں اب تک حیران ہوں کہ پرستان کی لومڑی کی وہ زردجاپانی پنکھیا مسز وائٹ کے ہاتھوں میں کیوں کر پہنچ گئی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top