skip to Main Content

آپ بہت ہوشیار ہیں

جاوید بسام
۔۔۔۔۔

تانیہ اور تیمور منھ بنائے خاموش بیٹھے تھے۔ تانیہ ٹی وی دیکھنا اور تیمور موبائل میں گیم کھیلنا چاہتا تھا۔ وہ کچھ دیر پہلے یہ کام کر چکے تھے۔ اس لیے اب امّی نے منع کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ کھیل لو یا کہانیاں پڑھ لو مگر وہ کچھ نہیں کر رہے تھے۔ امی کچن میں کھانا پکانے میں مصروف تھیں۔ کچھ دیر بعد وہ باہر آئیں۔ دونوں کو ایک نظر دیکھا اور کتابوں کی الماری کی طرف بڑھ گئیں۔ پھر انھوں نے الماری میں سے ایک کاغذ نکالا اور تیمور کو دیتے ہوئے بولیں۔ ”لو اس تصویر کو دیکھو اور اس پر بات کرو۔“
تیمور نے کاغذ دیکھ کر آنکھیں گھُمائیں۔
”کیا دیکھ لیا بھائی؟“ تانیہ نے پوچھا۔
تیمور نے اُسے کوئی جواب نہیں دیا اور امی سے پوچھا۔ ”اِس تصویر میں اِیسی کیا بات ہے؟“
”سوچو بہت کچھ ہے۔“ امّی نے کہا۔
تانیہ نے اٹھ کر تصویر پر نظر ڈالی پھر ہنس کر بولی۔ ”یہ، وہ مرغی ہے، جو تم اپنے خیالوں میں پالتے ہو، کیونکہ امی تو پالنے کی اجازت دیتی نہیں ہیں۔“
”نہیں، یہ وہ مرغی ہے جس کے انڈوں سے شیخ چلّی اپنا کاروبار شروع کرنا چاہتے تھے۔“ تیمور مسکرا کر بولا۔
امی نے کچن سے جھانکا اور ہنس کر بولیں۔ ”تمہارے خیالات بُرے نہیں، شاباش اسی طرح سوچتے رہو۔ ایک دن کہانی کہنے کا فن سیکھ جاؤ گے۔“
”امی مجھے کہانی لکھنے کا بہت شوق ہے۔ میں ’جے کے رُولنگ‘ کی طرح مشہور ہونا چاہتی ہوں۔“ تانیہ جوش سے بولی۔
”اچھا اور تم کس کی طرح مشہور ہونا چاہتے ہو؟“ امی نے تیمور سے پوچھا۔
”مجھے مشہور ہونے کا کوئی شوق نہیں۔“ تیمور چِڑ کر بولا۔
”چلو مشہور نہ ہو، اس تصویر پر تو بات کرو۔“ امی نے کہا۔
”ہاں اس تصویر پر ہم بات کر سکتے ہیں …… یہ مرغی…… کِسی کسان کی بھی ہو سکتی ہے۔“ تانیہ سوچتے ہوئے بولی۔
”بالکل ہو سکتی ہے اور میرا خیال ہے تم کو ایک لائن مل گئی ہے۔ اِس پر آگے بڑھتے رہو۔“ امی نے کہا۔
”کسان اور مُرغی…… مرغی اور کسان…… بھلا ان کا آپس میں کیا تعلق؟“ تیمور نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔
”ہوسکتا ہے، کسان مرغیاں بھی پالتے ہیں۔“ تانیہ بولی۔
”اچھا…… یہ ایک کسان کی مرغی ہے جو سارا دن اپنے کھیت میں کام کرتا ہے۔“ تیمور بولا۔
”کسان، کھیت ہی میں کام کرتے ہیں دکانداری تو کرنے سے رہے۔“ تانیہ نے کہا۔
تیمور نے منہ بنایا اور بولا۔ ”میرے لیے اس پر بات کرنا مشکل ہے۔“
”ہوسکتا ہے…… کسی دن کسان کھیت پر جاتے ہوئے مرغی کو ڈربے میں بند کرنا بھول گیا ہو۔“ تانیہ سوچتے ہوئے بولی۔
”کیوں؟ کیا گھر میں کسان کی بیوی نہیں تھی؟“ تیمور جھلّا کر بولا۔
امی نے کچن سے آواز لگائی۔ ”بہت خوب! تم لوگ اچھے جارہے ہو۔“
تانیہ نے آنکھیں گھمائیں اور بولی۔ ”اُس دن کسان کی بیوی اپنے میکے گئی ہو گی۔“
”واہ واہ…… اچھا نکتہ! اب تم کچھ بولو تیمور۔“ امی نے آواز لگائی۔
”کسان مرغی کو بند کرنا بھول گیا ہے۔ وہ صحن میں دانہ چگ رہی ہے۔ پھر وہ کیاریوں میں گھس جاتی ہے اور وہاں سے گندے کیڑے پکڑ کر کھاتی ہے۔“تیمور، تانیہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
تانیہ نے غصّے سے اسے دیکھا کیوں کہ اسے چکن بہت پسند تھی اور بولی۔ ”طنز نہ کرو، کہانی کو آگے بڑھاؤ۔“
”جب مرغی خود کو آزاد محسوس کرتی ہے تو کمرے میں داخل ہو جاتی ہے۔ جہاں گھر کی مالکن اسے کبھی نہیں آنے دیتی۔“ تیمور سوچ کر بولا۔
”ہاں اچھا قدم ہے۔ اب وہ کیا کرے گی؟“ تانیہ نے پوچھا۔
”مجھے کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ کسان کی بیوی کے سنگھار میز پر چڑھ گئی ہو۔“ تیمور نے کہا۔
”امی کیا مرغیاں میک اپ کرنا پسند کرتی ہیں؟“ تانیہ نے پوچھا۔
امی چُھری اور آلو ہاتھ میں لیے دروازے پر چلی آئیں اور ہنس کر بولیں۔ ”میرا خیال ہے انھیں ایسے کام پسند نہیں ہوتے۔“
”بس اب میں آگے بتاتا ہوں۔ مرغی نے پہلے شیشے میں دیکھا اور ٹھونگیں مار مار کر اس پر نشان ڈال دیئے۔ پھر وہ سنگھار میز پر سجی چیزوں کی طرف بڑھی اور عادت کے مطابق انھیں اپنے پیروں سے کریدا۔ سب چیزیں اِدھر اُدھر بکھر گئیں۔ ایک لپ اسٹک بھی کھل گئی۔ مرغی نے اس پر خوب چونچیں ماریں۔“
”ارے ارے رکو ظالمو! یہ تم کیا قصّہ لے بیٹھے۔“ امی باہر آتے ہوئے بولیں۔
”امی آپ نے کہانی ہمیں بنانے کو دی ہے۔ ہم جو چاہیں کریں۔ تم بات جاری رکھو تیمور!“ تانیہ جلدی سے بولی۔
تیمور بولا۔ ”پھر اس نے ایک پرفیوم کی شیشی کو لات ماری۔ وہ میز سے گر کر ٹوٹ گئی۔ پورے گھر میں اس کی خوشبو پھیل گئی۔“
”اوہ خدایا! یہ تم نے کیا کیا؟“ امی رنجیدہ ہو کر بولیں۔
”امی آپ فکر نہ کریں۔ ہمارے گھر میں مرغیاں نہیں ہیں۔“ تانیہ نے کہا۔
”اچھا پھر کیا ہوا؟“امی نے ٹھنڈی سانس لے کر پوچھا۔
”اچھا اب آگے کی کہانی میں بناتی ہوں۔ مرغی وہاں سے نکلی اور باورچی خانے میں چلی گئی۔ وہاں آٹے کا کنستر رکھا تھا۔ مرغی نے اسے گرایا اور کھانا شروع کر دیا۔ وہ اپنے پنجوں سے خراب بھی کر رہی تھی۔ ذرا سی دیر میں وہ آٹے میں اَٹ کر سفید ہوگئی۔“
”بہت خوب! کہانی کے آغاز میں جو مرغی بھوری تھی۔ وہ بعد میں سفید ہو جاتی ہے، تو کیا گھر والے اسے پہچان لیں گے؟“ تیمور نے بُوڑھوں کی طرح ناک پر انگلی رکھ کر پوچھا۔
”ضرور پہچان جائیں گے بلکہ اچھی طرح پہچان لیں گے۔“ امی مصنوعی خفگی سے بولیں۔
”اب مرغی اور آگے بڑھتی ہے اور برآمدے میں چلی آتی ہے۔“
”میرا خیال ہے کہانی کو سمیٹنے کا وقت آگیا ہے۔“ امی نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں امی آپ نے ہمیں اچھے راستے پر لگا دیا ہے۔ یہ ہماری کہانی ہے۔ یہ کبھی ختم نہیں ہو گی۔ ہم جتنا چاہیں اسے پھیلادیں۔“ تانیہ بولی۔
”بالکل یہ کہانی کبھی ختم نہیں ہوگی۔“ تیمور نے دوٹوک لہجے میں کہا۔
”تو میرے بچو! اس مرغی سے کوئی اچھے کام بھی لے لو۔“ امی نے کہا۔
”امی آپ کبھی کسی مرغی سے اچھے کام کی توقع نہیں رکھ سکتیں۔ انھیں توڑ پھوڑ پسند ہوتی ہے۔ اچھا اب وہ برآمدے میں چلی آئی ہے۔ جہاں پر شوکیس میں برتن رکھے ہیں، اتفاق سے اس کا ایک شیشہ کھلا ہوا ہے۔“ تانیہ لہجے کو پُراسرار بناتے ہوئے بولی۔
”خدا کا واسطہ اتنے ظالم نہ بنو۔ میں سمجھ گئی ہوں تم کیا کرنا چاہتے ہو۔“ امی التجائی لہجے میں بولیں۔
”امی ہمیں مت روکیں۔ ہماری مرضی، ہماری کہانی ہے۔ ہم کچھ بھی کریں۔“ تیمور بولا۔
امّی نے سر پکڑ لیا۔
تانیہ بولی۔ ”اب مرغی شوکیس میں گھس گئی ہے۔ اس نے چینی کی پیالی کو لڑھکایا۔ وہ شوکیس سے گری اور ٹوٹ گئی۔ اس کے ٹکڑے دور تک بکھر گئے۔ پھر اس نے گلاس کو ٹھُونگیں ماریں …… آہ…… بے چارہ گلاس! زیادہ دیر اپنی جگہ پر نہیں رہا۔ وہ بھی…… چھن چھن چھناک!…… چھن چھن چھناک!……“ تیمور مسلسل آوازیں نکال رہا تھا۔
”بس بیٹا! اب شام ہوگئی ہے اور کسان کی بیوی واپس آگئی ہے۔“ امی نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔
”چلیں آپ بھی کیا یاد کریں گی ورنہ ہم تو اس کہانی کو ہمیشہ چلانا چاہتے تھے۔“ تانیہ بولی۔
”کسان کی بیوی بِکھرا ہوا گھر دیکھ کر غصے سے پاگل ہو جاتی ہے۔ وہ چُھری اٹھاتی ہے اور بسم اللہ…… اللہ اکبر……“ تیمور بولا۔
”ایک منٹ، ایک منٹ، امی یہاں ایک ٹیکنیکل مسئلہ ہے۔ کیا عورتیں مرغی حلال کر سکتی ہیں؟“ تانیہ نے پوچھا۔
”بالکل گاؤں کی عورتیں مرغی آسانی سے حلال کر لیتی ہیں۔ بعض اوقات تو چھوٹے موٹے بکرے بھی ان سے نہیں بچتے۔“ امی بولیں۔
”بس ٹھیک ہے رات کو کسان، مرغی کا قورمہ کھاکر خوب تعریفیں کرتا ہے۔“ تانیہ نے کہا۔
”شکر ہے کہانی ختم ہوئی۔ تم نے دیکھا وقت کو کس طرح کام میں لایا جا سکتا ہے۔ بس اب جلدی سے وضو کر کے سپارہ لے کر بیٹھ جاؤ۔ تمہاری استانی آنے والی ہیں۔“ امی بولیں۔
دونوں نے حیرت سے امی کو دیکھا اور ایک ساتھ بولے۔ ”امی آپ بہت ہوشیار ہیں۔“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top