لمبی ناک والا بونا
تحریر: Dwarf Long-Nose
مصنف: Wilhelm Hauff
انگریزی مترجم: Doris Orgel
اردو مترجم: جاوید بسام
……..
باب:۱
جناب! وہ لوگ غلطی پر ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ صرف بغداد کے حکم ران خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں پریاں اور جادوگر ہوتے تھے اور وہ اکثر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ان کہانیوں میں روحوں اور ان کے آقاؤں کی چالوں کے بارے میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔ حالانکہ میں نے سنا ہے کہ آج بھی یہاں پریاں رہتی ہیں اور کچھ عرصہ قبل میں نے خود ایک واقعہ دیکھا ہے۔ جس میں روحیں واضح طور پر شامل تھیں، آئیں میں آپ کو وہ قصہ سناتا ہوں۔
کئی سال پہلے میرے آبائی وطن جرمنی کے ایک شہر میں ایک جفت ساز (موچی) اور اس کی اہلیہ خاموشی اور امن کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ آدمی سارا دن گلی کے کونے پر بیٹھا جوتوں کی مرمت کرتا رہتا تھا اور جب کوئی اس سے نئے جوتے بنانے کو کہتا تو اسے بنا بھی دیتا، لیکن ایسی صورت میں اسے پہلے چمڑا خرید کر دینا پڑتا تھا۔ کیونکہ جفت ساز بہت غریب تھا۔اس کے پاس چمڑا خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ اس کی بیوی ایک دوسری جگہ سبزیاں اور پھل بیچتی تھی۔ جسے وہ شہر سے باہر ایک باغیچے میں اگاتی تھی۔ لوگ اس سے خوشی خوشی خریداری کرتے تھے، کیونکہ وہ صاف ستھرا مال بیچتی اور گاہکوں سے اخلاق سے بات کرتی تھی۔
ان معمولی لوگوں کا ایک بیٹا بھی تھا۔ جس کا نام جیکب تھا۔ اس کی عمر آٹھ سال تھی لیکن قد کاٹھ سے وہ بڑا لگتا تھا۔ وہ صحت مند اور خوبصورت تھا۔ عام طور پر وہ اپنی ماں کے پاس بیٹھا نظر آتا تھا۔ اکثر گھریلو خواتین اور باورچی جب زیادہ سامان خرید لیتے تو وہ سامان اٹھواکر اسے ساتھ لے جاتے۔ اس مشقت کے عوض اسے کبھی چھوٹا کیک، ٹافی یا کوئی سکہ انعام میں مل جاتا۔ وہ سب کی خوشی سے مدد کرتا تھا اور سب اسے پسند بھی کرتے تھے۔
ایک دن جب موسم خوشگوار تھا، جفت ساز کی اہلیہ ہمیشہ کی طرح بازار میں بیٹھی تھی۔ اس کے سامنے گوبھی اور دوسری سبزیوں کی ٹوکریاں رکھی تھیں، جن میں مختلف جڑی بوٹیاں اور بیج بھی تھے۔ ایک چھوٹی ٹوکری میں نئی فصل کی ناشپاتیاں، سیب اور خوبانیاں بھی رکھی تھیں۔ اس کا بیٹا جیکب قریب ہی کھڑا آوازیں لگا رہا تھا۔
”آئیں آئیں! دیکھیں! ……کتنی اچھی گوبھیاں ہیں! ……کیا خوشبودار جڑی بوٹیاں ہیں! ……خریدیں، خریدیں!……نئی ناشپاتیاں! سیب اور خوبانیاں!…… ماں کم قیمت پر تجارت کرتی ہے۔“
اسی دوران ایک بوڑھی عورت پھٹے پرانے کپڑوں میں بازار سے گزر رہی تھی۔ اس کا چہرہ سوکھا ہوا اور پتلا تھا جس پر بڑھاپے سے جھریاں پڑی تھیں۔ سرخ آنکھیں اور نوکیلی لمبی ناک تھی جو ٹھوڑی تک پہنچ رہی تھی۔ وہ لمبی لاٹھی کا سہارا لیے چل رہی تھی، لیکن یہ سمجھنا مشکل تھا کہ وہ کیسے حرکت کر رہی ہے۔ کبھی وہ لڑکھڑاتی تو کبھی پیر گھسیٹ کر چلنے لگتی۔ جفت ساز کی اہلیہ نے بوڑھی عورت کا بغور جائزہ لیا۔ وہ سولہ سال سے روز وہاں بیٹھ رہی تھی، مگر اس نے پہلے کبھی اسے نہیں دیکھا تھا۔ جب وہ سیدھی اس کی طرف چلی آئی اور ٹوکریوں کے پاس رک گئی تو وہ غیر ارادی طور پر خوفزدہ ہوگئی۔
”کیا آپ سبزیوں کی تاجر ’ہننا‘ ہیں؟“ بوڑھی عورت نے سر ہلاتے ہوئے تیز آواز میں پوچھا۔
جفت ساز کی بیوی نے جواب دیا،”ہاں میں ہننا ہوں۔ آپ کو کیا چاہیے؟“
”ہم دیکھتے ہیں! کیا آپ کے پاس ہماری ضرورت کی چیزیں بھی ہیں؟“ بوڑھی عورت نے جواب دیا۔
وہ ٹوکریوں کے سامنے جھکی اور جڑی بوٹیوں کو اپنے بدصورت ہاتھوں سے ٹٹولنے لگی۔ اس کی انگلیاں مکڑی کی لمبی ٹانگوں کی طرح تھیں، اس نے صفائی کے ساتھ سجی جڑی بوٹیوں کو الٹا پلٹا، پھر انھیں ایک ایک کر کے اپنی لمبی ناک تک لے گئی اور انھیں سونگھ کر دیکھنے لگی۔ اس کا یہ عمل جفت ساز کی بیوی کو اچھا نہیں لگا، لیکن وہ کچھ کہنے کی ہمت نہیں کر سکی، کیونکہ خریدار کا یہ حق ہے کہ وہ چیز کا انتخاب اچھی طرح دیکھ کر کرے اور اس کے علاوہ اسے عورت سے ایک انجانا سا خوف بھی محسوس ہورہا تھا۔ پوری ٹوکری کو الٹ پلٹ کرنے کے بعد وہ بڑبڑائی:
”کچرا، سب کچرا ہے۔ جیسی مجھے چاہئیں، یہ ویسی نہیں۔ پچاس سال پہلے یہ بہت بہتر ہوتی تھیں۔ سب کچرا۔ سب کچرا۔“
یہ سن کر جیکب کو غصہ آگیا۔ وہ بولا:
”سنیں بڑی بی! پہلے آپ نے اپنی گندی انگلیوں سے جڑی بوٹیوں کو الٹا پلٹا، پھر انھیں اپنی لمبی ناک کے نیچے لے گئیں۔ جس نے بھی یہ دیکھا وہ اب ہم سے یہ نہیں لے گا اور اب آپ ہمارے سامان کو کوڑا کہہ رہی ہیں۔ حالانکہ ڈیوک کا باورچی بھی ہم سے یہ سامان خوشی خوشی لے کر جاتا ہے۔“
بوڑھی عورت نے چبھتی ہوئی اور ناگوار نظروں سے لڑکے کی طرف دیکھا اور بولی۔ ”بیٹا! کیا تم کو میری خوبصورت لمبی ناک پسند نہیں آئی؟ رکو، یہ دیکھو یہ چہرے کے بالکل وسط پر ہے اور ٹھوڑی تک پھیلی ہوئی ہے۔“
ان الفاظ کے ساتھ، وہ ایک اور ٹوکری کے پاس گئی، جس میں گوبھی سجی تھی۔ اس نے گوبھی کے سب سے خوبصورت سفید پھول کو اٹھایا، اس کے پتے توڑے، پھر اسے ٹوکری میں پھینک دیا اور اسے اپنی لاٹھی ماری پھر بولی۔”کوڑا ہے، کوئی گوبھی بھی اچھی نہیں!“
لڑکا خوفزدہ ہوکر چلایا،”اتنی نفرت سے اپنا سر مت ہلائیں۔ آپ کی گردن کسی گوبھی کے ٹنڈ سے زیادہ موٹی نہیں ہے۔ یہ ٹوٹ جائے گی اور پھر آپ کا سر سیدھا ٹوکری میں جا گرے گا۔ پھر ہم اپنی چیزوں کے لئے خریدار کہاں سے تلاش کریں گے؟“
”تو کیا آپ پتلی گردن پسند نہیں کرتے؟“ بوڑھی عورت بڑبڑائی:”ٹھیک ہے، آپ کی گردن بالکل بھی نہیں ہوگی، آپ کا سر آپ کے کاندھوں میں دھنس جائے گا، تاکہ چھوٹا سا جسم کسی طرح چھوٹا نہ لگے۔“
”لڑکے سے فالتو قسم کی باتیں نہ کریں۔ اگر آپ کو کچھ چاہیے تو جلدی کریں، دوسرے گاہکوں کو پریشان نہ کریں۔“ جفت ساز کی بیوی ناراض ہوکر بولی۔
بوڑھی عورت نے غصے سے اس پر نگاہ ڈالی اور کہا:
”ٹھیک ہے۔ میں آپ سے گوبھی کے چھ پھول خریدوں گی، لیکن آپ دیکھ رہی ہیں، میں ایک لاٹھی کے سہارے چل رہی ہوں اور کچھ بھی اٹھا نہیں سکتی۔ آپ کے بیٹے کو میرے ساتھ سامان گھر تک لے جانا پڑے گا۔ میں اسے اس کا انعام دوں گی۔“
جیکب جانا نہیں چاہتا تھا، وہ رونے لگا، کیونکہ وہ بد صورت بوڑھی عورت سے خوف زدہ تھا، لیکن اس کی ماں نے اسے سختی سے بات ماننے کا حکم دیا، چونکہ وہ کمزور عورت پر اس طرح کا بوجھ ڈالنا گناہ سمجھتی تھی۔ لڑکے نے بڑبڑاتے ہوئے اپنی ماں کی بات مانی، گوبھی کے پھول ایک ٹوکری میں رکھے اور بازار میں بوڑھی عورت کے ساتھ چل دیا۔
باب:۲
بوڑھی عورت بہت آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ انھیں شہر کے ایک دور دراز حصے تک پہنچنے میں پونا گھنٹہ لگا۔ جہاں وہ ایک خستہ حال گھر کے سامنے رک گئی۔ پھر اس نے جیب سے ایک پرانی زنگ آلود چابی نکالی اور بڑی مشکل سے اسے تالے کے سوراخ میں داخل کیا دروازہ زوردار آواز کے ساتھ کھلا۔ وہ اندر داخل ہوئے۔
جیکب کو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ باہر کے برعکس اندر کی ہر چیز بہت خوبصورت اور شاندار تھی۔ سیڑھیوں اور دیواروں پر سنگ مرمر کے ٹائل لگے تھے، فرنیچر مہنگی آبنوسی لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ طاقوں میں بلوریں ظروف اور پالش کیے ہوئے پتھروں کے مجسمے سجے تھے۔ فرش شیشے کا تھا اور اتنا ہموار تھا کہ جیکب پھسل کر گر پڑا۔ اسی دوران بوڑھی عورت نے اپنی جیب سے چاندی کی ایک سیٹی نکالی اور زور سے بجائی۔ اس کی آواز پورے گھر میں گونج اٹھی۔ اچانک بہت سارے گنی پگ (امریکی چوہے) دوڑتے ہوئے نیچے چلے آئے۔ جیکب کو یہ بات بہت عجیب لگی کہ وہ اپنے پچھلے پیروں پر چل رہے تھے، ان کے پیروں میں اخروٹ سے بنے جوتے تھے اور وہ انسانی لباس میں ملبوس تھے۔ انھوں نے اپنے سروں پر جدید فیشن کے ہیٹ بھی پہنے ہوئے تھے۔
”اے بیکار گندے لوگو! تم نے میرے جوتے کہاں رکھے ہیں؟“ بوڑھی عورت چلائی اور اپنی چھڑی ان پر ہلائی۔ وہ زور سے چیخے اور واپس دوڑ گئے۔ پھر وہ سیڑھیوں پر چڑھے اور ناریل کے دو خول لے کر واپس آئے جن میں چمڑا لگا ہوا تھا اور انھیں بوڑھی عورت کے پیروں میں پہنایا۔ جوتے پہنتے ہی فوراً اس کا لنگڑا پن اور اٹک اٹک کر چلنا ختم ہوگیا۔ اس نے اپنی چھڑی کو پھینکا اور شیشے کے فرش پر رقص کے انداز میں پھسلتی ہوئی دور چلی گئی۔ پھر اس نے جیکب کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور اسے ایک دوسرے کمرے میں لے گئی۔ وہ جگہ باورچی خانے کی طرح لگتی تھی۔ اس کی الماریوں میں قیمتی برتن سجے تھے۔ پھر وہ ڈائننگ روم میں گئے جہاں مہاگنی (قیمتی لکڑی)کی میزیں اور صوفے تھے اور فرش نرم شاندار قالین سے ڈھکا ہوا تھا۔ وہ کمرہ کسی سرکاری محل کا حصہ لگتا تھا۔
”بیٹھ جاؤ، تم تھک گئے ہوگے۔“ بوڑھی عورت نے کہا اور اسے صوفے کے کونے میں دھکیل کر میز آگے کردی تاکہ وہ باہر نہ نکل سکے۔
”بیٹھ جاؤ، انسانی سر اتنے ہلکے نہیں ہوتے، ہاں اتنے ہلکے نہیں ہوتے۔“
جیکب نے کہا۔”دادی، میں آپ کی بات نہیں سمجھا۔ میں تو بس آپ کے ساتھ گوبھی کے پھول لے کر آیا ہوں۔ جو آپ نے میری ماں سے خریدے تھے۔“
”نہیں، تم غلط کہہ رہے ہو۔“ بوڑھی عورت ہنس پڑی۔ پھر اس نے ٹوکری کا ڈھکنا ہٹایا اور ہاتھ ڈال کر ایک انسانی سر باہر نکالا۔
یہ دیکھ کر جیکب خوف سے لرز اٹھا۔ وہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ یہ کیا ہوا ہے، پھر اسے اپنی ماں کا خیال آیا۔ اگر انھوں نے انسانی سروں کے بارے میں سنا تو وہ یقیناًمجھے مورد الزام ٹھہرائیں گی۔
”رکو، میں تمہاری فرمانبرداری پر انعام دیتی ہوں۔“ پھر بوڑھی عورت نے طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے کہا:”ایک منٹ صبر کرو، میں تمہارے لیے ایسا سوپ بناتی ہوں جسے پی کر تم ساری زندگی یاد رکھو گے۔“ وہ بولی اور سیٹی بجائی۔ سب سے پہلے بہت سارے گنی پگ انسانی لباس میں آئے، ان کے گلوں میں ایپرن بندھے تھے اور چاقو اور چمچے ان کے بیلٹوں میں لٹک رہے تھے۔ پھر گلہریوں کا ایک ہجوم ان کے پیچھے دوڑتا ہوا آیا۔ وہ اپنی پچھلی ٹانگوں پر چل رہی تھیں۔ انھوں نے ڈھیلی ڈھالی سفید پتلونیں اور سروں پر سبز مخمل کے ہیٹ پہنے ہوئے تھے۔ وہ ماہر باورچی لگتے تھے، کیونکہ وہ بہت تیزی سے الماریوں پر چڑھے اور وہاں سے پین اور پیالے، انڈے اور مکھن، جڑی بوٹیاں اور مسالے لے کر نیچے آئے اور سب کچھ چولہے پر لے گئے۔ اس دوران بوڑھی عورت اپنے ناریل کے جوتوں میں ان کے آگے پیچھے پیچھے گھومتی رہی۔ جیکب نے دیکھا کہ اس نے چولہا جلایا، اس پر کراہی رکھی۔ پھر اس میں ایک ایک کر کے مختلف چیزیں ڈالنے لگی۔ وہ کچھ پڑھ رہی تھی۔ اس کے ہونٹ تیزی سے ہل رہے تھے۔ اب آگ مزید بھڑک اٹھی تھی اور کڑاہی میں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ پورے کمرے میں مزیدار خوشبو پھیلی تھی۔ بوڑھی عورت کڑاہی میں چمچہ چلارہی تھی۔ گلہریاں اور گنی پگ اس کے آس پاس گھوم رہے تھے۔ پھر وہ صوفے پر آبیٹھی۔ وہ اب بھی کچھ بڑبڑارہی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ چولہے کے پاس گئی اور اپنی لمبی ناک کڑاہی میں ڈال کر سونگھا۔ کڑاہی میں سے بھاپ نکل رہی تھی اور جھاگ نظر آرہی تھی۔ تب اس نے کڑاہی اتاری، سوپ کو چاندی کے پیالے میں ڈالا اور اسے جیکب کے سامنے رکھ دیا۔
”لو یہ پیو! یہ پیتے ہی تم کو وہ سب کچھ مل جائے گا جو تم میرے بارے میں کہہ رہے تھے اور جو تمہیں پسند نہیں تھا۔ اب تم ہنرمند باورچی بن جاؤں گے، لیکن تم کو کبھی بھی وہ جڑی بوٹی نہیں ملے گی جو میں تمہاری ماں کی ٹوکری میں تلاش کررہی تھی۔“
جیکب صحیح طور پر سمجھ نہیں پارہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے، اس نے سوپ اٹھا کر چکھا، وہ بہت مزے کا تھا۔ وہ پیتا چلا گیا۔ اس کی ماں اسے اکثر اچھا سوپ بناکر دیتی تھی، لیکن ایسا اس نے کبھی نہیں پیا تھا۔ وہ میٹھا، کھٹا اور بہت مزیدار تھا، اس میں سے جڑی بوٹیوں اور جڑوں کی بہت اچھی خوشبو آرہی تھی۔ جب اس نے اس مزیدار سوپ کا آخری قطرہ بھی اپنے اندر اتار لیا تو گنی پگ نے ایک اگربتی جلائی، جس سے کمرے میں خوشبودار گہرا دھواں پھیل گیا۔ اس مہک نے جیکب کو مدہوش کردیا۔ اسے نیند آنے لگی تھی۔ جب بھی اسے یاد آیا کہ اب ماں کے پاس جانے کا وقت آگیا ہے اور اس نے اٹھنا چاہا، وہ پھر غشی میں ڈوب گیا اور آخر کار وہ بوڑھی عورت کے صوفے پر گہری نیند سو گیا۔
جیکب نے سوتے ہوئے عجیب و غریب خواب دیکھے۔ اسے ایسا لگا کہ بوڑھی عورت نے اس کے کپڑے اتارے اور اسے گلہری کی جلد کے لباس میں ملبوس کیا ہے۔ اب وہ چھلانگ لگا سکتا تھا اور گلہری کی طرح اوپر چڑھ سکتا تھا۔ اس نے باقی گلہریوں اور گنی پگز سے ملاقات کی، وہ نہایت ہی شائستہ اور اچھے رویے والے جانور تھے۔ ان کے ساتھ مل کر وہ بوڑھی عورت کی خدمت کرنے لگا۔
پہلے سال اسے صرف بوٹ صاف کرنے والے کے فرائض ادا کرنے تھے۔ یعنی اسے ناریل کے تیل اور پالش سے جوتوں کو چمکانا تھا، جو بوڑھی عورت پہنتی تھی۔ اس نے بہت عمدہ طریقے سے یہ کام کیا۔ کیوں کہ وہ اپنے گھر میں اس طرح کے کام کرتا رہتا تھا۔
دوسرے سال اسے مزید نازک کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ اسے دیگر گلہریوں کے ساتھ، سورج کی روشنی میں دھول کو پکڑنے کا حکم دیا گیا۔ کافی مقدار میں پکڑنے کے بعد وہ انہیں ایک عمدہ چھلنی کے ذریعے چھان لیتے تھے۔ پھر اس سے آٹا بنایا جاتا۔ اس نرم آٹے سے بوڑھی کے لیے روٹی بنائی جاتی تھی۔ کیوں کہ اس کے دانت نہیں تھے۔
تیسرے سال اس کو ان نوکروں کی ٹولی میں منتقل کردیا گیا۔ جو بوڑھی عورت کے لئے پینے کا پانی جمع کرتے تھے۔ یہ مت سمجھو کہ انھیں کنویں کھودنے کا حکم دیا گیا تھا یا وہ صحن میں بارش کا پانی ایک بیرل میں ڈال رہے ہوتے تھے۔ نہیں، بلکہ ان کا کام ایک طرح سے فن تھا۔ وہ اور گلہریاں، ریٹھوں کے خولوں سے شبنم کے قطرے جمع کرتے تھے۔ وہ رس بوڑھی عورت بطور پانی پینے کے لیے استعمال کرتی تھی اور چونکہ وہ بہت زیادہ پانی پیتی تھی۔ اس لیے انھیں ہر وقت مصروف رہنا پڑتا تھا۔
چوتھے سال اسے گھریلو کام سونپے گئے۔ فرش کو صاف رکھنا اس کی ذمہ داری تھی اور چونکہ وہ شیشے کا بنا ہوا تھا اور اس پر سانس لینے سے بھی نشان پڑجاتے تھے۔ لہٰذا یہ کام آسان نہیں تھا۔ وہ برش سے رگڑ رگڑ کر فرش کو صاف کرتا۔ اس دوران وہ اپنے پاؤں پر ایک پرانا کپڑا باندھ کر کمرے میں گھومتا رہتا۔
پانچویں سال آخر کار اسے باورچی خانے میں تفویض کردیا گیا۔ یہ عزت دارانہ کام تھا۔ اسے طویل آزمائش کے بعد ہی اس کی اجازت دی گئی تھی۔ وہ پہلے ایک باورچی بنا،پھر صدر باورچی کے عہدے پر فائز ہوا۔ اس نے کھانا پکانے کے فن سے متعلق ہر چیز میں اتنا وسیع تجربہ اور مہارت حاصل کی کہ وہ خود بھی اکثر حیرت میں پڑ جاتا تھا۔ اس نے سب کچھ سمجھا۔ سب کچھ سیکھا۔ وہ مختلف مسالوں اور جڑی بوٹیوں کو استعمال کر کے دو سو مزے دار، پیچیدہ پکوان اور سوپ تیار کرلیتا تھا۔ اس طرح بوڑھی عورت کی خدمت میں اس کے سات سال گزر گئے۔
پھر ایک دن بوڑھی عورت نے باہر جانے کا قصد کیا۔ اس نے اپنے ناریل کے جوتے اتار کر پرانے جوتے پہنے، اپنی ٹوکری اور لاٹھی لی اور بونے کو حکم دیا کہ وہ ایک مرغی کاٹے اسے مسالوں اور جڑی بوٹیوں سے بھرے اور اس کی آمد سے پہلے پہلے اس کو بھورے رنگ کا بھون کر تیار کردے۔ جیکب نے کام شروع کیا وہ اسے کھانا پکانے کے فن کے تمام اصولوں کے مطابق تیار کرنا چاہتا تھا۔ پہلے اس نے مرغی کو ذبح کیا، پھر اسے ابلتے ہوئے پانی میں ڈالا اور اس کے پروں کو صاف کیا۔ پھر کھال کو خوب رگڑا،پھر اس کی آلائشیں صاف کیں اور مرغی میں بھرنے کے لئے جڑی بوٹیاں جمع کرنا شروع کیں۔ وہ اس کمرے میں گیا جہاں جڑی بوٹیاں رکھی جاتی تھیں۔ وہاں اسے دیوار گیر الماری میں ایک نیم وا چھوٹا دروازہ نظر آیا۔ جسے اس نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ اس میں کیا ہے؟ یہ جاننے کے شوق میں وہ قریب چلا آیا۔ وہاں بہت سی ٹوکریاں تھیں۔ جن میں سے بہت خوشگوار تیز خوشبو آ رہی تھی۔ اس نے ایک ٹوکری کھولی تو اسے ایک خاص شکل اور رنگ کی جڑی بوٹی ملی۔ جس کے پتے سبزی مائل نیلے رنگ کے اور پھول پیلے رنگ کے تھے اور ان کے کنارے آتش گیر سرخ رنگ لیے ہوئے تھے۔ کچھ سوچتے ہوئے اس نے پھول کو دیکھا اور اسے سونگھا، اس میں سے وہی تیز مہک آرہی تھی۔ جس سے ایک بار بوڑھی عورت نے اس کے لئے سوپ تیار کیا تھا۔ جو بہت خوشبودار تھا۔ وہ بو اتنی تیز تھی کہ اسے چھینک آگئی، وہ بار بار چھینکنے لگا اور آخر کار اسے ایک زوردار چھینک آئی اور وہ جاگ اٹھا۔
باب:۳
جیکب، صوفے پر لیٹا حیرت سے کمرے میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ کیا کچھ خواب ایسے بھی نظر آتے ہیں جو بالکل حقیقت لگتے ہیں۔ میں قسم کھا سکتا ہوں کہ میں ایک نرم دل گلہری ہوں، گنی پگ اور دوسرے جانور میرے دوست ہیں اور میں اس وقت ایک ہنر مند باورچی بن گیا ہوں۔ جب میں ماں کو یہ سب بتاؤں گا تو وہ بہت ہنسے گی۔ پھر شاید وہ مجھے ڈانٹے گی بھی کہ میں دکان پر اس کی مدد کرنے کے بجائے اجنبی گھر میں کیوں سوگیا تھا۔ یہ سوچتے ہوئے وہ وہاں سے رخصت ہونے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کا پورا جسم اب بھی نیند سے بوجھل تھا، خاص کر اس کی گردن۔ وہ اپنا سر ٹھیک سے نہیں موڑ پارہا تھا۔ اسے خود پر ہنسی آگئی کہ وہ نیند میں کتنا مدہوش ہے۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا اٹھا اور کبھی دیوار سے ٹکرایا کبھی الماری سے اور جب اس نے تیزی سے مڑ کر دیکھا تو اس کی ناک دروازے کی چوکھٹ سے ٹکرا گئی۔ گلہریاں اور گنی پگ اس کے آس پاس ایسی آوازیں نکال رہے تھے جیسے وہ اس کے ساتھ چلنا چاہتے ہوں۔ اس نے دہلیز پر کھڑے ہوکر انھیں اپنے پاس بلایا، کیونکہ وہ اچھے جانور تھے۔ لیکن وہ جلدی سے گھر میں واپس پلٹ گئے اور اندر سے بس ان کی چیخنے کی آوازیں آتی رہیں۔
بوڑھی عورت اسے شہر کے ایک دور دراز حصے میں لے گئی تھی۔ تنگ گلیوں میں اسے اپنا راستہ تلاش کرنے میں کچھ دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ وہاں سے گزرتے ہوئے اسے اپنے آس پاس کئی لوگ نظر آئے جو آوازیں لگا رہے تھے۔ وہ کسی بونے کو چھیڑ رہے تھے:
”ارے! اس عجوبے کو دیکھو! ایسا بونا کہاں سے آیا؟ اس کی لمبی ناک ہے اور اس کا سر پوری طرح اس کے کاندھوں میں دھنسا ہوا ہے، اس کے ہاتھ کتنے سیاہ اور بدصورت ہیں!“
کوئی اور وقت ہوتا تو وہ خود بھی ان لوگوں میں شامل ہوجاتا، کیوں کہ دنیا کی کسی بھی چیز سے زیادہ اسے جنات، بونوں اور غیر فطری چیزوں کو دیکھنا پسند تھا، لیکن ابھی اسے اپنی ماں کے پاس پہنچنے کی جلدی تھی۔
جب وہ بازار میں آیا تو یہ دیکھ کر گھبرا گیا کہ اس کی ماں ابھی بھی وہاں موجود ہے اور اس کی ٹوکریوں میں بہت سامان بھرا ہے، جس کا مطلب تھا کہ وہ بہت لمبی نیند نہیں سویا تھا، لیکن دور سے ہی ماں بہت دکھی دکھائی دے رہی تھی۔ وہ گاہکوں کو آوازیں بھی نہیں لگا رہی تھی اور سر پر ہاتھ رکھے بیٹھی تھی۔ جب وہ قریب آیا تو اس نے دیکھا ماں پہلے کے مقابلے میں کمزور اور پیلی ہورہی ہے۔ وہ ہچکچا رہا تھا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ آخر کار اس نے ہمت کو مجتمع کیا، دبے پاؤں اس کی طرف بڑھا اور پیچھے سے اس سے لپٹ گیا۔ پھر بولا۔”ماں، کیا آپ بیمار ہیں؟ کیا آپ مجھ سے ناراض ہوگئی ہیں؟“
عورت نے مڑ کر دیکھا، پھر فوراً ہی خوف کے مارے چلانے لگی۔ ”تم مجھ سے کیا چاہتے ہو، گندے بونے! جاؤ، چلے جاؤ! مجھے مذاق سے نفرت ہے۔“
”کیا بات ہے ماں؟ آپ اپنے بیٹے کو کیوں بھگا رہی ہیں؟“ خوفزدہ جیکب نے پوچھا۔
”میں نے تم سے کہا ہے یہاں سے جاؤ۔“ ہننا نے چڑ کر جواب دیا۔
”ایسا لگتا ہے، خدا نے اس کا دماغ پلٹ دیا ہے۔“ جیکب نے ڈرتے ہوئے سوچا۔ اب میں کیا کروں، اسے گھر کیسے لے کر جاؤں؟
”پیاری ماما، ہوش میں آئیں، مجھے اچھی طرح دیکھیں۔ میں آپ کا بیٹا جیکب ہوں۔“
”نہیں بس بہت مذاق ہوگیا۔“ ہننا نے پڑوسیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ”اس بونے شیطان کو دیکھو، یہ یہاں کھڑا خریداروں کو ڈرا رہا ہے اور میرے غم پر طنز کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کہتا ہے۔ میں تمہارا بیٹا ہوں، تمہارا جیکب ہوں۔ آہ! یہ بہت بے غیرت ہے۔“
پڑوسیوں نے اس کی طرف غصے سے دیکھا اور چلائے کیونکہ اس نے غریب ہننا کی بدقسمتی کا مذاق اڑایا تھا۔ جس کا بیٹا، ایک خوبصورت لڑکا، سات سال پہلے اغوا ہوگیا تھا۔ انھوں نے جیکب کو دھمکی دی کہ اگر وہ فوراً وہاں سے نو دو گیارہ نہیں ہوا تو وہ سب اس کو مل کر ماریں گے۔
غریب جیکب کو نہیں معلوم تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ آج صبح معمول کے مطابق وہ اپنی ماں کے ساتھ بازار گیا تھا، دکان لگانے میں اس کی مدد کی تھی۔ پھر بوڑھی عورت کے ساتھ اس کے گھر گیا، سوپ پیا، تھوڑی سی جھپکی لی اور اب وہ بازار میں واپس آگیا تھا، مگر والدہ اور پڑوسی سات سال کے بارے میں کہہ رہے تھے اور وہ اسے گندا بونا کہتے تھے۔ اسے کیا ہوا ہے؟ جب اسے معلوم ہوا کہ اس کی والدہ اس سے بات کرنا نہیں چاہتیں تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ افسوس کے ساتھ اس دکان کی طرف چل دیا جہاں اس کے والد سارا دن جوتے ٹھیک کرتے تھے۔ اس نے سوچا دیکھتا ہوں وہ مجھے پہچانتے ہیں یا نہیں۔ میں دروازے پر کھڑا ہو کر ان سے بات کروں گا۔ وہ دکان پر پہنچا اور دروازے پر کھڑا ہوگیا۔ جفت ساز اپنے کام میں اتنا محو تھا کہ اس نے جیکب کی آمد کو محسوس نہیں کیا، لیکن پھر اتفاق سے اس کی نگاہ دروازے کی طرف گئی تو اس کے ہاتھ سے جوتا، دھاگا اور سُوا گرگیا اور وہ خوف سے چیخا۔”اوہ میرے خدا!“
”شام بخیر جناب! آپ کیسے ہیں؟“ جیکب نے دکان میں داخل ہوکر پوچھا۔
”برا، بہت برا، جناب!“ باپ نے جواب دیا۔
جیکب کی حیرت کا کوئی ٹھکانا نہ رہا کہ اس کا باپ بھی اسے نہیں پہچان رہا تھا۔
”کام ٹھیک نہیں چل رہا ہے، میں تنہا ہوں اور بوڑھا ہوں اور ملازم رکھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔“
”کیا آپ کا بیٹا نہیں ہے جو آپ کے کام میں کچھ مدد کرے؟“ بونے نے پوچھا۔
”میرا ایک بیٹا تھا، اس کا نام جیکب تھا، آج وہ ایک باشعور پندرہ سال کا لڑکا ہوتا اور میری بہت مدد کرسکتا تھا۔ ہاں وہ آٹھ سال کی عمر میں ہی ایک ہوشیار، ہنر مند لڑکا تھا اور موچی کا کام جانتا تھا۔ وہ بہت خوبصورت اور بہت شائستہ نوجوان تھا۔ وہ گاہکوں کو جلد راغب کرلیتا تھا۔“
”آپ کا بیٹا اب کہاں ہے؟“ اس نے کانپتی آواز میں اپنے والد سے پوچھا۔
”خدا جانتا ہے۔“ اس نے جواب دیا:”سات سال پہلے، ہاں اب اتنا ہی وقت گزر گیا ہے۔ وہ بازار سے اغوا ہوا تھا۔“
”سات سال پہلے؟“ جیکب خوف سے کانپ اٹھا۔
”ہاں، میرا چھوٹا سا شریف لڑکا سات سال سے گم ہے۔ جیسا کہ مجھے یاد ہے، میری اہلیہ روتے ہوئے گھر آئی اور سسکیاں لیتے ہوئے بتانے لگی کہ وہ سارا دن لڑکے کا انتظار کرتی رہی ہے۔ اس نے سب سے پوچھا، ہر جگہ اس کو تلاش کیا، لیکن وہ کہیں نہیں ملا۔ میں ہمیشہ اس سے کہتا تھا کہ ہمیں جیکب کا خیال رکھنا چاہیے۔ وہ ایک خوبصورت بچہ ہے، میری اہلیہ کو اس پر فخر تھا، جب اس کی تعریف کی جاتی تھی تو وہ خوش ہوتی تھی۔ اور اکثر اسے سبزیاں خریدنے والے گاہکوں کے ساتھ بھیج دیتی تھی۔ یہ برا نہیں تھا۔ ہر بار وہ لوگ اسے انعام دیتے تھے، لیکن میں اسے خبردار کرتا تھا۔ دیکھو! یہ شہر بہت بڑا ہے، بہت سارے بُرے لوگ بھی اس میں رہتے ہیں، جیکب کا خیال رکھو۔ ایک دن ایک بدصورت بوڑھی عورت دکان پر آکر پھلوں اور سبزیوں کو دیکھ رہی تھی۔ آخر میں اس نے اتنی خریداری کی کہ وہ خود گھر نہیں لے جا سکتی تھی۔ میری اہلیہ کا دل نرم ہے۔ اس نے بوڑھی کے ساتھ لڑکے کو بھیج دیا اور وہ واپس نہیں آیا۔ ہم نے اس کا اعلان کروایا، گھر گھر جاکر پوچھا۔ بہت سارے لوگ اس کو جانتے اور پیار کرتے تھے۔ وہ ہمارے ساتھ اسے تلاش کر رہے تھے۔ مگر سب بیکار تھا۔ سبزیوں کو خریدنے والی اس خاتون کا کسی کو معلوم نہیں تھا۔ صرف ایک بوڑھی عورت جو نوے سال کی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ شاید وہ جادوگرنی ’ٹریوزنیا‘ہوگی، جو ہر پچاس سال بعد ایک بار اس طرح خریداری کے لئے شہر آتی ہے۔“
یہ کہہ کر جیکب کے والد نے جوتے کو مایوسی سے پٹخا اور پھر بے دلی سے اٹھا کر سلائی کرنے لگا۔ آہستہ آہستہ بونے پر واضح ہوگیا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ وہ خواب نہیں تھا، وہ حقیقت میں سات سال گنی پگز اور گلہریوں کے ساتھ جادوگرنی کی خدمت کرتا رہا تھا۔ اس کا دل غم و غصے سے بھر گیا۔ بوڑھی عورت نے اس کی جوانی کے سات سال چوری کر لیے تھے اور اس کے بدلے میں اسے کیا ملا تھا؟ سوائے ناریل کے جوتوں کو پالش کرنے اور شیشے والے فرش کو صاف رکھنے کے؟ کیا اس نے گنی پگ سے کھانا پکانے کے راز بھی سیکھے تھے؟
باب:۴
وہ کچھ دیر کھڑا اپنی قسمت پر غور کرتا رہا۔ آخر والد نے اس سے پوچھا۔ ”نوجوان! تم شاید کچھ آرڈر دینا چاہتے ہو؟ ایک نئے جوتے کے جوڑے کا یا……“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا،”شاید اپنی ناک کے غلاف کا؟“
”آپ نے میری ناک کی بات کیوں کی؟ مجھے اس کے لئے غلاف کی ضرورت کیوں ہے؟“ جیکب نے پوچھا۔
”یہ ٹھیک ہے کہ ہر کسی کی اپنی اپنی پسند ہوتی ہے، لیکن میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر میری ایسی ناک ہوتی تو میں اس کے لئے گلابی پیچیدہ چمڑے کے غلاف کا حکم دیتا۔ یہ دیکھیں، میرے پاس یہ ایک عمدہ چمڑے کا ٹکڑا ہے۔ یہ آپ کو بہت سی چیزوں سے بچائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ جب آپ بھیڑ میں راستہ بنانا چاہیں گے تو یہ لوگوں، دروازے کی چوکھٹوں اور گاڑیوں سے آپ کو محفوظ رکھے گا۔“
جیکب خوفزدہ ہو گیا۔ اس نے اپنی ناک کو چھوا، ناک بہت موٹی اور لمبائی میں کم سے کم دو بالشت کی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ بوڑھی عورت نے اسے اپنا روپ دے دیا تھا۔ اسی وجہ سے ماں نے اسے نہیں پہچانا تھا اور اسے بونا شیطان کہہ رہی تھی۔
”آقا! کیا آپ کے پاس آئینہ ہوگا؟“وہ تقریباً روتے ہوئے جفت ساز کی طرف پلٹا اور بولا۔
”دنیا میں ایسی کوئی نظر نہیں ہے جو آپ کی تعریف کرے، نہ آپ کو ہر وقت آئینہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آپ کو یہ مضحکہ خیز عادت چھوڑ دینی چاہیے۔“ باپ نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
”اوہ، مجھے آئینے میں دیکھنے دیں۔ یہ میں اپنی تعریف کروانے کے لیے نہیں کررہا۔“ بونے نے فریاد کی۔
”مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ میر ے پاس کوئی آئینہ نہیں ہے۔ اگر آپ کو آئینے میں دیکھنے کی بہت ضرورت ہے، تو شہر میں سڑک کے اس پار حجام کی دکان ہے۔ اس کے آئینے میں آپ کا سر دوگنا بڑا نظر آئے گا۔ اس پر دیکھ لیں، لیکن اب چلیں خدا حافظ!“
ان الفاظ کے ساتھ اس کے والد اسے دکان سے باہر لے گئے، دروازہ بند کیا اور دوبارہ کام کرنے بیٹھ گئے۔ جیکب غم سے نڈھال حجام کی دکان کی طرف چل دیا۔
”صبح بخیر جناب! میں آپ کا ایک احسان لینے آیا ہوں۔ کیا آپ مہربانی کرکے مجھے اپنے آئینے میں اپنا آپ دیکھنے دیں گے؟“ لڑکے نے دکان میں داخل ہوکر کہا۔
دکان میں موجود حجام، بال کٹوانے والے اور داڑھی ترشوانے کے منتظر بیٹھے لوگوں نے پہلے حیرت سے اس کی بات سنی پھر زور زور سے قہقہے لگانے لگے۔
”آپ واقعی بہت خوبصورت ہیں۔ آپ کی گردن پتلی اور ہنس کی طرح ہے۔ آپ کے بازو ملکہ کی طرح ہیں اور یہ سچ ہے کہ دنیا میں اور کسی کے پاس ایسی ناک نہیں ملے گی۔ ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، ایک نظر ڈال لیں، ورنہ لوگ میرے بارے میں کہیں گے کہ میں نے حسد کی وجہ سے آپ کو اپنے آئینے میں دیکھنے کی اجازت نہیں دی۔“ حجام نے کہا۔
اس کی بات سن کر پوری دکان قہقہوں سے گونج اٹھی۔
جیکب آئینے کے پاس گیا اور اس میں دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ہاں پیاری ماں آپ یقینا اپنے جیکب کو نہیں پہچان سکتی تھیں۔ ایک وقت تھا جب آپ اس کی خوبصورتی پر فخر کرتی تھیں۔ اب اس کی شکل مختلف ہے۔ اب اس کی آنکھیں خنزیر کی طرح چھوٹی ہیں، اس کی ناک بڑھ کر اس کے منہ اور ٹھوڑی پر لٹکی ہے، اس کی گردن غائب ہے۔ کیوں کہ اس کا سر اس کے کندھوں میں دھنسا ہوا ہے اور اسے ایک طرف سے دوسری طرف گھمانا بہت تکلیف دہ ہے۔ اس کا قد ابھی بھی اتنا ہی ہے جتنا سات سال پہلے تھا، لیکن قد کی نسبت وہ چوڑائی میں بڑھ گیا ہے، اس کی پیٹھ پر کُب ہے اور سینہ بہت پھیلا ہوا ہے اور ایک چھوٹے سے لیکن خوب بھرے ہوئے تھیلے کی طرح لگتا ہے۔ موٹا جسم کمزور ٹانگوں پر رکھا ہے جو اس کے وزن سے ٹیڑھی ہوگئی ہیں۔ لیکن بازو ایک بالغ آدمی جتنے لمبے ہیں۔ ہاتھ موٹے اور سیاہ ہیں اور انگلیاں مکڑی کی ٹانگوں کی طرح بڑھی ہوئی ہیں، یوں جیکب چھوٹا ہوگیا ہے۔ وہ بدصورت بونے میں بدل گیا ہے۔
اب جیکب کو اُس صبح کا وقت یاد آیا جب بوڑھی عورت بازار میں اس کی ماں کے پاس آئی تھی۔ جھریوں بھرا چہرہ، لمبی ناک اور بدصورت انگلیاں۔ اس نے لڑکے کو ہر چیز سے نوازا تھا۔ سوائے ایک لمبی، لرزتی ہوئی گردن کے، اس نے گردن کو مکمل طور پر ختم کردیا تھا۔
”ٹھیک ہے، میرے شہزادے! کیا آپ نے خود کو اچھی طرح دیکھ لیا ہے؟“ حجام سے پوچھا۔
وہ اس کے قریب آیا اور طنزیہ نظر ڈالی۔ پھر بولا۔”چھوٹے آدمی! میرے پاس آپ کے لئے ایک پیش کش ہے۔ سچ یہ ہے کہ میری دکان پر بڑی معقول تعداد میں لوگ آتے تھے، لیکن حال ہی میں یہ تعداد کم ہوگئی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ میرے پڑوسی حجام کو کہیں سے ایسا دیو نما آدمی ملا ہے۔ جو دیکھنے والوں کو اپنی طرف راغب کرتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بڑا بننے کے لئے زیادہ مہارت کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن آپ جیسا آدمی بننا زیادہ مشکل ہے۔ تو چھوٹے آدمی! میرے پاس ملازمت کرلو، میں تمہیں رہنے کی جگہ دوں گا، کھانا، پانی، کپڑے اور جوتے غرض تمہارے پاس ہر چیز ہوگی۔ بس اس کے لئے تم کو صبح کے وقت میرے دروازے کے سامنے کھڑا ہونا ہوگا اور گاہکوں کو دکان پر بلانا اور ان کو تولیہ پیش کرنا ہوگا اور میں تم کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمارے معاملات بہتر رہیں گے۔ میرے پاس اپنے پڑوسی سے زیادہ گاہک ہوں گے اور سب خوشی خوشی تم کو سکّے دیا کریں گے۔“
حجام کے لئے خدمات انجام دینے کی تجویز پر جیکب اندر ہی اندر غصے سے بھنا اٹھا، لیکن اسے یہ توہین برداشت کرنا پڑی۔ اس نے حجام کو سکون سے جواب دیا کہ اس کے پاس اس طرح کی خدمات کے لئے وقت نہیں ہے اور دکان سے نکل گیا۔
اگرچہ شریر بوڑھی عورت نے اس کی شکل بگاڑ دی تھی، لیکن وہ اس کے دماغ کو نقصان نہیں پہنچا سکی تھی۔ وہ سات سال پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ ہوشیار ہوگیا تھا اور اپنے فیصلے خود کرسکتا تھا۔ اسے اپنی خوبصورتی کے ضائع ہونے کا غم نہیں تھا، نہ اپنی موجودہ بدصورتی کا، بلکہ اسے اس بات کا افسوس تھا کہ اس کے والد نے اسے کتے کی طرح اپنی دہلیز سے دور کردیا تھا۔ لہٰذا، اس نے اپنی ماں کے پاس جانے اور دوبارہ قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔
وہ بازار میں اس کے پاس پہنچا اور اسے سکون سے بات سننے کو کہا۔ اس نے ماں کو اس دن کی یاد دلائی جب اس نے بوڑھی عورت کے ساتھ اسے رخصت کیا تھا، بچپن کے مختلف واقعات سنائے، پھر اس نے بتایا کہ اس نے کس طرح جادوگرنی کے پاس سات سال خدمت انجام دی اور کس طرح نجات حاصل کی۔
جفت ساز کی اہلیہ کو نہیں معلوم تھا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ۔ اس نے اپنے بچپن کے بارے میں جو کچھ بھی بتایا تھا وہ واقعتا سچ تھا، لیکن جب اس نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ سات سالوں سے گلہری بنا ہوا تھا تو ماں نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا ہے اور نہ کوئی ایسا جادوئی لباس ہوتا ہے۔ وہ یقین نہیں کرسکتی تھی کہ یہ اس کا بیٹا ہے۔ آخر اس نے اپنے شوہر سے بات کرنا بہتر سمجھا۔ اس نے ٹوکریاں جمع کیں اور بونے سے کہا کہ اس کے ساتھ چلے۔ چنانچہ وہ جوتے بنانے والے کی دکان پر پہنچے۔
”دیکھو! یہ شخص ہمارے گمشدہ بیٹے جیکب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس نے مجھے سب کچھ بتایا کہ سات سال قبل اسے ہم سے کیسے چھین لیا گیا تھا اور اس پر ایک جادوگرنی نے جادو کیا تھا۔“ماں بولی۔
جفت ساز غصے میں چلایا۔”رکو رکو۔۔۔ کیا یہ وہی نہیں ہے جو کچھ دیر پہلے مجھ سے یہ سب باتیں پوچھ کر گیا ہے۔ ٹھہر کمینے! تو ہمیں بیوقوف بنانے چلا ہے؟ رک میں تجھے بتاتا ہوں۔“ ان الفاظ کے ساتھ ہی اس نے چمڑے کا ایک بیلٹ اٹھایا اور بونے کے پیٹھ اور بازو پر زور سے مارا۔ وہ درد سے چیخا اور روتا ہوا وہاں سے بھاگ گیا۔
باب:۵
دوسرے شہروں کی طرح اس شہر میں بھی بہت کم ایسے ہمدرد لوگ تھے جو ایک غریب شخص کی مدد کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ غریب بونا سارا دن اپنے لیے کھانے پینے کا کوئی انتظام نہیں کر پایا اور جب اندھیرا ہوگیا تو اسے رات چرچ کے احاطے میں گزارنی پڑی، جہاں سخت سردی تھی۔
جب اگلی صبح سورج کی کرنوں نے اسے بیدار کیا تو اس نے سنجیدگی سے سوچا کہ اسے زندہ رہنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ اگرچہ حجام نے اسے ملازمت کی پیشکش کی تھی، لیکن اسے جوکر بننا پسند نہیں تھا۔ پھر کیسے زندہ رہا جائے؟ اس نے خود سے سوال کیا، اچانک اسے یاد آیا کہ جب وہ گلہری تھا تو وہ کھانا پکانے کے فن میں بہت ماہر تھا اور اب بھی اسے یقین تھا کہ وہ کسی بھی باورچی کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ اس نے اپنے اس فن کی مہارت کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
جیسے ہی راستوں اور سڑکوں پر رونق ہوئی۔ اس نے اللہ سے دعا کی۔ پھر وہ روانہ ہو گیا۔ اس ملک کا حکمران نواب ایک مشہور پیٹو آدمی تھا۔ اس کے باورچی خانے میں ماہر باورچی اس کے لیے نت نئے مزیدار کھانے بنانے میں کوشاں رہتے تھے۔ اسے مٹھائیاں بھی بہت پسند تھیں۔ بونا جیکب اس کے محل کی طرف چل دیا۔ محل کے بیرونی پھاٹک پر دربان پہلے تو اس کا مذاق اڑانے لگے۔ پھر انھوں نے پوچھا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ اس نے صدر باورچی سے ملنے کا مطالبہ کیا۔ وہ ہنستے ہوئے اسے اندرونی صحن میں لے گئے، وہ جہاں سے بھی گزرتا، نوکر اپنا کام چھوڑ کر اس کی طرف دیکھتے، زور سے ہنستے اور اس کے ساتھ چل دیتے۔ آخر نوکروں کا ایک جلوس محل کی سیڑھیوں پر چلا آیا۔ ہر کوئی دھکے دے رہا تھا اور جلدی کررہا تھا۔ وہ اس طرح ایک دوسرے کو دھکیل رہے تھے گویا کوئی دشمن دروازے کے قریب آپہنچا ہو، ہوا میں چیخ و پکار مچی تھی۔”بونا! بونا!…… کیا آپ نے بونے کو دیکھا ہے؟“
تب محل کا نگراں دروازے پر نمودار ہوا، اس کا چہرہ غصے سے سرخ تھا اور اس نے ہاتھ میں ایک بہت بڑا کوڑا پکڑا ہوا تھا۔
”خدا سے ڈرو، کتوں کی طرح کیوں شور مچا رہے ہو! کیا تم نہیں جانتے کہ یہ نواب کے آرام کرنے کا وقت ہے۔“ ان الفاظ کے ساتھ ہی وہ اپنا کوڑا ہوا میں لہراتے ہوئے بڑی بے رحمی کے ساتھ نوکروں کی پشت پر مارنے لگا۔
”آقا! کیا آپ نہیں دیکھ رہے؟ ہم ایک ایسا بونا لائے ہیں جو آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔“ وہ چلّائے۔
چھوٹے آدمی کو دیکھ کر محل کے نگراں نے اپنی ہنسی کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ کیوں کہ اسے ڈر تھا کہ ہنسنے سے اس کی مرتبے کو نقصان پہنچے گا۔ لہٰذا اس نے نوکروں کی بھیڑ کو کوڑا گھما گھما کر منتشر کردیا اور چھوٹے آدمی کو محل میں لے گیا اور پوچھا کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ جب اس نے سنا کہ وہ صدر باورچی کی تلاش میں ہے تو اس نے اعتراض کیا:
”بیٹے!تم غلطی کر رہے ہو، تم کو میری ضرورت ہے۔ محل کے نگراں کی۔ تم شاید محل کا مسخرہ بننا چاہتے ہو؟“
”نہیں جناب، میں ایک ہنر مند باورچی ہوں۔ ہر قسم کے نادر پکوان بنانے میں مہارت رکھتا ہوں، مجھے صدر باورچی کے پاس لے چلیں۔ میں ان سے ملنے کا متمنی ہوں، شاید میرا فن ان کے لئے کارآمد ہو۔“
”تم ایک چھوٹے اور مضحکہ خیز آدمی ہو۔ اگر تم محل کے مسخرے بن جاؤ تو تم کو کام نہیں کرنا پڑے گا۔ تم اپنی مرضی کا کھاؤ پیو گے اور شاندار لباس پہنو گے۔ خیر اگر تم بضد ہو تو میں تمھیں صدر باورچی کے پاس لے چلتا ہوں۔“
ان الفاظ کے ساتھ، محل کا نگراں اس کا ہاتھ پکڑ کر باورچی خانے کے نگران باورچی کے گھر میں لے گیا۔
”میرے آقا! کیا آپ کو ہنر مند باورچی کی ضرورت ہے؟“ بونے نے کہا اور اتنا نیچے جھکا کہ اس نے اپنی ناک سے فرش کو چھو لیا۔
نگران باورچی نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور زور سے ہنس پڑا:
”کیا تم باورچی ہو؟“ اس نے حیرت سے پوچھا۔
”جی حضور۔“
”تمہارا کیا خیال ہے،کیا ہمارا چولہا اتنا نیچے ہوگا کہ تم دیگچی میں جھانک سکوں؟ یا تم اپنی گردن کو اتنا کھینچ سکتے ہو؟ اوہ چھوٹے آدمی! جس نے بھی تم کو بطور باورچی یہاں بھیجا ہے۔ وہ تم پر ہنس رہا ہوگا۔“ صدر باورچی نے کہا اور زور سے ہنس پڑا۔ اس کے ساتھ محل کا نگران اور کمرے میں موجود تمام نوکر بھی ہنسنے لگے۔
لیکن بونا بالکل شرمندہ نہیں ہوا۔
اس نے کہا۔”آپ مجھے حکم دیں کہ کوئی ایسی مزیدار ڈش تیار کروں جس کے بارے میں صرف آپ ہی جانتے ہوں اور مجھے مطلوبہ اجزاء فراہم کریں۔ میں اسے آپ کی آنکھوں کے سامنے بناؤں گا، پھر آپ فیصلہ کریں گے کہ میں اچھا باورچی ہوں یا نہیں۔“
اس نے اپنی خود اعتمادی، چمکتی آنکھوں، لمبی جھومتی ناک اور مکڑی کی ٹانگوں کی طرح پتلی انگلیوں کی حرکات سے صدر باورچی کو ایک عجیب و غریب تاثر دیا۔
”ٹھیک ہے جیسا تم کہتے ہو ویسا ہی کرتے ہیں۔“ حیرت زدہ نگران باورچی بولا۔“
وہ ہالوں اور گیلریوں سے ہوتے ہوئے آخر کار باورچی خانے میں پہنچ گئے۔ وہ ایک بہت بڑا اور عالیشان باورچی خانہ تھا، جہاں بیس چولہے جل رہے تھے۔ درمیان میں ایک شفاف ندی تھی، جو مچھلیوں کے تالاب کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھی۔ سنگ مرمر اور نایاب قسم کی لکڑی سے بنی الماریاں تھیں جن میں اعلیٰ برتنوں اور مشرقی اور مغربی کھانوں میں ڈالنے والا سامان موجود تھا۔ دائیں اور بائیں جانب بڑے بڑے ہال تھے جہاں میز کرسیاں لگی تھیں۔ وہاں مہمانوں کی ضیافت کی جاتی تھی۔ باورچی اپنے اپنے کام میں لگے تھے۔ دیگچیوں، پلیٹوں، چمچوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ لیکن جب نگران باورچی، باورچی خانے میں آیا تو ہر کوئی اپنی جگہ پر جم گیا، اب صرف آگ سلگنے اور بھاپ نکلنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
”آج ہمارے آقا نے ناشتے کا کیا آرڈر دیا؟“ نگران نے پرانے باورچی سے پوچھا، جو ناشتہ بنانے میں بہت ماہر تھا۔
”نواب صاحب نے ڈینش یخنی اور کچے گوشت کے سرخ گولوں کا حکم دیا ہے۔“
”ٹھیک ہے۔“ صدر باورچی نے بات جاری رکھی۔”کیا آپ نے کچھ سنا ہے کہ ہمارے آقا کیا کھانا چاہتے ہیں؟ کیا آپ یہ پیچیدہ پکوان بنانے کی ہمت کرسکتے ہیں؟ آپ گوشت کے گولوں کو نہیں سنبھال سکتے۔ ان کو بنانا ہمارا راز ہے۔“
”آسان تو کچھ بھی نہیں، لیکن میں اسے کئی بار بنا چکا ہوں۔“ بونے نے جواب دیا (جب وہ گلہری تھا، اس نے یہ پکوان کئی بار پکایا تھا)
”مجھے یخنی کے لیے جنگلی ہنس کی چربی، شلجم اور انڈے چاہئیں اور گوشت کے گولوں کے لیے۔۔۔۔“ اس نے آواز دھیمی کی تاکہ نگران باورچی اور ناشتے کے لیے مقرر کیا گیا باورچی ہی اسے سن سکیں۔”چار مختلف قسم کے گوشت، تھوڑی سی شراب، بہت چربی، ادرک اور ایک خاص جڑی بوٹی کی ضرورت ہے۔ جسے ناز بُو (مارجورام) یعنی’پیٹ کی خوشی‘ کہتے ہیں۔“
”اوہ خدا! کیا آپ نے کسی جادوگر سے تعلیم حاصل کی ہے؟“ صدر باورچی حیرت سے بولا۔ ”آپ نے ہر چیز کا نام ٹھیک لیا ہے، لیکن ناز بُو جسے آپ نے ’پیٹ کی خوشی‘ کہا ہے، یہ ہم نے پہلے نہیں سنا تھا۔ یہ کھانوں کو خاص طور پر خوشگوار ذائقہ دیتا ہے۔ اوہ آپ ایک حیرت انگیز باورچی ہیں!“نگران باورچی بولا۔
ناشتہ تیار کرنے والے باورچی نے کہا۔”مجھے اس کی توقع نہیں تھی۔ آؤ کام شروع کرتے ہیں۔ انھیں ضرورت کی ہر چیز اور برتن مہیا کیے جائیں۔“
جیسا اس نے حکم دیا۔ نوکروں نے ویسا ہی کیا اور جو کچھ اس نے طلب کیا،لاکر دیا۔ لیکن پھر پتہ چلا کہ بونا مشکل سے اپنی ناک، چولہے تک پہنچا پارہا ہے۔ لہٰذا، انھوں نے دو کرسیاں منگوائیں، ان پر سنگ مرمر کا ٹکڑا رکھا اور اس کو اپنے فن کو ظاہر کرنے کے لئے مدعو کیا۔ صدر باورچی، باورچی اور دوسرے نوکروں نے اسے گھیرے میں لے لیا۔ جیکب نے ایک ایک کرکے سب چیزوں کو برتن میں ڈالا۔ اس نے ہر چیز کے تناسب کا خیال رکھا تھا۔ پھر اس برتن کو چولہے پر چڑھایا اور بولا۔”جب تک میں نہ کہوں، اسے ابالتے رہیں۔ پھر اس نے گنتی شروع کی۔”ایک، دو، تین……“ اور اسی طرح پانچ سو تک گنتا چلاگیا۔ پھر چیخا۔”بس! برتنوں کو آگ سے ہٹادو۔“
پھر بونے نے نگران باورچی سے پکوان کو چکھنے کی درخواست کی۔ نگران نے سونے کا چمچہ لیا اور پُرجوش اندر میں برتن تک گیا اور چمچے سے سوپ نکال کر چکھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے زور سے چٹخا را لیا اور بولا۔”واہ، بہت خوب! میں نواب کی زندگی کی قسم کھاتا ہوں۔ میں نے اتنا مزیدار سوپ کبھی نہیں پیا۔ میرے پیارے! آپ ایک ہنر مندباورچی ہیں۔“
اب ناشتے کے باورچی نے بھی چکھا اور بونے سے احترام سے ہاتھ ملایا۔ پھر کہا۔”ہاں چھوٹے آدمی، آپ اپنے ہنر کے استاد ہیں اور جڑی بوٹی ’پیٹ کی خوشی‘ سمیت ہر چیز کو بہت اچھی طرح استعمال کرنا جانتے ہیں۔“
کچھ دیر بعد نواب کے سامنے ناشتہ پیش کیا گیا۔
نواب صاحب نے ہر وہ چیز رغبت سے کھائی جو انھیں پیش کی گئی تھی۔ پھر انھوں نے اپنی مونچھیں صاف کیں اور کہا:”سنو! میں آپ کے کھانا پکانے اور آپ کے ماتحت افراد کے کام سے مطمئن رہا ہوں، لیکن مجھے بتا ئیں، آج صبح میرا ناشتہ کس نے تیار کیا ہے؟ کیوں کہ جب سے میں اپنے باپ دادا کے تخت پر بیٹھا ہوں، میں نے پہلے کبھی اتنا لذیز ناشتہ نہیں کیا۔ میں باورچی کا نام جاننا چاہتا ہوں، تاکہ میں اس کو کچھ ڈکٹس (ماضی کا مغربی طلائی سکّہ) انعام میں دے سکوں۔“
”میرے مالک! یہ ایک حیرت انگیز کہانی ہے۔“ صدر باورچی نے جواب دیا اور بتایا کہ آج صبح ایک بونے کو کس طرح اس کے پاس لایا گیا جو ہر قیمت پر کھانا پکانا چاہتا تھا اور اس کے بعد ہونے والی ہر بات بتائی۔
نواب بہت حیران ہوا۔ اس نے بونے کو طلب کیا اور اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ بے چا رہ جیکب یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ جادوگرنی کی قید میں تھا اور گلہری کی طرح کام کرتا تھا، لیکن اس نے جھوٹ بھی نہیں بولا،بس یہ بتایا کہ وہ ماں باپ سے بچھڑ گیا ہے اور ایک بوڑھی عورت نے اسے کھانا پکانا سکھایا ہے۔ نواب نے اس سے زیادہ پوچھ گچھ نہیں کی۔
اس نے کہا۔ ”اگر آپ یہاں ملازمت کرنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو سال میں پچاس ڈکٹس (ماضی کا مغربی طلائی سکہ) اور دو جوڑے خوبصورت لباس فاخرہ دینے کا حکم دوں گا۔ آپ کے فرائض یہ ہوں گے کہ آپ صبح کے وقت ناشتہ بنائیں گے اور رات کے کھانے کی تیاری کا حکم دیں گے اور نگرانی کریں گے۔ چونکہ میں ہمیشہ اپنے نوکروں کا نام خود رکھنا پسند کرتا ہوں، لہٰذا میں آپ کو’بونے ناک‘ کا نام دوں گا اور آپ کی حیثیت نائب صدر باورچی کی ہوگی۔“
بونے ناک نے گھٹنوں پر جھک کر عاجزی سے نواب کا شکریہ ادا کیا اور وفاداری سے خدمت کرنے کا عہد کیا۔
باب:۶
چنانچہ پہلی بار جیکب کو عزت کی زندگی میسر آئی اور وہ سکون کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے لگا اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بونے ناک کے محل میں آباد ہونے کے بعد نواب ایک بالکل مختلف شخص بن گیا تھا۔ اس سے پہلے وہ اکثر اچھا بننے کا ارادہ کرتا تھا، مگر جب اسے اپنی پسند کا کھانا نہ ملتا تو وہ پیالوں اور برتنوں کو جو اس کی خدمت میں پیش کیے جاتے تھے۔ باورچیوں کے سروں پر توڑتا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے ایک بار بچھڑے کی ران غصے میں صدر باورچی کی پیشانی پر بھی دے ماری تھی۔ جس کی ضرب سے وہ گرا اور تین دن بستر پر پڑا رہا۔ تمام باورچی اسے کھانا پیش کرتے ہوئے خوف اور اندیشے کا شکار رہتے تھے۔ جوں ہی بونا اپنے گھر میں آباد ہوا۔ جیسے جادو سے سب کچھ بدل گیا۔ نواب اپنے چھوٹے باورچی کے فن سے لطف اٹھانے کے لیے دن میں تین کے بجائے پانچ بار کھانا کھانے لگا اور اس کے چہرے پر کبھی ناخوشگوار کیفیت نمودار نہیں ہوتی تھی۔ اس کے برعکس ہر چیز اسے نئی اور ذائقہ میں مختلف معلوم ہوتی تھی۔ وہ روز بروز خوش اخلاق اور دوسروں سے پیار کرنے والا انسان بنتا جارہا تھا اور وہ موٹا بھی ہورہا تھا۔
اکثر رات کے کھانے کے دوران نواب، چیف کک اور بونے ناک کو اپنے پاس بلا لیتا اور ایک کو اپنے دائیں طرف اور دوسرے کو بائیں طرف بٹھاتا اور اپنی انگلیوں سے ان کے منہ میں مزیدار لقمے ڈالتا۔ یہ ان کے لیے بہت اعزاز کی بات تھی۔
سارا شہر بونے کی اس کامیابی پر حیران تھا۔ انہوں نے نگران باورچی سے پوچھا کہ بونا کس طرح کھانا بناتا ہے؟ جب پتا چلا تو انھوں نے نواب سے اجازت لی اور اپنے نوکروں کو بونے سے کھانا پکانے کے نت نئے طریقے سیکھنے کے لئے بھیجنے لگے۔ جس سے اس کو کافی آمدنی ہونے لگی، کیونکہ ہر رئیس دن میں آدھا ڈکٹ ادا کرتا تھا۔ لیکن بونے ناک یہ رقم دوسرے تمام باورچیوں میں بانٹ دیا کرتا تھا، کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس سے حسد کریں۔
چنانچہ دو سال تک بونے ناک اطمینان اور عزت سے زندگی گزارتا رہا۔ بس صرف اس کے والدین کی یاد اسے غمزدہ کر دیتی تھی۔ وہ اس وقت تک آرام سے رہتا رہا جب تک کہ اگلی آزمائش نہیں آئی۔ بونے ناک پکوانوں میں ڈالنے کے لیے ہمیشہ عمدہ چیزیں خرید کر لاتا تھا۔ وہ اکثر گوشت اور سبزیوں کے لئے بازار جاتا۔ ایک صبح وہ چربی کے لیے ہنس خریدنے بازار گیا۔ اس نے پورے بازار میں اچھی طرح گھوم پھر کر دیکھا۔ وہ اپنے مالک کے لیے اچھی طرح کھلایا ہوا صحت مند ہنس تلاش کررہا تھا۔ جو اس کو بہترین ذائقہ دیتا۔ بازار میں آج اس کی ظاہری شکل کا کسی نے مذاق نہیں اڑایا تھا۔ اس کے برعکس سب اس سے عزت اور احترام سے پیش آرہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ نواب کا مشہور نائب باورچی ہے، وہ جب بھی کسی ہنس کے تاجر کی طرف متوجہ ہوتا تو وہ خوش ہوجاتا تھا۔
اچانک اس نے دکانوں کے بالکل آخر میں ایک ایسی عورت کو دیکھا جو ہنس بھی فروخت کررہی تھی، لیکن اس نے دوسروں کی طرح نہ اپنا سامان باہر نکالا تھا اور نہ ہی وہ گاہکوں کو آوازیں لگا رہی تھی۔ وہ عورت کے پاس گیا اور ہنسوں کا جائزہ لینے لگا۔ جلد ہی اس نے اپنے مطلب کے تین ہنس خرید لیے۔ انھیں اپنے کاندھے پر رکھا اور واپس چل دیا۔
اچانک اسے خیال آیا، جب اس نے دو ہنسوں کو پکڑا تھا تو وہ چلائے تھے اور خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگے تھے، لیکن تیسرا خاموش اور اداس بیٹھا رہا۔ بس اس نے انسانوں کی طرح گہری سسکی لی تھی۔ یہ ہنس شاید بیمار ہے، مجھے پہلے اسے بھوننا چاہیے۔ اس نے سوچا۔ لیکن ہنس اچانک واضح اور بلند آواز میں بولا:
”میرے ساتھ اچھا سلوک کرو،
میں تمہارا دوست بن جاؤں گا،
مجھ سے بد سلوکی کروں گے تو،
تمہاری زندگی ختم ہوجائے گی!“
بونے ناک نے خوف زدہ ہوکر پنجرا نیچے رکھ دیا۔ ہنس اس کی طرف سمجھدار نظروں سے دیکھ رہا تھا اور آہیں بھر رہا تھا۔
”ہنس بات کر سکتا ہے؟ یہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا، لیکن فکر نہ کرو۔ مجھے زندگی کا کافی علم ہے۔ میں اس طرح کے نادر پرندے کو نہیں ماروں گا، لیکن میں شرط لگاتا ہوں کہ آپ ہمیشہ سے یہ پنکھ نہیں رکھتے ہوں گے۔ ایک زمانے میں، میں بھی ایک قابل رحم گلہری تھا۔“ بونے ناک نے کہا۔
”آپ کی بات ٹھیک ہے۔ میں اس شکل میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ میں عظیم جادوگر ’ویٹررباک‘ کی بیٹی ہوں، مجھے سب مِیمی کہتے تھے، میری پیدائش پر پیش گوئی کی گئی تھی کہ میری زندگی کا خاتمہ نواب کے باورچی خانے میں ہوگا۔“ ہنس بولا۔
بونے ناک نے اسے تسلی دی۔”پیاری مِیمی! اتنی پریشان نہ ہو۔ مجھ پر یقین کرو، میں ایک دیانت دار آدمی ہوں۔ جب تک میں اس محل میں نائب باورچی ہوں، کوئی بھی آپ کی گردن توڑنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ میں آپ کواپنے پاس رکھوں گا۔ آپ کو اچھا کھانا کھلاؤں گا اور اپنا فارغ وقت آپ کے ساتھ بات کرنے میں صرف کروں گا اور پھر جیسے ہی موقع ملے گا میں آپ کو آزاد کردوں گا۔“
ہنس نے نم آنکھوں کے ساتھ اس کا شکریہ ادا کیا۔ بونے نے اپنے وعدے کے مطابق کام کیا۔ اس نے دو ہنس ذبح کیے اور تیسرے کو اس بہانے سے ایک علیحدہ پنجرے میں بند کردیا کہ وہ اسے ڈیوک کے لئے ایک خاص انداز میں کھلا پلا رہا ہے۔ اس نے اسے حسب معمول ہنس کا کھانا نہیں دیا، بلکہ اسے بسکٹ اور مٹھائی کھلائی۔ پھر جیسے ہی اس کے پاس فرصت ہوئی وہ اس کے پاس آبیٹھا اور باتیں کرنے لگا۔ انہوں نے ایک دوسرے کو اپنی اپنی مہم جوئی کی داستان سنائی۔
ہنس نے بتایا کہ وہ جزیرہ گوٹ لینڈ پر رہنے والے جادوگر ویٹررباک کی بیٹی ہے۔ اس کا ایک بوڑھی جادوگرنی سے جھگڑا ہوگیا تھا۔ جو بہت چالاک اور اپنی سازشوں میں اس سے برتر تھی۔ اس نے بدلہ لینے کے لیے اس کی بیٹی کو ہنس میں بدل دیا اور اسے یہاں لے آئی۔
پھر بونے ناک نے اسے اپنی کہانی سنائی تو اس نے کہا:
”میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ایسی چیزوں کا زیادہ علم رکھتا ہوں۔ لیکن آپ کی کہانی سن کر مجھے اندازہ ہورہا ہے کہ بوڑھی عورت سے جھگڑے اور اس کے الفاظ۔ جڑی بوٹیوں کی ٹوکری میں گھاس کا سونگھنا اور آپ کی اچانک تبدیلی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ پر جڑی بوٹیوں کے ذریعے جادو کیا گیا ہے، لہٰذا اگر آپ کو وہ جادوئی گھاس دوبارہ مل جائے تو یہ جادو آپ سے دور ہوجائے گا۔“
بونے ناک کے لیے یہ ایک بڑی تسلی بخش بات تھی۔مگر پھر اس نے سوچا، اسے وہ جڑی بوٹی کہاں سے مل سکتی ہے؟ پھر بھی اس نے اس کا شکریہ ادا کیا کہ اس کے الفاظ سے کچھ امید بندھی تھی۔
اسی دوران ہمسایہ ملک کا شہزادہ وہاں آیا۔ وہ نواب کا گہرا دوست تھا۔ نواب نے بونے ناک کو طلب کیا اور کہا۔”اب یہ ثابت کرنے کا وقت آگیا ہے کہ آپ اپنے ہنر کے استاد ہیں اور میری وفاداری کے ساتھ خدمت کرتے ہیں۔ شہزادہ، میرا مہمان، مجھ سے بہتر کھانوں کے ماہر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ عمدہ کھانوں کا بڑا رسیا ہے اور ایک ہوشیار حکمران ہے۔ آپ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر روز میری میز ایسے برتنوں سے بھردی جائے جو ہر بار اسے حیرت زدہ کردیں۔ میں آپ کو اجازت دیتا ہوں کہ آپ جو چاہیں میرے خزانچی سے لے سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ سونے اور ہیروں کو بھی لے لیں، اگر آپ کو انھیں چربی میں بھوننے کی ضرورت ہو۔ میں اس کے سامنے شرمندہ ہونے کی بجائے غریب ہونا پسند کروں گا۔“
بونے نے شائستگی سے جھکتے ہوئے کہا۔ ”حضور! خدا جانتا ہے، میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ ہر بار نئی اور منفرد چیز شہزادے کی خدمت میں پیش کروں۔“
ننھے باورچی نے اپنا سارا فن ان دعوتوں میں جھونک دیا۔ اس نے نہ اپنے آقا کے خزانوں کو بخشا، نہ خود کو۔ سارا دن کچن میں سے جلتے چولہوں کے گرد، دھوؤں کے مرغولوں میں گھرا، مرچ مسالوں کو کوٹتے اور پیستے ہوئے اس کی مسلسل آوازیں باورچی خانے کی محرابوں کے نیچے سنائی دیتی تھیں۔ کیوں کہ وہ ایک سچے حکمران کی طرح اپنے نیچے والے باورچیوں کا نگران تھا اور ہر دم انھیں ہدایتیں دیتا رہتا تھا۔
باب:۷
غیر ملکی شہزادہ دو ہفتوں تک نواب کے ساتھ رہا اور عیش و عشرت کے دن گزارے۔ وہ دن میں کم از کم پانچ بار کھانا کھاتے تھے۔ نواب، بونے کے فن سے خوش تھا، کیوں کہ وہ دیکھ رہا تھا کہ مہمان اس کے ہر کھانے کو پسند کر رہا ہے، لیکن پندرھویں دن نواب نے بونے کو کھانے کی میز پر بلایا اور اپنے مہمان سے ملوایا اور پوچھا کہ کیا وہ بونے سے خوش ہے؟
”آپ ایک حیرت انگیز باورچی ہیں اور آپ یہ جانتے ہیں کہ اچھے طریقے سے کھانے پکانے کا کیا مطلب ہے۔ میں اتنے دن یہاں رہا ہوں، لیکن آپ نے کبھی بھی ایک ڈش دو بار پیش نہیں کی، لیکن۔۔۔۔ مجھے بتائیں کہ آپ نے ایک بار بھی کھانوں کا بادشاہ پکوان ’سوزرین پیٹسی‘ ہماری خدمت میں پیش کیوں نہیں کیا؟“
بونا خوفزدہ ہوگیا۔ کیوں کہ اس نے پہلی بار اس ڈش کا نام سنا تھا، لیکن اس نے خود کو سنبھالا اور کہا۔ ”میرے آقا! مجھے امید تھی کہ آپ طویل عرصے تک ہمارے دارالحکومت میں رونق افروز رہیں گے، لہٰذا مجھے کوئی جلدی نہیں تھی۔ جیسے ہی صدر باورچی آپ کے قیام کے آخری دن کی نشاندہی کرتا میں سوزرین پیٹسی آپ کی خدمت میں پیش کرتا۔“
نواب نے ہنستے ہوئے کہا۔ ”ٹھیک ہے، ہم کل اسے کھانا پسند کریں گے۔“
”میرے آقا! جیسا آپ نے کہا ہے اس کے مطابق ہوگا۔“ بونے نے جواب دیا اور واپس چلا گیا۔
وہ بہت پریشان تھا اور جانتا تھا کہ بدبختی کے دن آگئے ہیں۔ کیوں کہ اسے پیٹسی بنانے کا طریقہ نہیں آتا تھا۔ وہ گھر جاکر اپنی قسمت پر رونے لگا۔ تب ہنس جسے اس نے اپنے کمرے میں گھومنے کی اجازت دے دی تھی، اس کے پاس آیا اور پوچھا کہ وہ کس چیز کے بارے میں رنجیدہ ہے۔
جب اس نے سوزرین پیٹسی کے بارے میں سنا تو بولا۔”اپنے آنسوؤں کو پونچھ لو۔ میرے والد اکثر یہ ڈش بناتے تھے اور میں تقریباً جانتا ہوں کہ اس کے لیے کیا کیا چیزیں ضروری ہیں۔“
بونا خوشی سے اچھل پڑا۔ اس نے میمی کا شکریہ ادا کیا اور اس دن کو یاد کرنے لگا جس دن اس نے ہنس خریدا تھا۔ پھر اس نے سوزرین پیٹسی بنانے کا کام شروع کیا۔
پہلے اس نے اسے آزمائش کے لئے بنایا اور صدرباورچی کو ذائقہ چکھنے کو کہا۔ وہ پھر بونے ناک کے بے مثال فن کی تعریف کرنے لگا۔
اگلے دن اس نے پیٹسی کو ایک بہترین شکل میں سینکا، پھولوں کی ہاروں سے سجایا اور گرما گرم سیدھا چولہے سے کھانے کی میز پر بھیج دیا۔ پھر اس نے اپنے بہترین کپڑے پہنے اور کھانے کے کمرے میں چلا آیا۔ جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا، بٹلر نے پیٹسی کو ٹکڑوں میں کاٹ دیا اور نواب اور اس کے مہمان کو چاندی کی پلیٹوں میں پیش کیا۔ نواب نے خوشی کے ساتھ ایک بڑا ٹکڑا اٹھا کر منہ میں رکھا، چھت کی طرف اپنی آنکھیں اٹھائیں اور چباتے ہوئے بولا۔ ”واہ، واہ، واقعی، اس پیٹسی کو صحیح طور پر کھانوں کا بادشاہ کہا جاسکتا ہے۔ جیسے میرا بونے ناک باورچیوں کا بادشاہ ہے۔ عزیز دوست! آپ کا کیا خیال ہے؟“
مہمان نے ایک ٹکڑا اٹھا کر احتیاط سے چکھا، پھر اسے چباتے ہوئے طنزیہ انداز میں مسکرایا اور پلیٹ کو ایک طرف کرتے ہوئے بولا۔ ”کھانا بہت مہارت سے تیار کیا گیا ہے، لیکن یہ وہ سوزرین پیٹسی نہیں ہے، جیسی میں چاہتا تھا۔“
نواب کے ماتھے پرغصے سے بل پڑگئے اور وہ لال پیلا ہوتے ہوئے چلایا۔ ”بد بخت! کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے خراب کھانا پکانے کی سزا کے طور پر تمہارا سر کٹوا دوں؟“
”میرے آقا! میں نے یہ پکوان کھانا پکانے کے اعلیٰ اصولوں کے مطابق تیار کیا ہے، یہ ناممکن ہے کہ اس میں سے کوئی چیز غائب ہو۔“ بونے نے کانپتے ہوئے کہا۔
”تم جھوٹ بول رہے ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو مہمان یہ نہیں کہتے کہ کوئی چیز کم ہے۔“ نواب نے کہا اور اسے لات مار کر گرادیا۔
”رحم کریں!“ بونا چلایا اور گھٹنوں کے بل رینگتے ہوئے مہمان کے پاس آیا اور اس کی ٹانگیں پکڑ لیں۔ پھر بولا۔ ”مجھے بتائیں اس پکوان میں کیا کمی ہے اور یہ آپ کو ذائقے میں کیوں اچھا نہیں لگا؟ مجھے ایک مٹھی بھر آٹے اور گوشت پر مرنے نہ دیں!“
شہزادے نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ ”بونے ناک! میں نے پہلے ہی جان لیا تھا کہ تم اس پکوان کو اس طرح نہیں پکا سکتے جس طرح میرا باورچی پکاتا ہے۔ دراصل اس میں ایک مخصوص جڑی بوٹی کی کمی ہے، جس کا نام ’وکوسوچیخا‘ ہے۔ اس کے بغیر پیٹسی میں کوئی مزیداری نہیں ہوتی اور تمہارا آقا اسے جس طرح میں کھاتا ہوں کبھی نہیں کھاسکے گا۔“
نواب غصے سے آنکھیں نکالتے ہوئے چلایا۔ ”میں بھی اسے اصل ذائقے کے ساتھ کھاؤں گا، کیونکہ کل میں آپ کو یا تو آپ کی پسند کا پکوان پیش کروں گا یا اس بدنصیب کے سر کو جو میرے محل کے گیٹ پر لٹکا ہوگا۔ چلے جاؤ بدبخت! ایک بار پھر میں تمہیں ایک دن کی مہلت دیتا ہوں!“
بونا روتا ہوا اپنے گھر میں آیا اور ہنس کو اپنی بد بختی کا احوال سنایا اور کہا کہ وہ اب موت سے نہیں بچ سکتا۔ کیوں کہ اس نے اس گھاس کے بارے میں کبھی نہیں سنا۔
ہنس نے سوچتے ہوئے کہا، ”مجھے یاد آرہا ہے۔ میں نے اس بوٹی کے بارے میں سن رکھا ہے۔ میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں۔ میرے والد نے مجھے تمام جڑی بوٹیوں کی پہچان سکھائی تھی۔ کسی اور موقع پر آپ شاید موت سے نہیں بچ پاتے، لیکن خوش قسمتی سے آج کی رات نیا چاند نکلے گا۔ سنا ہے اس وقت یہ گھاس اگتی ہے۔ مجھے ایک بات بتائیں۔ کیا محل کے قریب پرانے شاہ بلوط کے درخت ہیں؟“
”ہاں، جھیل کے قریب ان کا ایک پورا جھنڈ موجود ہے۔ جو ہمارے گھر سے دو سو قدم کے فاصلے پر ہے، لیکن ان درختوں کی ضرورت کیوں ہے؟“
”صرف پرانے شاہ بلوط کی جڑوں میں یہ گھاس پھلتی پھولتی ہے، لہٰذا وقت کو ضائع نہ کریں۔ چل کر اسے تلاش کریں۔“ ہنس نے کہا۔
اس نے جیسا کہا تھا بونے نے ویسا ہی کیا۔ وہ ہنس کو بغل میں دباکر محل کے گیٹ تک گیا، لیکن وہاں دربان نے اس کا راستہ روک لیا اور کہا۔ ”میرے پیارے بونے ناک! آپ کے سنہری دن گزر گئے ہیں۔ آپ کو محل سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس سلسلے میں مجھے سخت ہدایات دی گئی ہیں۔“
”لیکن کیا میں باغ میں بھی نہیں جاسکتا؟“ بونے نے پوچھا۔ ”مہربانی فرما کر اپنے ایک ساتھی کو محل کے نگران کے پاس بھیجیں اور اس سے پوچھیں کہ میں باغ میں جڑی بوٹیاں ڈھونڈنے جاسکتا ہوں؟“
دربان نے ایسا ہی کیا اور اجازت مل گئی، کیونکہ باغ ایک اونچی چار دیواری سے گھرا ہوا تھا، اور وہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ جب دونوں وہاں پہنچے تو بونے نے ہنس کو احتیاط سے نیچے زمین پر اتار دیا، ہنس جلدی سے اس جھیل کی طرف بڑھا۔ جہاں شاہ بلوط کے درخت تھے۔ بونے ناک اس کے پیچھے تھا۔ اس کا دل دکھی تھا، یہ اس کی واحد اور آخری امید تھی۔ اس نے پختہ فیصلہ کیا۔ اگر ہنس کو صحیح گھاس نہیں ملی تو اس کے لئے بہتر ہوگا کہ وہ جھیل میں کود کر مرجائے، لیکن ہنس بڑی تندہی سے ایک درخت سے دوسرے درخت تک گھوم رہا تھا، اپنی چونچ سے گھاس کو تیزی سے کرید رہا تھا، لیکن کچھ بھی نہیں ملا۔ وہ غم اور خوف سے رونے لگا، کیونکہ اندھیرا ہونے لگا تھا اور چیزوں میں تمیز کرنا مشکل ہوتا جارہا تھا۔
تب بونے کی نگاہ جھیل کے دوسری طرف گئی اور وہ چلا اٹھا۔”دیکھو، دیکھو! وہاں جھیل کے دوسری طرف بہت پرانا شاہ بلوط کا درخت بھی ہے۔ چلو وہاں جاکر دیکھتے ہیں، شاید میری خوشی وہاں کھل رہی ہو۔“
ہنس نے پر پھڑپھڑائے اور ادھر اڑ گیا، بونا بھی اپنی چھوٹی ٹانگوں سے پوری رفتار سے اس کے پیچھے پیچھے دوڑتا آرہا تھا۔ شاہ بلوط کے درخت کے نیچے اندھیرا تھا، بظاہر کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا، لیکن اچانک ہنس رک گیا، اس نے خوشی سے اپنے پروں کو پھڑپھڑایا، پھر جلدی سے اپنی لمبی گردن گھاس میں گھسیڑ دی، جب اس نے گردن باہر نکالی تو اس کی چونچ میں کچھ گھاس دبی تھی۔ وہ بولا۔ ”یہ وہی جڑی بوٹی ہے جس کی ہمیں تلاش تھی۔“
بونے نے غور سے گھاس کو دیکھا۔ اس میں سے تیز مسالہ دار خوشبو آ رہی تھی، اسے غیر ارادی طور پر اپنی تبدیلی کا منظر یاد آگیا۔ اس بوٹی کے پتے سبزی مائل نیلے تھے اور پھول زرد رنگ کے جن کے کنارے آتشیں سرخ تھے۔
”خدا کا شکر ہے! ہم کامیاب ہوئے اور سنو! یہ کیا معجزہ ہے! میرا خیال ہے کہ یہ۔۔۔ یہ وہی جڑی بوٹی ہے جس نے مجھے گلہری سے ایک بدصورت شیطان میں تبدیل کردیا تھا۔ کیا مجھے اپنی قسمت آزمانی نہیں چاہیے؟“
”رکو……!“ ہنس نے التجا کی۔ ”اس بوٹی کا ایک مٹھی بھر اپنے ساتھ لے لو، ہم محل میں چلتے ہیں۔آپ رقم اور قیمتی چیزیں اکھٹی کرلیں۔ پھر ہم اس بوٹی کی طاقت کا تجربہ کریں گے۔“
انھوں نے ایسا ہی کیا اور واپس گھر میں چلے آئے۔ بونے ناک کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے اپنے جمع کیے ہوئے پچاس یا ساٹھ ڈوکیٹس، قیمتی چیزیں، کپڑے اور جوتے ایک پوٹلی میں باندھ لیے۔
”اگر خدا نے چاہا تو اب میں اس بوجھ سے نجات پاؤں گا۔“ اس نے کہا اور جڑی بوٹی کو ناک کے نیچے رکھ کر گہری سانس لی۔ اچانک اس نے اپنے تمام جوڑوں کو کھنچتے اور پھیلتے ہوئے محسوس کیا، اس کا سر کاندھوں سے اٹھ گیا تھا۔ ناک آہستہ آہستہ چھوٹی ہوتی جارہی تھی۔ پھر اس نے اپنی پیٹھ اور سینے کو سیدھا ہوتا محسوس کیا، آخر اس کی ٹانگیں سیدھی ہوکر لمبی ہو گئیں اور وہ ایک خوبصورت نوجوان میں بدل گیا۔
ہنس نے حیرت سے اسے دیکھا اور بولا۔”واہ۔۔۔ آپ بہت اچھے اور خوبصورت ہیں۔ خدا کا شکر ہے اس بات کا کوئی سراغ نہیں ملتا ہے کہ آپ پہلے کیسے تھے۔“
اس پر جیکب بہت خوش ہوا۔ اس نے اللہ کا شکر ادا کیا، لیکن اپنی ساری خوشی میں وہ یہ نہیں بھولا تھا کہ ہنس نے اس پر کیسا احسان کیا ہے۔ اگرچہ اس کا دل اپنے والدین سے ملنے کے لیے بے چین تھا، لیکن اس نے اپنی خواہش پر قابو پایا اور کہا۔ ”میمی!میں آپ کا مقروض ہوں؟ آپ کے بغیر مجھے یہ گھاس کبھی نہ ملتی اور میں ہمیشہ اسی شکل میں رہتا۔ میں آپ کو آپ کے والد کے پاس لے جاؤں گا۔ وہ ہر طرح کے جادو میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ آپ سے اس جادو کو آسانی سے دور کردیں گے۔“
ہنس میمی کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آگئے۔ اس نے جیکب کا شکریہ ادا کیا۔
جلد ہی جیکب اور ہنس محل سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور سمندر کے کنارے کنارے ہنس کے وطن کی طرف روانہ ہوگئے۔
اب میں کیا بتاؤں؟ کہ انہوں نے کیسی مشکلوں سے اپنا سفر طے کیا۔ وہ اس وطن میں پہنچے اور ہنس کے گھر گئے۔ جہاں عظیم جادوگر ویٹررباک نے اپنی بیٹی سے اس جادو کو ختم کردیا۔ وہ بہت خوش تھا۔ اس نے دل کھول کر جیکب کو تحائف دئیے۔ پھر وہ اپنے آبائی شہر واپس آیا اور اس کے والدین نے خوبصورت نوجوان کے روپ میں اپنے گمشدہ بیٹے کو آسانی سے پہچان لیا۔ اس نے ویٹررباک سے ملے تحائف کی مدد سے ایک دکان خریدی اور ہنسی خوشی رہنے لگا۔
میں صرف آپ کو بتاؤں گا کہ جیکب کے محل چھوڑنے کے بعد وہاں ایک خوفناک تنازع پیدا ہوگیا۔ جب اگلے دن نواب نے اپنی قسم کو پورا کرنے اور بونے کا سر اتارنے کی خواہش کی تو پتا چلا ضروری جڑی بوٹیاں نہ ملنے پر وہ غائب ہوگیا ہے۔ شہزادے نے الزام لگایا کہ نواب نے خفیہ طور پر اسے فرار ہونے میں مدد فراہم کی ہے تاکہ اپنے بہترین باورچی کو کھو نہ بیٹھے اور وہ اپنا وعدہ توڑ رہا ہے۔ یہاں سے دونوں حکمرانوں کے مابین زبردست جنگ ہوئی۔ جو تاریخ میں ”گھاس کی جنگ“ کے نام سے مشہور ہے،اور جو ایک سے زیادہ بار لڑی گئی، لیکن آخر کار انھوں نے امن کا راستہ اختیار کیا اور اس امن کو ”امن کا دروازہ“ کہا جاتا ہے۔ اس موقع پر ایک شاندار دعوت کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں شہزادے کے باورچی نے نواب کے لیے سوزرین پیٹسی بھی بنائی۔ تو یوں اس درد ناک قصے کا خوشگوار انجام ہوا۔
تو جناب اکثر چھوٹے واقعات ہی بڑے نتائج کا باعث بنتے ہیں۔ اوہ۔۔۔۔ بس یہ تھی بونے ناک کی کہانی۔