خط کی چوری
کہانی: The Purloined Letter
مصنف: Edgar Allan Poe
مترجم: محمد یونس حسرت
۔۔۔۔۔
ایک شام کی بات ہے، میں اپنے عزیز دوست اور فرانس کے مشہور سراغ رساں ”آگئے دوپن“ کے پاس بیٹھا تھا۔ہم اس پراسرار چوری کے بارے میں باتیں کر رہے تھے جو چند روز قبل(فرانس کے دارالحکومت) پیرس کے ایک بارونق بازار میں ہوئی تھی اور جس کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں مل سکا تھا۔
اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک شخص اندر آیا، جو اگرچہ ہمارا پرانا واقف کار تھا لیکن اس وقت اس کے وہاں آنے کی کوئی توقع نہ تھی۔ یہ شخص پیرس کی خفیہ پولیس کا سب سے بڑا افسر تھا۔ وہ ایک سرکاری کام سے آیا تھا۔
اس نے آتے ہی اپنا مسئلہ میرے دوست کے سامنے پیش کردیا۔یہ مسئلہ ایک خط کی چوری کا تھا، جس کی وجہ سے پیرس کی پولیس کو بے حد پریشانی اٹھانی پڑ رہی تھی۔ اس نے پہلے ادھر ادھر دیکھا اور پھر یہ اطمینان کرکے کہ کمرے میں ہمارے سوا کوئی اور موجود نہیں، کہنے لگا:
”شاہی محل سے ایک اہم خط چرایا گیا ہے۔ جس شخص نے خط چرایا ہے، اس کا ہمیں علم ہے۔خط کے مالک نے اس کو خط اٹھاتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ خط ابھی تک اس کے پاس موجو ہے۔“
”میں کچھ سمجھا نہیں۔“دوپن نے کہا۔
”بات یہ ہے میرے دوست۔“ پولیس افسر بولا۔”اس خط کا چور ایک وزیر ہے۔ خط شہزادی کا ہے۔وہ اپنے کمرے میں اس خط کو پڑھنے میں مصروف تھی کہ اس کی بڑی بہن آگئی۔ شہزادی نہیں چاہتی تھی کہ اس کی بہن کو خط کا علم ہو۔اس نے پہلے تو اسے میز کی دراز میں چھپانے کی کوشش کی، پھر اسے میز پر ہی ڈال دیا۔عین اسی وقت وہ وزیر صاحب تشریف لے آئے، انہوں نے خط دیکھا تو اس کی تحریر پہچان لی اور پھر شہزادی کے چہرے پر گھبراہٹ دیکھ کر سمجھ گئے کہ اس خط میں ضرور کوئی راز کی بات ہے۔
وزیر صاحب ایک سرکاری کام کے سلسلے میں وہاں آئے تھے۔انہوں نے شہزادی سے باتیں کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک خط نکالا اور اسے پڑھنے کے بعد شہزادی کے خط کے پاس ہی میز پر رکھ دیا۔ پھر اپنا کام ختم کرنے کے بعد انہوں نے دونوں خط اٹھا کر جیب میں ڈال لیے۔ شہزادی خاموش رہی۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس خط کا اس کی بڑی بہن کو علم ہو۔اب وزیر صاحب اس خط سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔شہزادی نے تھک ہار کر مجھ سے کہا کہ میں کسی طرح یہ خط واپس حاصل کروں۔“
”اور آپ کو اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔“دوپن نے کہا۔
”ظاہر ہے۔“پولیس افسر نے جواب دیا۔”ورنہ میں آپ کی خدمت میں کیوں حاضر ہوتا۔میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ یہ وزیر صاحب اکثر راتوں کو گھر سے باہر رہتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے لیے ان کے گھر کی تلاشی لینا بڑا آسان تھا۔ ہم نے ان کے مکان کا کونا کونا چھان مارا ہے۔بستر، میزیں، کرسیاں، دیواریں، کتابیں غرض ہر چیز کی تین ماہ تک چھان بین کی ہے لیکن نتیجہ سوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں نکلا۔“
”میرا خیال ہے وزیر صاحب یہ خط اپنے پاس نہیں رکھتے ہوں گے۔“میں نے کہا۔
”بالکل نہیں۔“ پولیس افسر بولا۔”ہم ڈاکو بن کر کئی بار ان کی تلاشی لے چکے ہیں۔آپ مجھے اس سلسلے میں کیا مشورہ دیتے ہیں، مسٹر دوپن؟“
”وزیر صاحب کے گھر کی دوبارہ تلاشی لیجیے۔“دوپن نے کہا۔”میں اس سے بہتر مشورہ نہیں دے سکتا۔ویسے آپ کو خط کے بارے میں تو معلوم ہوگا کہ وہ کیسا تھا؟“
جواب میں پویس افسر نے پوری تفصیل بیان کردی۔پھر بڑی مایوسی سے اٹھ کر رخصت ہو گیا۔کوئی ایک مہینے بعد اس پولیس افسر سے ہماری دوبارہ ملاقات دوپن کے ہاں ہی ہوئی۔
”خط کا کوئی پتا چلا؟“ میں نے اس سے پوچھا۔
”نہیں!“ پولیس افسر نے اداسی سر ہلایا۔”ہم نے ایک بار پھر سارے گھر کی تلاشی لی۔لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔“
”اس کے لیے آپ لوگوں نے کتنا انعام رکھا ہے؟“دوپن نے پوچھا۔
”بہت بھاری انعام ہے۔“پولیس افسر نے جواب دیا۔”میں ٹھیک ٹھیک رقم تو نہیں بتا سکتا لیکن میں ذاتی طور پر اس شخص کو پچاس ہزار روپیہ دینے کو تیار ہوں جو مجھے یہ خط لادے۔“
اس پر دوپن نے کہا۔”تو پھر میرا خیال ہے کہ آپ اس رقم کا چیک کاٹ دیں،جیسے ہی آپ چیک پر دستخط کریں گے،خط آپ کو مل جائے گا۔“
دوپن کی یہ بات سن کر میں حیران رہ گیا۔پولیس افسر کی حالت ایسی تھی جیسے اس پر بجلی گر پڑی ہو۔کچھ دیر وہ حیرت سے دوپن کا منہ تکتا رہا، پھر اس نے چیک بک نکالی اور پچاس ہزار کا چیک کاٹ کر دوپن کی طرف بڑھا دیا۔
دوپن نے چیک لے کر اسے غور سے دیکھا، پھر دراز میں سے ایک لفافہ نکال کر پولیس افسر کے حوالے کردیا۔اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے لفافہ کھولا۔اس کے اندر رکھے ہوئے خط پر ایک نظر ڈالی اور پھر ایک لفظ کہے بغیر کمرے سے نکل گیا۔
”بھئی، یہ معجزہ کیسے کر دکھایا تم نے؟“پولیس افسر کے جانے کے بعد میں نے دوپن سے پوچھا۔اس نے مسکراتے ہوئے سارا معاملہ مجھے سمجھانا شروع کیا، کہنے لگا:
”پیرس کی پولیس اپنے کام میں بہت ہوشیار اور مستعد ہے۔ وہ اپنا فرض اور اسے انجام دینے کے تمام طریقوں سے بہ خوبی آگاہ ہے۔ پولیس افسر نے جب وزیر کے گھر کی تلاشی کے متعلق بتایا تو مجھے یقین ہو گیا کہ انہوں نے اس سلسلے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہوگی۔ انہوں نے تلاشی کے جو طریقے اختیار کیے، وہ بہت اچھے ہوں گے،لیکن انہیں اس بات کا خیال نہیں آیا کہ ان طریقوں سے وزیر جیسے گھاک اور کائیاں آدمی کو مات نہیں دی جاسکتی۔
وزیر صاحب کوئی معمولی آدمی نہیں، انہیں معلوم تھا کہ ان کے گھر کی تلاشی لی جائے گی۔بلکہ انہوں نے راتوں کو جان بوجھ کر گھر سے غائب رہ کر پولیس کو اس کا موقع دیا کہ وہ ان کے گھر کی تلاشی لے۔ میں نے اس معاملے پر جتنا غور کیا اتنا ہی مجھے یقین ہو گیا کہ خط اس وزیر کے مکان ہی میں موجود ہے اور اس نے اسے چھپانے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ اسے کہیں چھپایا ہی نہیں۔
چنانچہ ایک صبح میں سیاہ چشمہ لگا کر وزیر صاحب کے گھر جا پہنچا۔ تم جانتے ہو کہ وہ میرے پرانے شناسا ہیں۔ میں نے آنکھوں میں تکلیف کا بہانہ کیا اور چشمہ نہیں اتارا لیکن ان کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے برابر چشمے کے شیشوں میں سے کمرے کا جائزہ لیتا رہا۔
آخر کار میری نگاہ آتش دان کے نیچے ایک چھوٹے سے تختے پر پڑی جو ایک کیل میں لٹک رہا تھا۔ تختے میں کئی خانے تھے۔ ان خانوں میں پانچ چھ ملاقاتی کارڈ پڑے تھے اور ایک خط بھی تھا اور یہ وہی خط تھا جس کی پولیس کو تلاش تھی۔یہ خط میلا کچیلا اور مڑا تڑا تھااور اسے یوں سب سے اوپر کے خانے میں ڈال دیا گیا تھا جیسے کوئی ردی کاٹکڑا ہو۔
اس خط کو دیکھتے ہی مجھے یقین ہو گیا کہ یہی وہ خط ہے۔ پولیس افسر نے خط کی جو تفصیل بیان کی تھی، اس سے یہ خط کافی مختلف تھا لیکن یہ فرق وزیر صاحب نے جان بوجھ کر پیدا کیا تھا۔ صرف اس لیے کہ اس کی طرف کسی کا دھیان نہ جائے۔
خط کے متعلق اپنا اطمینان کرلینے کے بعد میں نے وزیر صاحب سے اجازت چاہی اور آتے ہوئے اپنی نسوار کی ڈبیا وہیں، وزیر صاحب کی میز پر چھوڑآیا۔
اگلی صبح نسوار کی ڈبیا لینے کے بہانے میں پھر وزیر صاحب کے ہاں جا پہنچا لیکن جب ہم باتیں کر رہے تھے تو باہر پستول چلنے کی آواز آئی اور اس کے ساتھ چند چیخیں سنائی دیں۔ وزیر صاحب جلدی سے کھڑکی کی طرف گئے۔ میں نے موقع غنیمت جانا، فوراً آتش دان کی طرف بڑھا، تختے کے خانے میں سے خط نکال کر جیب میں ڈالا اور اس کی جگہ ویسا ہی ایک اور خط رکھ دیا۔اس کے کچھ دیر بعد ہی میں وہاں سے چلا آیا۔
وہ پستول چلانے والا آدمی میرا بھیجا ہوا تھا۔“
دوپن کے منہ سے یہ باتیں سن کر میں عش عش کر اٹھا۔ پھر کچھ سوچ کر بولا:”ایک بات میں نہیں سمجھا۔ تم جب پہلی مرتبہ وہاں گئے تھے تو اسی وقت خط کیوں نہ اٹھا لیا؟ اور پھر اسی جگہ اسی قسم کا خط کیوں رکھا؟“
”تم ان وزیر صاحب کو نہیں جانتے۔“ دوپن نے ہنستے ہوئے کہا۔”جیسا کہ تم کہہ رہے ہو،میں ویسا ہی کرتا تو وزیر صاحب مجھے جان سے مارڈالتے اور میرے بجائے وہاں سے میری لاش نکلتی۔“ اس کے علاوہ میں ان کا پرانا حساب بھی چکانا چاہتا تھا۔“
”پرانا حساب؟“میں نے حیرت سے کہا۔
”ہاں، میں چاہتا تھا کہ انہیں یہ معلوم نہ ہوکہ وہ خط ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ وہ یہ سمجھ کر کہ خط ان کے پاس ہی ہے،اپنے کام میں مصروف رہیں۔“
”یہ تو کوئی پرانا حساب نہ ہوا۔“میں نے کہا۔
”وہ بھی بتاتا ہوں، جب ان کو ان کے کرتوتوں کی وجہ سے وزارت کے عہدے سے ہٹایا جائے گا تو وہ شہزادی والا خط دیکھیں گے تاکہ اس سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی برطرفی رکوا دیں۔جب انہیں یہ معلوم ہوگا کہ وہ خط کسی نے اڑالیا ہے تو ان کے ذہن میں یہ خیال آئے گا کہ وہ کون شخص ہے جس نے انہیں مات دی ہے۔سو، اس خط کے اندر میں نے اپنے بارے میں ذرا سا اشارہ دے دیا ہے۔ انہوں نے ایک بار میرے ساتھ ایک زیادتی کی تھی، اس طرح انہیں پتا چل جائے گا کہ میں نے ان کا حساب چکا دیا ہے۔“
۔۔۔۔۔۔