چندا کی نگری
مصنف: یوری کوتلر
ترجمہ: سلیم احمد صدیقی
۔۔۔۔۔۔
”عثمان علی اوف“ وسط ایشیا کی ایک مسلم ریاست’اُزبکستان‘ کے دارالحکومت ’تاش قند‘ میں رہتا تھا۔آج کل اس کے اسکول میں سردیوں کی چھٹیاں تھیں اور وہ اپنے دادا جان کے پاس گاؤں میں آیا ہوا تھا۔دادا جان کا نام’جمعہ بایوف‘ تھا اور وہ بھیڑیں پالتے تھے۔عثمان گاؤں آکر بہت خوش ہوا کیوں کہ یہاں کا ماحول بہت کھلا کھلا اور صاف ستھرا تھا۔وہ بھیڑوں کی رکھوالی اور دوسرے کام کاج میں داد اجان کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ایک دن تو اس نے ہمت کرکے شکاری کتوں کو کھانا بھی خود کھلایا۔اسے ان کتوں کی شکل دیکھ کر خوف آتا تھا،لیکن کتے دوہی دن میں اسے پہچاننے لگے تھے اور اب اسے دیکھ کر بھونکتے نہیں تھے۔
ایک دن دادا جان اور عثمان نے گاؤں سے باہر پکنک منانے کا پروگرام بنایا۔انہوں نے کچھ دور جا کر ایک کھلی جگہ اپنا خیمہ لگایا اور اس کے اندر سامان رکھ دیا۔سارا دن سیر سپاٹا کرنے کے بعد رات کو دونوں آگ کے پاس بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ اچانک انہیں کچھ دور آگ کا ایک چمک دار گولا نظر آیا جو زمین سے آسمان کی طرف جا رہا تھا۔
“ارے! عثمان!دیکھو،یہ کیا ہے؟“ دادا جان حیرت سے چلائے۔
عثمان کے چہرے پر ذرا سی بھی حیرت نہ تھی۔ اس نے بے پروائی سے کہا۔”کچھ نہیں، دادا جان۔ کوئی خاص بات نہیں ہے۔اس طرف ہمارا خلائی پروازوں کا مرکزبیکانور ہے۔لگتا ہے کہ وہاں سے کوئی خلائی جہاز خلا میں چھوڑا گیا ہے۔“
اوپر آسمان پر چاند چمک رہا تھا۔ یہ دوسری یا تیسری تاریخ کا چاند تھا۔
”آج کل کے بچے بہت سمجھ دار ہیں۔ بڑوں سے زیادہ جانتے ہیں۔“ دادا جان بڑبڑائے۔”انہیں کوئی چیز حیران نہیں کرتی۔اچھا بچّو،ذرا یہ بتاؤ کہ یہ چاند نظر آرہا ہے، یہ نیا ہے یا پرانا؟“
”لو، دادا جان“ عثمان نے کہا۔”چاند بھی کہیں نیا اور پرانا ہوتا ہے؟چاند تو بس چاند ہی ہوتا ہے۔“
”اونہوں“دادا جان نے پوتے کو ہارتے دیکھا تو مسکرائے۔”دیکھا؟نہ دے سکے نا جواب؟سنو،بیٹے۔ اس وقت چاند کی نوکیں بائیں جانب کو ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نیا چاند یعنی ہلال ہے۔11،12دن بعد یہ پورا ہو جائے گا،جسے ہم چودھویں کا چاند کہتے ہیں۔۔۔اس کے بعد یہ گھٹنا شروع ہوگا اور 24،25دن کے بعد اس کی نوکیں دائیں جانب کو ہوں گی اور ہم کہیں گے کہ یہ پرانا چاند ہے اور اب یہ چھپنے والا ہے۔“
”اوہو، چھوڑیں بھی،دادا جان۔“ عثمان نے منہ بنا کر کہا۔”یہ نیاچاند اور پرانا چاند تو پرانی باتیں ہیں۔آج کل چاند کی کیا اہمیت ہے؟انسان نے چاند کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالا ہے۔وہاں گرد وغبار اور کنکر پتھر کے سوا اور ہے کیا؟کوئی بھی تو وہاں نہیں رہتا۔“
دادا جان مسکرانے لگے۔
اب ٹھنڈی ہوا چلنے لگی تھی۔ عثمان اور دادا جان اپنے اپنے بستروں میں دبک گئے۔ خیمے کا دروازہ دادا جان پہلے ہی بند کر چکے تھے۔ جوں ہی عثمان کا جسم گرم ہوا، اس کی آنکھیں مِچنے لگیں۔ لیکن ابھی پوری بند نہ ہوئی تھیں کہ اچانک زمین زور سے ہلی، جیسے اس پر کوئی بہت بھاری شے آن گری ہو۔اس کے ساتھ ہی خیمے کے اندر بہت تیز روشنی پھیل گئی۔عثمان خوف زدہ ہوگیا۔ اس نے چاہا کہ دادا جان کو پکارے لیکن دہشت سے اس کی آواز نہ نکلی۔اس کا جسم سن ہو گیا تھا۔اس نے پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھاکہ کوئی خلائی مخلوق اندر آگئی ہے۔اس نے بہت چمک دار خلائی لباس پہنا ہوا تھا۔
”تم عثمان ہی ہوناں؟“خلائی مخلوق نے باریک سی آواز میں کہا۔”تمہیں مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ میں تمہارا دشمن نہیں، دوست ہوں۔“
”مگر۔۔۔مگر آپ ہیں کون؟“عثمان نے کہا۔”اور آپ کو میرا نام کیسے معلوم ہوا؟“
”میں چاندکی مخلوق ہوں۔ہم چاند والے زمین والوں سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔مجھے زمین پر رہنے والے تمام لوگوں کے نام معلوم ہیں۔“اس نے کہا۔
مگر چاند پر تو کوئی بھی نہیں رہتا۔یہ بات سب جانتے ہیں۔امریکی خلا باز اور روسی خلا باز وہاں جا چکے ہیں۔انہوں نے وہاں سے آکر بتایا کہ چاند پر کوئی جان دار نہیں ہے۔کیوں کہ وہاں نہ ہوا ہے نہ پانی۔“
”مگر ہم تو رہتے ہیں۔“خلائی مخلوق نے کہا۔”دیکھو، میں تمہارے سامنے کھڑا ہوں۔تم چاہو تو مجھے چھو کر دیکھ سکتے ہو۔ویسے چاند کے بارے میں تم اور کیا جانتے ہو؟“
”میں چاند کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں۔“عثمان نے فخر سے سینہ تان کر کہا۔اب وہ خوف زدہ نہیں تھا۔”چاند ہماری زمین کا سیارہ ہے۔وہ زمین کے گرد گھومتا ہے اور چار ہفتوں میں اس کے گرد ایک چکر لگاتا ہے۔اس کی سطح ہموار نہیں ہے۔کہیں اس پر پہاڑ ہیں،کہیں کھائیاں، کہیں گہرے گہرے غار ہیں، کہیں دھول سے اٹے ہوئے میدان۔وہاں نہ پانی ہے،نہ ہوا۔اس لیے وہاں کوئی جان دار زندہ نہیں رہ سکتا۔“
عثمان نے اپنے کورس کی کتاب میں لکھی ہوئی باتیں فرفر سنانا شروع کر دیں۔
”ٹھہرو!ٹھہرو!“خلائی مخلوق نے کہا۔”چاند کا ایک دن کتنا بڑا ہوتا ہے؟“
عثمان کی ساری شیخی دھری رہ گئی۔اس نے سر جھکا کر کہا۔”یہ۔۔۔یہ۔۔۔یہ تو مجھے نہیں پتا۔“
”تو سنو“خلائی مخلوق نے کہا۔”میں بتاتا ہوں،چاند کا ایک دن تمہارے چودہ، پندرہ دن کے برابر ہوتا ہے۔ یوں سمجھو کہ تمہارا ایک مہینہ اور ہمارا ایک دن ایک رات برابر ہوتے ہیں۔ہاں، تمہیں ایک اور مزے کی بات بتاؤں۔“
”کک۔۔۔کیا؟“عثمان نے پوچھا۔
”تم نے ایک بار سورج اور چاندکی تصویر بنائی تھی اور اس کا نام رکھا تھا،’غروب آفتاب سے پہلے کا ایک منظر‘۔۔۔وہ تصویر غلط تھی۔“ خلائی مخلوق نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”کیوں؟“ عثمان نے پوچھا۔
”وہ اس لیے کہ اگر غروب آفتاب سے پہلے سورج اور ہلال اکٹھے ہوں تو ہلال کے کونے دائیں جانب نہیں بلکہ بائیں جانب ہوتے ہیں۔ سورج چاند کے اپنے سامنے والے کناروں کو روشن کر سکتا ہے،دور والوں کو نہیں۔“
”دراصل“ عثمان نے کھسیانا ہو کر کہا۔”ابھی اسکول میں ہم نے اتنا نہیں پڑھا۔“
”ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔“خلائی مخلوق نے کہا۔”ابھی تمہیں یہ بھی پڑھنا ہے کہ چاند اور زمین کا درمیانی فاصلہ 385,000 (تین لاکھ پچاسی ہزار)کلومیٹر ہے،اور چاند کا رقبہ بر اعظم ایشیا سے بھی کم ہے۔رہا چاند کا حجم، تو چاند زمین سے پچاس گنا چھوٹا ہے۔اسی لیے اس کی کشش ثقل بہت کم ہے۔“
”یہ تو مجھے پتا ہے۔“عثمان نے خوشی سے مسکراتے ہوئے کہا۔”چاند کی کشش ثقل زمین کی کشش ثقل کا چھٹا حصہ ہے۔زمین پر جس چیز کا وزن سات کلو گرام ہے،چاند پر اس کا وزن ایک کلو گرام ہے۔“
”ہاں۔تبھی تم لوگ ہمارے چاند پر آتے ہو تو اچھل اچھل کر چلتے ہو۔تمہارے پیر چاند کی سطح پر ٹھیک سے نہیں ٹکتے۔
انسان مدتوں سے ہمارے چاند پر جانے کے خواب دیکھ رہا تھا۔تمہارے کئی ادیبوں نے ایسی کتابیں لکھیں جن کے ہیرو کسی نہ کسی طرح چاند پر پہنچ گئے۔اس قسم کا پہلا ہیرو یونان کا ’اوڈی سس‘ تھا۔پھر آج سے تین سو سال پہلے ایک انگریز مصنف’فرانسس گولڈون‘نے ایک کتاب لکھی۔اس کتاب کے ہیرو نے ایک گاڑی میں بہت سارے بگلے جوتے اور انہیں اڑا کر چاندپر پہنچ گیا، اور ہاں، فرانس کے رہنے والے ایک شخص ’سائرا نودی بر جراک‘ کے بارے میں تم نے کبھی کچھ سنا ہے؟“
”نہیں۔“ عثمان نے کہا۔”اس نے کیا کیا تھا؟“
”وہ ایک اچھا بھلا سائنس دان تھا۔اس نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے۔’راکٹ آمنے سامنے چھ قطاروں میں رکھے ہوئے تھے اور وہ اس طرح سلسلے وار جڑے ہوئے تھے کہ ایک کے بعد دوسرا چلتا تھا۔‘یہ کتاب چھپنے کے بہت دنوں بعد تمہارے سائنس دانوں نے کئی مرحلوں والے راکٹ بنائے اور ان کی مدد سے زمین کے لوگ چاند پر گئے۔اور ہاں، تم نے تو جرمنی کے ایک ادیب’بیرن منچازن‘ کا نام بھی نہیں سنا ہوگا؟“
”اس نے کیا کیا تھا؟“عثمان نے حیرت سے پوچھا۔
”اس نے اپنی کہانیوں کے ہیرو کو دوبار چاند کا سفر کرایا تھا۔اس کی ایک کہانی کے ہیرو نے لوبیے کا ایک بیج بویا اور اس میں سے اگنے والے پودے پر چڑھتا چڑھتاچاند پر پہنچ گیا۔اس کی دوسری کہانی کے ہیرو کو تیز آندھی اڑا کر چاند پر لے گئی تھی۔“
”میں سمجھ گیا۔“عثمان کی آنکھوں میں چمک لہرائی۔”آپ دراصل یہ بتا رہے ہیں کہ انسان کس کس طرح چاند پر جانے کے خواب دیکھتا رہا ہے۔“
”ہاں“خلائی مخلوق نے کہا۔”تم صحیح سمجھے۔فرانس کے ایک اور ادیب’جیولس ورنے‘کی ایک کتاب کا ہیرو ایک توپ میں گولے کی جگہ بیٹھا اور توپ کو چلا کر چاند پر جا پہنچا۔آج تک تمہاری دنیا کے مختلف ادیبوں نے کم از کم 30بار لوگوں کو چاند پر بھیجا ہے۔ہر بار انہوں نے زمین پر آکر چاند کے بارے میں مختلف افسانے لوگوں کو سنائے۔لیکن یہ سب کہانیاں ہیں۔اب میں کچھ سچی باتیں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں نے زمین سے چاند پر کس کس کو آتے دیکھا۔1959ء میں روس کے ایک خلائی جہاز نے چاند کے چاروں طرف چکر لگائے اور اس کی تصویریں اتاریں۔اس جہاز نے چاند کی اُس دوسری سمت کی تصویریں بھی پہلی مرتبہ اتاریں جو تم زمین والوں سے چھپی رہتی ہے۔اس کے بعد 1966ء میں،پہلی بار ایک روسی خلائی جہاز چاند کی سطح پر اترا۔اس کے تین سال بعد،1969ء میں، کسی کہانی کا ہیرو نہیں بلکہ سچ مچ کا ایک انسان پہلی بار چاند پر اترا۔یہ ایک امریکی تھا اور اس کا نام تھا’نیل آرم اسٹرانگ۔‘
”یہ بات تو مجھے معلوم ہے۔1969ء میں نیل آرم اسٹرانگ چاند پر اترا تھا۔“عثمان بولا۔
”1971ء میں روس کا ایک خلائی جہاز جس کا نام ’لونو خود اول‘ تھا،چاند کی سطح پر اترا اور کچھ دور چل پھر کر اس کی تصویریں اتاریں۔“
”آپ نے ان سب کو چاندپر اترتے دیکھا تھا؟“عثمان نے سوال کیا۔
”ہاں بھئی، بالکل دیکھا تھا۔“ خلائی مخلوق نے کہا۔
”لیکن آرم اسٹرانگ نے واپس زمین پر آکر آپ سے ملاقات کا حال ہمیں کیوں نہیں بتایا؟اور ہاں،آپ لوگ ہوا کے بغیر کیسے زندہ رہتے ہیں؟“
”ابھی بتاتا ہوں۔“ خلائی مخلوق نے کہا۔”پہلے تم مجھے ایک سوال کا جواب بتاؤ۔“
”پوچھیے۔“عثمان نے کہا۔
”کہتے ہیں کہ پہلے پہل چاند اور زمین دونوں کھولتا ہوا سیّال یعنی مائع تھے اور چاند زمین ہی کا ایک حصہ تھا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاچاند زمین سے ٹوٹ کر الگ ہو گیا؟یا یہ دونوں ایک ساتھ پیدا ہوئے تھے؟یا چاند خلا میں آوارہ گردی کرتاہوا زمین کے پاس سے گزرا تو زمین کی کشش ثقل نے اسے پکڑ کر اپنا سیارہ بنا لیا؟“خلائی مخلوق نے کہا۔
”یہ۔۔۔یہ۔۔۔ یہ تو بڑا مشکل سوال ہے۔“عثمان نے کہا۔
”اس سوال کا جواب تمہارا کوئی بڑے سے بڑا سائنس دان بھی نہیں دے سکا ہے۔“خلا ئی مخلوق نے کہا۔”تم ایسا کرو کہ میرے ساتھ چاند پر چلو اور وہاں کی لائبریری میں اس سوال کا جواب ڈھونڈو۔اگر تم نے اس سوال کا جواب پالیا تو پہلے انسان ہوگے جس نے یہ معما حل کیا ہوگا۔“
”میں تیار ہوں، چلیے۔“عثمان نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
”ارے بھئی، اب اٹھ بھی بیٹھو۔“ دادا جان نے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔”صبح ہوگئی ہے۔چاند پر پھر کبھی چلے جانا۔ تمہیں پتا ہے کل تمہارا اسکول کھل رہا ہے۔اب ناشتے کے بعد ہم پہلے گاؤں چلیں گے اور پھر تمہارے گھر، تاش قند۔“
عثمان اٹھ تو بیٹھا لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ چاند کا وہ شخص دادا جان میں کیسے تبدیل ہو گیا۔
اگر آپ کی سمجھ میں آگیا ہوتو ہمیں بھی بتائیے گا۔