ان شاءاللہ
عبدالرشید فاروقی
۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ حسرت سے اُن بچوں کو دیکھ رہا تھا جو کندھوں سے رنگ برنگے بستے لٹکائے، ایک دوسرے سے ہنس ہنس کر باتیں کرتے جا رہے تھے۔
”کیا میں اِن کی طرح اسکول نہیں جا سکتا۔کیا میں کبھی علم حاصل نہیں کر سکوں گا؟“یہ وہ سوالات تھے جو ہر روز اُس کے ذہن میں گونجتے تھے۔
وہ دس سال کا ایک خوب صورت لڑکا تھا۔ اُس کے ابو رحم دین ایک معمولی مزدور تھے۔ اُسے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا لیکن اُس کے ابو کی آمدن اتنی نہ تھی کہ وہ اُس کے اسکول کے اخراجات پورے کر سکتے۔
رحم دین نے اپنے بیٹے کو ایک ورکشاپ میں کام سیکھنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ فضل دین روزانہ ورکشاپ جاتے ہوئے راستے میں چھوٹے بڑے بچوں کو اسکول جاتے دیکھتا تو اُس کے پڑھنے کی خواہش دل میں لہریں لینے لگتی۔ آج بھی ایسا ہی ہوا۔ رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس چمکتے دمکتے چہرے لیے وہ لڑکے اُسے بہت اچھے لگ رہے تھے۔اُس نے آخری نگاہ لڑکوں پر ڈالی اور اپنی ورکشاپ کی طرف روانہ ہو گیا۔
O
”چھوٹے…… ارے او چھوٹے…… ذرا چابی دینا……“ اُستاد نے فضل دین کو پکارا۔ اُس نے جلدی سے چابی اٹھائی اور اُستاد کے ہاتھ میں تھما دی۔ اُستاد نے چابی لی اور کام میں مصروف ہو گیا اور وہ خیالات میں گم، تصور کی آنکھ سے خود کو سفید رنگ کی یونی فارم میں ملبوس دیکھنے لگا۔ اُس کے کندھوں پر ایک خوب صورت بستہ تھا اور وہ دوسرے لڑکوں سے باتیں کرتا، ہنستا مسکراتا اسکول جا رہا تھا۔ وہ خیالات میں ابھی نہ جانے کتنا بہتا کہ اچانک اُستاد نے اُسے پکارا:
”فضل دین! تم اچانک کن خیالوں میں کھو جاتے ہو؟“ اُستاد کے ہاتھ میں چابی تھی اور وہ حیرت سے اُسے دیکھ رہا تھا۔
”جی وہ…… وہ جی…… دراصل…… میں ……“
”یہ تو تمہارا بہت پرانا انداز ہے۔ کوئی نئی بات کرو۔ آخر تم مجھے بتاتے کیوں نہیں کہ تم کن خیالوں میں کھوجاتے ہو……“ اُستاد نے ناگواری سے پوچھا۔
”اُستاد! وہ دراصل میں …… میں ……“ اُس نے کہنا چاہا لیکن بات مکمل نہ کر سکا۔
”کیا میں میں لگا رکھی ہے۔ اچھا یہ چابی وہاں رکھو۔ میں گاڑی کی ٹرائی لے آؤں پھر تم سے بات کروں گا۔“
اُستاد گاڑی لے کر ٹرائی پر چلا گیا اور فضل دین ایک بار پھر اپنی دنیا میں کھو گیا۔ اُس کے ذہن میں بار بار یہی سوالات کھلبلی مچا رہے تھے کہ وہ کیوں کر پڑھ سکتا ہے۔ اُسے پڑھائی سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا لیکن اُس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو رہی تھی۔
اُستاد واپس آیا تو پوچھنے لگا:
”ہاں بھئی! اب بتاؤ کیا معاملہ ہے……تم کون سی دنیا میں کھوئے رہتے ہو؟“تھوڑی سی خاموشی کے بعد اُس نے اُستاد کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کر دیا۔
”ارے…… بس…… اتنی سی بات ہے۔ یہ تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تم اپنے ابو سے کہو کہ وہ تمہیں اسکول میں داخل کرا دے۔“ اُستاد نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔
”اُستاد! میرے ابو مجھے پڑھانے کی ہمت رکھتے تو مجھے یہاں ورکشاپ میں کام سیکھنے کے لیے ہرگز نہ بھیجتے۔ وہ مزدوری کرتے ہیں۔اُن کی آمدن سے گھر کے اخراجات مشکل سے پورے ہوتے ہیں۔“فضل دین نے شائستہ لہجے میں کہا۔ وہ ایک اچھا اور سلجھا ہوا لڑکا تھا۔ اچھے لوگوں کی صحبت نے اُسے بات کرنے کا سلیقہ سکھا دیا تھا۔
”اوہ…… اچھا۔“ اُستاد نے گہرا سانس لیا:
”اِس موضوع پر پھر بات کریں گے۔سیٹھ انور کی گاڑی آگئی ہے، پہلے اُسے چیک کرلیں۔“
فضل دین نے چونک کر دیکھا۔ گیراج کے سامنے ایک بڑی سی خوب صورت گاڑی رُک رہی تھی۔
”ٹھیک ہے اُستاد جی۔“ اُس نے کہااور تیزی سے گاڑی کی طرف لپکا۔
O
رحم دین اور اُستاد آمنے سامنے بیٹھے تھے جب کہ فضل دین اپنے ابو کے عقب میں سر جھکائے کھڑا تھا۔
”فضل دین!تمہارا لڑکابہت ذہین ہے۔ چند ہی دنوں میں اِس نے تمام اوزاروں کے نام سیکھ لیے ہیں لیکن……“
”لیکن کیا……!“ رحم دین چونکا۔
”لیکن اِسے پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ یہ پڑھنا چاہتا ہے۔“ اُستاد نے کہا۔
”میں جانتا ہوں۔ یہ بہت ذہین ہے لیکن میں اِسے پڑھا نہیں سکتا ہوں۔“ رحم دین نے بے بسی سے کہا۔ اُس کی آنکھوں میں زمانے بھر کا درد تھا۔
”اِس لیے کہ میری آمدنی محدود ہے۔ مزدوری کبھی ملتی ہے، کبھی خالی ہاتھ گھر واپس آنا پڑتا ہے۔میں اِسے کام سکھانے پر مجبور ہوں میرے بھائی۔“
یہ کام تو سیکھ ہی جائے گا لیکن اِس کی خواہش کا کیا کریں۔ میرے خیال میں اِسے پڑھنا چاہیے۔“
”مم …… مم……میں بتا چکا ہوں، میرے وسائل نہیں ہیں۔ ہم غریبوں کی قسمت میں پڑھنا لکھنا کہاں ……میرے ابا اَن پڑھ تھے۔ غریب تھے۔ میں بھی پڑھنا چاہتا تھا لیکن نہ پڑھ سکا۔ مجھے اپنے ہونہار بیٹے پرناز ہے لیکن میں کیا کروں۔ مجبور ہوں۔“ یہ کہتے وقت رحم دین کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ فضل دین کا چہرہ اُترا ہوا تھا۔
”رحم دین! ہمارا زمانہ اور تھا۔ اب سرکاری اسکولوں میں تعلیم پر زیادہ اخراجات نہیں آتے۔ خاص کر ابتدائی جماعتوں میں فیسیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔سنا ہے، کتابیں اوریونی فارم بھی مفت مل جاتا ہے۔“
”آپ درست کہتے ہیں لیکن ان کے علاوہ بھی تو اخراجات ہوتے ہیں۔ پھر میں چاہتا ہوں، فضل دین تھوڑے بہت پیسوں سے میرا ہاتھ بٹائے۔ اِس کی ماں بیمار رہتی ہے۔ اُس کی دوا خریدنے کے لیے مجھے بہت مشکل ہوتی ہے۔“ رحم دین نے کہا۔
”بھائی! آپ اِسے جلدی سے کام سکھا دیں تاکہ مجھے کچھ سکون ہو۔“
”کام تو میں اِسے سکھا دوں گا لیکن میں چاہتا ہوں۔ بچے کاشوق پورا ہو۔ یہ پڑھے اور خوب پڑھے۔“ اُستاد کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
”دیکھو بھائی! میں بھی اِن پڑھ ہوں۔ غربت میں نے بھی بہت دیکھی ہے۔ تم جانتے ہو، میری کوئی اولاد نہیں ہے۔ میں آج سے فضل دین کو اپنا بیٹا بنا رہا ہوں اور میں اپنے بیٹے کو ضرور پڑھاؤں گا۔ اِس کے تمام اخراجات میں برداشت کروں گا۔“
”اوہ…… اوہ……“ رحم دین حیران رہ گیا۔ فضل دین خوشی سے اُچھل پڑا۔
”بھب…… بھب……اکمل بھائی……آپ کیا کہہ رہے ہیں۔“ رحم دین کی آنکھوں میں موجود آنسو چھلک کر اُس کے گالوں پر چمکنے لگے۔
”اُ……اُ……اُستاد……اُستاد جی……“ فضل دین بھاگ کر اُستاد سے چمٹ گیا۔
”فضل دین! ہم حالات کے ستائے تو نہ پڑھ سکے، لیکن تم پڑھو گے اور ضرور پڑھو گے۔“
”ان شاء اللہ……ان شاء اللہ۔“
رحم دین اُٹھ کھڑاہوا۔ اُس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے دیکھا۔ اُستاد کی آنکھیں بھی پانی سے بھری ہوئی تھیں۔
OOO