skip to Main Content
چولستان کے مشہور قلعے

چولستان کے مشہور قلعے

محمد فرحان اشرف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ قلعے سرزمین پاکستان، چولستان میں ہیں۔ ویسے تو پاکستان میں سینکڑوں قلعے ہیں لیکن چولستان میں قلعوں کی تعداد 29 ہے۔ اس کے علاوہ محلوں اور پرانی عمارتوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔ مساجد، خانقاہیں اور مزارات بھی ہیں۔ صحرائے چولستان کے راستوں کی مجموعی لمبائی ایک ہزار ایک سو ننانوے میل بنتی ہے۔ لوگ تین اضلاع بہاول پور، بہاول نگر اور رحیم یار خان کے راستے صحرائی قلعوں تک جاتے ہیں۔ چولستان میں واقع قلعوں کے نام قلعہ پھولڑا فورٹ عباس، قلعہ مروٹ، قلعہ جام گڑھ مروٹ، قلعہ موج گڑھ مروٹ، قلعہ مبارک پور چشتیاں، قلعہ فتح گڑھ امروکہ بہاول نگر، قلعہ میر گڑھ مروٹ، قلعہ خیر گڑھ، قلعہ بہاول گڑھ، قلعہ سردار گڑھ ولہر، قلعہ مچھکی، قلعہ قائم پور، قلعہ مرید والا، قلعہ دراوڑ، قلعہ چانڈہ کھانڈہ، قلعہ خان گڑھ، قلعہ رکن پور، قلعہ لیارا صادق آباد، قلعہ کنڈیرا صادق آباد، قلعہ سیو راہی صادق آباد، قلعہ صاحب گڑھ رحیم یار خان، قلعہ ونجھروٹ، قلعہ دھویں، قلعہ دین گڑھ، قلعہ اوچ، قلعہ تاج گڑھ رحیم یار خان، قلعہ اسلام گڑھ رحیم یار خان، قلعہ مؤمبارک رحیم یار خان اور قلعہ ٹبہ جیجل حاصل ساڑھو بہاول نگر ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی تاریخی عمارتیں،محلات بھی ہیں اور بہت سوں کا وجود ہی دنیا سے ختم ہو گیا ہے۔ اس لق ودق صحرا میں ایک بہت بڑا قدرتی بودھلہ جنگل فورٹ عباس بھی ہے۔ بودھلہ جنگل میں پنجاب حکومت نے تفریحی پارک کے منصوبے کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ لال سہانرا میں مصنوعی جنگل اور تفریحی پارک بھی بنایا گیا ہے،جہاں دور دور سے سیر کرنے کی خاطر لوگ آتے ہیں۔ان چولستانی قلعوں کا مختصرتعارف ذیل میں دیاجارہاہے۔
قلعہ پھولڑا
یہ ایک قدیم قلعہ ہے اور کسی زمانے میں بیکا نیر کے راجہ بیکانے تعمیر کرایا تھا۔ اس قلعہ کی بیرونی دیواریں تمام ترپکی اینٹوں سے بنی ہوئی تھیں اور دونوں دیواروں کے درمیان کا حصہ مٹی سے بھرا ہوا تھا۔اس کو دھوڑا کہتے ہیں،تاکہ گولہ باری سے قلعہ کو نقصان نہ پہنچے۔قلعہ کے اندر مغربی حصے میں ایک کنواں ہے، جو118فٹ گہرا اور چار فٹ قطر میں تھا۔قلعے کے چاروں کونوں پرمینار ہیں، جن کے درمیان میں رہائشی کمرے تھے۔ شمال مغربی مینار پختہ اینٹوں کا بناہواتھا۔جنوبی حصے میں ایک سہ منزلہ عمارت تھی،جو بہت خوبصورت اقامت گاہ تھی۔ اس اقامت گاہ کی پیشانی پر لکھا ہوا تھا:”مالک ایں محمد اکمل خاں داؤدپوترا رمضان المبارک1144ھ۔“قلعہ کے باہر بھی تین کنویں تھے، مگر ان کا پانی کھاراتھا۔ یہ قلعہ بہاول پور سے مشرق میں بیکانیر کی سمت واقع ہے، قلعہ کے اوپر تین توپیں بھی تھیں۔
قلعہ مروٹ
یہ قلعہ انتہائی قدیم ہے،اس قلعہ کے اندر ایک مسجد شاہ مردان ہے۔مروٹ کا قلعہ چتوڑ کے مہروٹ نے تعمیر کرایا تھا، جس نے راجہ چچ سے جنگ لڑی تھی۔ اس کے بعد اس قلعہ کا نام قلعہ مہروٹ رکھا گیا، جو بگڑ کر قلعہ مروٹ بن گیا۔یہ قلعہ دہلی اور ملتان کی شاہراہ پر واقع تھا،اس لیے بہت مشہور منڈی اور قصبہ تھا۔قلعہ مروٹ بہت بلند ٹیلہ پر تعمیر کیاگیا تھا جو بہت دور سے نظر آتا ہے۔فصیل کے ساتھ بڑے برج بنے ہوئے ہیں۔مغربی جانب ایک قدیم محل کے آثار ملتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں مہاراجہ بیکا نیروالی کی رہائش تھی، اب یہاں سوائے ویرانی کے اور کچھ نہیں ہے۔ یہ قلعہ اپنے اندر سیاحوں کیلئے خاص کشش اور جاذبیت رکھتا ہے۔
قلعہ جام گڑھ
قلعہ جام گڑہ،قلعہ میرگڑھ سے 9کلومیٹر دور واقع ہے۔ یہ قلعہ خوبصورت اینٹوں سے بنا ہوا ہے اور کافی حد تک اپنی اصل حالت میں برقرار ہے۔اس کو جام خان ماروفانی نے 1788ء میں تعمیرکروایا تھا۔یہ قلعہ چوکور شکل میں ہے اور چاروں طرف سے 114فٹ کی پیمائش پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی دیواریں 28فٹ تک بلند ہیں اور چاروں کونوں میں خوبصورت گول برج بنے ہوئے ہیں۔ قلعے کے مشرق میں 9فٹ قوس دار گنبد نما دروازہ ہے۔یہ قلعہ مروٹ سے میرگڑھ جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے،اس کی بیرونی فصیل پختہ بنائی گئی تھی۔
قلعہ موج گڑھ
یہ قلعہ صحرائے چولستان میں فورٹ عباس اور یزمان کے درمیان واقع ہے۔یہ قلعہ بہاول پور سے یزمان،فورٹ عباس روڈ پر 70کلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہے۔مٹی اور اینٹوں سے بنا ہوا یہ قلعہ معروف خان کہرانی نے 1743ء میں تعمیر کروایا تھا۔ یہ قلعہ انڈیا، پاکستان کے بارڈر کے بالکل قریب ہے۔قلعہ موج گڑھ بھاول پورکے عباسی دور میں بنائے گئے قلعوں میں سے ایک قلعہ ہے۔ یہ قلعہ بھی اپنی تباہی کی آخری منزلوں پر ہے اور حکومتی اداروں کی توجہ کاطلب گار ہے۔ یہ قلعہ پکی اینٹو ں سے تعمیر کیاگیا تھا، اس کی فصیل بہت بلند ہے۔قلعہ کی خوب صورت مسجد اور معروف خان کا مقبرہ دیکھنے کے قابل ہے۔قلعہ کے مشرق میں تالاب سوکھا پڑا ہے۔
قلعہ مبارک پور
نواب مبارک خان نے1157ء میں شہر فرید کے نزیک(موجودہ چشتیاں) ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا۔ اس کا نام قلعہ مبارک پور رکھا تھا، یہ قلعہ کچی مٹی(دھوڑ) کا بنا ہوا تھا۔اس کی دیواریں بہت بلند تھیں، قلعہ کے شمالی جانب بڑا دروازہ تھا۔ جس کے اوپر ایک پختہ سہ دری اور بنگلہ بناہواتھا، اندر رہائشی مکانات تھے۔ اب یہاں صرف مٹی کے ٹیلے ہیں اور قلعہ کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے۔یہ قلعہ دراصل لکھویرااور جوئیہ ذات کے شورش اور بغاوت کرنے والے درساروں سے مقابلے کیلئے تعمیر کیا گیا تھا۔نواب بہاول خان دوم نے قلعہ کے اوپر توپ رکھوادی تھی جو1880ء تک قلعہ کے دمدمہ پر رکھی رہی، جس پر ایک پیتل کی تختی پر یہ تحریر کندہ تھی:”سرکار رکن الدولہ،نصرت جنگ،سیف الملک محمد بہاول خان بہادر عباسی،1217ھ۔“
قلعہ فتح گڑھ
1799ء میں نواب محمد بہاول خان دوم نے گوادینا کے مقام پر ایک قلعہ تعمیر کرایا۔یہ مقام موجودہ بہاول نگر میں امروکا ریلوے اسٹیشن سے15میل شمال مغرب میں واقع تھا۔ اس قلعہ کا نام فتح گڑھ رکھا۔یہ قلعہ باہر سے پختہ تھا مگر اندر سے دیواریں کچی تھیں۔ قلعہ کے اندر ایک گہرا کنواں اور باہر دو پکے کنویں بنے ہوئے تھے،جو بارش کے پانی سے بھرتے تھے۔ اٹھارویں صدی کے آخری دنوں تک یہاں فوج رہا کرتی تھی۔ اس کا نگہبان ہمیشہ داؤدپوترا ہوتا تھا۔اب یہ قلعہ نابود ہوچکا ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی بستی ہے،جہاں عربانی ذات کے لوگ رہتے ہیں۔
قلعہ ٹبہ جیجل
ضلع بہاول نگر میں حاصل ساڑھو سے چند میل کے فاصلے پریہ قلعہ موجود ہے۔قدیم زمانے میں یہ ایک زبردست دفاعی قلعہ تھا، جو وقت کے ہاتھوں اب ایک ٹبہ رہ گیا ہے۔ بیکا نیر کی سرحدپر واقع ہونے کی وجہ سے گمان ہوتا ہے کہ قدیم زمانے میں بھی یہاں سے حملے ہوتے رہے۔ اس قلعہ کے ساتھ دریا بہتا تھا، اب یہاں دور دور تک دریاکے آثار نہیں ہیں۔یہ قلعہ پختہ اور خام اینٹوں سے بنایاگیاتھا اور اینٹیں بڑے سائز کی تھیں۔راجہ اس قلعہ میں موسم برسات میں آکر قیام کرتا تھا، اب یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔
قلعہ میرگڑھ
یہ قلعہ صوبہ پنجاب کے ضلع بھاول نگرکی تحصیل فورٹ عباس سے تقریباً15کلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہے۔جام خان کے بیٹے نور محمد خان نے1799ء میں اس قلعہ کی تعمیر شروع کی تھی اور1803ء میں اس قلعہ کو مکمل کیا۔ اس قلعہ کا بیرونی حصہ پختہ، ایک داخلی دروازہ اور چارمینارتھے۔ داخلی دروازے کے دو حصے تھے، بیرونی دروازے پر لوہے کی سلاخیں منڈھی ہوئی تھیں، پھر اندر ڈیوڑھی تھی اس کے بعد اندر کا دروازہ تھا۔قلعہ کے صحن میں رہائشی مکانات تھے، صحن میں دو میٹھے پانی کے کنویں تھے جو اب خشک ہوکر بھر گئے ہیں۔اس وقت قلعہ کی فصیل بالکل شکستہ حالت میں ہے۔ اندر کے مکانات مٹی کا ڈھیر بن گئے ہیں۔اس قلعے کی اونچی دیواریں مٹی سے بنی ہوئی ہیں۔یہ قلعہ بہت ہی خستہ حالت میں ہے اور محکمہ آثارقدیمہ کی توجہ کا طلب گار ہے۔اگراس قیمتی ورثہ کی حفاظت نہ کی گئی تو بہت جلد یہ روئے زمین سے اپنا نقش مٹا دے گا۔
قلعہ خیر گڑھ
یہ قلعہ اختیار خان کے بیٹے حاجی خان نے1775ء میں تعمیر کرایا تھا اور اس کا نام قلعہ خیر گڑھ رکھا۔یہ قلعہ دفاعی وجوہات کی بناء پر تعمیر ہوا تھا۔تمام قلعہ کچی اینٹوں سے بناہوا تھا۔اس قلعہ کے اندر ایک پکا تالاب اور صحن میں رہائشی مکانات تھے، ان میں کچھ پکے بھی تھے۔ قلعہ کی فصیل کے کچھ حصے پکے تھے۔داخلی پختہ دروازہ تھا،جس کے اوپر رہائشی حصہ تھا۔ یہ قلعہ گول شکل میں ہے اور چاروں طرف سے 170فٹ تک اندر کی طرف پھیلا ہوا ہے۔جس کے چاروں طرف آٹھ پہلو برج ہیں۔ یہ قلعہ دراوڑقلعے سے تقریباََ 64کلومیٹر کی دوری پرواقع ہے۔یہ قلعہ امتدادزمانہ کے علاوہ پانی کی کمی کی وجہ سے ویران ہوا۔پھر آہستہ آہستہ مرمت نہ ہونے کی وجہ سے منہدم ہوگیا اور اب صرف ایک ڈھیر سے زیادہ نہیں ہے۔
قلعہ بہاول گڑھ
نواب محمدبہاول خان دوم اٹھارویں صدی کے آخر میں جب حکمران بنے تو انہوں نے ریاست بیکانیر کی سرحد پر دفاعی لحاظ سے مسافرانوالہ کے مقام پر ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا۔بہاول پور گزیٹر1904ء کے مطابق یہ قلعہ1791ء میں تعمیر کرایا تھا۔ اس قلعہ کے قریب ایک باغ دس بیگھ زمین میں لگایا گیا۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ چولستان کے اس باغ میں کس قسم کے پودے لگائے گئے اور ان کے لیے پانی کا کیا انتظام کیاگیا تھا۔ نواب دوم کے زمانے میں پہلے یہ جگہ دفاعی چوکی تھی، پھر یہ قلعہ تعمیر ہوا۔یہ قلعہ انیسویں صدی کے آخری ایام تک منہدم ہوچکا تھا اور اس کا ملبہ کسی دوسری جگہ لے جایا گیا۔1870ء میں جب یہ قلعہ مسمار کیاگیا تو اس میں ہزاروں کی تعداد میں بڑے بڑے توپ کے گولے برآمد ہوئے۔غالباً یہ وہ ذخیرہ تھا جو اس قلعہ میں دفاعی اہمیت کے پیش نظر جمع کیا گیا تھا۔ اب یہاں سوائے مٹی کی ڈھیریوں کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔

قلعہ سردار گڑھ
نواب مبارک خان نے1763ء میں ولہر کا علاقہ ریاست بیکانیر سے پٹہ پرلیا اور ولہر کے قلعہ کے کھنڈرات پر ایک قلعہ کی تعمیر شروع کردی۔ بیکانیر کے راجہ سنگھ نے ان کو منع کیا، جب نواب صاحب نے انکار کردیا تو ایک آفیسر بنام سردار مول چند برہیلا کو بھیج کر ولہر کو واپس لے لیا۔ نواب صاحب نے خیر محمد خان مہروخان پرجانی اور اکرم خان اربانی کو ایک فوج لے کربھیجا۔ جنگ ہوئی بیکانیر والے بھاگ گئے تھے اورولہر کا قلعہ نواب صاحب کے پاس مستقل آگیا۔نواب مبارک خان نے اس قلعہ کا نام سردار گڑھ رکھا اور اپنی ریاست میں شامل کرلیا۔یہاں ایک کنواں کھدوایا پھر دوسرا مگر دونوں کا پانی کھارا نکلا۔یہ قلعہ بیکانیر سرحد سے صرف ڈھائی میل کے فاصلے پر ہے۔1866ء میں یہاں تین توپیں نصب تھیں، جن میں ایک پیتل کی تختی پر لکھا تھا:”مہراجہ دھیرج،مہراجہ سری زور اور سنگ میو،سمبت1797۔“اس کتبے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ توپ بیکا نیر کی تھی،یہ توپ بعدمیں بہاول پور لائی گئی تھی۔
قلعہ مچھکی
یہ قلعہ لال خان صوبہ دار نے1777ء میں ایک قدیم ٹیلے پر تعمیر کرایاتھا۔لال خان صوبہ دار،اختیار خان مندھانی کا بڑا بیٹا تھا۔یہ اختیار خان وہ تھا جس نے گڑھی اختیار خان آبادکی تھی۔اس قلعہ قدیم کے اندورنی و بیرونی حصے سب کچے تھے۔ یہ قلعہ دراوڑسے تقریباً تیس میل کے فاصلے پر بہ سمت مشرق واقع تھا۔ مگر جلد ہی پانی کی کم یابی کی وجہ سے منہدم ہوگیا اب یہاں سوائے مٹی کی ڈھیروں کے کچھ بھی نہیں ہے۔
قلعہ قائم پور
یہ قلعہ خیرپور ٹامے والی سے دس میل شمال کی جانب واقع ہے۔ اس کو قائم خان عربانی نے1747ء میں آباد کیا تھا۔ اس زمانے میں دریائے ستلج کااس جانب رخ نہ تھا، بلکہ قائم پور کے ساتھ شمالی جانب تھا۔ جب یہ آباد ہوا تو اس کا نام گوٹھ قائم خان تھا، جہاں اس وقت شہر آباد ہے۔ اس کے مشرقی سمت ایک قلعہ تعمیر کرایا گیا تھا۔ اس قلعہ کی فصیل پختہ اور بلند تھی، دمدمے بہت مضبوط تھے۔ چاروں جانب اونچے برج تھے، جہاں سپاہی پہرہ دیتے تھے۔ یہ شہر کسی زمانے میں ریاست بہاول پور کا اہم مقام تھا۔ اب قلعہ منہدم ہو چکا ہے اور مختصر آثار باقی رہ گئے تھے۔
قلعہ مرید والا
اختیار خان کے دوسرے بیٹے حاجی خان نے 1777ء میں ایک قلعہ مرید والا کے مقام پر تعمیر کرایا تھا۔ یہ قلعہ بھی قلعہ دراوڑ سے چولستان میں بہ سمت جنوب25میل کے فاصلے پر آباد تھا۔ یہ قلعہ تمام تر کچی مٹی کا بناہوا تھا۔کہا جاتا ہے کہ یہ قلعہ زیادہ عرصہ آباد نہ رہ سکا اور 1805ء میں دریائے ہاکڑہ میں سیلاب آیا تو سیلاب میں گر گیا اور جلد ہی بالکل نابود ہوگیا۔یہاں پر اب سوائے مٹی کے ڈھیریوں کے کچھ نظر نہیں آتا۔
قلعہ دراوڑ
یہ انتہائی قدیم قلعہ ہے،جو دریائے ہاکڑہ کے مغربی کنارے پر آباد تھا۔اس قلعے کی تعمیر کے بارے میں مورئخین میں اختلاف ہے۔کچھ کا خیال ہے کہ اسے نویں صدی میں یہاں کے ایک راجپوت حکم ران ’رائے ججا‘ نے تعمیر کرایا جبکہ دیگر مؤرخین کا خیال ہے کہ اسے ریاست بہاول پور اور جیسلمیر کے خود مختار راجپوت حکم ران ’راول دیو راج بھاٹی‘نے تعمیر کرایا۔یہی وجہ تھی کہ اسے پہلے’دیوراول‘ کہاجاتا تھا جو بعد میں دراوڑ ہو گیا۔1733ء میں بہاولپور نے نواب’محمد خان اول‘ نے ’راول دیوراج بھاٹی‘کے جاں نشین’رائے راول سنگھ‘ کو شکست دے کر قلعے پر قبضہ کرلیا۔1747ء میں راول سنگھ نے قلعہ دوبارہ حاصل کرلیا۔1808ء میں نواب بہاولپور نے ایک بار پھر اس قلعے پر حملہ کرکے اسے حاصل کرلیا۔جو تاحال انہی کے خاندان کی ملکیت ہے۔
رائے راول سنگھ کا شجرہ پچیس پشتیں اوپر راجہ راول دیو راج بھاٹی،یعنی اس قلعہ کے بانی تک پہنچتا ہے۔ قلعہ دراوڑ کے نزدیک یہاں ریت کے زبردست ٹیلے تھے، نواب محمد بہاول خان سوم نے1825ء میں عالی شان مسجد تعمیر کرائی۔ یہ مسجد دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، مگر ویران رہتی ہے۔ دراصل اس جگہ ایک چھوٹی سی مسجد تھی جو غالباً پہلی صدی ہجری میں آنے والے مسلمان صحابیوں یا تاجریا کسی بزرگ نے بنوائی ہوگی۔ ممکن ہے کہ ان میں سے کوئی صحابہ کرام یا تابین کرام بھی ہوں۔ اس کے قریب ہی نواب خاندان کا شاہی قبرستان ہے،جہاں پہلے نواب صاحب کے علاوہ باقی تمام حکمران دفن ہیں۔
قلعہ چانڈہ کھانڈہ
قدیم زمانے میں یہ قلعہ دراوڑ سے دو میل کے فاصلے پر ایک ٹیلے پر آباد تھا۔تاریخ سے صرف یہ معلوم ہو تا ہے کہ یہ قلعہ سکندر اعظم کے حملے کے وقت موجود تھا۔سندھ جاتے ہوئے سکندراعظم نے چانڈہ کھانڈہ کے مقام پر اس زمانے میں دریا سند ھ یا دریائے ہاکڑہ کی مشہور بندر گاہ تھی میں قیام کیا اور یہیں سے دریا عبور کیا تھا۔ کرنل ٹاڈ نے وقائع بیکا نیر پر لکھا ہے کہ سکندر سندھ جاتے وقت دراوڑ کے قریب ایک ایسے مقام پر پہنچا جو بھٹیز سے25میل جنوب میں تھا۔یہ بھٹیز اس وقت دھا وندوسر بھی کہلاتا تھا۔ یہاں ایک محل بنام رنگ محل تھا، جہا ں حکمران رہتا تھا۔ اب اس قلعہ کے کھنڈرات بھی موجود نہیں ہیں۔قیاس ہے کہ اس قلعہ کے ملبہ اور مصالحہ سے قلعہ دراوڑ کی تعمیر اور مرمتیں ہوتی رہیں۔
قلعہ خان گڑھ
یہ قلعہ نواب محمد بہاول خان دوم نے 1783ء میں تعمیر کروایاتھا۔ یہ قلعہ نصف دائرے کی شکل میں تعمیر کیا گیا ہے۔ جس کے ہرکونے میں چبوترے ہیں اور مشرق والی سمت میں داخلی دروازہ ہے۔ہر طرف سے یہ قلعہ 128فٹ تک پھیلا ہوا ہے۔یہ قلعہ کچی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا تھا،مگر فصیل کے کچھ حصے اور اس کا داخلی دروازہ پختہ تھا۔ اس کے میناروں اور برجیوں میں بھی عمدہ مصالحہ اور پختہ بڑی سائز کی اینٹیں استعمال کی گئی تھیں۔ اس کی دیواریں مٹی کی اینٹوں کی بنی ہوئی ہیں جو کہ کافی حد تک گر چکی ہیں۔ یہ قلعہ دڑاورقلعہ سے 70کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس قلعہ کی تمام دیواریں اور فصیل وغیرہ مسمار ہوچکی ہیں۔
قلعہ رکن پور
اس قلعہ کے آثاردین گڑھ سے32میل کے فاصلے پر مغرب کی جانب موجود ہیں۔ محمد معروف خان کہرانی نے1776ء میں اس قلعہ کو تعمیر کرایا تھا۔ یہ قلعہ تمام تر مٹی سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس قلعہ کے اندر رہائشی مکانات تھے۔مکانات اور میناروں کے اب آثار رہ گئے ہیں۔یہ قلعہ غوث پور بھی کہلاتا ہے۔
قلعہ کنڈیرا
قدیم ٹیلے پر1746ء میں بھکر خان جانی کے بیٹے فضل خان پیر جانی نے موجودہ منٹھار تحصیل صادق آباد سے تھوڑے فاصلے پر یہ قلعہ تعمیر کرایا تھا۔ اب اس قلعہ کی باقیات بھی غائب ہوگئی ہیں،صرف کھنڈرات باقی ہیں۔ اس قلعہ کی چار دیواری پختہ تھی،فصیل اور برجیوں میں پختہ اینٹیں استعمال کی گئی تھیں۔ اس کے چار بڑے بلند مینار تھے، فصیل کے درمیان میں ایک دروازہ تھا۔1805ء میں نواب محمد بہاول خان دوم نے س قلعہ کو سیاسی نقطہ نظر کے تحت مسمار کردیا تھا۔ اس قلعہ کے اردگرد چولستان کے مہر قبائل آباد ہیں۔اب یہاں ٹیلوں کے سوا کچھ باقی نہیں ہے۔
قلعہ سیوراہی
تحصیل صادق آبادکے قصبہ سنجر پور سے مشرقی سمت ایک میل کے فاصلے پر نہر کے کنارے قلعہ سیوراہی آباد ہے۔یہ ان چھ قلعوں میں سے ایک ہے،جو رائے سہاسی نے تعمیر کرائے تھے۔ رائے سہاسی کا عہدچھٹی صدی عیسوی کا ہے۔ اس کی بابت صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاہ حسین ارغون نے1545ء میں اسے تباہ کردیا تھا۔جنرل کنگھم کے مطابق یہ وہی مقام تھا، جسے سکندر اعظم کے عہد کے مورخین نے سو گڈیا کو محل قرار دیا تھا۔ اس قلعہ کے ڈھیروں میں کبھی کھدائی کا کام نہیں ہو ا۔اس کے باوجود متعددبار یہاں بڑے بڑے توپ کے گولے برآمد ہوئے ہیں۔
قلعہ صاحب گڑھ
یہ قلعہ1777 ء میں فضل علی خان ہلانی نے تعمیر کرایا تھا۔ فضل علی خان ہلانی رحیم یار خان کا بانی تھا۔ اس قلعہ کے درودیوار کچی مٹی کے بنے ہوئے تھے، مگر بیرونی دیواروں کے ساتھ پختہ اینٹیں لگائی گئی تھیں۔ اس قلعہ کو نواب بہاول خان دوم نے جو فضل علی خان ہلانی کے داماد تھے 1805ء میں قلعہ مسمار کرادیا تھا۔قلعہ کے اندر کوڑے خان ولد خدایار خان کی رہائش تھی، وہ بھی مسمار کرادی گئی۔ قلعہ کے باہرایک تالاب میں بارش کا پانی جمع ہوتا تھا،جو انسانوں اور جانوروں کے کام آتا تھا۔یہ قلعہ صاحب گڑھ کے کھنڈرات راحیم یار خان سے67 میل کے فاصلے پر جنوب میں چولستان میں موجود ہے۔
قلعہ ونجھروٹ
اس قلعہ کو راجہ ونجھہ یا بجا بھاٹیا نے 757ء میں تعمیر کروایاتھا۔1178ء میں اس قلعہ کو شہاب الدین غوری نے مسمار کرادیا تھا۔یہ قلعہ مدتوں تک کھنڈرات کی حالت میں پڑا رہا پھر1757ء میں موریا داد پوترہ نے اس کی ازسر نوتعمیر کرائی۔1759ء میں علی مراد خان نے یہ قلعہ لے کر مرمت کرائی۔ دوسوسال تک یہ قلعہ مرمت کے بغیر پڑا رہا۔ آخر کار منہدم ہوکر تباہ ہوگیا، اب یہ قلعہ اب کھنڈرات کی صورت میں موجود ہے، مگر پھر بھی یہ اپنی شاندار حالت کو بیان کرتا ہے۔یہ قلعہ نواں کوٹ قلعہ سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس قلعہ کو بنانے میں چونے کا پتھر استعمال ہوا ہے، جو مقامی طور پر پایا جاتا ہے۔یہ قلعہ گول صورت میں ہے، جو چاروں طرف 300فٹ تک پھیلا ہوا ہے۔شمال کی طرف 11 فٹ چوڑا داخلی دروازہ ہے، جس پر 3کمرے بنے ہوئے ہیں۔اس کی دیواریں 21فٹ تک بلند ہیں۔بہاولپور سے اس کا فاصلہ 163 کلومیٹر ہے۔

قلعہ دھویں
یہ قلعہ دراوڑ سے چولستان میں 32میل کے فاصلہ پر تعمیر کیا گیا تھا۔یہ ایک دفاعی قلعہ تھا،جو کبیر خان اچرانی کے بیٹے فاضل خان نے1776ء میں تعمیر کرایا تھا۔ یہ قلعہ بالکل کچی مٹی کا تھا، اس قلعہ کی فصیل کچی دھوڑ کی بنائی گئی تھی،تاکہ مورچوں کے گولوں سے فصیل برباد نہ ہوسکے۔انیسویں صدی کے شروع میں یہ قلعہ منہدم ہوچکا تھا،اب اس قلعہ کے آثار بھی موجود نہیں رہے۔
قلعہ دین گڑھ
کسی زمانہ میں یہ مقام ترہاڑ کہلاتا تھا،اب دین گڑھ کہلاتا ہے۔یہ قلعہ بہادر خان ہلانی نے 1757ء میں تعمیر کرایا تھا۔یہ قلعہ صاد ق آباد تحصیل میں چولستان کی جانب23میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ اس قلعہ کوپتن منارا سے راستہ جاتا تھا۔ دراصل جیسلمیر کے ایک ہندو راجہ للو نے اس مقام پرقلعہ ترہاڑ بنایا تھا۔ دوسری روائت کے بموجب محمد معروف خان کہرانی کے بیٹے ابراہیم خان نے1765ء میں اس کی تعمیر شروع کرائی اور اس کے چچا زاد خدا بخش ولد نورمحمد خان نے اس کو مکمل کریا۔ داخلی دروازے کے اوپر لکڑی پر کلمہ طیبہ کے علاوہ کچھ اور بھی تحریر کیا تھا۔ قلعہ کی فصیل اورمکانات سب منہدم ہو چکے ہیں۔ اس کی بلند فصیل کے کچھ حصے عمر رفتہ کو آواز دیتے رہتے ہیں۔
قلعہ اوچ
یہ علاقہ قبل از مسیح میں بھی آباد تھا اوریہاں راجہ ہود حکومت کرتا تھا۔جس کے نام پر یہ جگہ مشہور ہوئی،پھر بگڑ کر یہ جگہ ہوچ کہلانے لگی اور اب اوچ کہلاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ شہر77ء میں تباہ ہوگیاتھا۔ سکندر نے اپنے حملوں کے دوران اس کو فتح کیا تھا۔چچ نامہ میں ہنری ایلیٹ کے مطابق اس کا نام اسکلندہ تھا۔ سکندر کے وقت سے لے کرانگریزوں کے اس ملک میں قدم رکھنے تک، کوئی نہ کوئی بادشاہ یہاں حملہ کرتا رہا اور اس شہر کو تباہ کرتا رہا۔ اوچ کے مخدوم محمد حامد گنج بخش سے نواب صاحب کی ان بن ہوگئی اور انہوں نے بغاوت کردی۔نواب محمد بہاول خان دوم نے1804ء میں مخدوم محمدحامد کو گرفتار کرلیا اور اوچ فتح ہوگیا اور قدیمی قلعہ مسمار کردیا گیا۔اب یہاں سوائے ٹیلہ کے کچھ باقی نہیں ہے۔
قلعہ تاج گڑھ
قلعہ تاج گڑھ،رحیم یار خان سے 4 میل کے فاصلہ پر واقع تھا۔کسی زمانے میں اس کا نام ہرار تھا۔دسویں صدی ہجری میں یہاں رانی ہران حکومت کرتی تھی،جو جیسلمیر کے راجہ کی بیٹی تھی۔اس نے اپنے نام پر اس قلعہ کی تعمیر کرائی تھی۔ ایک مسلمان بزرگ سعید احمد بلوری نے رانی کو مسلمان کیا۔ قلعہ تاج گڑھ جو قدیمی ہرار تھا، مدت تک سمرا خاندان کے راجاؤں کے قبضہ میں رہا۔پھر جیسلمیر کے راجاؤں کے قبضہ میں آگیا۔ پھر بھاٹیہ خاندان اس میں رہایش پذیر رہے۔18ویں صدی عیسویں کے آخرمیں فصل علی نے اس قلعہ کو مسمار کرادیا اور1780ء میں اپنے بھائی تاج محمد خان کے نام پر اس مقام کا نام تاج گڑھ رکھ دیا۔ حالاں کہ تاج گڑھ دراصل داؤدپوتروں نے بنایا اور بسایا تھا۔ مگر گزیٹر بہاولپور1904ء کے مطابق یہاں اب کوئی پوترہ نہیں رہتاہے۔
قلعہ اسلام گڑھ
یہ قلعہ راول بھیم سنگھ نے 1665ء میں تعمیر کروایا۔یہ قلعہ چولستان میں صوبہ پنجاب کے ضلع رحیم یارخاں کی تحصیل خانپور میں واقع ہے۔یہ قلعہ بعلافورٹس سے 46کلومیٹر اور رحیم یار خان سے تقریباََ َ91کلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہے۔یہ قلعہ انڈیا کے بارڈر کے بالکل قریب واقع ہے۔جس کے دوسری طرف بھارتی شہر “کشن گڑھ”ہے۔اس قلعے سے قلعہ دراورڑ تقریباََ 170کلومیٹردور ہے۔یہ قلعہ پہلے بھنور قلعے کے نام سے جانا جاتا تھا۔1766ء میں اختیار خان مندھانی جو گڑی اختیار کا سردار تھا، اس قلعہ پر قابض ہوگیا۔یہ قلعہ بھاگلہ کے مقام سے28میل کے فاصلے پر موجود ہے۔ اختیار خان مندھانی نے قلعہ پر قبضہ کرنے کے بعد قلعہ کا نام بھیم در سے تبدیل کرکے اسلام گڑھ رکھ دیا۔دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قلعہ کسی زمانے میں واقعی بہت پر شکوہ ہوگا۔ اس کے اوپر کے برج جو اب شکستہ ہوچکے ہیں،کبھی ان برجوں میں محافظ پہرہ دیا کرتے تھے۔ قلعہ کے اندر پختہ کنواں تھا،قلعہ کے اندر ایک مسجد بھی تھی،جو اختیار خان نے قبضہ کرلینے کے بعد تعمیر کرائی تھی۔ قلعہ کے باہر شمال میں منگوال ڈھیڈ نامی بستی ہے اور ویران کھنڈرات ہیں۔ اب رحیم یار خان سے پختہ سڑک باغ و بہار سے ہوتی ہوئی بھاگلہ تک جاتی ہے، آگے تھوڑی دور قلعہ واقعہ ہے۔
قلعہ مؤ مبارک
رحیم یارخان سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر مؤ مبارک کا قدیم قلعہ موجود ہے۔ شمال مغرب میں اب بھی کئی جگہ پر فصیل کے حصے نمایا ں نظر آتے ہیں اور پچاس ساٹھ فٹ مٹی کے ڈھیر کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔یہ قلعہ راجہ ساہنس نے اپنی ماں کی رہائش کے لیے بنوایا تھا۔اس عہد کوحضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہم عصر خیال کیا جاتا ہے۔ اس نے اپنی ماں کے نام پر اس جگہ کا نام ماؤ رکھا تھا۔ کبھی قلعہ کے بیس برج تھے اور چار دمدمے تھے،فصیل پختہ اور مضبوط تھی۔ مدتوں بعد اسہی خاندان کے ایک راجہ کیلاش نے اس کو مرمت کرایا تھا۔سلطان محمود غزنوی نے اپنے حملوں کے دوران اس قلعہ کو فتح کیااور اس کو مرمت کرایا تھا۔1569ء میں سلطان حسین ارغون نے پھر اس قلعہ کو فتح کرلیا۔چھٹی صدی ہجری میں حضرت شیخ حمید الدین حاکم ؒ جو حضرت شاہ رکن عالم ؒ کے خلیفہ خاص تھے۔ اس جگہ کو اپنی رہائش کیلئے منتخب کرلیا اور یہاں کے ہزاروں خاندانوں کو مسلمان کیا۔انتقال کے بعد آپ کے جسد خاکی کو یہیں سپرد کردیا گیا۔
قلعہ لیارا
1780ء میں اس قلعہ کی تعمیر سبزل نے کرائی تھی۔یہ وہی خان تھے جنہوں نے کوٹ سبزل نام کا شہر موجودہ صادق آباد بسایا تھا۔ ایک اور روایت کے مطابق اس قلعہ کی تعمیر سبزل خان کہرانی نے 1756ء میں کرائی تھی۔ اس قلعہ کی باقیات کوٹ سبزل سے چولستان کی جانب24 میل کے فاصلے پر موجود ہیں۔یہ قلہ بنیادی طور پر کچا تھا اور فصیل کے کچھ حصے اور قلعہ کادروازہ پختہ اینٹوں سے بنائے گئے تھے۔ یہ قلعہ ایک قدیم ٹیلہ پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کے با وجود 1809ء میں دریائے سندھ یا دریائے ہاکڑہ کے سیلاب میں یہ بری طرح متاثر ہوا اور آہستہ آہستہ مسمار ہوتا چلا گیا۔
قلعہ نواں کوٹ
نواں کوٹ قلعہ آج بھی کافی حد تک اپنی اصلی حالت میں قائم ہے۔یہ قلعہ دراوڑ فورٹ سے 45کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ بھی مٹی کی بنی اینٹوں کا بنا ہوا ہے۔اس کا کل رقبہ برجوں کے اندر تک 156فٹ تک ہے۔اس کاداخلی دروازہ 10فٹ چوڑا ہے جس کے ساتھ ایک گارڈز کا کمرہ بنا ہوا ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top