خرگوش والا کسان
مصنف: شوقی حسن
ترجمہ: محمد فیصل علی
۔۔۔۔۔
ایک کسان نے ایک خرگوش پکڑا اور جحا کے دروازے پہ جا پہنچا۔اس نے دستک دی،تھوڑی دیر بعد جحا نمودار ہوا اور علیک سلیک کے بعد بولا:
”میاں، یہ خرگوش کس لیے لائے ہو؟“
کسان خوشامدانہ ہنسی ہنسا اور بولا:
”میں آپ کو بہت پسند کرتا ہوں اس لیے یہ خرگوش آپ کے لیے بطور تحفہ لایا ہوں، قبول کیجیے۔“
جحا اپنی تعریف سن کر پھول گیا اور کسان کو اپنے ساتھ ناشتہ کرنے کی دعوت دی جسے کسان نے فوراً قبول کر لیا۔ناشتے کے بعد کسان چلا گیا۔کچھ دنوں بعد جحا بازار سے گزر رہا تھاکہ وہی کسان آ پہنچا، جحا اسے پہچان نہ سکا تو پوچھا:
”آپ کون؟“
”میں خرگوش والا کسان۔“کسان چہکا۔
جحا نے اسے بٹھایا اور میزبانی کی۔کھانا کھا کر وہ شخص چلتا بنا۔اگلے ہفتے صبح سویرے جحا کا دروازہ بجایا گیا۔جحا نے دروازہ کھولا تو سامنے چار کسان کھڑے تھے، جحا کے پوچھنے سے قبل ہی وہ بولے:
”ہم خرگوش والے کسان کے پڑوسی ہیں۔“
جحا سر پکڑ کر رہ گیا۔اس نے انہیں اندر بلایا اور کھلایا پلایا۔ کھا پی کر انہوں نے اپنی راہ لی۔جحا کو یقین تھا کہ خرگوش والے مزید مہمان بھی ضرور آئیں گے اور اب وہ ان کا بندوبست بھی سوچ چکا تھا۔ اگلے روز آٹھ کسان آ پہنچے۔خرگوش والا کسان پیش پیش تھا۔جحا نے انہیں بٹھایا اور خود ان کے لیے کھانا بنانے لگا۔اس نے ایک بڑے برتن میں بہت سارا پانی ڈال کر اسے ابال لیا اور وہی گرم پانی مہمانوں کو پیش کیا۔پانی چکھتے ہی مہمان برہم ہوتے ہوئے چیخے:
”یہ تو خالی پانی ہے جحا۔“
جحا ہنسا اور کہا:
”صاحبو یہ تو خرگوش کا شوربہ ہے، ظاہر ہے اب خالی شوربہ ہی بچا ہے پیو اور مزے کرو۔“
جحا مسکراتا جا رہا تھا کسان جبکہ اس کو تکے جا رہے تھے۔