اوز کا جادوگر
ناول: The Wizard of Oz
تحریر: Lyman Frank Baum
مترجم: حسن اختر
۔۔۔۔۔
کردار:
ڈروتھی: ایک پیاری سی امریکی بچی
چچی ایم: ڈروتھی کی چچی
چچا ہنری: ڈروتھی کے چچا
ٹوٹو: ڈروتھی کا پالتو کتا
پُتلا: کھیتوں میں لگا گھاس پھوس کا پتلا
قلعی کا آدمی: ٹین کا بنا ہوالکڑہارا
شیر: ایک بزدل شیر
اوز کا جادوگر: ایک عظیم جادوگر
مغرب کی چڑیل: ایک ظالم چڑیل
گلنڈا: کوارڈلنگ کی رحم دل پری
باب:۱
طوفان
ڈروتھی اپنے چچا ہنری اور چچی ایم کے ساتھ ریاست کنساس میں رہائش پذیر تھی۔ یہ لوگ عظیم کنساس کے وسط میں واقع ایک سبزہ زار میں لکڑی کے ایک گھر میں رہتے تھے۔ درختوں سے خالی اس قطعہئ اراضی پر قرب و جوار میں کوئی اور گھر نہیں تھا۔
ہنری انکل پیشے کے اعتبار سے کسان تھے اور سالوں پہلے لکڑی کا یہ گھر انہوں نے خود تعمیر کیا تھا۔ فقط ایک کمرے کے اس گھر میں کھانے اور سونے کے الگ کمرے نہیں تھے۔ گھر کے واحد کمرے میں فرش کے نیچے ایک تہہ خانہ موجود تھا جسے طوفان سے بچنے کیلئے بطور پناہ گاہ استعمال کیا جاتا تھا۔ جب کبھی تیز طوفانی ہوائیں سبزہ زار کو اپنی لپیٹ میں لے لیتیں تو یہ خاندان اس تہہ خانے میں گھس جاتا تھا۔
سورج کی تپش سے لکڑی کے اس گھر کا رنگ و روغن جھلس کر سرمئی ہو چکا تھا۔ سبزہ زار کے اوپر موجود ہر چیز سرمئی رنگ میں ڈھل گئی تھی، حتیٰ کہ ہنری انکل اور ایم آنٹی کے بال اور تھکن سے چور چہروں کا رنگ بھی سرمئی ہو چکا تھا۔
ڈروتھی کے انکل ہنری اور آنٹی ایم بہت غریب تھے اور ان کی تمام عمر مشقت میں گزر گئی تھی۔ اس سبزہ زار پر کسان کی زندگی آسان نہ تھی۔ ہنری انکل اور ایم آنٹی کے چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں رہتے تھے۔ مسکراہٹ ان کے چہروں سے روٹھ چکی تھی۔ تاہم ڈروتھی ہمیشہ سے ہنس مکھ تھی۔ اس نے ٹوٹو نامی کالے رنگ کا ایک کتا پال رکھا تھا۔ڈروتھی سارا سارا دن ٹوٹو کے ساتھ کھیلتی رہتی تھی۔
لیکن خلاف معمول ڈروتھی اور ٹوٹو آج نہیں کھیل رہے تھے۔ ہنری انکل اور ڈروتھی گھر کے دروازے پر کھڑے بات چیت میں مصروف تھے۔ ان کی نظریں پریشانی کے عالم میں سرمئی آسمان پر جمی ہوئی تھیں۔ انہوں نے طاقت ور طوفان کی آواز سُنی جو جنوب کی سمت سے آ رہا تھا۔ طوفان کی آواز سیٹی اور چنگھاڑ کی سی تھی۔ اس نے سبزہ زار کی طویل گھاس کو اپنی لپیٹ میں لے کر زمیں بوس کر دیا تھا۔
”طوفان آ رہا ہے ایم……!“ہنری انکل نے اپنی بیوی کو آواز دی۔”ڈروتھی! تم بھی تہہ خانے میں چلی جاؤ۔ میں گائے گھوڑوں کی دیکھ بھال کر لوں گا۔“
”جلدی کرو ڈروتھی!“آنٹی نے تہہ خانے کا دروازہ کھولتے ہوئے چیخ کر کہا۔ ایم آنٹی تہہ خانے کے چھوٹے سے دروازے کے ذریعے نیچے اتر گئیں۔ڈروتھی نے ٹوٹو کے ساتھ گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔لیکن چھوٹا کتا ہوا سے خوف زدہ ہو گیا تھا۔ اس نے ڈروتھی کے بازوؤں سے نیچے چھلانگ لگائی اور اس کے بیڈ کے نیچے چھپ گیا۔ ڈروتھی نے جلدی سے اسے پکڑا اور واپس کمرے کی طرف بھاگی لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ طوفانی ہوا گھر کے اندر داخل ہو چکی تھی اور تہہ خانے کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔ ہوا تیز سے تیز تر ہو رہی تھی۔ چھوٹا سا گھر لرز رہا تھا اور ڈروتھی فرش پر گر گئی تھی۔
پھر ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ ہنری انکل اور ایم آنٹی کا گھر ہوا میں چکر کھانے لگا تھا۔ وہ گول دائرے میں گھوم رہا تھا اور اوپر اٹھنے لگا تھا۔ گھر طوفان کے مرکز میں تھا،بالکل اس جگہ جہاں جنوبی اور شمالی ہوائیں ملتی ہیں۔ ہوا اسے ایک غبارے یا پتنگ کی طرح مسلسل اوپر کی طرف اڑا کر لے جا رہی تھی۔ چھوٹا سا گھر سبزہ زار کے اوپر میلوں کی بلندی پر پہنچ چکا تھا۔ کئی گھنٹے گزر چکے تھے۔ اندھیرا چھا چکا تھا اور چنگھاڑتی ہوئی ہوا کی آواز نے ماحول کو مزید خوف ناک بنا دیا تھا۔ بالآخر ڈروتھی، ٹوٹو کو پہلو میں لے کر اپنے بیڈ پر لیٹ گئی۔ جیسے ہی لڑکی نے آنکھیں بند کیں وہ گہری نیند کی آغوش میں چلی گئی تھی۔
کئی گھنٹوں بعد ایک سخت آواز ڈروتھی کے کانوں سے ٹکرائی اور اس کی آنکھ کھل گئی۔ سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔ گھر نے گھومنا چھوڑ دیا تھا اور سورج کی تیز روشنی چھن چھن کر دروازے سے اندر داخل ہو رہی تھی۔
باب:۲
بونوں کے دیس میں
ڈروتھی نے بستر سے چھلانگ لگائی اور دروازے کی طرف لپکی۔ جب اس نے دروازہ کھولا تو حیرت کے مارے اس کی چیخ نکل گئی تھی۔ سُرمئی سبزہ زار کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ ڈروتھی کا گھر سرسبز گھاس اور طویل قامت درختوں کے درمیان موجود تھا۔ رنگا رنگ پھول اور خوش ذائقہ پھلوں سے لدے درخت نظر آرہے تھے۔ پرندے سریلے گیت گا رہے تھے اور قریب ہی صاف شفاف پانی کی ایک ندی بہ رہی تھی۔
”اوہ یہ ملک کنساس سے کتنا مختلف ہے؟“ ڈروتھی کی چیخ نکل گئی۔”میں نے کبھی اس قدر خوب صورت ملک نہیں دیکھا؟ اور میں یہاں تک پہنچی کیسے ہوں؟“
ڈروتھی نے اسی لمحے کچھ لوگوں کو دیکھا جو اس کی طرف آ رہے تھے۔یہ لوگ پستہ قد ضرور تھے لیکن بچے ہر گز نہ تھے۔ بونے معلوم ہوتے تھے۔ سفید داڑھیوں والے تین مرد اور سفید بالوں والی ایک عورت تھی۔
وہ سب عجیب و غریب لباس میں ملبوس تھے۔ سروں پر نیلے رنگ کے لمبے ہیٹ رکھے ہوئے تھے۔ تمام مردبونوں کا لباس نیلا اور بونی عورت کے کپڑے سفید رنگ کے تھے۔ وہ ڈروتھی کی طرف چل کر آئی اور جھک کر بولی۔”بونوں کی سرزمین پر خوش آمدید۔ مشرق کی ظالم ڈائن کو جان سے مارنے پر ہم تمہارے شکر گزار ہیں۔ یقیناً تم کوئی نیک چڑیل ہو۔ مشرق کی ظالم ڈائن نے بونوں کو غلام بنا رکھا تھا۔ تم نے اپنے جادو کے ذریعے ظالم ڈائن سے ہمیں رہائی دلا دی ہے۔ ہم سب تمہارا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں۔“
ڈروتھی حیرت سے چونک گئی تھی۔ وہ نہ جادو کا علم جانتی تھی اور نہ ہی اس نے زندگی میں کسی کو قتل کیا تھا۔
”ضرور تم لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں چڑیل نہیں بلکہ ایک لڑکی ہوں۔ آج تک میں نے کسی کو جان سے نہیں مارا ہے۔“ ڈروتھی نے جواب دیا۔
”اچھا اچھا! بات ایک ہی ہے تم نے نہیں مارا لیکن تمہارے لکڑی کے گھر کے نیچے آنے سے مشرق کی چڑیل کی ہلاکت ہوئی ہے۔ وہ دیکھو اس کی کچلی ہوئی ٹانگیں مکان کے نیچے پھنسی ہوئی نظر آرہی ہیں اور اس کے پاؤں میں چاندی کے جوتے نظر آرہے ہیں۔“ پستہ قد عورت نے مسکرا کر جواب دیا۔
”اوہ پیاری دوست! یہ سب کچھ میرے لیے حیران کن ہے۔“ ڈروتھی نے مردہ چڑیل کے پیروں پر نظر ڈالی اور کہا۔
”تم ڈرو نہیں کچھ بھی نہیں ہوگا۔ مشرق کی ظالم ڈائن مر چکی ہے۔ میں شمال کی اچھی چڑیل اور بونوں کی دوست ہوں۔آج سے تم بھی ہماری دوست بن کر ہمیشہ کیلیے ہمارے ساتھ رہو گی۔“
”میرا یہ خیال تھا کہ تمام چڑیلیں بری ہوتی ہیں۔“ ڈروتھی حیران کن لہجے میں آہستہ سے بولی۔
”یہ بات صحیح نہیں ہے۔“شمال کی اچھی چڑیل نے جواب دیا۔”اوز کی سرزمین پر چار چڑیلیں رہتی تھیں جن میں سے دو اچھی اور دو بری چڑیلیں تھیں۔ مشرق کی بری چڑیل کی موت کے بعد صرف مغرب کی بری چڑیل زندہ بچی ہے۔ اوز کی سرزمین پر ایک عظیم جادوگر بھی ہے جو شہر ِزمرد میں رہتا ہے جو یہاں سے بہت دور ہے۔“
”اچھا لیکن میں ایک لڑکی ہوں۔ اپنے انکل اور آنٹی کے ساتھ کنساس میں رہتی تھی۔ مجھے ان کی بہت یاد آرہی ہے۔ تم لوگ واپس کنساس جانے میں میری مدد کر سکتے ہو؟“۔ ڈروتھی نے پوچھا۔
اچھی چڑیل نے نفی میں سر ہلا کر کہا۔”اوز کے ارد گرد بیابان صحرا ہے۔ اس کو کوئی بھی عبور نہیں کر سکتا ہے۔ پیاری دوست! تمہیں ہمارے ساتھ ہی رہنا پڑے گا۔“
”یہ ایک خوبصورت ملک ہے تاہم کنساس میرا وطن ہے۔ ہنری انکل اور ایم آنٹی وہاں رہتے ہیں۔ وہ میرے لیے اداس ہوں گے۔ اپنا وطن ہر کسی کو جان سے پیارا ہوتا ہے۔ براہ کرم میری مدد کرو۔“ ڈروتھی نے چلا کر التجا کی۔
ڈروتھی رونے لگی اور بونوں کی سر زمین کی لڑکی نے بھی رونا شروع کر دیا۔ اس نے ڈروتھی سے اس کی مدد کیلیے معذرت کر لی تھی۔
پھر شمال کی اچھی چڑیل نے ایک لمحے کیلئے کچھ سوچا اور کہنے لگی۔”تمہیں شہر زمردجانا ہوگا۔ اوز کا عظیم جادوگر تمہاری مدد کر سکتا ہے۔“
”لیکن زمردتو بہت دور ہے۔ پرخطر راستے پر چل کر میں کیسے پہنچ پاؤں گی؟“ ڈروتھی نے بے قراری سے سوال کیا۔
”تمہیں زرد اینٹوں کے راستے پر چل کر جانا ہوگا۔ اس طویل سفر میں میرا بوسہ تمہاری مدد کرے گا۔ بوسے کے نشان کے ہوتے ہوئے کوئی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے۔“
شمال کی اچھی چڑیل نے ڈروتھی کے ماتھے کو چوما اور مسکرائی۔ بوسے کے نشان نے ڈروتھی کی پیشانی پر ایک عجیب سا نشان چھوڑا تھا۔وہ بولی۔”اب تم بحفاظت عظیم جادوگر سے ملاقات کیلئے جاسکتی ہو۔“
ڈروتھی نے رونا دھونا چھوڑ کر اچھی چڑیل کا شکریہ ادا کیا۔ اس نے ڈائن کی طرف دیکھا جو گرد و غبار میں تبدیل ہو چکی تھی۔ بونوں میں سے ایک شخص ڈروتھی سے کہنے لگا۔”پیاری لڑکی! تم اس کے چاندی کے جوتے اپنے ساتھ لے جاؤ۔ راستے میں تمہارے لیے مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔“سب نے ڈروتھی کو خدا حافظ کہا۔
بونے خوش گپیاں لگاتے ہوئے درختوں کی طرف چہل قدمی پر نکل گئے تھے۔ اچھی چڑیل بھی مسکرا کر ان کے ساتھ ہو لی تھی۔
ڈروتھی اور اس کا کتا ٹوٹو بونوں کی سرزمین پر تن تنہا کھڑے تھے۔
باب:۳
ڈروتھی کی پُتلے سے ملاقات
ڈروتھی کو شدید بھوک لگی ہوئی تھی۔ روٹی کی تلاش میں وہ گھر کے اندر گئی۔کچھ کھانا خود کھایا اور کچھ اپنے کتے ٹوٹو کو کھلا دیا۔ پھر اس نے تھوڑے سے پھل اٹھائے اور ندی سے پانی پی کر سفر کی تیاری کرنے لگی۔
نیلے اور سفید رنگ کا صاف ستھرا لباس ڈروتھی کے بستر کے پاس ہی لٹکا ہوا تھا۔ نہا دھو کر اس نے وہ لباس پہن لیا اور مزید کچھ کھانا اور پھلوں کی ٹوکری ڈروتھی نے اپنے ہمراہ لے لی تھی۔
ڈروتھی نے اپنے پاؤں پر نظر ڈالی تو اسے یوں لگا جیسے اس کے جوتے بہت پرانے ہو چکے ہیں۔ اس کو ایک خیال سوجھا اور خود سے کہنے لگی۔”مردہ ڈائن کے جوتے اگر میرے پاؤں میں پورے آ جائیں تو پہن لیتی ہوں۔“ اس نے مشرق کی ظالم چڑیل کے چاندی کے جوتے پہن لیے۔ ٹوٹو بلند آواز میں بھونکا اور دم ہلانے لگا۔
اس نے ٹوٹو سے کہا۔”تم میرے ساتھ چلو ٹوٹو! ہمیں اوز کے عظیم جادوگر سے ملنے شہر زمردجانا ہو گا۔ بونوں کا ملک بے حد خوبصورت ہے لیکن ہمیں ہر گز واپس اپنے وطن کنساس جانا ہے۔“
بہادر لڑکی ڈروتھی نے ٹوکری ہاتھ میں لی اور گھر کا دروازہ بند کردیا۔ اور وہ دونوں سفر پر روانہ ہوگئے۔ جلد ہی وہ زرد اینٹوں کی سڑک پر پہنچ گئے تھے۔ وہ خوشی خوشی سفر پر گامزن تھے۔ سڑک کی دونوں جانب کھیت تھے۔ ڈروتھی کو سب گھر نیلے رنگ کے نظر آرہے تھے۔ دراصل یہ بونوں کے ملک کا قومی رنگ تھا۔
چلتے چلتے شام کا وقت ہو گیا تھا۔ اب ڈروتھی تھکاوٹ سے چور ہو چکی تھی۔ وہ کہیں آرام کرنا چاہتی تھی۔ اچانک اسے بونوں کی ایک بڑی حویلی نظر آئی۔ بونوں کے دیگر گھروں کی طرح اس حویلی کا نیلا رنگ تعجب کی بات نہیں تھی۔ تاہم حویلی ایک امیر ترین بونے کی ملکیت تھی۔ حویلی کے سامنے لمبی میزوں پر ایک عظیم الشان دعوت سجی ہوئی تھی۔ جس میں امیر بونے نے دوستوں کو مدعو کر رکھا تھا۔موسیقی کی دھن پر بونے گھاس کے اوپر ناچ رہے تھے۔
امیر بونے کی نظر ڈروتھی کے جوتوں پر پڑی تو بولا۔”تم نوجوان ہو لیکن نیک چڑیل معلوم ہوتی ہو۔“
ڈروتھی نے پوچھا۔”تمہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے؟“
”میں نے تمہارے پاؤں میں چاندی کے جوتے پہچان لیے ہیں۔ یہ جوتے بدنام زمانہ مشرق کی ظالم چڑیل کے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ تم نے اس کو جان سے مار دیا ہے۔ تم ہمارے ساتھ کھانا کھا سکتی ہو۔ اپنے کتے کو بھی ساتھ لے آؤ۔ تمہارے آرام کے لیے رہائش کا انتظام بھی ہو جائے گا۔“
کھانے کے بعد ڈروتھی کو ایک کمرے میں لے جایا گیا۔جہاں نیلی چادر والا آرام دہ بستر لگا ہوا تھا۔ ٹوٹو بھی ڈروتھی کے ساتھ سو گیا۔
جب ڈروتھی سو کر اٹھی تو ناشتہ لگ چکا تھا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر ڈرتھی نے بونے سے سوال کیا۔”شہرزمرد یہاں سے کتنے فاصلے پر واقع ہے؟ میں اوز کے جادوگر سے ملنے وہاں جا رہی ہوں۔“
”جادوگر کسی سے نہیں ملتا ہے۔ لوگ اس سے بہت ڈرتے ہیں۔ زمرد یہاں سے طویل مسافت پر واقع ہے اور راستہ پرخطر ہے۔“ بونے نے جواب دیا۔
”مجھے ہر حال میں اپنے شہر کنساس جانا ہے۔ اس کے لیے اوز کا عظیم جادوگر ہی وہ واحد شخص ہے جو میری مدد کر سکتا ہے۔“ ڈروتھی نے بونے کا شکریہ ادا کیا اور خدا حافظ کہ کر دوبارہ سفر کے لیے تیار ہوگئی۔
زرد اینٹوں کی سڑک پر ایک لمبا سفر طے کرنے کے بعد ڈروتھی سستانے کے لیے سڑک کنارے بیٹھ گئی۔ اس جگہ پر مکئی کا ایک کھیت تھا۔ جس کے درمیان کھمبے پر ایک پتلا نصب تھا۔پتلے کا سر تنکوں سے بنا ہوا تھا جو بوری میں بھرے ہوئے تھے۔ نیلے رنگ سے اس کی آنکھیں، ناک اور منہ بنایا گیا تھا۔
ڈروتھی نے پُتلے کی طرف دیکھا اور مُسکر کر بولی۔”ہمارے کنساس میں بھی پتلے ہوتے ہیں جو کوؤں کو مکئی کھانے سے روکتے ہیں۔“
”تم نے درست فرمایا۔“ پتلے نے کہا۔
ڈروتھی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور بولی۔”لیکن ہمارے کنساس کے پتلے باتیں نہیں کرتے ہیں۔“
پتلا بولا۔”میں بھی زیادہ باتیں نہیں کر سکتا۔ میں کھمبے سے نیچے نہیں اتر سکتا اور کوے مجھ سے نہیں ڈرتے، کیوں کہ ان کے پاس دماغ ہے جو میرے پاس نہیں ہے۔“
”اوہ۔ میرے پیارے دوست! میں تمہاری کیا مدد کر سکتی ہوں؟“ ڈروتھی یہ کہتے ہوئے اٹھی اور پتلے کو کھمبے سے نیچے اتارا۔ اس نے بونوں کی طرح نیلا لباس پہن رکھا تھا۔
”اب بہتر ہے،میں اپنی ٹانگوں پر چل سکتا ہوں۔پیاری دوست! تمہارا نام کیا ہے؟ اور کہاں جا رہی ہو؟“۔ پتلے نے پوچھا۔
”میرا نام ڈروتھی ہے۔ کنساس میرا وطن ہے۔ میں اوز کے عظیم جادوگر سے ملنے شہرزمرد جارہی ہوں۔ واپس کنساس جانے کے لیے مجھے اس کی مدد چاہیے۔“ ڈروتھی نے اسے بتایا۔
”میں نہیں جانتا کنساس،زمرد اور اوز کا جادوگر کیا ہے۔ کیوں کہ میرا دماغ نہیں ہے۔ میرے سر میں دماغ کی جگہ بھوسا بھرا ہوا ہے۔“ پتلے نے کہا۔
”اوز کا جادوگر عظیم شہر زمرد میں رہتا ہے۔ وہ بہت چالاک ہے۔ میں واپس کنساس جانے کے لیے اس سے مدد مانگنے جا رہی ہوں۔“ ڈروتھی نے اسے سمجھایا۔
”اچھا تمہارے خیال میں وہ مجھے دماغ دلانے میں مدد کر سکتا ہے؟“ پتلے نے پوچھا۔
”پتا نہیں۔تم میرے ساتھ جا کر خود معلوم کر سکتے ہو۔“ ڈروتھی نے مشورہ دیا۔
”بالکل تمہاری تجویز زبردست ہے۔ بہت شکریہ۔“ پتلا بولا۔
پتلا ڈروتھی کے ساتھ چلنے کو تیار ہوا تو ٹوٹو اس پر بھونکنے لگا۔ اس سے پہلے کبھی اس نے بھوسے سے بھرا پتلا نہیں دیکھا تھا۔”ڈرو مت ٹوٹو تمہیں کچھ نہیں کہے گا“۔ ڈروتھی بولی۔
”مجھے کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا سوائے ایک چیز کے۔“ پتلے نے کہا۔
”وہ کیا چیز ہے؟“ ڈروتھی نے پوچھا۔
”آگ۔“ پتلے نے جواب دیا۔
وہ سارا دن چلتے رہے اور شام کو ایک بڑے جنگل میں پہنچ گئے۔ جہاں درختوں کے سائے تلے اندھیرا چھانے لگا۔ زرد اینٹوں کی سڑک پر کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ڈروتھی نے پتلے کا بازو تھام رکھا تھا۔ وہ بولی”مجھے آرام کرنا ہو گا۔ سارا دن چلتے چلتے میں بہت تھک چکی ہوں۔“
”مجھے تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی ہے۔ کیوں کہ میرا دماغ نہیں ہے۔ میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ درختوں کے نیچے مجھے ایک چھوٹا سا گھر نظر آ رہا ہے۔ ہمیں اس میں رات گزارنی ہو گی۔“
ڈروتھی نے رضامندی کا اظہار کیا۔جلد ہی وہ اس گھر کے اندر چلے گئے۔ ڈروتھی سوگئی۔ ٹوٹو بھی اس کے ساتھ سو گیا۔ پتلے نے رات دروازے میں کھڑے ہو کر گزار دی۔
باب:۴
قلعی سے بنا آدمی
ڈروتھی نیند سے بیدار ہوئی تو پتلے کو دروازے پر منتظر کھڑے پایا۔ ٹوٹو جھونپڑی کے گرد چکر کاٹ رہا تھا۔ وہ مسلسل بھونک رہا تھا۔ سورج کی روشنی درختوں سے چھن چھن کر اندر آرہی تھی۔
”مجھے پینے اور منہ ہاتھ دھونے کے لیے پانی کی ضرورت ہے۔ تھیلے میں بند روٹی بھی خشک ہو چکی ہے۔“ ڈروتھی نے پتلے سے مخاطب ہو کر کہا۔
”میرا وجود تنکوں سے بنا ہے۔ اس لیے مجھے پانی کی ضرورت نہیں ہے۔ تم گوشت پوست سے بنی ہو۔اس لیے تمہاری زندگی میری زندگی سے مشکل ہے تاہم تمہارے پاس دماغ اور سوچنے کی صلاحیت ہے۔“
”تمہارے پاس بھی بہت جلد دماغ آجائے گا۔“ ڈروتھی نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے زرد اینٹوں والی سڑک پر سفر جاری رکھا۔ ندی پر پہنچ کر ڈروتھی اور ٹوٹو نے پانی پیا۔ اچانک ایک زور دار چیخ سنائی دی۔
”کون ہو؟“ڈروتھی نے چلا کر کہا۔ اچانک ڈروتھی کی نظر ایک درخت کے نیچے چمک دار چیز پر پڑی اور وہ حیرت سے چونک گئی۔ وہ قلعی سے بنا ایک آدمی تھا جس کے ہاتھ میں کلہاڑا تھا۔ لیکن وہ حرکت کرنے سے قاصر تھا۔
”میں تمہاری کیا مدد کر سکتی ہوں؟“ ڈروتھی نے قلعی کے آدمی سے پوچھا۔
”مجھے تم سے مدد کی امید ہے۔ میں لکڑہارا ہوں۔ میں یہاں لکڑیاں کاٹ رہا تھا کہ بارش آگئی۔ جس کی وجہ سے میرے جوڑ جام ہوگئے ہیں۔ جوڑ کھولنے والا تیل سامنے میرے مکان میں پڑا ہے۔ برائے مہربانی مکان سے تیل کا گیلن لے آؤ۔“ قلعی کے آدمی نے ڈروتھی سے التجا کی۔
ڈروتھی دوڑ کر کمرے سے تیل کا گیلن لے آئی اور قلعی کے آدمی کے جوڑوں کو تیل دیا۔ قلعی کے آدمی نے سب سے پہلے گردن ہلائی پھر بازو اور آخر میں ٹانگوں کو حرکت دی۔
”اب کافی بہتر محسوس کررہا ہوں۔ ایک سال سے میں جوڑوں کی تکلیف میں مبتلا ہوں۔میرا کلہاڑا بھی بہت بھاری ہے اور جس راستے پر تم جارہے ہو زیادہ تر لوگ تو اس پر سفر نہیں کرتے ہیں۔ تمہاری منزل کون سی جگہ ہے؟“ قلعی کے آدمی نے پوچھا۔
”ہم اوز کے عظیم جادوگر سے ملنے شہرزمرد جا رہے ہیں۔“ ڈروتھی نے جواب دیا۔”مجھے اپنے کتے ٹوٹو کے ساتھ واپس اپنے وطن کنساس جانا ہے۔اس کے لیے اوز کے جادوگر کی مدد چاہیے اور میرا دوست پتلا اوز کے جادوگر سے دماغ مانگنے جا رہا ہے۔“
”میرا قالب دل سے خالی ہے۔کیا اوز کا جادوگر مجھے دل دلانے میں مدد کرے گا؟۔“ قلعی کے آدمی نے افسردگی سے پوچھا۔
”کیوں نہیں اس کے لیے تمہیں ہمارے ساتھ جاکر اس سے مدد مانگنی چاہیے۔“ ڈروتھی نے کہا۔
قلعی کے آدمی نے کچھ لمحے سوچا اور ان کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوگیا۔ وہ بولا”تم اپنی ٹوکری میں میرا تیل کا کین بھی ڈال لو۔ راستے میں بارش آگئی تو اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔“
وہ سب دوست زرد اینٹوں کی سڑک پر سفر کے لیے گامزن ہوگئے۔ جلد ہی گھنے درخت شروع ہو گئے۔ اس موقعے پر قلعی کا آدمی خوب کام آیا۔ اس نے اپنے کلہاڑے سے راستے میں آنے والے درختوں کو کاٹ ڈالا۔
”یقینا تمہاری کھوپڑی میں دماغ ہے جس کی وجہ سے تمہیں پتا چلتا ہے کہ تم نے کیسے درختوں کو کاٹ کر راستہ بنانا ہے۔“
”میرے پاس دل و دماغ تھے لیکن اب نہیں ہیں۔ تم جانتے ہو کیوں؟۔“ قلعی کا آدمی بولا۔
ڈروتھی اور پتلے نے نفی میں سر ہلایا۔
”جب میں گوشت پوست کا انسان تھا۔ میں نے بونوں کی ایک لڑکی سے محبت کی تھی جس کی ماں مجھ سے نفرت کرتی تھی۔ اس کے کہنے پر مشرق کی ظالم چڑیل نے میرے کلہاڑے میں جادو پھونک دیا۔“
”برا ہو اس چڑیل کا!“ ڈروتھی نے کہا۔
قلعی کا آدمی بولا۔”اس کے بعد ہر وقت کلہاڑا میرے ہاتھوں سے پھسل جاتا تھا۔ پہلے پہل کلہاڑے نے پھسل کر میری بائیں ٹانگ کاٹی پھر دائیں سے محروم ہو گیا تو میں ایک قلعی گر کے پاس گیا اور اس سے کہا میری نئی ٹانگیں بناؤ تاکہ اپنا کام جاری رکھ سکوں۔“
”اس کے بعد اس جادوئی کلہاڑے نے میرے دونوں بازو کاٹ دیے۔ میں نے وہ بھی قلعی گر سے بنوالیے تو اگلی دفعہ اس کلہاڑے نے میرا سر قلم کردیا۔ قلعی گر نے قلعی سے وہ بھی بنا دیا۔ جب میرا آدھا وجود ختم ہوچکا تو دل کہیں کھو گیا۔ اب میں کسی سے محبت نہیں کر سکتا ہوں۔“
”دماغ دل سے بہتر ہوتا ہے۔“ پتلا بولا۔
ڈروتھی خاموش رہی کیوں کہ دل و دماغ ہونے کے باوجود وہ کنساس نہیں جا سکی تھی۔ ان دونوں نعمتوں کے ہوتے ہوئے بھی وہ پریشان تھی۔ اس کے تھیلے میں موجود تمام روٹیاں ختم ہو چکی تھیں۔ اس کے دونوں دوستوں کو خوراک کی ضرورت نہیں تھی تاہم اسے اور ٹوٹو کو بھوک لگتی تھی۔
باب:۵
بزدل شیر سے ملاقات
جنگل کے بیچوں بیچ زرد اینٹوں کی سڑک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔اب ڈروتھی کو خوف آنے لگا تھا۔
”کتنا بڑا ہے یہ جنگل؟ اور ہم شہر زمردسے کتنے فاصلے پر ہیں؟“ ڈروتھی نے قلعی کے آدمی سے دریافت کیا۔
”مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ لیکن یہاں جنگلی جانوروں کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ مگر ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بھوسا اور قلعی نہیں کھاتے ہیں۔ تم گوشت پوست سے بنی ہو تاہم چڑیل کے بوسے کی وجہ سے محفوظ رہو گی۔“
”لیکن میرے کتے کا کیا ہوگا؟“ ڈروتھی نے پوچھا۔
اسی لمحے ایک ہولناک آواز سنائی دی۔ یہ شیر کی دھاڑ تھی۔ اچانک شیر سڑک پر دوڑ کر آیا اور پتلے پر حملہ کر دیا۔
ٹوٹو بہت بہادر تھا۔ وہ بھونکتے ہوئے شیر پر ٹوٹ پڑا۔ جیسے ہی شیر نے منہ کھولا ڈروتھی چلائی۔”نہیں نہیں ایسا ہرگز نہ کرنا۔ ایک غریب کتے کو مارنا چاہتے ہو؟تم کتنے ڈرپوک اور بزدل ہو۔“
”میں اس کو نہیں ماروں گا۔ میں نے صرف منہ کھولا ہے۔ میں بزدل ہوں اور ہر چیز سے ڈرتا ہوں۔ میں جب دھاڑتا ہوں تو میرے دل کی ڈھڑکن تیز ہو جاتی ہے کیوں کہ میں ڈرپوک ہوں۔“ شیر نے کہا۔
”کم از کم تمہارے پاس دل تو ہے جب کہ میرے پاس نہیں ہے اور میں اوز کے جادوگر سے مدد مانگنے جارہا ہوں۔“ قلعی کے آدمی نے کہا۔
”تمہارے پاس دماغ بھی ہے جو میرے پاس نہیں ہے اور میں اوز کے جادوگر سے مدد لینے جا رہا ہوں۔“ پتلا بزدل شیر کو مخاطب کرتے ہوئے بولا۔
”مجھے اور ٹوٹو کو واپس اپنے گھر کنساس جانا ہے، اس لیے ہم اوز کے جادوگر سے مدد طلب کرنے جارہے ہیں۔“ ڈروتھی نے بزدل شیر کو بتایا۔
”تمہارا کیا خیال ہے اوز کا جادوگر مجھے حوصلہ دے سکتا ہے؟ میں زیادہ دیر بزدل نہیں رہنا چاہتا ہوں۔“ شیر نے پوچھا۔
”خوش آمدید! تم ہمارے ساتھ جا کر اس سے پوچھ سکتے ہو۔ اوز کا جادوگر بہت طاقت ور ہے۔“
وہ ایک دفعہ پھر زرد اینٹوں کے راستے پر چل پڑے۔ پتلے نے ڈروتھی کی ٹوکری تھام رکھی تھی۔ بزدل شیر بھی ان کے ساتھ اس سفر میں شامل ہوگیا تھا۔
ٹوٹو کو پہلے پہل اس بڑے جانور سے خوف محسوس ہوا لیکن جلد ہی ان کے درمیان دوستی ہوگئی تھی۔
وہ رات انہوں نے جنگل میں سو کر گزارنی تھی۔ قلعی کے آدمی نے جنگل سے درخت کاٹ کر آگ جلائی تھی۔ ڈروتھی اور ٹوٹو نے آخری بچی ہوئی روٹی کھا لی تھی۔
”اب میرے پاس ناشتے کے لیے مزید کھانا نہیں ہے۔“ ڈروتھی نے کہا۔
”میں کسی جانور کا شکار کر کے تمہارے ناشتے کا انتظام کرتا ہوں۔ تم اس کو آگ پر پکا کر کھا لینا۔“ بزدل شیر نے کہا۔
”میرا خیال ہے کسی کو جان سے مارنا درست نہیں ہے لیکن میں اس معاملے میں پوری طرح مطمئن نہیں ہوں کیوں کے میرے پاس دل نہیں ہے۔“ قلعی کے آدمی نے کہا۔
بزدل شیر نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور کچھ دیر کے لیے جنگل کی طرف چلا گیا۔ پتلے نے پھلیوں کا ایک درخت تلاش کیا اور کچھ پھلیاں توڑ کر لایا۔
”پیاری دوست! ان پھلیوں کو ٹوکری میں ڈال دو۔ صبح ان سے ناشتہ کر لینا۔ اب تم اور ٹوٹو سو جاؤ میں آگ سے دور ایک درخت کے نیچے کھڑا ہو جاتا ہوں۔“اس نے ڈروتھی سے کہا۔
صبح آٹھ کر لڑکی نے ناشتے میں پھلیوں کے بیج کھائے،ندی سے کچھ پانی پیا اور سب دوست ایک بار پھر سوئے منزل روانہ ہوگئے۔
یہ ان کے سفر کا آسان دن نہیں تھا۔ چلتے چلتے راستے میں ایک وسیع کھائی آ گئی تھی۔ گہری کھائی نے سڑک کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ڈروتھی چل کر کھائی کے کنارے پر گئی۔ وہ کھائی کا جائزہ لینے کے بعد بولی۔”اس کے اندر اترنا ہمارے لیے بہت مشکل ہے کیوں کہ کھائی بہت گہری اور بڑی بڑی چٹانوں پر مشتمل ہے۔“
پتلے اور قلعی کے آدمی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا مگر منہ سے کچھ نہ بولے۔
بزدل شیر ڈروتھی کی طرف چل کر گیا اور بولا۔”میرا خیال ہے میں چھلانگ لگا کر اس کھائی کو پار کر سکتا ہوں۔“
”پھر تم سب کو پیٹھ پر بٹھا کر پار کرا سکتے ہو۔ پہلی دفعہ مجھے لے جاؤ۔ میں گر بھی پڑا تو چٹانیں مجھے زخمی نہیں کر سکتی ہیں۔“ پتلے نے کہا۔
”اگر میں گرا تو مر جاؤں گا۔ میں اسی لیے خوف زدہ ہوں۔ بہرصورت ہمیں پار جانا ہے۔اس لیے کوشش کرتا ہوں۔“ بزدل شیر نے کہا۔
چناں چہ اس نے پتلے کو پیٹھ پر بٹھا کر بڑی چھلانگ لگائی۔ وہ محفوظ طریقے سے کھائی کے دوسرے کنارے پر پہنچ گیا تھا۔ ڈروتھی اور قلعی کا آدمی خوشی سے چونک گئے تھے۔ اس کے بعد بزدل شیر نے واپس چھلانگ لگائی اور ڈروتھی اور ٹوٹو کو پیٹھ پر بٹھا کر دوبارہ بڑی چھلانگ لگائی۔ ڈروتھی اور ٹوٹو بھی بحفاظت دوسرے کنارے پر پہنچ چکے تھے۔آخر میں بزدل شیر نے قلعی کے آدمی کو بھی کھائی کی دوسری طرف پہنچا دیا تھا۔ اب وہ شدید تھکاوٹ کا شکار ہو چکا تھا اور اسے آرام کی سخت ضرورت تھی۔ گھنا جنگل تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ لیکن زرد اینٹوں کی سڑک نمایاں تھی۔
”کیا اس جنگل کا اختتام کبھی نہیں ہو گا؟“۔ ڈروتھی افسردہ لہجے میں بولی۔
انہوں نے دوبارہ چلنا شروع کیا مگر جلد ہی ایک دوسری کھائی کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔
”مجھے افسوس ہے کہ یہ کھائی بہت بڑی ہے اور میں اس کو چھلانگ لگا کر پار کرنے سے قاصر ہوں۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟“ بزدل شیر کے لہجے میں افسردگی تھی۔
”مجھے ایک زبردست خیال آیا ہے۔ کھائی کی اس طرف ایک بڑا درخت ہے۔ قلعی کا آدمی اگر اسے کاٹ دے تو کھائی کے اوپر گر کر درخت پل کی شکل اختیار کر لے گا اور ہم اس پر چل کر بہ آسانی دوسری طرف پہنچ جائیں گے۔“ پتلے نے کہا۔
”تمہارا خیال واقعی زبردست ہے۔“ شیر نے پتلے کی تائید کی۔
قلعی کے آدمی نے کلہاڑا اٹھایا اور درخت پر برسانے لگا۔ جب درخت کٹنے کے قریب پہنچا تو شیر نے اس کو زور دار دھکا دیا۔ درخت کھائی کے آر پار ایک پل کی طرح گر پڑا تھا۔ اب وہ اس کے اوپر چل کر آسانی سے کھائی کی دوسری طرف پہنچ سکتے تھے۔ پہلے پہل ڈروتھی نے ٹوٹو کو بازوؤں میں اٹھا کر کھائی پار کی تھی۔ پتلے اور قلعی کے آدمی نے اس کی پیروی کی اور آخر میں شیر نے کھائی پار کی تھی۔ ڈروتھی شدید تھک چکی تھی۔ بزدل شیر نے اسے اپنی پیٹھ پر سوار کر لیا تھا۔
باب:۶
دریا
دوپہر کا وقت تھا اور جنگل کی حدود کا اختتام ہو چکا تھا۔ ایک وسیع دریا ان کے سامنے تھا۔ دریا کے پار رنگا رنگ پھولوں سے ڈھکے سرسبز کھیت دکھائی دے رہے تھے۔ زرد اینٹوں کی سڑک دریا کے اس پار کھیتوں کے درمیان سے بھی گزر رہی تھی۔ دونوں اطراف میں خوش ذائقہ پھلوں سے لدے درخت نظر آرہے تھے۔
”اوہ پیارے دوستو! یہ دریا کیسے پار کریں گے؟“ ڈروتھی کے ذہن میں سوال آیا۔
”یہ کام بہت آسان ہے۔ قلعی کا آدمی اگر اپنے کلہاڑے سے کچھ درخت کاٹ کر لکڑی کا بیڑا بنا دے تم ہم سب اس پر بیٹھ کر دریا پار کر لیں گے۔“پتلا بولا۔
قلعی کے آدمی نے کلہاڑا اٹھایا اور چھوٹے چھوٹے چند درخت کاٹ کر انہیں لکڑی کی ناؤ کی شکل میں جوڑنے لگا۔ قلعی کا آدمی ایک ماہر ترکھان تھا۔ اس سے قبل کہ وہ کشتی کا کام پایہ تکمیل تک پہنچاتا، شام پڑ چکی تھی۔ اور وہ سب درخت کے نیچے سونے کی تیاری کرنے لگے۔ ڈروتھی نے خواب دیکھا کہ وہ شہرزمرد پہنچ چکی ہے اور اوز کے عظیم جادوگر نے اسے واپس کنساس پہنچانے کا انتظام کر دیا ہے۔
ڈروتھی سو کر اٹھی تو اس نے فوراً دائیں بائیں دیکھا لیکن وہ کنساس میں نہیں تھی۔ اس کو خواب کا افسوس نہیں تھا بلکہ حقیقت کی خوشی تھی کہ گھنا جنگل پیچھے رہ چکا تھا۔ منہ دھو کر کچھ پھل کھائے۔ اب وہ اگلے سفر کے لیے تیار تھی۔
قلعی کے آدمی نے کشتی تیار کر لی تھی۔ کشتی پانی کے اندر داخل ہوئی اور ڈروتھی ٹوٹو کو بازوؤں میں لے کر بیڑے پر سوار ہو گئی تھی۔ اس کے بعد بزدل شیر نہایت احتیاط سے کشتی پر سوار ہوا۔ لیکن اس کا وزن زائد ہونے کے باعث کشتی ہچکولے کھانے لگی تھی۔
پتلے اور قلعی کے آدمی نے ہاتھوں میں لمبے لمبے ڈنڈے تھام رکھے تھے۔ وہ کشتی کے ایک سرے پر کھڑے ان ڈنڈوں کی مدد سے کشتی کو آگے دھکیل رہے تھے۔ گویا ڈنڈوں سے چپوؤں کا کام لے رہے تھے۔
شروع میں سب ٹھیک چل رہا تھا۔ جیسے ہی کشتی دریا کے درمیان پہنچی دریا تیز رفتاری سے بہ رہا تھا۔ اور گہرائی بھی زیادہ تھی کشتی آگے بڑھنے کی بجائے نیچے کی جانب بہنے لگی تھی۔ وہ لمحہ بہ لمحہ زرد اینٹوں کی سڑک سے دور ہو رہی تھی۔
”ہمارے ساتھ اچھا نہیں ہورہا ہے۔ پانی ہمیں مغرب کی ظالم چڑیل کے علاقے میں لے جا رہا ہے۔ یقینا وہ ہمیں پکڑ لے گی اور میں دماغ سے محروم ہی رہوں گا۔“ پتلے نے کہا۔
”اور میں ڈرپوک ہی رہوں گا۔کبھی بہادر نہیں بن پاؤں گا۔“ بزدل شیر بولا۔
”اور میں کبھی دل کا مالک نہیں بن پاؤں گا۔“ قلعی کے آدمی نے فریا کی۔
”میں اور ٹوٹو کبھی کنساس نہیں پہنچ پائیں گے۔“ ڈروتھی افسوس سے رو پڑی۔
”مت روؤ پیاری دوست! ہمیں اوز کے عظیم جادوگر تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہو گی۔“ پتلے نے ڈروتھی کا حوصلہ بڑھایا۔ پھر اس نے اپنے ڈنڈے کی مدد سے کشتی کو ایک زور دار دھکا دیا۔ کشتی نے بہت تیزی سے حرکت کی لیکن پتلا دریا کے درمیان ہی رہ گیا تھا۔ ڈنڈا دریا کے اندر گڑھ گیا تھااور پتلا اس کے اوپر نصب تھا۔
”خدا حافظ میرے خوش قسمت دوستو!“۔ پتلے نے کشتی میں سوار دوستوں سے کہا۔ پھر اس نے سوچا۔”میں ہمیشہ دماغ کے بغیر ہی رہوں گا۔ جب میں ڈروتھی سے ملا تھا تو کھیت میں گاڑے ڈنڈے پر نصب تھا اور اب دریا میں گاڑے ایک ڈنڈے پر نصب ہوں۔ کوئی میری مدد نہیں کر سکتا ہے۔“
کشتی آگے نکل چکی تھی اور پتلا پیچھے رہ چکا تھا۔بزدل شیر کو ایک خیال سوجھا۔ وہ پانی میں تیرنے لگا اور قلعی کے آدمی نے بزدل شیرکی دم پکڑ لی۔ ڈروتھی قلعی کے آدمی کے ڈنڈے کی مدد سے کشتی کو دھکیلنے لگی۔ آہستہ آہستہ تیرتے ہوئے وہ دریا کے کنارے پہنچ چکے تھے۔ وہ بہت تھک چکے تھے اس لیے گھاس پر آرام کرنے لگے تھے۔
”اب ہمیں کیا کرنا ہوگا؟“ قلعی کے آدمی نے ڈروتھی سے دریافت کیا۔
”ہمیں زرد اینٹوں کی سڑک پر جانا ہوگا بصورت دیگر ہم کبھی زمردنہیں پہنچ پائیں گے۔“ڈروتھی نے کہا۔
”مجھے سورج کی حرارت میں خشک ہونے دو پھر سفر شروع کریں گے۔“بزدل شیر نے کہا۔
چناں چہ وہ آرام کرنے لگے۔ ارد گرد خوب صورت علاقہ دیکھ کر ڈروتھی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا تاہم اسے پتلے کا خیال آیا تو وہ اداس ہو گئی۔
”ہم اسے دریا کے بیچ کھڑا نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔ ہمیں اسے بچانا ہوگا۔ کوئی ترکیب بتاؤ ہم کس طرح اس غریب پتلے کی مدد کر سکتے ہیں؟“ ڈروتھی نے دوستوں سے کہا لیکن ان کی سمجھ میں کوئی ترکیب نہیں آ رہی تھی۔
اچانک ایک بڑا پرندہ ان کے اوپر سے اڑتا ہوا گزرا۔ وہ ایک بہت بڑا بگلا تھا۔ جو ان سب دوستوں کو دیکھ کر رک گیا اور پوچھا۔”تم لوگ کون ہو؟ اور یہاں کیا کر رہے ہو۔ میں نے اس سے پہلے تم جیسے لوگ نہیں دیکھے ہیں؟“
”میں ڈروتھی ہوں۔ٹوٹو میرا کتا ہے۔ قلعی کا آدمی اور شیر میرے دوست ہیں۔ہم سب اوز کے عظیم جادوگر کے پاس شہر زمردجا رہے ہیں۔“ ڈروتھی نے اپنا اور سب دوستوں کا تعارف کروایا۔
”اس کے لیے تمہیں زرد اینٹوں کی سڑک پر سفر کرنا ہوگا۔“ بگلے نے بتایا۔
”شکریہ۔ہمیں معلوم ہے۔ دریا کے درمیان گاڑا ہوا پتلا ہمارا دوست ہے۔وہ بھی ہمارا ہم سفر ہے لیکن ہمیں اس تک رسائی حاصل نہیں ہے۔“ ڈروتھی نے کہا۔
”میں چیزیں اٹھا سکتا ہوں لیکن اس کا وزن میری صلاحیت سے زیادہ ہے۔“بگلے نے کہا۔
”ارے نہیں، وہ تو بھوسے بنا ہے۔ اس کا وزن زیادہ نہیں ہے۔“ ڈروتھی نے بتایا۔
”اچھا میں کوشش کرتا ہوں۔“ بگلے نے پانی کے اوپر پتلے کی طرف اڑان بھری اور اسے آسانی سے اٹھا لیا اور پھر واپس دریا کے کنارے کی طرف اڑنے لگا۔
پتلے نے افراط مسرت سے سب دوستوں کو گلے لگا لیا۔ اس نے مدد کے لیے بگلے کا دلی شکریہ ادا کیا۔
”دماغ حاصل کرنے کے بعد میں پھر آؤں گا اور تمہارے اس احسان کا بدلہ ضرور اتاروں گا۔“ پتلے نے بگلے سے مخاطب ہو کر کہا۔
”بہت خوب۔“ بگلے نے جواب دیا۔
”امید ہے تم لوگ عظیم جادوگر کے پاس زمرد پہنچنے میں کامیاب ہو جاؤ گے۔ اس لیے تمہیں جلدی سے زرد اینٹوں کی سڑک پر پہنچ جانا چاہیے۔“
”جی بہتر بہت جلد۔“ ڈروتھی نے جواب دیا۔ اس کے بعد بگلا آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف اڑ گیا۔
باب:۷
نیند کے کھیت سے گزر
سب دوست اتنا تیز چل رہے تھے جتنا وہ چل سکتے تھے۔ انہوں نے اپنے اردگرد خوب صورت چیزوں کا مشاہدہ کیا تھا۔ چمکتے ہوئے رنگین پروں والے پرندے درختوں پر بیٹھے گانا گا رہے تھے۔ زمین پر پیلے، سفید، نیلے اور جامنی رنگ کے پھول بکثرت کھلے ہوئے تھے۔ گہرے لال خشخاش کے پھول بھی کثیر تعداد میں موجود تھے۔
”خشخاش کے پھول کتنے خوب صورت ہیں۔“ ڈروتھی نے کہا۔
”ہمم، بالکل، ناصرف ان کی رنگت عمدہ ہے بلکہ ان کی خوشبو کا بھی جواب نہیں ہے۔ میں شروع سے پھولوں سے محبت کرتا ہوں۔“ بزدل شیر کہنے لگا۔
”لیکن یہ پھول جنگل میں موجود تمام پھولوں سے زیادہ اچھے ہیں۔ میرا دماغ ہوتا تو یقینامیں بھی ان کی خوشبو ضرور محسوس کرتا۔“پتلے نے کہا۔
”میرے پاس دل ہوتا تو میں بھی ان پھولوں سے ضرور پیار کرتا۔“ قلعی کا آدمی کہنے لگا۔
خشخاش کے پھولوں کی تعداد میں اضافہ ہوا جا رہا تھا۔ ان کی خوشبو اس قدر تیز اور نشہ آور تھی کہ ڈروتھی بے ہوش ہونے لگی تھی۔ ٹوٹو پر بھی غشی طاری ہونے لگی تھی۔ ڈروتھی خطرے میں گھر چکی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کھیت میں جو سو جاتا ہے وہ زندگی بھر سویا رہتا ہے۔
”میں بہت تھک چکی ہوں۔ مجھے آرام کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔“ ڈروتھی نے کہا۔
”نہیں پیاری دوست! تمہیں یہاں نہیں سونا چاہیے بلکہ جنتا جلدی ممکن ہو ہمیں زرد اینٹوں کی طرف جانا چاہیے۔“ قلعی کے آدمی نے کہا۔
لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی ڈروتھی کی آنکھیں بند ہو چکی تھیں۔
”اب کیا کرنا چاہیے؟“ قلعی کے آدمی نے پوچھا۔”اگر ہم اس کو نیند کی حالت میں چھوڑ کر چلے گئے تو یہ کبھی نہیں جاگ پائے گی۔ تم دونوں کو کوئی خطرہ نہیں لیکن میں گوشت پوست سے بنا ہوں۔ اس لیے مجھے بھی نیند آنے لگی ہے۔“ بزدل شیر نے کہا۔
”تمہیں تیزی سے زرد اینٹوں کی سڑک کی طرف دوڑ لگا دینی چاہیے۔ میں اور قلعی کا آدمی ڈروتھی اور ٹوٹو کو اٹھا کر کھیت سے باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تم سو گئے تو تمہارے بھاری بھرکم جسم کے باعث تمہیں اٹھانا مشکل ہو جائے گا۔“ پتلے نے کہا۔
بزدل شیر نے خشخاش کے کھیت کے بیچ زرد اینٹوں کی سڑک کی طرف دوڑ لگا دی تھی۔ دونوں دوست ڈروتھی اور ٹوٹو کو اٹھا کر کھیتوں کے درمیان تیزی سے چل رہے تھے۔ جب وہ کھیتوں کے کنارے کے قریب پہنچے تو کیا دیکھا کہ بزدل شیر بے ہوش پڑا تھا۔”اب یہ ہمیشہ کے لیے سو گیا ہے۔ اگرچہ بزدل تھا لیکن بہت اچھا تھا۔اس نے دوران سفر ہماری بہت مدد کی۔ شاید بزدل شیر خواب میں بہادر بنے گا۔“ پتلے نے افسوس ناک لہجے میں کہا۔
وہ ڈروتھی اور ٹوٹو کو اٹھا کر خشخاش کے کھیت سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ڈروتھی اور ٹوٹو بدستور گہری نیند سورہے تھے اور پتلا اور قلعی کا آدمی ان کے بیدار ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔
باب:۸
جنگلی چوہوں کی ملکہ
”اب ہمیں زرد اینٹوں کی سڑک کے قریب رہنا چاہیے۔“ پتلے نے کہا۔ اس سے پہلے کہ قلعی کا آدمی جواب میں کچھ کہتا اچانک اس کے پاس سے سرمئی رنگ کی جنگلی چوہیا گزری۔ ایک جنگلی بلی منہ کھولے اس کا تعاقب کر رہی تھی۔
اگرچہ قلعی کے آدمی کے قالب میں دل نہیں تھا تاہم اسے چھوٹی چوہیا کا دکھ محسوس ہو رہا تھا۔
”رُک جاؤ“ قلعی کا آدمی چلایا۔ جیسے ہی جنگلی بلی اس کے پاس سے گزری،قلعی کے آدمی نے کلہاڑے کے وار سے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔ قلعی کے آدمی نے بلی کو جان سے مار دیا تھا۔
جنگلی چوہیا رک گئی تھی۔ وہ پیچھے مڑی اور قلعی کے آدمی کے پاس آکر کہنے لگی۔ ”شکریہ تم نے ملکہ کی جان بچائی ہے۔“
”ملکہ!……لیکن تم تو ایک چوہیا ہو۔“ قلعی کا آدمی حیرت سے بولا۔ ”میں جنگلی چوہوں کی ملکہ ہوں۔ میری عوام بھی تمہاری شکر گزار ہے۔“
جیسے ہی اس نے پکارا بڑی تعداد میں جنگلی چوہے دوڑتے ہوئے آ گئے۔ وہ سب ملکہ کے سامنے تعظیماًکھڑے تھے۔”ہمیں آپ کو سلامت دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔“ جنگلی چوہوں نے ملکہ سے مخاطب ہو کر کہا۔
”قلعی کے اس آدمی نے جنگلی بلی کو قتل کر کے میری جان بچائی ہے۔ اس کے بدلے جو یہ چاہے گا تم کرو گے؟“
”بالکل ضرور۔“ جنگلی چوہوں نے ملکہ کی آواز پر لبیک کہا۔
”خوب“ملکہ نے کہا اور قلعی کے آدمی سے پوچھا۔”بتاؤ میری عوام تمہاری کیا مدد کر سکتی ہے؟“
”میں کچھ سوچ لوں۔“ قلعی کا آدمی بولا۔ اس موقعے پر پتلے کے ذہن میں ایک خیال آیا۔
”ہمارا دوست بزدل شیر خشخاش کے کھیت میں سو گیا ہے۔ اس کو جگانے میں ہماری مدد کرو۔“
”شیر؟……لیکن وہ تو اٹھ کر ہمیں کھا لے گا۔“ ملکہ نے چلا کر کہا۔”ایسی بات نہیں ہے۔ وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے کیوں کہ وہ ایک بزدل شیر ہے۔“ پتلے نے اطمینان سے جواب دیا۔
”ہم چھوٹے ضرور ہیں لیکن بڑی تعداد میں ہیں۔ تم لوگ کوئی حکمت عملی بناؤ ہم تمہاری مدد کرنے کیلئے تیار ہیں۔“
اس کے بعد ملکہ نے جنگلی چوہوں کو حکم دیا کہ وہ سب چابک کے لمبے لمبے ٹکڑے لے کر حاضر ہوں۔
پتلے نے قلعی کے آدمی سے کہا کہ وہ درخت کاٹ کر لکڑی کے پہیوں والا ٹھیلہ بنائے۔ ٹھیلہ اس قدر بڑا ہونا چاہیے کہ شیر اس پر سما سکے۔چناں چہ قلعی کے آدمی نے اپنا کلہاڑا سنبھالا اور بلا تاخیر کام پر لگ گیا۔
ہزاروں کی تعداد میں چابک کے لمبے لمبے ٹکڑے منہ میں دبوچے چوہے حاضر ہو گئے تھے۔ بزدل شیر کو اٹھانے کیلئے لکڑی کا ٹھیلہ تیار ہو چکا تھا۔ اسی اثنا میں ڈروتھی لمبی نیند سے بیدار ہو چکی تھی۔ اس نے جب سارا منظر دیکھا تو حیرانی کا اظہار کیا۔
پتلے نے وضاحت کی تو ڈروتھی بے اختیار مسکرا دی۔
پھر پتلے نے جنگلی چوہوں کو اپنے منصوبے سے آگاہ کیا۔ ہر چوہے کے پاس چابک کا ایک ٹکڑا تھا جس کا ایک سراٹھیلے کے ساتھ بندھا تھا، اور اس کی مدد سے جنگلی چوہے ٹھیلے کو کھینچ کر بزدل شیر تک لے گئے تھے۔ پتلے اور قلعی کے آدمی نے دھکیل کر بے ہوش بزدل شیر کو ٹھیلے پر ڈالا۔ وہ بہت بھاری تھا۔ اس لیے ان کا اچھا خاصا وقت صرف ہو گیا تھا۔جنگلی چوہوں نے پوری طاقت لگا دی تھی۔ ٹھیلہ آہستہ آہستہ حرکت کرنے لگا تھا۔ پتلا اور قلعی کا آدمی پچھلی طرف سے دھکا لگا رہے تھے۔
وہ بزدل شیر کو خشخاش کے کھیت سے باہر لانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ڈروتھی نے اس موقعے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ ہر ایک جنگلی چوہے کی کمر میں بندھا چابک کھلا تو سب بھاگ گئے۔صرف ملکہ بچی گئی۔ جنگلی چوہوں کی ملکہ نے ڈروتھی کو ایک سیٹی تھماتے ہوئے کہا۔”جب بھی تم لوگوں پر کوئی مصیبت آئے تو اس سیٹی کو بجانا ہم حاضر ہو جائیں گے۔“ اس کے بعد جنگلی چوہوں کی ملکہ بھی انہیں خدا حافظ کہہ کر غائب ہو گئی۔
ڈروتھی، پتلے اور قلعی کے آدمی نے اسے خدا حافظ کہا۔وہ میدان میں بیٹھ کر بزدل شیر کے جاگنے کا انتظار رہے تھے۔
باب:۹
شہرِ زمرد
بزدل شیر دیر تک سویا رہا لیکن آخر کار وہ لمبی نیند سے بیدار ہوا اور اس نے اپنے ارد گرد دیکھا۔
”مجھے تم سب کو ایک بار پھر اپنے ساتھ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔تم لوگوں نے مجھے خشخاش کے کھیت سے کیسے نکالا؟“ اس نے اپنے دوستوں سے مخاطب ہو کر پوچھا۔
”ہمیں کچھ مدد حاصل ہو گئی تھی۔“ پتلے نے کہا۔
ڈروتھی نے بزدل شیر کو جنگلی چوہوں کے متعلق معلومات فراہم کی کہ کس طرح انہوں نے اسے پوست کے کھیتوں سے نکالنے میں ان کی مدد کی تو بزدل شیر ہنس پڑا اور کہنے لگا۔
”مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ میں کتنا بڑا اور طاقت ور ہوں اور چھوٹے چھوٹے پھولوں نے قریب قریب مجھے مار دیا تھا اور چھوٹے چھوٹے جانوروں نے نئی زندگی دلانے میں میری مدد کی ہے۔ یہ بات میں ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ اب ہمیں کیا کرنا ہوگا؟“
”اب ہمیں زرد اینٹوں کی سڑک تلاش کرنا ہو گی۔ جتنی دیر میں تم بحال ہو جاؤ گے ہم پھر سے سفر کا آغاز کریں گے۔“ ڈروتھی نے اسے جواب دیا۔
”میں بہتر محسوس کر رہا ہوں اور سفر کیلئے تیار ہوں۔“ بزدل شیر نے کہا۔
جلد ہی وہ زرد اینٹوں کی سڑک پر موجود تھے جس کے دونوں اطراف میں سرسبز کھیتوں کا سلسلہ تھا۔گھروں کو سبز رنگ کیا گیا تھا۔بعض اوقات انہیں ہرے لباس میں ملبوس کچھ لوگ بھی نظر آتے تھے۔
”ہر چیز سر سبز ہے۔لگتا ہے یہ اوز کی سرزمین ہے۔ اورشہر زمرد دور نہیں ہے۔“ ڈروتھی نے کہا۔
”میرا نہیں خیال کہ آج رات ہم وہاں پہنچ پائیں گے۔ کوئی جگہ ڈھونڈ کر آرام کر لینا چاہیے۔“پتلے نے کہا۔
”پھر آگے جو گھر آئے گا ہم ٹھہر جائیں گے۔ مجھے زور کی بھوک بھی لگی ہے۔ امید ہے ٹوٹو بھی بھوکا ہوگا۔“ڈروتھی نے کہا۔
کچھ دیر بعد وہ کھیتوں میں موجود ایک گھر کے سامنے پہنچ گئے۔ ڈروتھی نے دروازے پر دستک دی تو ایک عورت باہر نکلی۔
”تمہیں کیا چاہیے؟ اپنے ساتھ اتنا بڑا شیر کیوں گھما رہی ہو؟ مجھے اس سے ڈر لگتا ہے۔“اس عورت نے کہا۔
”گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک بزدل شیر ہے۔ اس کے اندر کسی کو کچھ کہنے کی جرأت نہیں ہے اور یہ میرا دوست ہے۔ پتلا اور قلعی کا آدمی میرے ساتھی ہیں۔ہم ایک لمبا سفر طے کر کے آرہے ہیں۔ ہمیں ایک رات گزارنے کیلئے آپ کی مدد درکار ہے۔“
”تم لوگ اندر آسکتے ہو۔ تمہیں رہائش کے ساتھ ساتھ رات کا کھانا بھی ملے گا۔“ عورت نے کہا۔
گھر کے اندر ایک آدمی بھی موجود تھا۔ ڈروتھی اور اس کے ساتھی اندر داخل ہوئے تو وہ حیران رہ گیا۔
”تم لوگ کون ہو اور کہاں جا رہے ہو؟“ اس آدمی نے ڈروتھی سے سوال کیا۔
”ہم اوز کے عظیم جادوگر سے ملاقات کیلئے ’شہر زمرد‘ جارہے ہیں۔“ ڈروتھی نے کہا۔
”تمہیں یقین ہے کہ اوز کا جادوگر تم لوگوں سے ملاقات کرے گا۔ میں بارہا وہاں جا چکا ہوں لیکن وہ مجھے نہیں ملا۔“
”اس کی کیا وجہ ہے؟“ پتلے نے پوچھا۔
”وہ کبھی باہر نہیں نکلتا ہے۔ہمیشہ اپنے محل کے اندر رہتا ہے۔“ آدمی نے جواب میں کہا۔
”اوز کا جادوگر دیکھنے میں کیسا ہے؟“ ڈروتھی نے پوچھا۔
”تمہارے اس سوال کا جواب بہت مشکل ہے۔ اوز کا جادوگرایک عظیم جادوگر ہے۔ وہ جادو کے زور سے اپنی شکل بدلتا رہتا ہے۔آج تک کسی کو بھی اس کو دیکھنے کا یقین نہیں ہے۔“ آدمی نے کہا۔
”اوہ پیارے انسان! اس سے ملنے کی خاطر ہم لوگ ایک لمبا سفر طے کر کے آئے ہیں۔ تمہیں اندازہ ہے کہ ہمارا اس سے ملنا کتنا ضروری ہے؟“ ڈروتھی نے کہا۔
”جی ہاں، میں نے دماغ حاصل کرنے کی خاطر یہ سفر کیا ہے۔“پتلے نے کہا۔
”مجھے دل چاہیے۔“ قلعی کے آدمی نے کہا۔
”مجھے جرأت حاصل کرنی ہے۔“ بزدل شیر نے کہا۔
وہ آدمی کہنے لگا۔”یہ سب کچھ تو اس کے بس میں ہے لیکن پیاری لڑکی! تمہیں اوز کے جادوگر سے کیا مطلب ہے؟“
”میں اور ٹوٹو واپس اپنے وطن کنساس جانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے ہمیں اوز کے جادوگر کی مدد چاہیے۔“ ڈروتھی نے کہا۔
”میں نے کنساس کا نام پہلے نہیں سنا ہے۔ دور دراز علاقہ لگتا ہے؟“ آدمی چونکا۔
”مجھے نہیں معلوم میں تو اتنا جانتی ہوں کہ کنساس میرا وطن ہے اور مجھے ہر حال میں واپس جانا ہے۔“ ڈروتھی نے افسردگی کے لہجے میں کہا۔
”اوز کا جادوگر سب کچھ جانتا ہے اور وہی تمہاری مدد کرسکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کے ساتھ پہلی بار تمہاری ملاقات ہو جائے۔“
اتنے میں عورت کھانا لے کر آگئی۔ڈروتھی اور ٹوٹو نے کھانا کھایا۔پتلے اور قلعی کے آدمی نے کھانا نہیں کھایا۔ڈروتھی ٹوٹو کے ساتھ نرم و ملائم بستر پر سو گئی تھی۔ بزدل شیر کمرے کے دروازے پر ہی سو گیا اور پتلے اور قلعی کے آدمی نے کھڑے کھڑے رات گزار دی۔
صبح انہوں نے اس مہربان عورت اور مرد کا شکریہ ادا کیا اور اپنے سفر پر روانہ ہو گئے۔ آسمان پر سبز رنگ کی روشنی نظر آ رہی تھی۔
”یہشہر زمرد ہوگا۔“ ڈروتھی نے کہا۔ وہ سارا دن چلتے رہے۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہے تھے، سبز روشنی اور تیز ہو رہی تھی۔
دوپہر کو وہ زرد اینٹوں کی سڑک کے اختتام پر پہنچ چکے تھے۔اور اس سے آگے ہرے رنگ کی شہر زمرد کی سرحدی دیوار شروع ہو چکی تھی۔
ان کے سامنے زمرد کی روشنی میں گھرا ایک بڑا دروازہ تھا۔ ڈروتھی نے اس پر نصب گھنٹی بجائی۔دروازہ کھلا اور وہ لوگ اندر داخل ہو گئے تھے۔ ہر چیز سبز روشنی میں نہائی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔
وہ سبز رنگ کے ایک کمرے داخل ہوئے۔ درمیان میں ایک سبز آدمی بیٹھا ہوا تھا۔
”شہر ِزمردمیں آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ میں یہاں کا محافظ ہوں۔ کیسے آنا ہوا ہے؟۔“
”ہمیں اوز کے جادوگر سے ملنا ہے۔“ ڈروتھی نے جواب دیا۔
محافظ حیران رہ گیا، کیوں کہ کسی نے آج تک اس سے اوز کے جادوگر کو ملنے کی اجازت نہیں مانگی تھی۔
”اوز کا جادوگر بہت عظیم اور غضب ناک ہے۔ اگر تم لوگوں نے اس کا وقت برباد کیا تو تمہیں ہمیشہ کیلئے شہر زمرد سے نکال دے گا۔“ محافظ نے انہیں سمجھاتے ہوئے کہا۔
”ہم نے سن رکھا ہے کہ وہ بہت اچھا جادوگر ہے۔ اس کی شہرت کا چرچا سن کر ہم لوگ ایک طویل سفر طے کر کے اس سے مدد طلب کرنے آئے ہیں۔ ہم محض اس کا وقت ضائع کرنے نہیں آئے۔“ پتلے نے کہا۔
ان کی باتوں سے متاثر ہو کر محافظ انہیں محل تک لے جانے پر رضا مند ہو گیا تھا۔
شہر زمرد کے لوگوں کا رنگ سبز تھا۔ عمارتیں بھی ہرے رنگ کی اور کھڑکیوں میں ہرا شیشہ نصب تھا۔ راستے میں آتے جاتے لوگ انہیں گھور رہے تھے لیکن بات چیت نہیں کر رہے تھے۔
جب وہ محل کے دروازے پر پہنچے تو پہلے والے محافظ نے انہیں ایک اور محافظ کے حوالے کیا جس نے ان سے ان کے آنے کا سبب پوچھا۔ ان کے آنے کی وجہ جان کر وہ اچھل پڑا اور کہنے لگا۔”تم لوگ یہاں ٹھہرو ……میں جادوگر سے پوچھ کر آتا ہوں۔“
”کیا آپ نے اوز کے جادوگر کو دیکھا ہے؟“طویل وقت کے بعد جب محافظ واپس آیا تو ڈروتھی نے اس سے سوال کیا۔
”نہیں میں نے اسے نہیں دیکھا ہے۔کیوں کہ وہ ایک پردے کے پیچھے بیٹھ کر بات کرتا ہے۔میں نے اس کو تمہارے متعلق بتا دیا ہے۔ وہ تم سب کو ملاقات کیلئے اکٹھا نہیں بلائے گا بلکہ فرداً فرداً اندر بلائے گا۔ جب تک اوز کے جادوگر کی طرف سے اگلا حکم نہیں آتا تم لوگ اپنے کمروں میں جاکر انتظار کرو۔“ محافظ نے انہیں تفصیل سے آگاہ کیا۔
سبز بالوں والی سبز رنگ کی خوبصورت لڑکی نے مسکرا کر ڈروتھی کو اپنے پیچھے آنے کو کہا۔ اس نے ڈروتھی اور ٹوٹو کو سبز رنگ کے ایک کمرے میں پہنچا دیا اور کہنے لگی۔”امید ہے تم یہاں اچھا محسوس کرو گی۔ اوز کا جادوگر کل صبح تمہیں ملاقات کیلئے بلائے گا۔ اب میں تمہارے باقی دوستوں کو ان کے کمروں میں پہنچانے جارہی ہوں۔“ ڈروتھی کے پڑھنے کیلئے سبز رنگ کی کتابیں اور پہننے کیلئے ہری پوشاک موجود تھی۔اس کے سونے کیلئے سبز رنگ کا نرم و ملائم بستر کمرے میں بچھا ہوا تھا۔ ڈروتھی نے خوب آرام کیا۔ اگلی صبح اٹھ کر نہائی۔ سبز پوشاک زیب تن کی اور ٹوٹو کے گلے میں سبز پٹہ باندھ کر اوز کے جادوگر سے ملنے کیلئے تیار ہوگئی تھی۔
باب:۱۰
اوز کا عظیم جادو گر
اگلی صبح سبز رنگت والی لڑکی ڈروتھی کیلئے پیغام لائی۔ عظیم جادوگر نے اسے اس کے کتے کے ہمراہ ملنے کیلئے بلایا تھا۔”جادوگر عمومی طور پر لوگوں کو دیکھتا نہیں ہے۔ لیکن سپاہی نے تمہارے چاندی کے جوتوں کے متعلق اسے بتایا تو اس کی دلچسپی بڑھ گئی ہے۔ اب وہ تمہیں اپنے کمرہئ تخت میں آمنے سامنے ملے گا۔ یقیناپیاری لڑکی! تم بہت بہادر ہو۔“ سبز رنگت والی لڑکی نے وضاحت کی۔
کمرہئ تخت گول، اونچا اور بہت بڑا تھا۔ اس کے اندر موجود ہر چیز چمکتے ہوئے زمرد سے ڈھکی ہوئی تھی۔
جادوگر کا سبز رنگ کا تخت کمرے کے درمیان نصب تھا۔ تخت کے اوپر ایک بہت بڑا سر رکھا تھا۔ جس کے ساتھ کوئی جسم، بازو یا ٹانگیں نہیں تھیں۔ سر پر بال نہیں تھے لیکن دو آنکھیں، ایک ناک اور ایک منہ دکھائی دیتا تھا۔
”میں ہوں اوزکا جادوگر……عظیم اور دہشت ناک……تم کون ہو؟“ جادوگر نے اپنا تعارف کرایا اور ڈروتھی سے اس کے بارے میں پوچھا۔
”میں ڈروتھی ہوں چھوٹی اور کمزور۔“ ڈروتھی نے کہا۔
”تم نے چاندی کے جوتے کہاں سے حاصل کیے ہیں؟“ اس نے پوچھا۔”مشرق کی ظالم چڑیل سے……میرا گھر اس کے اوپر گرنے کے سبب اس کی ہلاکت ہوگئی تھی۔“ ڈروتھی نے جواب دیا۔ ‘ ”جنوب کی نیک پری نے تمہارے چہرے کو چوما ہے۔ میں اس کا نشان دیکھ سکتا ہوں۔“ جادوگر نے آہستگی میں کہا۔
”جی بالکل! اسی نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے۔“ڈروتھی نے کہا۔
”تم طویل سفر کر کے یہاں کیسے پہنچی ہو؟ میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں؟“ اوز نے پوچھا۔
”براہ مہربانی مجھے اپنی چچی ایم اور چچا ہنری کے پاس کنساس میں پہنچا دیجیے۔ آپ کا ملک بہت خوب صورت ہے مگر یہاں میرا گھر نہیں ہے۔ میں اتنے عرصے سے کنساس سے دور ہوں۔ اس لیے جلدی سے اپنے گھر جانا چاہتی ہوں۔“ ڈروتھی نے کہا۔
”میری مدد کی تمہیں کیا ضرورت ہے؟ جب کہ مشرق کی ظالم چڑیل کو تم اکیلے ہی مار چکی ہو۔“ اوز نے ڈروتھی سے پوچھا۔
”وہ ایک غلطی کا نتیجہ تھا۔“ ڈروتھی نے کہا۔
”اوہ……اچھا! میں تمہاری مدد کروں گا۔ لیکن اس کے لیے تمہیں میری مدد کرنا ہوگی۔“جادوگر نے جواب دیا۔
”میں آپ کے لیے کیا کر سکتی ہوں؟“ ڈروتھی نے حیرت سے پوچھا۔
”تمہیں مغرب کی ظالم چڑیل کو بھی مارنا ہوگا۔“ جادوگر نے کہا۔
”میں کسی کو قتل نہیں کر سکتی ہوں۔“ ڈروتھی چلائی۔
”تم مشرق کی ظالم چڑیل کو مار چکی ہو۔ اس کے چاندی کے جوتے تمہارے پاؤں میں ہیں۔ جب مغرب کی ظالم چڑیل کو قتل کرلو گی تو ہی کنساس جا سکو گی۔“ جادوگرنے وضاحت سے کہا۔
”چڑیل بیشک ظالم ہوگی مگر میں اب تک کسی کو مارنا نہیں چاہتی۔میں صرف ایک لڑکی ہوں اور آپ عظیم اور دہشت ناک جادوگر ہیں۔ چڑیل کو خود کیوں نہیں مارنا چاہتے ہیں؟“ ڈروتھی نے روتے ہوئے پوچھا۔
”یہ تمہارے سوال کا جواب نہیں ہے۔ اگر تم ظالم چڑیل کے قتل پر آمادہ نہیں ہو تو کبھی اپنی چچی اور چچا سے نہیں مل سکو گی۔“جادوگر نے بات ختم کر دی اور ڈروتھی وہاں سے نکل کر اپنے دوستوں کے پاس آئی اور انہیں ساری بات بتائی۔
”میں کبھی کنساس نہیں جا پاؤں گی۔“ وہ افسردگی سے بولی۔ اس کے دوست پریشان تھے مگر اس کی مدد نہیں کر سکتے تھے۔ ڈروتھی دوبارہ ٹوٹو کے ساتھ سبز کمرے میں چلی گئی اور روتے روتے سوگئی۔
اگلی صبح پتلے کوجادوگر سے ملانے کے لیے لے جایا گیا۔ ”میں سر سے خوف زدہ نہیں ہوں گا۔“ وہ تخت والے کمرے کی طرف جاتے ہوئے خود سے کلام کرتے ہوئے بڑبڑا رہا تھا۔ ڈروتھی سے ملاقات میں اس نے سنا تھا کہ جادوگر کی شکل بغیر بالوں کے ایک بڑے سر پر مشتمل ہے جس پر دو آنکھیں، ناک اور منہ ہے۔لیکن جب پتلے نے اوپر دیکھاتو تخت پر سر کی بجائے ایک خوبصورت عورت براجمان تھی۔ جس کے بالوں اور لباس کا رنگ سبز تھا۔ جسم پر ہر وقت ہلتے ہوئے دو پر لگے ہوئے تھے۔”تم کون ہو؟“۔ پُتلے نے حیرت سے پوچھا۔
”میں اوزکا جادوگر ہوں ……عظیم اور دہشت ناک……تم کون ہو اور یہاں کیسے آنا ہوا؟“وہ عورت بولی۔
”میں گھاس پھوس سے بھرا ایک پتلا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ میرے سر میں بھی عام انسانوں کی طرح دماغ ہو۔ مجھے آپ کی مدد چاہیے۔“پتلے نے کہا۔
”میں بہت بڑا جادوگر ہوں۔ تمہیں دماغ دینا میرے لیے معمولی کام ہے لیکن ایک شرط ہے اس کے لیے۔ تمہیں مغرب کی ظالم چڑیل کو مارنا ہوگا۔“ اوزکے جادوگر نے کہا۔”لیکن یہ کام تو ڈروتھی کر سکتی ہے۔ میں ایک پتلا اتنا کچھ کیسے کروں گا؟“
”کون کرسکتا ہے؟ مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے۔ لیکن تمہیں دماغ اسی صورت میں ملے گا۔ اب تم جا سکتے ہو۔“ جادوگرنے بات کا اختتام کر دیا۔
پُتلا سخت پریشان دوستوں کے پاس گیا اور تمام احوال سے آگاہ کیا۔
اگلی صبح قلعی کے آدمی کی باری تھی۔ وہ دیکھ کر ڈر گیا۔ اس دفعہ اوزکا جادوگر ایک بہت بڑے جانور کے روپ میں تخت نشین تھا۔ اس کی پانچ آنکھیں، پانچ بازو اور پانچ ٹانگیں تھیں۔ جسم بالوں سے ڈھکا تھا۔ جسامت میں وہ بزدل شیر سے بڑا تھا۔
”میں عظیم……اور دہشت ناک اوز کاجادوگر ہوں۔ تم کون ہو اور یہاں کیسے آئے ہو؟“۔ دیوہیکل جانور دھاڑا۔
”میں ایک لکڑ ہارا ہوں۔ جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ میں قلعی کا بنا ہوں اور میرے اندر دل نہیں ہے۔عظیم جادوگر! اگر آپ میری مدد کریں تو میں محبت اور خوشیوں بھری زندگی گزار سکتا ہوں۔“ قلعی کے آدمی نے کہا۔
”اس کے لیے تمہیں مغرب کی ظالم چڑیل کا خاتمہ کرنا ہوگا۔“
قلعی کا آدمی دوستوں کے پاس لوٹ گیا۔صبح بزدل شیر کی باری تھی۔
وہ بولا۔”میں سر سبز رنگت والی عورت اور بڑے جانور کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں۔میں شیر ہوں۔دھاڑ کرجادوگر کو ڈرا دوں گا۔“
لیکن جب شیر کی نظر اوزکے جادوگر پر پڑی تو وہ حیران ہو گیا۔ عظیم جادوگر آگ کے شدید گرم اور روشن گولے کی شکل میں موجود تھا۔ بزدل شیر اسے دیکھ کر خود ڈر گیا۔
”میں اوز کاعظیم اور دہشت ناک جادوگر ہوں۔ تم کون اور یہاں کیسے آئے ہو؟“ گرم گولا دھاڑا۔
”میں بزدل شیر ہوں۔ ہمیشہ خوف زدہ رہتا ہوں۔ مجھے آپ سے جرأت چاہیے۔ تاکہ میں جنگل کے جانوروں پر حکومت کر سکوں۔“ بزدل شیر بولا۔
آگ کا گولہ گرم سے گرم تر ہو رہا تھا۔ بزدل شیر کو پیچھے ہٹنا پڑا۔
”جب تک مغرب کی ظالم چڑیل مر نہیں جاتی، میں تمہیں بہادری نہیں دے سکتا ہوں۔ تم نے اس کے بارے کیا سوچا ہے؟“
بزدل شیر اتنا ڈرا کہ بغیر جواب دیے واپس بھاگا۔ وہ واپس اپنے دوستوں کے پاس آیا اور سب کچھ بتا دیا۔
”اب ہم کیا کر سکتے ہیں؟“ ڈروتھی کا لہجہ افسوس ناک تھا۔
”ہمیں ظالم بلا کو ڈھونڈ کر مارنا ہوگا لیکن میرے پاس جرأت نہیں ہے۔“ بزدل شیر نے کہا۔
”میرے پاس دماغ نہیں ہے۔“ پتلے نے کہا۔
”میرے پاس دل نہیں ہے۔“ قلعی کا آدمی بولا۔
”اور میں کبھی اپنی چچی ایم اور چچا ہنری کو نہیں دیکھ پاؤں گی۔“ ڈروتھی نے افسوس ناک لہجے میں کہا اور اس کے آنسو بہہ کر سبز لباس کو تر کر گئے۔
”رونا دھونا بند کرو۔ آنسو تمہارا لباس خراب کر رہے ہیں۔“ قلعی کے آدمی نے اس سے کہا تو ڈروتھی نے رونا بند کردیا اور بولی،”ہمیں ظالم چڑیل کو تلاش کرنا چاہیے۔“
”میں اسے ڈھونڈنے میں تمہاری مدد کروں گا لیکن میں اسے مار نہیں سکتا کیونکہ میں بزدل ہوں۔“ شیر نے کہا۔
”میں کسی کو نہیں مارنا چاہتا لیکن تلاش کرنے میں تمہارے ساتھ ضرور جاؤں گا۔“ پتلے نے کہا۔
”میں بھی اس مقصد کے لیے تمہارا ساتھ دوں گا۔“ قلعی کے آدمی نے کہا۔
سب نے مشترکہ فیصلہ کیا کہ کل صبح وہ اس کی تلاش میں نکلیں گے۔ ٹوٹو بلند آواز میں بھونکنے لگا۔
باب:۱۱
مغرب کی ظالم چڑیل
اگلی صبح تمام دوست جلدی سے بیدار ہو گئے اور خوب اچھی طرح ناشتہ کیا۔ سبز رنگت والی لڑکی نے ڈروتھی کی ٹوکری پھلوں سے بھر دی۔ اس کے بعد سبز رنگت والا سپاہی انہیں واپس محل کے دروازے پر لے گیا۔
”کون سی سڑک پر چل کر ہم مغرب کی ظالم چڑیل کے علاقے میں پہنچ سکتے ہیں؟“ ڈروتھی نے محافظ سے پوچھا۔
”وہاں جانے کے لیے کوئی سڑک ہے نہ راستہ۔“
”پھر ہم وہاں کیسے جائیں گے؟“ ڈروتھی نے سوال دہرایا۔
محافظ نے قہقہہ لگایا اور بولا۔”فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مغرب کی ظالم چڑیل خود تمہیں ڈھونڈ لے گی۔ اور جب وہ تمہیں ڈھونڈ لے گی تو ساری زندگی کے لیے غلام بنا لے گی۔“
”لیکن ہم تو اسے مارنے کے لیے جا رہے ہیں۔“ پتلے نے کہا۔
وہ تم لوگوں سے نہیں ماری جائے گی۔ بہت ظالم ہے۔ لیکن اگر تمہیں اسے ڈھونڈنا ہے تو سورج کے پیچھے چلو۔ وہ مغرب کی طرف رہتی ہے۔“ گیٹ کے محافظ نے وضاحت کی۔
تمام دوست مغرب کے رُخ چلنے لگے۔ وہ شہرزمردسے دور ہوتے چلے جا رہے تھے۔ اچانک ڈروتھی کے ہرے لباس کا رنگ تبدیل ہو کر سفید ہو گیا۔ ٹوٹو کا ربن بھی سفید ہو گیا تھا۔
زمین سخت اور راستہ دشوار گزار تھا۔ وہاں نہ گھر تھے اور نہ ہی کھیت۔ گرمی بڑھتی چلی جارہی تھی۔ وہ چل چل کر تھک گئے تھے۔ شام کا اندھیرا چھانے سے قبل ہی ڈروتھی، ٹوٹو اور بزدل شیر سو گئے تھے۔ پتلا اور قلعی کا آدمی ان کے پاس ہی کھڑے ہو گئے تھے۔
مغرب کی ظالم چڑیل ایک آنکھ سے کانی تھی۔ پھر بھی اس کی نظر بہت تیز تھی۔ اس کی نظر ڈروتھی پر پڑی جو اپنے سب دوستوں کے حصار میں گہری نیند سوئی ہوئی تھی۔
مغرب کی ظالم چڑیل کو شدید غصہ آیا۔ اس نے چاندی کی سیٹی نکال کر بجائی تو بھیڑیوں کا ایک غول حاضر ہو گیا۔ بھیڑوں کی ٹانگیں لمبی، آنکھیں لال اور دانت تیز تھے۔
”جاؤ اور ان اجنبیوں کے ٹکڑے کر دو۔“ ظالم چڑیل نے بھیڑیوں کے سربراہ سے کہا۔
”آپ نے ان کو غلام نہیں بنانا ہے؟“ سربراہ نے پوچھا۔
”نہیں۔ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک قلعی کا بنا ہوا ہے۔ دوسرا بھوسے سے بھرا ہوا ہے۔ لڑکی اور شیر میری ضرورت کے نہیں ہیں۔ سب کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دو۔“ ظالم چڑیل نے کہا۔
”جی بہتر۔“ بھیڑیوں کے سربراہ نے کہا اور اپنے گروہ کے ساتھ اجنبیوں کی جانب دوڑ لگا دی۔
پتلے اور قلعی کے آدمی نے بھیڑیوں کو اپنی طرف آتے دیکھ لیا تھا۔
”اس کام کے لیے میں ہی کافی ہوں۔“ قلعی کے آدمی نے اپنا کلہاڑا ہوا میں لہرایا اور سب سے آگے بڑھتے ہوئے بھیڑیوں کے سربراہ کا سر تن سے جدا کر دیا۔ کل چالیس بھیڑیے تھے۔ اس نے چالیس وار کیے اور سب کے سر کاٹ کر رکھ دیے۔ اس کے بعد قلعی کا آدمی مسکراتے ہوئے بیٹھ گیا اور بولا۔”یہ ایک اچھی لڑائی تھی۔“
ڈروتھی صبح سو کر اٹھی تو اس نے بھیڑیوں کے سر اور دھڑ بکھرے ہوئے دیکھے تو گھبرا گئی۔ قلعی کے آدمی نے اس کو سارا واقعہ سنایا۔
”تم نے میری جان بچائی اس کے لیے تمہاری شکرگزار ہوں۔“ اس نے قلعی کے آدمی کو تھپکی دے کر کہا۔
ایک زبردست ناشتے کے بعد وہ لوگ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ ظالم چڑیل نے محل کی کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھا تو اسے بھیڑیوں کی لاشیں نظر آئیں۔ جب اس نے اجنبیوں کو اپنے محل کی طرف بڑھتے دیکھا تو سخت غصے میں آ گئی اور اپنی چاندی کی سیٹی بجا کر خونخوار کوّے اکٹھے کیے اور انہیں حکم دیا کہ اجنبیوں کی آنکھیں نکال لیں۔
کوّوں کے کپتان نے حکم کی تعمیل کی۔
ڈروتھی نے کالے کوّوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو خوف زدہ ہو گئی۔
”گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے یہ کام مجھ پر چھوڑ دیں۔“ پُتلے نے کہا۔ کوّوں نے پتلے کو دیکھا تو پہلے گھبرائے۔ لیکن کوّوں کے کپتان نے کہا۔”اس میں بھوسا بھرا ہوا ہے۔ میں اس کی آنکھیں نکال دوں گا۔“
کوّوں کا کپتان اُڑ کر نیچے آیا تو پُتلے نے اس کو گردن سے جکڑ لیا اور تب چھوڑا جب اس کی سانس نکل گئی۔
یکے بعد دیگرے کوے نیچے آتے رہے اور پتلا پکڑ کر ان کو مارتا رہا جلد ہی اس نے تمام کوّوں کا خاتمہ کر دیا۔
”اب تم لوگ محفوظ ہو۔“ اس نے اپنے دوستوں سے کہا اور وہ دوبارہ سفر پر روانہ ہو گئے۔
ظالم چڑیل نے جب تمام کوے مردہ حالت میں دیکھے تو سخت غضب ناک ہو گئی۔ اس نے چاندی کی سیٹی تین بار بجائی تو کالی مکھیوں کا جھنڈ حاضر ہو گیا۔
ظالم چڑیل کے حکم پر مکھیوں کا جھنڈ اپنے ڈنک اجنبیوں کے جسم میں پیوست کر کے موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے آگے بڑھا تو پُتلے کو معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے۔ اس نے ڈروتھی سے کہا کہ جلدی سے اس کے جسم سے تنکے نکال کر اپنے، شیر اور ٹوٹو کے جسم پر ڈھال بنا لے۔ گوشت پوست کے جسموں والے تینوں لوگ تنکوں میں چُھپ گئے تھے۔ سامنے صرف قلعی کا آدمی بچا تھا۔ مکھیوں کے ڈنک اس پر اثر کرنے سے تو رہے، اُلٹا اپنے ڈنک ٹُڑوا بیٹھیں اور تھوڑی دیر میں سب مکھیاں ہلاک ہو گئیں۔
ڈروتھی، ٹوٹو اور بزدل شیر جلدی سے اُٹھے۔پتلے کے جسم میں دوبارہ تنکے بھرے اور اپنے سفر پر چل پڑے۔
مغرب کی ظالم چڑیل کا غصہ انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ اس نے اپنے غلاموں کو بلایا اور تیزنوکوں والے نیزے دے کر لڑائی کے لیے میدان میں اتار دیا۔
”اجنبیوں کو مار ڈالو۔ ورنہ میں تمہیں مار دوں گی۔“ ظالم چڑیل نے غلاموں کو حکم دیا۔
غلام یہ لڑائی نہیں لڑنا چاہتے تھے لیکن چڑیل کے خوف سے مجبور ہو کر وہ اجنبیوں کو ڈھونڈ کر جیسے ہی ان کی طرف بڑھے تو شیر دھاڑا۔ غلام خوف زدہ ہو کر واپس چڑیل کے محل کی طرف بھاگ گئے۔
چڑیل کو تمام منصوبے ناکام ہوتے نظر آئے تو اس نے غصے میں آکر غلاموں کو سخت سزا دی اور محل میں سخت مشقت پر لگا دیا۔ وہ زمین پر بیٹھ کر سوچنے لگی تو اسے ایک زبردست خیال سوجھا۔
ظالم چڑیل کے پاس جادو کی ایک سنہری ٹوپی تھی۔ سنہری ٹوپی کی خاصیت تھی کہ اس کے مالک کے پاس اڑنے والے بندر حاضر ہو کر اس کی مدد کرتے تھے۔ وہ بندر سنہری ٹوپی کے مالک کی صرف تین مرتبہ ہی مدد کرتے تھے۔ اس کے بعد جادو رک جاتا تھا۔ ظالم چڑیل یہ سہولت دو دفعہ استعمال کر چکی تھی۔ وہ مطمئن تھی کہ پروں والے بندر ضرور اس کی مدد کریں گے۔
باب:۱۲
ظالم چڑیل کی طاقت
چنانچہ ظالم چڑیل نے سنہری ٹوپی سر پر رکھی اور جادو کے چند بول بولے۔ اچانک اڑنے والے بندر اس کے اردگرد جمع ہو گئے۔جن کی لمبی ٹانگوں پر بال تھے۔ شکل سے بدصورت اور جسم پر بڑے بڑے پر تھے۔
”تم نے ہمیں تیسری اور آخری دفعہ طلب کیا ہے۔ ہم تمہارے لیے کیا کر سکتے ہیں؟“ بندروں کے بادشاہ نے پوچھا۔
”جاؤ اور میرے علاقے میں آنے والے اجنبیوں کو تلاش کر کے مار دو، سوائے شیر کے۔ وہ میرے کام آ سکتا ہے۔“ چڑیل نے کہا۔
”ہم ایک دم ان کو ڈھونڈ لیں گے۔“ بادشاہ نے کہا اور بندروں کا غول ہنستا اور باتیں کرتا ہوا اڑ گیا۔ جلد ہی وہ ڈروتھی اور اس کے ساتھیوں کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے۔ بندروں میں سے کچھ نے قلعی کے آدمی کو اٹھایا اور نوکیلی چٹانوں پر گرا دیا۔ اس کا جسم بری طرح ٹوٹ گیا۔ دوسرے بندروں نے پتلے کے جسم سے تنکے کھینچ لیے اور اس کا لباس اونچے درخت کی چوٹی پر پھینک دیا۔چند بندروں نے مل کر بزدل شیر کو ایک مضبوط رسی کے ساتھ باندھا اور چڑیل کے محل کی طرف لے گئے۔
بندروں کے بادشاہ نے ڈروتھی کی طرف دیکھا تو اسے نیک پری کے بوسے کا نشان نظر آیا۔ ”ہم لڑکی کو قتل نہیں کر سکتے ہیں۔“ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ ”اس کی حفاظت نیکی کی طاقت کر رہی ہے اور نیکی برائی سے طاقتور ہے۔ اس کو کتے سمیت اٹھا کر محل میں پہنچا دو۔“
محل کے باہر پہنچ کر بندروں کے بادشاہ نے چڑیل کو اپنی کارکردگی سے آگاہ کیا اور وہ سب اڑ گئے۔
ظالم بلا نے ڈروتھی کے ماتھے پر بوسے کا نشان اور پاؤں میں چاندی کے جوتے دیکھے تو اس کی طاقت سے ڈر گئی مگر وہ خوش تھی کہ ڈروتھی کو اپنی طاقت کا علم نہیں ہے۔
”آؤ میری بیٹی! میرے گھر میں تمہارے لیے بہت کام ہے۔ مکار چڑیل اسے اپنے باورچی خانے میں لے گئی اور برتن دھونے پر لگا دیا۔ ڈروتھی محل میں رکنا نہیں چاہتی تھی لیکن وہ خوش تھی کہ ظالم چڑیل نے اسے قتل نہیں کیا۔
ڈروتھی چڑیل کے گھر محنت سے کام کرنے لگی لیکن اسے ہر وقت کنساس والے گھر کی یاد ستاتی رہتی تھی۔
بزدل شیر بدستور بندھا ہوا تھا۔ ظالم چڑیل اس کو کھانے کے لیے کچھ نہیں دیتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ بھوک سے مر جائے گا۔ مگر ڈروتھی رات کو چپکے سے اس کو کھانا کھلا دیتی تھی اس لیے وہ زندہ تھا۔ ڈروتھی اور بزدل شیر دونوں سخت پریشان تھے لیکن کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ کیوں کہ محل غلاموں سے بھرا ہوا تھا۔
ظالم چڑیل ڈروتھی کے چاندی کے جوتوں کی طاقت سے آگاہ تھی۔ وہ ان کو حاصل کرنا چاہتی تھی۔ ادھر ڈروتھی بھی اپنے جوتوں کی خوب حفاظت کرتی تھی۔ رات کو نہاتے وقت ہی اتارتی تھی۔ اندھیرا اور پانی چڑیل کی کمزوری تھے۔ وہ دونوں سے ڈرتی تھی۔
چڑیل نے جوتے حاصل کرنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا۔ اس نے کچن کے درمیان لکڑی کا ایک لمبا ٹکڑا رکھا اور اس پر جادو پھونک دیا کہ ڈروتھی کو نظر نہ آئے۔
ڈروتھی چلتے ہوئے لکڑی سے ٹکرائی تو اس کے ایک پاؤں سے جوتا نکل گیا۔ چڑیل نے جھٹ سے جوتا اٹھا لیا۔
”ہاہا ہاہا ہاہا……“ چڑیل کی ہنسی مکروہ تھی۔”میں نے اپنا ایک جوتا حاصل کر لیا۔ بہت جلد تم سے دوسرا بھی لے لوں گی۔“ وہ بولی تو ڈروتھی کو غصہ آگیا۔
”یہ جوتے میرے ہیں تمہارے نہیں۔“ ڈروتھی غصے سے چلائی اور پاس پڑی پانی کی بالٹی چڑیل پر بہا دی۔
”اوہ یہ کیا کیا تم نے…… میں مر جاؤں گی۔ میرا جسم پانی میں گُھل رہا ہے۔ میری مدد کرو۔“ وہ چلائی۔
”پانی بہانا میری غلطی تھی لیکن اس کی ذمہ داری تمہارے اوپر ہے۔ دھوکے سے جوتا حاصل کر کے تم نے مجھے اشتعال دلایا ہے۔“ ڈروتھی نے کہا۔
دیکھتے ہی دیکھتے مغرب کی ظالم چڑیل پانی میں حل ہو گئی تھی اور صرف چاندی کا جوتا باقی بچا تھا۔ ڈروتھی نے جوتادھو کردوبارہ پہن لیا۔ اس نے فرش پر مزید پانی بہا کر صاف کر دیا۔ وہ باہر نکلی اور سب سے پہلے بزدل شیر کو کھول کر آزاد کیا۔ اور خوشخبری سنائی کہ مغرب کی ظالم چڑیل مر چکی ہے۔ تمام غلام دوڑتے ہوئے ڈروتھی کے پاس آئے اور پوچھنے لگے۔ ”مغرب کی ظالم چڑیل مر چکی ہے اور ہم آزاد ہیں؟“
باب:۱۳
ڈروتھی اور اُڑنے والے بندر
افریقی جنگلی باشندے کئی سالوں سے مغرب کی ظالم چڑیل کی غلامی میں زندگی گزار رہے تھے۔ وہ اس بات پر خوش تھے کہ ڈروتھی نے اس کو مار دیا ہے۔
”ہمارے لائق کوئی خدمت ہو بتائیے؟“
”ہمارے دو اچھے دوست قلعی کا آدمی اور پُتلا گم شدہ ہیں۔ تم ان کا پتا چلا سکتے ہو؟“ ڈروتھی نے کہا۔
”جی بالکل۔“ جنگلیوں نے کہا۔
انہوں نے ہر طرف تلاش کیا اور آخر کار قلعی کے آدمی کو ڈھونڈ لائے۔ اس کا جسم بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا۔ ڈروتھی نے دیکھا تو اس کو بہت دکھ ہوا۔ غلاموں میں سے چند قلعی گر تھے۔ انہوں نے تین دن کی محنت سے قلعی کے آدمی کا جسم پہلے سے بھی بہتر بنا دیا۔
غلاموں میں سے ایک سنار نے قلعی کے آدمی کی کلہاڑی کا دستہ سونے کا بنا دیا۔ اب قلعی کا آدمی مسکرا کر کہنے لگا۔”مجھ میں صرف دل کی کمی رہ گئی ہے۔“
ڈروتھی نے جنگلیوں کو پُتلے کے متعلق بتایا۔ وہ اس کی تلاش میں نکل گئے۔ تین دن کی سخت محنت کے بعد انہیں پتلے کا نیلا سوٹ ایک درخت کی چوٹی پر لٹکا نظر آیا تو قلعی کے آدمی نے کلہاڑی سے درخت کاٹ دیا۔ کپڑے لے کر وہ محل میں آئے۔ صاف تنکوں سے اس کی بھرائی کی۔ اب پتلا پہلے سے زیادہ چست دکھائی دیتا تھا۔ ڈروتھی اور اس کے دوستوں نے کچھ دن محل میں گزارے۔ انہیں بہت مزہ آیا۔ مگر ڈروتھی کے دل سے کنساس والے گھر اور چچی چچا کی محبت نہیں نکل رہی تھی۔
”ہمیں واپس شہر زمردجا کر اوزکے جادوگر کو اس کے وعدوں کی یاددہانی کرانی چاہیے تا کہ میں اور ٹوٹو کنساس واپس جا سکیں۔“ڈروتھی نے کہا۔
”مجھے دماغ اسی صورت میں مل سکتا ہے۔“ پتلے نے کہا۔
”مجھے اوزکے جادوگر سے دل لینا ہے۔“ قلعی کے آدمی نے کہا۔
”اور مجھے جرأت۔“ بزدل شیر نے کہا۔
”چلو چلوشہرزمردکے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔“ ڈروتھی نے کہا۔
انہوں نے جنگلیوں کو خدا حافظ کہا تو وہ ان کی جدائی پر اداس ہو گئے۔ ڈروتھی باورچی خانے میں گئی۔ وہاں سے کچھ کھانا اٹھایا اور سنہری ٹوپی سر پر رکھ لی۔ اب اس کے پاؤں میں چاندی کے جوتے اور سر پر سنہرے ٹوپی تھی۔ لیکن ڈروتھی کو سنہری ٹوپی کے متعلق علم نہیں تھا کہ یہ جادو کی ٹوپی ہے۔
وہ سورج کی مدد سے مشرق کی سیدھ میں شہرزمرد کی طرف بڑھنے لگے۔ کوئی ہموار راستہ نہیں تھا۔ ایک جگہ پر جاکر وہ رُک گئے۔ آسمان پر بادلوں کی وجہ سے انہیں سمت کا درست اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔ چلتے چلتے وہ راستہ بھول گئے۔ سب پریشانی اور شدید تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے۔
وہ سخت مایوس ہونے لگے کہ اب ان میں سے کوئی بھی اپنا مقصد حاصل نہیں کر پائے گا۔ اس دوران ڈروتھی کو ایک زبردست خیال سوجھا۔ اس نے چاندی کی سیٹی بجائی اور اگلے ہی لمحے جنگلی چوہوں کی ملکہ اپنی رعایا سمیت حاضر ہوگئی۔ ”ہم آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں اچھی لڑکی!“ ملکہ نے ڈروتھی کو مخاطب کیا۔
”ہمیں شہرزمرد جانا ہے اور ہم راستہ بھول گئے ہیں۔“ چوہیا شہزادی کی نظر ڈروتھی کی سنہری ٹوپی پر پڑی تو وہ بولی۔ ”شاید تمہیں علم نہیں تمہارے سر پر رکھی ٹوپی میں بہت طاقت ہے۔ تم اس پر جادو پھونکو تو اڑنے والے بندر حاضر ہو جائیں گے۔ وہ تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو آسانی سے شہرزمرد پہنچا سکتے ہیں۔“
”لیکن مجھے تو جادو کا علم بھی نہیں ہے؟“ ڈروتھی نے کہا۔
”تمہاری ٹوپی کے اندر وہ جادو لکھا ہے۔ لیکن پھونکنے سے پہلے ہمیں اجازت دو۔ ہمارے جانے کے بعد ہی اڑنے والے بندروں کو بلانا تاکہ انہیں اس بات کا پتا نہ چل سکے کہ ان کے بارے میں ہم نے تمہیں بتایا ہے۔“ ڈروتھی نے ملکہ کی تائید کی اور شکریہ ادا کیا۔ وہ اپنی رعایا کے ساتھ جلدی سے رخصت ہو گئی۔
ڈروتھی نے جادو یاد کیا۔ پڑھ کر پھونکا اور جیسے ہی ٹوپی سر پر رکھی اڑنے والے بندروں کا غول حاضر ہوگیا۔ ”ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ تم اس کے علاوہ دو دفعہ مزید ہمیں طلب کر سکتی ہو۔“ اڑنے والے بندروں کے بادشاہ نے کہا۔
”ہم شہرزمرد کا راستہ بھول گئے ہیں۔ تم ہمیں وہاں پہنچانے کا انتظام کر دو۔“ ڈروتھی نے کہا۔
”یہ ہمارے لیے معمولی کام ہے۔ بندروں نے ایک ایک کو پیٹھ پر بٹھایا اور فضا میں بلند ہو گئے۔ وہ نہایت تیز رفتاری سے اڑ رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں وہ شہرزمرد کے دروازے پر اتر گئے۔ بندر رخصت ہوئے تو ڈروتھی نے کہا۔ ”بہت مزہ آیا اڑنے والے بندروں پر سواری کر کے۔“ بزدل شیر نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور سب دروازے کی طرف چل پڑے۔
باب:۱۴
اوز کا حیرت انگیز جادو
چاروں دوست دروازے کی طرف چل کر گئے اور ڈروتھی نے گھنٹی بجائی۔ جلد ہی محافظ باہر آیا اور پوچھا۔”تم لوگ واپس آگئے؟ میرے خیال میں تم مغرب کی ظالم چڑیل کو تلاش کرنے گئے تھے۔ اس کا کیا بنا؟“
”ہم نے اسے تلاش کر لیا تھا۔ ہم وہیں سے واپس آئے ہیں۔“ پتلے نے جواب میں کہا۔
”اچھا…… تو اس نے تم لوگوں کو واپس کیسے بھیج دیا؟“ محافظ نے اگلا سوال کیا۔
”ڈروتھی نے اس کو قتل کر دیا ہے۔“ پتلے نے کہا۔
”مگر کیسے؟ وہ تو بہت ظالم اور طاقت ور تھی۔“ محافظ نے بے قراری سے پوچھا۔
”ڈروتھی نے اس کے جسم پر پانی بہایا تو وہ گُھل گئی۔“پتلے نے بتایا۔
”مطلب مغرب کی چڑیل مر چکی ہے۔ اوزکا جادوگر یہ خبر سن کر بہت خوشی محسوس کرے گا۔ سپاہی تم لوگوں کو محل کے اندر پہنچائے گا۔“ محافظ نے کہا۔
اس کے بعد وہ سب دوست شہرزمرد کی طرف بڑھنے لگے۔ شہر کی گلیاں لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں۔ وہ ڈروتھی کے ہاتھوں چڑیل کی موت کی خبر سن چکے تھے۔ وہ ڈروتھی کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔
سب دوستوں کو ان کے کمروں میں پہنچا دیا گیا۔ جادوگر تک مغرب کی ظالم چڑیل کی موت کی خبر بھیجی گئی۔ کئی روز تک جب اس نے انہیں ملنے کے لیے نہیں بلایا تو پتلا انتظار کرتے کرتے تھک گیا۔ اس نے ہری رنگت والی لڑکی سے کہا۔”جادوگر کو بتا دو۔ کل تک ہمیں نہ بلایا تو ڈروتھی اڑنے والے بندروں کو بلا لے گی۔ اس کے پاس جادو کی سنہری ٹوپی ہے۔ جو بہت طاقتور ہے۔“
اوزکاجادوگر اڑنے والے بندروں سے سخت خوف زدہ تھا۔ اس نے چاروں دوستوں کو اگلی صبح نو بجے ملاقات کا وقت دے دیا۔
مقررہ وقت پر وہ چاروں تخت والے کمرے میں پہنچ گئے۔ وہ ادھر ادھر دیکھ رہے تھے مگر حیران کن طور پر عظیم جادوگر کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ کمرے میں ایک تخت، چند کرسیاں اور ایک شیشہ دکھائی دے رہا تھا۔ پھر انہیں ایک آواز سنائی دی۔
”میں ہوں اوزکا…… عظیم اور ہیبت ناک جادوگر۔“
”آپ کہاں ہیں عظیم جادوگر!“ ڈروتھی نے پوچھا۔
”میں ہر جگہ موجود ہوں۔“ آواز پھر بلند ہوئی۔
”آپ سے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے ہم نے مغرب کی چڑیل کو قتل کر دیا ہے۔ اب میں جلدی سے کنساس جانا چاہتی ہوں۔“ ڈروتھی نے کہا۔
”مجھے آپ سے دماغ چاہیے۔“ پتلے نے کہا۔
”مجھے دل دیجیے۔“ قلعی کے آدمی نے کہا۔
”مجھے آپ سے جرأت اور بہادری چاہیے۔“ بزدل شیر چلایا۔
”ٹھیک ہے تم لوگوں نے مغرب کی چڑیل کو ختم کر دیا ہے مگر مجھے تم سے کیے گئے وعدے کو پورا کرنے کے لیے کچھ وقت درکار ہے۔“
”مگر مجھے ابھی اور اسی وقت جرأت اور بہادری چاہیے۔“ یہ کہہ کر شیر غصے سے دھاڑا۔ اس کی دھاڑ اس قدر شدید تھی کہ ٹوٹو ڈروتھی کے بازوؤں سے گر کر شیشے سے ٹکرایا۔ شیشے کے پیچھے ایک بوڑھا بونا بیٹھا تھا۔قلعی کا آدمی بونے پر لپکا۔اس نے اپنی کلہاڑی لہراتے ہوئے پوچھا۔”کون ہو تم؟ اور اوزکا جادوگر کہاں ہے؟“
”مجھے مت مارو۔ میں ہی اوزکا جادوگر ہوں۔ لوگ سوچتے ہیں کہ میں بہت عظیم جادوگر ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں ایک بونا ہوں۔“
”تم ایک فریب ہو۔“ قلعی کے آدمی نے کہا۔
”جی ہاں! میں فریب ہوں۔ مجھے کوئی جادو نہیں آتا یہ بات صرف تم لوگوں کو پتا ہے۔“ بوڑھے بونے نے کہا۔
”تم نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا۔ تم ایک فریب ہو۔ تمہیں اس بات پر شرمندگی نہیں ہورہی ہے؟“ پتلے نے پوچھا۔
”بالکل میں شرمندہ ہوں۔ میں تم لوگوں کو اپنی کہانی سناتا ہوں۔“ اوزکے جادوگر کا روپ دھارنے والا بوڑھا بونا بولا۔”میں اوماہا میں پیدا ہوا تھا۔“
”اوماہا…… تو کنساس سے زیادہ دور نہیں ہے۔“ ڈروتھی چلائی۔
”تم نے بالکل سچ کہا۔“ بونابولا۔
”مگر کنساس اور اوماہا دونوں یہاں سے بہت دور ہیں۔ میں نوجوانی میں غبارے والا تھا۔ سرکس میں کرتب دکھاتا تھا۔ ٹوکری والے غبارے میں بیٹھ کر ہوا میں اڑتا تھا۔ اس طرح میں روزی روٹی کماتا تھا۔“
”اوہ……میں نے کنساس کے میلے میں سرکس دیکھی تھی۔“ ڈروتھی نے کہا۔
”بالکل…… تم نے دیکھی ہوگی۔“ بونے نے کہا۔
”ایک دن میرے غبارے کی رسی ٹوٹ گئی اور وہ اوپر بلند ہونے لگا۔ حتیٰ کہ بادلوں سے بھی اوپر چلا گیا۔ غبارہ ایک رات اور ایک دن اڑنے کے بعد اس خوبصورت ملک میں اترا۔ لوگ مجھے آسمان سے اترتے دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے تھے۔ انہوں نے سمجھا میں کوئی بہت عظیم جادوگر ہوں۔“
”مگر تم کوئی جادو،وادو نہیں جانتے تھے اور شروع سے فریبی ہو۔“ پتلے نے آہستہ سے کہا۔
”بالکل…… تم صحیح کہہ رہے ہو۔“ بونے نے کہا۔
”میرے کہنے پر لوگوں نے یہ شہر تعمیر کیا۔ انہوں نے میرے لیے محل بنایا۔ اس دن سے میں اندر ہی رہتا ہوں اور کسی سے نہیں ملتا۔ دراصل مجھے چڑیلوں سے ڈر لگتا ہے۔ چار میں سے دو رحم دل اور دو ظالم تھیں۔ تم لوگوں نے پہلے مشرق کی ظالم چڑیل کو قتل کر دیا تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔“
”اسی لیے تم نے ہم لوگوں کو مغرب کی ظالم چڑیل کو مارنے کے لیے بھیجا تھا۔“ڈروتھی نے کہا۔
”تم حسبِ وعدہ ہماری مدد کر سکتے ہو تو تمہارا احسان ہوگا۔“ پتلے نے کہا۔
”میں کچھ نہیں کرسکتا۔ مجھے ان وعدوں کی پاسداری کا احساس نہیں ہے۔“بونے نے جواب دیا۔
”پھر تو تم بہت بُرے انسان ہو۔“ ڈروتھی نے کہا۔
”میں بُرا نہیں بلکہ بہت اچھا انسان ہوں۔ مگر برا جادوگر ضرور ہوں۔“بونے نے جواب دیا۔
سب دوستوں نے اپنی ضرورت پھر دہرائی تو بونے نے اگلے دن ان کی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ وہ سب پر امید اپنے اپنے کمروں میں لوٹ گئے۔
۔۔۔۔۔
اگلے دن بونے نے سب سے پہلے پتلے کو طلب کیا۔
”میں جب واپس آؤں گا تو بالکل تمہاری طرح نارمل انسان ہوں گا۔“ پتلے نے ڈروتھی سے کہا۔ وہ بہت خوش تھا۔ بونا پتلے سے ملنے کے لیے تیار تھا۔
”پہلے مجھے تمہارے جسم سے مٹھی بھر بھوسا نکالنا ہوگا۔ اس کے بعد میں تمہیں دماغ عطا کروں گا۔“بونے نے کہا،اور بھوسا نکال کر اس میں سوئیاں اور سولوشن ملا کر آمیزہ تیار کیا۔ اس کے بعد وہ آمیزہ پتلے کے سر میں ڈال دیا۔ بو نے نے پتلے سے پوچھا۔”اب تم کیسا محسوس کر رہے ہو؟ یقینا تم ایک عام آدمی کے برابر چست دماغ کے مالک بن چکے ہو۔“
”جی بالکل میں بالکل مختلف احساس کا مالک بن چکا ہوں۔“ پتلے نے بونے کا شکریہ ادا کیا۔
اس کے بعد قلعی کے آدمی کی باری تھی۔ ”مجھے دل چاہیے۔ جس میں رحم ہو۔“ قلعی کے آدمی نے بونے سے مطالبہ کیا۔
”اس کے لیے تمہارے جسم میں چھوٹا سا سوراخ کرنا پڑے گا۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تکلیف نہیں پہنچاؤں گا۔“بونے نے کہا۔اس کے بعد اوز نے ریشم کا بنا ایک بڑا دل سوراخ میں ڈال کر بند کر دیا۔”یہ اچھی قسم کا دل ہے سنبھال کر رکھنا۔“ اوز نے کہا۔
قلعی کے آدمی نے دل کو سنبھال رکھنے کی یقین دہانی کرائی اور بونے کا شکریہ ادا کیا۔
اگلی باری شیر کی تھی۔ وہ کمرہئ تخت میں پہنچ گیا۔”میں حسب وعدہ جرأت و بہادری لینے آیا ہوں۔“
بونے نے ایک دراز سے مربع شکل کی ایک بوتل نکالی،جس کا رنگ سبز تھا۔ بوتل میں سبزہی رنگ کا محلول تھا۔ بونے نے محلول پلیٹ میں ڈال کر بزدل شیر کو دیا۔
”یہ کیا ہے؟“ اس نے دریافت کیا۔”تم جلدی سے پی لو۔ اس کے پینے سے تمہارے اندر بہادری آ جائے گی۔“ بونے نے کہا۔
بزدل شیر فوراً محلول کی پلیٹ چٹ کر گیا۔
”تم کیا محسوس کر رہے ہو؟“ بونے نے پوچھا۔
”میرے اندر ایک دم بہادری سرایت کر آئی ہے۔ عظیم جادوگر!…… تمہارا شکریہ۔“ یہ کہہ کر شیر خوشی خوشی اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا۔
بونا کمرہئ تخت میں تنہا اور گہری سوچ میں گم بیٹھا تھا۔ وہ اپنے آپ سے کہہ رہا تھا۔ ”میں ایک فریبی ہوں، کیوں کہ میں جادو نہیں جانتا،مگر لوگ مجھے عظیم جادوگر سمجھتے ہیں۔ پتلے، قلعی کے آدمی اور شیر کو جیسے تیسے میں نے خوش کردیا مگر ڈروتھی کو کنساس بھیجنا بہت مشکل کام ہے۔“
تین دن کی سوچ و بچار کے بعد بونے نے ڈروتھی کو بلایا اور کہا۔”پیاری لڑکی! میں نے تمہیں کنساس بھیجنے کا طریقہ سوچ لیا ہے۔ کیا میں ایک فریبی ہوں؟“
”میں نے یہ نہیں سوچا۔مجھے تم پر اعتماد ہے۔“ ڈروتھی نے کہا۔
”تمہیں کنساس جانے کے لیے خطرناک صحرائے عظیم اُڑ کر عبور کرنا ہوگا۔ میں اڑ سکتا ہوں۔ میں یہاں بھی غبارے میں اڑ کر آیا تھا۔ یہاں سے جانے کے لیے بھی ہمیں غبارے کی مدد لینا ہوگی۔“ بوڑھے بونے نے کہا۔
”ہمیں مطلب……؟ تم بھی میرے ساتھ جا رہے ہو؟“ڈروتھی نے پوچھا۔
”جی ہاں …… میں ریشم کا غبارہ بناؤں گا اور اس میں گرم ہوا بھروں گا۔ تمہیں میری مدد کرنا ہوگی۔ مجھے یقین ہے تم سلائی اچھی کرلو گی۔“ اوز نے جواب دیا۔
”میری چچی نے مجھے کنساس میں سلائی کا طریقہ سکھایا تھا۔“ ڈروتھی نے کہا۔
“ مجھے تمہارے چچی اور چچا سے مل کر خوشی ہوگی۔ میں کنساس میں ہی سرکس میں کام کروں گا۔ مجھے زیادہ دیر تک فریبی بن کر جینا پسند نہیں۔“ بوڑھے بونے نے کہا۔
چنانچہ اوز نے ریشم کے ٹکڑے کاٹے اور لڑکی نے سلائی کر دیے۔ ایک بڑی رسی کے ساتھ غبارے کے نیچے ٹوکری نصب کی گئی۔ اوز نے غبارے کی سطح پر گوند کا لیپ کر دیا۔ اس کا مقصد ہوا کو محفوظ بنانا تھا۔اس کے بعد غبارہ محل کے باہر لایا گیا۔ جہاں شہرزمرد کے لوگ اس کو دیکھنے کے لیے جمع ہو گئے۔
قلعی کے آدمی نے لکڑیاں کاٹ کر غبارے کے نیچے آگ جلا دی۔ غبارے کے اندر ہوا گرم ہوئی تو اوپر اٹھنے لگا۔ مگر وہ رسی کے ذریعے زمین پر ایک کھونٹی سے بندھا ہوا تھا،اس لیے اڑ نہیں سکتا تھا۔
اوزکا بونا ٹوکری میں سوار ہوگیا اور لوگوں سے کہنے لگا۔ ”میں لمبی مدت کے دورے پر جا رہا ہوں۔ میں نے پتلے سے کہا ہے، وہ تمہارا خیال کرے گا۔ تم لوگوں کو اس کا ہر حکم ماننا ہو گا۔“
غبارے کے اندر ہوا بہت گرم ہو چکی تھی۔
”ڈروتھی! جلدی سے ٹوکری کے اندر آ جاؤ۔“بونے نے کہا۔
”اڑنے کا وقت ہو گیا ہے۔“ مگر عین وقت پر ڈروتھی کا ٹوٹو کہیں کھو گیا۔ ”ٹوٹو! کہاں ہو تم؟“ ڈروتھی چلائی۔
ٹوٹو بھاگ کر آیا مگر بہت دیر ہوچکی تھی۔ غبارہ فضا میں بلند ہو چکا تھا۔ ”تم واپس آجاؤ۔ ہم ایک ساتھ جائیں گے۔“ ڈروتھی چلائی لیکن اوز کے بونے نے کہا۔”میں واپس نہیں آ سکتا ہوں۔ خدا حافظ ڈروتھی! خدا حافظ شہر زمردکے لوگو!“
شہرزمرد کے لوگ اوز کے جانے پر افسردہ تھے۔ وہ اس کو عظیم جادوگر مانتے تھے۔ انہیں علم نہیں تھا کہ وہ عظیم فریبی تھا۔
باب:۱۵
جنوبی علاقے کا سفر
بونے کی روانگی کے بعد ڈروتھی دیر تک روتی رہی۔”اب میں کنساس کیسے جاؤں گی؟ میں چچی ایم اور چچا ہنری کو نہیں دیکھ پاؤں گی۔“ اس نے فریاد کی۔
”معذرت چاہتا ہوں۔اوزکاجادو اگرچہ فریب تھا لیکن اس نے مجھے دل جیسی نعمت دی۔“ قلعی کے آدمی نے کہا۔
سب دوست کمرہئ تخت میں موجود تھے۔ پتلا اب شہرزمرد کا بادشاہ بن چکا تھا۔ وہ تخت پر براجمان تھا اور اس کے دوست سامنے کھڑے ہوئے تھے۔
”میں کتنا خوش قسمت ہوں؟ زیادہ وقت نہیں گزرا جب میں کھیت میں کھڑا ایک پتلا تھا۔لیکن مجھے زیادہ خوشی اس وقت ہو گی جب ڈروتھی کنساس کو بھلا کر خوشی سے ہمارے ساتھ رہنا شروع کر دے گی۔“
”مگر میں ہر وقت کنساس کو یاد کرتی ہوں۔ میں نے ہر صورت گھر جانا ہےَ“ ڈروتھی نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
قلعی کے آدمی نے پتلے کو ڈروتھی کی مدد کی تجویز دی۔پتلا تازہ دماغ سے سوچنے میں مگن تھا۔ وہ اچانک چونکا۔
”تم اڑنے والے بندروں کو کیوں نہیں بلاتیں؟ وہ تمہیں صحرائے عظیم پار کرا سکتے ہیں۔“
ڈروتھی دوڑی دوڑی کمرے میں گئی۔ سنہری ٹوپی اٹھائی اور جادو کے حروف پھونک کر سر پر رکھی ہی تھی کہ بندر دست بستہ حاضر ہو گئے۔
اس نے بندروں کے بادشاہ کو حکم دیا کہ اسے اور اس کے کتے کو کنساس پہنچانے کا انتظام کیا جائے۔ بندروں کے بادشاہ نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔”ہماری طاقت صرف اپنے ملک تک محدود ہے۔ دوسرے ملک کے لیے پرواز کرنا ہمارے بس سے باہر ہے۔ کوئی اور حکم ہو تو ہم حاضر ہیں۔یاد رہے آپ یہ سہولت دو بار استعمال کر چکی ہیں۔ صرف ایک باری باقی ہے۔“
اس کے بعد وہ اجازت لے کر اڑ گئے۔ ڈروتھی کو افسوس ہو رہا تھا کہ جادو کی سنہری ٹوپی کا دوسرا موقع ضائع ہو گیا تھا۔
پتلے نے مزید سوچ بچار کی اور زمردی رنگت والے سپاہی کو دربار میں بلایا اور پوچھا۔”میری دوست ڈروتھی نے صحرائے عظیم کو عبور کرنا ہے۔ اس کام کے لیے کون مدد کر سکتا ہے؟“
”صحرائے عظیم بہت خطرناک ہے۔ ہمارے ملک میں کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے جو اس سلسلے میں تعاون کرسکتی ہو۔“
ڈروتھی نے اصرار کیا۔”براہ کرم سوچئے۔“
سپاہی کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا۔”ہوسکتا ہے گلنڈا جو جنوبی علاقے کی اچھی پری ہے اس سلسلے میں مدد کر سکتی ہو۔ اس کا محل صحرائے عظیم کی سرحد سے نزدیک ہے۔“
”گلنڈا ……رحم دل پری ہے؟“ ڈروتھی نے پوچھا۔
”جی ہاں بالکل وہ رحم دل اور خوب صورت پری ہے۔ وہ تمہاری مدد ضرور کرے گی۔ وہ کوارڈلنگ کی حکمران ہے، لیکن جنوبی علاقے کا راستہ اتنا مشکل اور دشوار گزار ہے کہ آج تک کوارڈلنگ کا کوئی باشندہ شہرزمرد نہیں آیا ہے۔“ وضاحت کے بعد سپاہی نے جھک کر سلام کیا اور باہر نکل گیا۔
”میں تمہارے ساتھ جاؤں گا۔ہوسکتا ہے میں تمہارے کام آ سکوں۔ میں جنگلی جانور ہوں شہر میں رہ رہ کر تنگ آگیا ہوں۔“ شیر نے کہا۔
”میری اور میری کلہاڑی کی مدد بھی اس سفر میں تمہارے شامل حال رہے گی۔“ قلعی کے آدمی نے کہا۔
”ہمیں جنوبی علاقے کے سفر پر کب نکلنا چاہیے؟“پتلے بادشاہ نے پوچھا۔
”ہمیں جنوبی علاقے کے سفر پر کب نکلنا چاہیے؟“سب دوستوں نے یک زبان ہو کر پتلے کی نقل اتاری۔
”تم ہمارے ساتھ کیسے جاؤ گے۔اب شہرزمردکے بادشاہ بن چکے ہو۔“
”میں وہ وقت نہیں بھولا ہوں جب میں مکئی کے کھیت میں کوے ڈرانے والا ایک پتلا تھا۔ ڈروتھی کا احسان ہے جس نے مجھے یہاں تک پہنچایا ہے۔ میں ڈروتھی کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔“ پتلے بادشاہ نے کہا تو ڈروتھی نے سب دوستوں کی رحم دلی کی تعریف اور شکریہ ادا کیا۔
اگلی صبح سب دوستوں نے شہرزمر کو الوداع کہا۔”تم سب نے میری بہت اچھی دیکھ بھال کی۔ میں شہرزمرد میں گزرا وقت ہمیشہ یاد رکھوں گی۔“ ڈروتھی نے محافظوں سے کہا۔
”ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ تم ساری زندگی ہمارے ساتھ رہو مگر یہ بھی جانتے ہیں کہ کنساس تمہارا وطن ہے۔“ شہر کے دروازے پر تعینات محافظ نے کہا۔
”ہم ڈروتھی کی مدد کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ میں جلد از جلد واپس آنے کی پوری کوشش کروں گا۔“ پتلے بادشاہ نے محافظوں کو یقین دہانی کرائی۔
وہ ایک روشن صبح تھی، سب دوست خوشی خوشی جنوبی علاقے کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ جانے سے پہلے انہوں نے شہرزمرد کے نظاروں کا جائزہ لیا۔ شہر سبز روشنیوں میں جگمگا رہا تھا۔ درمیان میں اونچا محل نظر آرہا تھا۔“
”اوزکا جادوگر برا آدمی نہیں تھا۔ اسی کے دم سے میں تازہ اور سوچنے والے دماغ کا مالک ہوں۔“ پتلے بادشاہ نے کہا۔
”اوزکے جادوگر نے مجھے خوب صورت اور رحم سے بھرے دل کا مالک بنایا۔“ قلعی کے آدمی نے کہا۔
”میں بزدل نہیں رہا اور آج ایک بہادر شیر بن چکا ہوں۔ یہ اوز کے جادوگرکا احسان ہے۔“ شیر نے کہا۔
”مگر اس سب کچھ کے باوجود اوز کے جادوگرنے میری مدد نہیں کی۔“ ڈروتھی نے شکایت کی۔
پہلے دن کا سفر کھیتوں پر مشتمل تھا۔ رات کو خوب نیند کرنے کے بعد دوسرے دن کا سفر شروع کیا جو جنگل پر مشتمل تھا۔شیر کے نزدیک اس کے لیے موزوں علاقہ تھا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی جنگلی جانور نظر آ جائے لیکن جنگل میں درختوں کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ وہ رات سب دوستوں نے درختوں کے نیچے گزاری۔
اگلے دن انہوں نے ایک عجیب و غریب آواز سنی۔ لیکن ان کے دل میں ذرا بھی خوف محسوس نہ ہوا اور اپنا سفر جاری رکھا۔
چلتے چلتے وہ ایک وسیع میدان میں پہنچے جہاں سیکڑوں جنگلی جانور اکٹھے تھے۔ جن میں چیتا، ہاتھی، ریچھ، بھیڑئیے اور دیگر جانور شامل تھے۔ پہلے ڈروتھی کو خوف محسوس ہوا لیکن شیر نے بتایا کہ جانوروں کا جلسہ ہے۔”میرے خیال میں وہ کسی مسئلے پر پریشان ہیں۔“
عین اسی لمحے چیتا شیر کے پاس چل کر آیا اور کہا۔”خوش آمدید بہادر شیر! جنگل میں امن قائم کرنے کے لیے ہمیں تمہاری ضرورت ہے۔“
”میں کیا مدد کر سکتا ہوں تمہاری؟“ شیر نے پوچھا تو چیتے نے کہا۔
”جنگل میں ایک دہشت ناک درندے کا راج ہے۔ اس کی آٹھ ٹانگیں ہیں جن پر لمبے بال ہیں۔ ہاتھی جتنا بڑا ہے۔ نہایت برق رفتار ہے اور ہر چیز کھا جاتا ہے۔ وہ ہمارے بہت سے ساتھیوں کو کھا چکا ہے۔“
”جنگل میں اور کوئی شیر نہیں ہے؟“ شیر نے پوچھا تو چیتے نے بتایا۔”درندہ سب کو کھا چکا ہے۔“
”اگر میں درندے کو مار دوں تو مجھے بادشاہ تسلیم کر لو گے؟“ شیر نے جانوروں سے پوچھا تو سب نے یک زبان ہو کر تائید کی۔
”کہاں ہے وہ درندہ اس وقت؟“ شیر نے پوچھا۔ تو اسے بتایا گیا کہ وہ اس وقت جنگل کے گھنے حصے میں سو رہا ہے۔
شیر خطرناک درندے کو دھونڈتا ہوا جنگل کے گھنے حصے میں گیا اور دیکھا تو وہ سو رہا تھا۔ درندے کا منہ کھلا ہوا تھا۔ اس کے لمبے نوکیلے دانت نظر آرہا تھے۔ وہ بدصورت اور موٹا تھا۔ اس کا سر بہت موٹا تھا اور لمبی گردن کے ذریعے دھڑ سے جُڑا تھا۔
شیر نے اس کی پیٹھ پر چھلانگ لگائی اور سر دھڑ سے جدا کر دیا۔ اس کی لمبی ٹانگیں کچھ دیر حرکت کرتی رہیں اور پھر اس کے جسم سے دم نکل گیا۔
شیر نے جنگل کے جانوروں کو درندے کی موت سے آگاہ کیا۔وہ سب بہت خوش ہوئے اور فوراً اس کو بادشاہ تسلیم کر لیا۔
شیر نے جانوروں کا شکریہ ادا کیا اور ڈروتھی کی مدد کے بعد ان کے پاس آنے کی یقین دہانی کرائی۔ جانور جھک کر اپنے بادشاہ کا احترام بجا لائے۔
چاروں دوست چلتے ہوئے جنگل کے اختتام پر پہنچے تو ان کے سامنے ایک سیدھی اونچی پہاڑی تھی جو چٹانوں سے گھری تھی۔
”جنوبی علاقے تک رسائی کے لیے ہمیں یہ چوٹی عبور کرنا ہوگی۔ سب لوگ میرے پیچھے آ جاؤ۔“ پتلے بادشاہ نے کہا۔
وہ پہلی چٹان کے قریب پہنچے تو آواز آئی۔”واپس چلے جاؤ۔ یہ پہاڑی ہماری ملکیت ہے۔“
ڈروتھی نے پوچھا۔”تم کون اور کہاں ہو؟“ ایک مضبوط جسامت کا بونا ظاہر ہوا۔ اس کا سر اوپر سے ہموار تھا اور جسم پر بازو نہیں تھے۔ تم نہیں روک سکتے۔ہمیں ہر حال میں کوارڈلنگ جانا ہے۔“ پتلے بادشاہ نے کہا۔
”ہاں میں روک سکتا ہوں۔“ اس نے کہا اور گردن لمبی کر کے سر سے زوردار ٹکر پتلے بادشاہ کو رسید کی۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا نیچے گر گیا۔”یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔“ بونے نے کہا۔چٹان کے پیچھے سے زوردار قہقہے بلند ہوئے۔ ڈروتھی نے دیکھا تو سیکڑوں ہموار سروں والے بونوں کو موجود پایا۔
شیر غصے سے دھاڑا اور آگے بڑھا لیکن یہ کیا ہتھوڑے کے سر والے بونے نے بطخ کی طرح گردن لمبی کی اور جنگل کے بادشاہ کو پوری طاقت سے ٹکر رسید کی۔ شیر بھی لڑھکتا ہوا نیچے گر گیا۔ ”معاف کیجئے گا! یہ بونے مجھ پر بھاری ہیں۔“ اس نے کراہتے ہوئے ڈروتھی سے کہا۔
قلعی کے آدمی نے ڈروتھی کو اڑنے والے بندر بلانے کا مشورہ دیا۔ ڈروتھی نے سنہری ٹوپی پر جادو کے الفاظ پھونک کر سر پر رکھا تو اڑنے والے بندروں کے بادشاہ کو سامنے جُھکا پایا۔
”ہمیں کوارڈلنگ کی سرزمین پر لے جاؤ۔ بندروں نے سب دوستوں کو اٹھایا اور پل بھر میں اُڑنے لگے۔ تھوڑی ہی دیر میں ڈروتھی اور اس کے دوست جنوبی علاقے کے شہر کوارڈلنگ کے سامنے موجود تھے۔ اڑنے والے بندروں کے بادشاہ نے ڈروتھی کو جادو کی ٹوپی کی تین باریاں مکمل ہونے کی یاددہانی کرائی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ اڑ گیا۔
کوارڈلنگ ایک شاندار شہر دکھائی دیتا تھا۔ مکئی کے ہرے بھرے کھیت تھے۔ سڑکیں ہموار اور خوب صورت تھیں۔ کوارڈلنگ کے گھروں کا رنگ لال تھا۔
کچھ لوگ کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ لوگوں کے قد پستہ اور لباس کا رنگ لال تھا۔ ڈروتھی نے ایک گھر کے دروازے پر دستک دی۔ ایک عورت باہر نکلی۔ اس نے ڈروتھی اور اس کے دوستوں کو اندر آنے کو کہا۔ کیک اور دودھ سے ان کی خاطر کی۔ ڈروتھی نے عورت سے جنوب کی رحم دل پری گلنڈا کے محل کا راستہ پوچھا۔
عورت نے ان کو محل کا راستہ بتایا۔ وہ محل کے دروازے پر پہنچے تو لال اور سنہری لباس میں ملبوس تین خوب صورت محافظ لڑکیاں کھڑی تھیں۔ ان کے پوچھنے پر ڈروتھی نے اپنا اور دوستوں کا تعارف کرایا اور آمد کا مقصد بتایا۔
ایک محافظ لڑکی اندر گئی،مسکراتی ہوئی واپس آئی اور ڈروتھی کو بتایا۔”گلنڈا نے تم سب کو بلا بھیجا ہے۔“ ڈروتھی اور اس کے دوست گلنڈا کے محل کے اندر داخل ہو گئے۔
باب:۱۶
ڈروتھی کی گھر واپسی
لال لباس والی لڑکی ان کو ایک بڑے کمرے میں لے گئی۔نیک دل پری گلنڈا اپنے تخت پر بیٹھی انتظار کر رہی تھی۔وہ بہت خوب صورت تھی۔اس کے بال سرخ اور آنکھیں نیلی تھیں۔گلنڈا نے پیار بھری نظروں سے ڈروتھی کی طرف دیکھا اور مسکرائی۔
”پیاری لڑکی! میں تمہارے لیے کیا کر سکتی ہوں؟“ ڈروتھی نے اس کو تمام کہانی سنائی۔کس طرح طوفان نے اس کے گھر کو اڑایا۔ مشرق کی ظالم چڑیل کی ہلاکت۔ پتلے، قلعی کے آدمی اور شیر سے ملاقات کیسے ہوئی؟ اور وہ یہاں تک کیسے پہنچی تمام احوال گلنڈا کے سامنے بیان کیا۔
”اب میں واپس کنساس جانا چاہتی ہوں۔ میری چچی ایم پریشان ہوں گی۔ وہ نہیں جانتیں کہ میں کس حال میں ہوں۔“ رحم دل پری گلنڈا نے پیار سے ڈروتھی کا منہ چوم لیا۔
”تم خوب صورت اور محبت سے بھرپور دل کی مالک ہو۔ میں تمہیں کنساس ضرور بھیجوں گی، مگر جادو کی سنہری ٹوپی مجھے دینا ہوگی۔“
”لے لیجیے۔ میں نے جادو کی ٹوپی کا اچھا استعمال کر لیا ہے۔“ ڈروتھی نے ٹوپی گلنڈا کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔
اس کے بعد گلنڈا نے پُتلے سے پوچھا۔”ڈروتھی کے جانے کے بعد تم کیا کرو گے؟“
”میں شہرزمرد جاؤں گا۔ اوزکے جادوگر نے مجھے شہرزمرد کی بادشاہت سونپی ہے۔ لیکن پہلے مجھے بونوں والا پہاڑ عبور کرنا ہوگا۔“ پتلے نے کہا۔
”تم ایک اچھے بادشاہ ہو۔میں اڑنے والے بندروں سے کہوں گی،وہ تمہیں پہاڑ پار کرا دیں گے۔“
اس کے بعد گلنڈا قلعی کے آدمی سے مخاطب ہوئی۔”تم کیا کرنا چاہتے ہو؟“
”میں مغرب کے ملک میں جنگلیوں کا بادشاہ بننا چاہتا ہوں۔“ قلعی کے آدمی نے اپنی خواہش ظاہر کی۔
”ٹھیک ہے،میں بندروں سے کہوں گی۔وہ تمہیں مغربی ملک میں پہنچا دیں گے۔“
پھر گلنڈا شیر کی طرف متوجہ ہوئی۔”تمہارے لیے کیا کروں؟ کہاں رہنا پسند کرو گے؟“
”ہتھوڑے کے سر والے بونوں کے سیدھے پہاڑ کے پیچھے ایک جنگل ہے۔ اس جنگل کے جانوروں نے مجھے بادشاہ بنایا ہے۔“ شیر نے کہا۔
”ٹھیک ہے،اڑنے والے بندر تمہیں وہاں پہنچا دیں گے۔اس کے بعد میں سنہری ٹوپی بندروں کے بادشاہ کے حوالے کر دوں گی۔ وہ آزاد ہو جائیں گے۔“
تینوں دوستوں نے نیک دل پری گلنڈا کا شکریہ ادا کیا۔
”مگر میں کیسے صحرائے عظیم عبور کر کے کنساس جاؤں گی؟“ڈروتھی نے سوال کیا۔
”تمہارے چاندی کے جوتے تمہیں کنساس لے جائیں گے۔ ان کے اندر جادو کی زبردست طاقت ہے۔ مگر تمہیں اس کا علم نہیں ہے۔ چچی کے گھر پہنچتے ہی جوتے اتار دینا۔“ گلنڈا نے پیار سے ڈروتھی کی طرف دیکھ کر کہا۔
اس کے سب دوستوں نے ڈروتھی کا بھرپور شکریہ ادا کیا جس کی مدد سے ہر ایک باعزت مقام پر پہنچ چکا تھا۔ ڈروتھی نے بھی ساتھ نبھانے پر ان کا جوابی شکریہ ادا کیا اور سب کو گلے مل کر الوداع کہا۔
گلنڈا نے ڈروتھی کا چہرہ چوم کر خدا حافظ کہا اور اس کو ہدایت کی۔”چاندی کے دونوں جوتوں کو آپس میں رگڑ کر پکارو جہاں بھی جانا ہوگا، جادوئی جوتے تمہیں اڑا کر پہنچا دیں گے۔“
ڈروتھی نے ٹوٹو کو بازوؤں میں لے کر یہ عمل دہرایا اور جوتوں کو حکم دیا کہ اس کو کنساس میں چچی ایم اور چچا ہنری کے گھر پہچا دیں۔
اگلے ہی لمحے وہ تیزی سے فضا میں بلند ہوئی۔ کچھ ہی دیر بعد صحرائے عظیم کے اوپر سے وہ کنساس میں واقع سبزہ زار میں چچی ایم اور چچا ہنری کے نئے گھر کے سامنے کھڑی تھی۔ ٹوٹو اس کے بازوؤں سے نکل کر بھونکنے لگا۔ ڈروتھی نے اپنے پاؤں پر نظر ڈالی تو سنہری جوتے غائب تھے۔ جوتے صحرائے عظیم میں اس کے پاؤں سے نکل کر غائب ہو گئے تھے۔
”میری پیاری بچی تم کہاں کھو گئی تھیں؟“ چچی نے ڈروتھی کو گلے لگا کر پوچھا۔ ”طوفان میں اڑتا ہوا ہمارا پراناگھر صحرائے عظیم کے پار بونوں کی سرزمین میں جا گرا تھا۔ میں اس کے اندر موجود تھی۔“
اس کے بعد ڈروتھی نے واپسی کے لیے اپنی طویل جدوجہد کا تمام احوال چچی ایم کو سنایا۔ چچی اور چچا کو ڈروتھی کو دوبارہ اپنے درمیان پاکر حقیقی معنوں میں خوشی ہو رہی تھی۔