skip to Main Content

ہمارے نبی ﷺ

بنت الاسلام

۔۔۔۔۔۔۔

عرب کا ملک
ہمارے وطن پاکستان کے مغرب کی طرف ایک ملک ہے جس کا نام ہے عرب…… مسلمانوں کو وہ ملک بڑا پیار ہے کیونکہ وہاں اللہ کا پاک گھر ”خانہ کعبہ“ہے اور وہیں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ پیدا ہوئے تھے۔
عرب کے تین شہر بہت مشہور ہیں۔ مکہ، مدینہ، اور طائف …… مکے میں اللہ کا گھر کعبہ ہے۔ جہاں مسلمان حج کرنے جاتے ہیں۔ مدینے میں حضرت رسول اکرم ﷺکی مسجد ہے۔ پھر حضورؐ اللہ کو پیارے ہوئے تو آپ ؐکا روضہ بھی مدینے ہی میں ہے۔ طائف میں بڑے اچھے اور مزیدار پھل پیدا ہوتے ہیں۔
عرب میں پانی بہت کم ہے اور بڑی گرمی پڑتی ہے۔ وہاں ریت کے بڑے بڑے میدان ہیں۔ عرب کی دو چیزیں بڑی مشہور ہیں، اونٹ اور کھجور۔ تم نے دیکھا ہی ہوگا کہ جب حاجی لوگ آتے ہیں تو کھجوریں ضرور لاتے ہیں۔

٭٭٭

حضرت ابراہیم ؑ
بڑے دنوں کی بات ہے اللہ کے ایک پاک نبی تھے، ان کا نام ابراہیم ؑتھا۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دو بیٹے تھے،ایک کا نام اسمٰعیل ؑ اور دوسرے کا نام اسحٰق ؑ۔حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے اسمٰعیل ؑ کو عرب میں ایک جگہ آباد کیا۔ بعد میں اور لوگ بھی وہاں آکر رہنے لگے۔ آہستہ آہستہ وہ جگہ ایک بستی بن گئی۔ اس بستی کا نام مکہ رکھا گیا۔
حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسٰمعیل ؑ دونوں اللہ تعالیٰ کے بڑے نیک بندے تھے۔ انھوں نے اس بستی میں خدا کی عبادت کرنے کیلئے ایک گھر بنایا۔اس گھر کا نام کعبہ رکھا گیا۔ وہ گھر آج تک موجود ہے اور ہم سب مسلمان اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں اس گھر کو ”خدا کا گھر“ کہتے ہیں۔ حاجی جب حج کرنے جاتے ہیں تو اس گھر کے گرد گھومتے ہیں۔ اس گھومنے کو طواف کہتے ہیں۔

٭٭٭

عرب کے لوگ
جب تک حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑجیتے رہے،لوگوں کو اچھی اچھی باتیں بتاتے رہے۔ ایسی باتیں جن سے خدا خو ش ہوتا ہے۔ پھر جب وہ اللہ کو پیارے ہوگئے اور بڑی دیر گزر گئی، تو عرب کے لوگوں نے اچھی اچھی باتیں بھلادیں اور بُری بُری باتیں سیکھ لیں۔
سب سے زیادہ بُری بات، جو انہوں نے سیکھی، یہ تھی کہ وہ ایک سچے اللہ کوچھوڑکر بہت سے بتوں کو خدا سمجھتے تھے،اُن کے آگے سر جھکاتے اور اُن سے دعائیں مانگتے تھے، جیسے اللہ پاک سے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔
ذرا خیال تو کرو کہ بھلا مٹی، پتھر کے بنے ہوئے بت بھی کسی کی دعا سن سکتے ہیں یاکسی کو کچھ دے سکتے ہیں۔ مگر عرب کے لوگ بڑے ناسمجھ ہوگئے تھے۔ ان کی سمجھ میں یہ سیدھی سی بات بھی نہیں آتی تھی۔
اسی طرح ان میں اور بھی کئی بری باتیں پیدا ہوگئی تھیں۔ وہ شراب پیتے تھے، جو اکھیلتے تھے اور ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کو مار ڈالتے تھے۔ ایک بہت بڑا ظلم جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ خدا کے گھر میں بت لا کر رکھ دیئے۔

٭٭٭

قبیلہ قریش
عرب میں ایک بڑا سا خاندان رہتا تھا۔ اس کانام تھا قریش۔ قریش خدا کے گھر کی دیکھ بھال کرتے تھے اس لیے لوگ قریش کی بڑی عزت کرتے۔ قریش میں ایک آدمی تھے، ان کا نام ہاشم تھا۔ ہاشم بڑے سخی تھے۔جب حاجی کعبے کا حج کرنے آتے، تو ہاشم ان کی خاطر کرتے۔
ہاشم کے ایک بیٹے تھے، ان کا نام عبدالمطلب تھا۔ عبدالمطلب بھی اپنے باپ کی طرح بڑے مشہور ہوئے۔ انہوں نے کئی اچھے اچھے کام کیے، اس لیے لوگ ان کی بھی بڑی عزت کرنے لگے۔ لوگوں نے عبدالمطلب کو اپنا سردار بنالیا تھا۔
عبدالمطلب کے دس بیٹے تھے۔ ان میں سے پانچ عباس،حمزہ، ابو طالب، ابولہب اور عبداللہ زیادہ مشہور ہوئے۔ عبداللہ سب سے چھوٹے تھے۔عبدالمطلب کو عبداللہ بہت پیارے تھے۔ جب وہ بڑے ہوئے تو ان کی شادی بی بی آمنہ سے ہوئی۔ وہ بڑی اچھی بی بی تھیں۔

٭٭٭

حضوؐرکی پیدائش
عبداللہ اور بی بی آمنہ کی شادی کو کچھ ہی مہینے ہوئے تھے کہ عبداللہ فوت ہوگئے۔ان کے فوت ہونے کے کچھ مہینے بعدبی بی آمنہ کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔ تم جانتے ہو، وہ بچہ کون تھا؟وہ بچہ اللہ کے رسول، ؐہمارے آقا، حضرت محمد ﷺتھے۔
آپ ؐکی والدہ بی بی آمنہ نے آپ ؐ کا نام احمد رکھا اور دادا نے محمد۔محمد ؐ کا مطلب ہے،”وہ جس کی بہت تعریف کی جائے۔“

٭٭٭

اب تو تم سمجھ گئے ہو گے کہ یہ سب لوگ جن کے نام تم نے پڑھے، کون تھے، خیر ہم بھی تمہیں بتائے دیتے ہیں۔ عبداللہ تو ہمارے نبی ﷺ کے باپ تھے،بی بی آمنہ آپؐ کی ماں تھیں، حضرت عباس ؓ، حضرت حمزہ، ابو طالب اور ابو لہب آپؐ کے سگے چچا تھے، عبدالمطلب آپ ؐ کے دادا اور ہاشم آپ ؐ کے پر دادا تھے۔
کلاب پر جاکر آپ ؐ کے والد عبداللہ اور والدہ بی بی آمنہ کا سلسلۂ نسب ایک ہو جاتا ہے۔
آپ ؐ کی پہلی بیوی حضرت خدیجہ ؓ کا سلسلہ نسب بھی کلاب پر آکر آپ ؐ کے خاندان سے مل جاتا ہے۔

٭٭٭

حضوؐر کا بچپن
سب سے پہلے آپ ؐکوآپ ؐ کی والدہ، بی بی آمنہ نے دودھ پلایا، پھر کچھ اور عورتوں نے پلایا۔ ان دودھ پلانے والیوں میں بی بی حلیمہ ؓ کا نام بہت مشہور ہے۔ بی بی حلیمہ ؓ کے خاندان کا نام بنو سعد تھا، اس لیے انہیں حلیمہؓ سعدیہ کہتے ہیں۔عرب میں یہ دستور تھا کہ شریف گھرانوں کے بچے گاؤں میں پلتے تھے۔ گاؤں کی عورتیں آتیں او ر بچے لے جاتیں۔ وہ انہیں دودھ پلاتیں اور پالتیں۔ جب بچے ذرا بڑے ہو جاتے تو پھر وہ انہیں ان کے ماں باپ کے پاس لے آتیں۔ ماں باپ ان کو انعام دیتے۔
بی بی حلیمہؓ بھی ایسی ہی خاتون تھیں۔ انہوں نے آپؐ کو دودھ پلایا اور پالا۔ بی بی حلیمہ ؓ آپ ؐ کی رضاعی ماں تھیں۔ رضاعی ماں کا مطلب ہے دودھ پلانے والی۔ بی بی حلیمہ ؓ کے کئی بچے تھے۔ یہ سب بچے آپؐ کے رضاعی بہن بھائی تھے۔ ان میں سے ایک بہن کا نام شیما ء ؓ تھا۔ وہ آپ ؐ کو کھلایا کرتی تھیں۔ وہ آپ ؐ کو ہاتھوں پر اٹھاتیں اور اچھا لتیں اور کہتیں:

ہمارے واسطے اے رب ہمارے
محمد کو تو اتنی زندگی دے

کہ وہ دن آئے،جب اس کی جوانی

میں دیکھو ں آپ ان آنکھوں سے اپنی
پھرا س کے بعد اسے سردار دیکھوں
میں اس سردار کا دربار دیکھوں
جو جلنے والے اور دشمن ہوں اس کے
انہیں ذلت سے اوندھے منہ گرادے
اور اس کو تو عطا کر ایسی عزت
رہے قائم ہمیشہ جس کی شہرت

بی بی حلیمہ ؓ بتاتی ہیں کہ بچپن میں آپ ؐ کی عادتیں بہت اچھی تھیں۔ نہ آپ ؐ روتے تھے نہ فضول حرکتیں کرتے تھے۔
جب آپؐ کی عمر پانچ سال سے اوپر ہو گئی تو آپ ؐ اپنی والدہ بی بی آمنہ کے پاس رہنے لگے۔ آ پ ؐ کے والد عبداللہ کی قبر مدینے میں تھی۔ بی بی آمنہ آپ ؐ کو لے کر مدینے گئیں۔ جب واپس آرہے تھے تو راستے ہی میں مقام ابوا میں
بی بی آمنہ بیمار پڑ یں اور فوت ہو گئیں۔

٭٭٭

دادا اور چچا کے پاس
اب آپ ؐکو دادا نے لے لیا۔ دادا آپ ؐ کوبڑا پیار کرتے تھے۔ اور محبت کے مارے ساتھ ہی رکھتے تھے۔ آپؐ کے دادا عبدالمطلب بڑے عزت والے تھے۔ان کے لیے خدا کے گھر کے پاس مسند بچھائی جاتی تھی۔ ان کے بیٹے آتے تو مسند کے ارد گرد بیٹھتے اور ادب کے مارے ان کے ساتھ نہ بیٹھتے۔ آپ ؐ ابھی بچے ہی تھے۔ آپ ؐ آتے تو اس مسند کے اوپر بیٹھ جاتے۔ آپ ؐ کے چچا آپ ؐکو اٹھا کر پیچھے کرنا چاہتے، تو دادا کہتے:
”میرے بیٹے کو چھوڑ دو، خدا کی قسم اس کی بڑی شان ہونے والی ہے۔“پھر آپ ؐ کی پشت پر ہاتھ پھیرتے اور دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے۔ آپ ؐ کو دادا کے پاس آئے ابھی چند ہی سال ہو ئے تھے کہ دادا بھی فوت ہو گئے۔ اب آپ ؐ اپنے چچا ابو طالب کے پاس رہنے لگے۔ ابو طالب نے بھی آپ ؐ کو بڑے لاڈ پیار سے پالا۔ وہ اپنے بچوں سے بھی بڑھ کر آپ ؐکا خیال کرتے۔ ابوطالب کی بیوی یعنی آپ ؐ کی چچی فاطمہ بنت اسد تھیں۔ وہ نیک بخت بی بی بھی آپ ؐ سے بڑی محبت رکھتی تھیں۔

٭٭٭

حضوؐ ر کی جوانی
عربوں میں رواج تھا کہ لڑکے بکریاں چرانے جایا کرتے تھے۔ جب حضرت رسول اکرم ﷺ ذرا بڑے ہوئے تو آپ ؐ بھی بکریاں چرانے جاتے۔ ان دنوں عرب میں لکھنے پڑھنے کا راوج نہ تھا۔ آپ ؐ نے بھی پڑھنا لکھنا نہ سیکھا۔ ہاں، اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ مل کر کاموں کا تجربہ حاصل کیا۔ جب آپ ؐ جوانی کی عمر کو پہنچے تو چچا کی طرح تجارت کا کام کرنے لگے۔
عرب کے شمال کی طرف ایک ملک ہے جس کا نام شام ہے۔ قریش کے سودا گر تجارت کرنے کے لیے شام کے ملک میں جایا کرتے تھے۔ آپ ؐ نے بھی تجارت کیلئے اُس ملک کا سفر کیا۔

٭٭٭

”صادِ ق“ اور ”امین“
حضرت رسول اکرم ﷺ جوں جوں بڑے ہوتے جاتے تھے، اچھی عادتیں اور بھی اُبھرتی آتی تھیں۔ آپ ؐ کو جھوٹ سے سخت نفرت تھی۔ وعدہ پورا کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ا پنے پرائے، سب سے محبت سے پیش آتے تھے۔ انہیں باتوں کی وجہ سے سب آپ ؐ سے محبت کرتے تھے۔ آپ ؐ اس قدر سچے اور دیانتدار تھے کہ لوگوں نے آپ ؐ کا نام”صادِ ق“ اور ”امین“ رکھ دیا۔ ”صادق“ کا مطلب ہے ”سچا“ اور ”امین“ کا مطلب ہے ”امانت والا“۔ آپ ؐ ہمیشہ سچا وعدہ کرتے تھے۔ جب کوئی وعدہ کرلیتے تو پھر اُسے پورا ہی کرتے۔ آپ ؐ کی تجارت کے ایک ساتھی تھے۔ ان کا نام عبداللہ ؓ تھا۔ ایک دن انھوں نے آپ ؐ کے ساتھ تجارت کا کوئی معاملہ کیا۔ بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ انہیں کہیں جانا پڑا۔جاتے جاتے کہہ گئے کہ ابھی آکر بات پوری کرتا ہوں، مگر بعد میں وہ اس بات کو بھول گئے۔ تین دن کے بعد وہ وعدہ یاد آیا تو دوڑے دوڑے، آئے دیکھا،تو آپ ؐ اسی جگہ بیٹھے انتظار کر رہے تھے۔ جب آپ ؐ نے عبداللہ کو دیکھا تو بس اتنا ہی فرمایا: ”تم نے مجھے بڑی تکلیف دی۔ تین دن سے یہیں بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔“
عرب کے لوگ خدا کو چھوڑ کر مٹی پتھر کے بنے ہوئے بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ نبی بننے سے پہلے بھی آپ ؐ ہمیشہ اس خرابی سے بچے رہے۔

٭

حضوؐ ر کا نکاح
مکے میں ایک دولت مند بی بی رہتی تھیں۔ ان کا نام خدیجہ ؓتھا۔ قریش کے لوگ بی بی خدیجہ ؓ کی بڑی عزت کرتے تھے۔ بی بی خدیجہ ؓ اپنی دولت سے تجارت کیا کرتی تھیں، اس طرح کہ دوسرے لوگوں کو تجارت کا سامان دے کر تجارت کرنے کیلئے بھیجا کرتیں۔ پھرا س تجارت میں جو نفع ہوتا، اس میں سے ان لوگوں کو بھی حصہ دیتیں۔
بی بی خدیجہ ؓ نے حضرت رسول اکرم ﷺ کی امانتداری کا حال سنا تو بلا بھیجا اور کہا کہ ”آپ ؐ میرا تجارت کا سامان لے کر جائیں، میں جتنا نفع دوسروں کو دیتی ہوں آپ ؐ کو اس سے زیادہ دوں گی۔“
آپ ؐ نے مان لیا اور بی بی خدیجہ ؓ کا سامان لے کر شام کے ملک میں گئے۔ خدا کی قدر ت کہ اس تجارت میں بڑا نفع ہوا۔ بی بی خدیجہ ؓ پر آپ ؐ کی نیک عادتوں اور امانتداری کا اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے آپ ؐ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ اس وقت آپ ؐ کی عمر پچیس برس کی تھی اور بی بی خدیجہ ؓ کی چالیس برس کی، مگر پھر بھی آپ ؐ نے خوشی سے یہ پیغام منظور کر لیا۔ آپ ؐ کے چچا ابو طالب اور حمزہ ؓ اور خاندان کے دوسرے بڑے بی بی خدیجہ ؓ کے گھر گئے اور بڑی سادگی سے نکاح ہو گیا۔ اب آپ ؐ بی بی خدیجہ ؓ کے ساتھ رہنے لگے۔ آپ ؐ کے بچے زیادہ تر بی بی خدیجہ ؓ ہی سے تھے۔ آپ ؐ کے بچوں میں سے صاحبزادے تو چھوٹے چھوٹے ہی وفات پاگئے، ہاں صاحبزادیاں جوانی کی عمر کو پہنچیں۔ ایک صاحبزادی کا نام زینب ؓ تھا۔ دوسری کا رقیہ ؓ، تیسری کا ام کلثوم ؓ اور چوتھی کا فاطمہ ؓ۔ بی بی فاطمہؓ آپ ؐ کو بہت ہی پیاری تھیں۔

٭٭٭

کالے پتھر کا جھگڑا
مکے کا شہر ایسی جگہ بسا ہے جس کے چاروں طرف پہاڑیاں ہیں۔ جب زور سے مینہ برستاتو پہاڑیوں سے پانی بہہ کر شہر کی گلیوں میں بھر جاتا۔ اللہ کے گھر کعبے کی دیواریں نیچی تھیں۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ جو پانی بہہ کر آتا، اس سے کعبے کو نقصان پہنچتا۔
اس لئے مکے والوں نے ارادہ کیا کہ کعبے کو پتھر سے بنایا جائے اور اس کی عمارت اونچی اور مضبوط کی جائے۔ قریش کے سب گھرانوں نے مل کر کعبے کو بنانے کا کام شروع کیا۔ کعبے کی دیوار میں ایک کالا پتھر لگا تھا۔ یہ پتھر اب بھی وہاں لگا ہے۔ اس کانام ”حجر اسود“ ہے۔ ”حجر“ پتھر کو کہتے ہیں اور ”اسود“ کا مطلب ہے ”کالا“۔ جب حاجی لوگ طواف کرتے ہیں یعنی کعبے کے گر د چکر لگاتے ہیں تو اس پتھر سے چکر شروع کرتے ہیں۔ اللہ کے گھر کا طواف کرنے سے بہت ثواب ہوتا ہے۔
جب قریش نے کعبے کی نئی دیواریں اونچی کرلیں اور ”حجر اسود“ کو اس کی جگہ لگانے کا وقت آیا تو ان میں سخت قسم کا جھگڑا پیدا ہوگیا۔ قریش کے کئی گھرانے تھے۔ ہر ایک گھرانا کہتا تھا کہ پتھر کو اٹھا کر اس کی جگہ میں رکھوں گا۔ وہ لو گ اس بات کو بڑی عزت سمجھتے تھے۔ ہر گھرانا چاہتا تھا کہ یہ عزت اُسے ملے۔ جب ا س جھگڑے کا کسی طرح فیصلہ نہ ہو سکا تو ایک بوڑھے آدمی نے کہاکہ کل جو شخص سب سے پہلے خدا کے گھر میں آئے، وہی اس جھگڑے کا فیصلہ کر دے۔ وہ بتادے کہ کون اس پتھر کو اٹھا کر اس کی جگہ رکھے، پھر سب اس کی بات مان لیں۔
اس بات پر سب راضی ہو گئے۔ خدا کی قدرت دوسرے دن سب سے پہلے جو شخص خدا کے گھر میں داخل ہوا، وہ رسول اکرم ﷺ تھے۔ آپ ؐ کو دیکھتے ہی سب کے سب ایک دم بول اُٹھے:
”یہ تو امین آگئے! اب ہم بالکل مطمئن ہیں۔“
آپ ؐ نے ایک چادر منگوا کر پتھر کو اس کے اوپر رکھا۔ پھر سب سرداروں سے کہا کہ اس چادر کا ایک ایک حصہ تھام لیں اور اسے اٹھا کر لے چلیں۔ اس طرح جب پتھر چادر سمیت دیوار کے پاس آگیا تو آپ ؐ نے خود پتھر اٹھا کر دیوار میں اس کی جگہ رکھ دیا۔ آپ ؐ کے اس عقلمندی کے فیصلے سے ایک بڑی جنگ ہوتے ہوتے رک گئی۔

٭٭٭

آپ ؐ کا رسُو ْل ہونا
جب آپ چالیس برس کے ہوگئے تو اللہ پاک نے آپؐ کو اپنا رسُول بنالیا۔ کیا تم جانتے ہو کہ رسُول کسے کہتے ہیں؟رسُول، اللہ کا حکم ماننے والے اور نیک بندے ہوتے ہیں۔ وہ خدا کے پیغام خدا کے بندوں تک پہنچاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو جو اچھی باتیں اپنے بندوں کو بتانا چاہتے ہیں وہ ایک فرشتے کو بتادیتے ہیں۔ وہ فرشتہ رسُول کے پاس آتا ہے اور وہ باتیں رسُول کو بتا دیتا ہے۔ پھر رسُول وہ باتیں لوگوں کو بتا دیتے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کے ذریعے اپنے بندوں کو اچھی اچھی اور بھلائی کی باتیں بتاتے ہیں۔ پھر جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ان باتوں کو مان لیتے ہیں انہیں مسلم کہتے ہیں اور جو نہیں مانتے انہیں کافر۔ رسُول کا مطلب ہے بھیجا ہوا اور پیغام پہنچانے والا۔ رسول کو نبی اور پیغمبر بھی کہتے ہیں۔

٭٭٭

خداکا فرشتہ
مکّے سے تین میل پر ایک غار ہے، اس کا نام ہے غارِ حرا۔ آپ ؐ کھانا وغیرہ لے جاتے اور اس غار میں جاکر رہتے۔ وہاں بیٹھ کر آپ ؐ عبادت کیاکرتے اور سوچتے رہتے۔ بات اصل میں یہ تھی کہ جوں جوں نبی بننے کا زمانہ قریب آتا جاتا تھا، آپ ؐ تنہا رہنے کو پسند کرتے جاتے تھے۔ چنانچہ ایک دن آپ ؐ اسی غار میں تنہا بیٹھے تھے کہ آپ ؐ کو خدا کا ایک فرشتہ نظر آیا۔ اس فرشتے کا نام جبرئیلؑ تھا اور وہ خدا کی طرف سے آیا تھا۔ فرشتے نے آپ ؐ سے کہا: ”پڑھیے“ آپ ؐ نے فرمایا:”میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔“ اس پر فرشتے نے آپ ؐ کو پکڑ لیا اور زور سے دبایا۔ پھر اس نے آپؐ کو چھوڑ دیا اور دوبارہ کہا: ”پڑھیے“۔ آپ ؐ نے پھر وہی جواب دیا:”میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔“ اس پر فرشتے نے پھر آپ ؐ کوپکڑ لیا اور زور سے دبایا پھر اس نے آپ ؐ کو چھوڑ دیا اورایک دفعہ پھر کہا: ”پڑھیے“۔ آپ ؐ نے پھر فرمایا: ”میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔“ پھر فرشتے نے تیسری دفعہ آپ ؐ کو زور سے دبایا۔ پھر چھوڑ کر کہا:

”اے پیغمبر، آپ ؐ اپنے رب کا نام لے کر پڑھیے جس نے (مخلوقات کو) پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ آپ ؐ پڑھیے، اور آپ ؐ کا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم سے تعلیم دی۔ انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہیں جانتا تھا۔“
اللہ تعالیٰ اپنے فرشتے کے ذریعے اپنے رسولوں کو جو پیغام بھیجتے ہیں اسے ”وحی“ کہتے ہیں۔ یہ سب سے پہلی ”وحی“ تھی جو آپ ؐ پر اتری۔
حضرت رسول اکرم ﷺ کا دل اس واقعے سے کانپ گیا اور آپ ؐ اسی حالت میں حضرت خدیجہ ؓ کے پاس آئے اور فرمایا:
”مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھادو“۔ اس پر آپ ؐ کو کمبل اوڑھا دیا گیا۔ کچھ دیر بعد آپ ؐ نے بی بی خدیجہ ؓ کو ساری بات بتائی اور فرمایا: ”مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔“ مگر بی بی خدیجہ ؓ نے آپ ؐ کو بڑی تسلی دی اور آپ ؐ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ کے پاس لے گئیں۔ ورقہ بڑے بوڑھے آدمی تھے۔ جب حضرت رسول اکرم ﷺ نے انہیں فرشتے کے آنے کا واقعہ سنایا تو انھوں نے آپ ؐ کو بتایا کہ یہ وہی فرشتہ ہے، جو اللہ کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف آیا تھا۔
اس کے بعد ایک دن کی بات ہے آپ ؐ کہیں جارہے تھے کہ آپ ؐ کو آسمان کی طرف سے ایک آواز سنائی دی۔ آپ ؐ نے سر اٹھایا تو کیا نظر آیا کہ ایک فرشتہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے۔ یہ وہی فرشتہ تھا جو آپ ؐ نے حرا کے غار میں دیکھا تھا۔ آپ ؐ پھر گھر آگئے اور فرمانے لگے:
”مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو“۔ اسی حالت میں آپ ؐ پر پھر وحی اتری۔ اس کے بعدا ٓپ ؐ پر بار بار وحی اترنے لگی۔ یعنی بار بار حضرت جبرئیل ؑ خدا کے پیغام لے کرآتے اور آپ ؐ کو پہنچاتے۔

٭٭٭

خدا کے پیغام پہنچانا
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ نبی کا کام یہ ہوتا ہے کہ جو باتیں خدا کی طرف سے فرشتہ اس کے پاس لائے وہ انھیں لوگوں تک پہنچا دے۔ یہی کام اب حضرت رسول اکرم ﷺ کے سپر د ہوا۔ اللہ تعالیٰ اپنی باتیں جبرئیل ؑ فرشتے کو بتاتے، جبرئیل وہ باتیں آپ ؐ کو بتاتے اور آپ ؐ وہ لو گو ں کو بتاتے۔ آپ ؐ اللہ تعالیٰ کی ان باتوں کو لکھواتے بھی جاتے تھے۔ بعد میں ا ن سب باتوں کو ایک کتاب میں جمع کر لیا گیا او ر قرآن مجید بن گیا۔ قرآن جو ہم پڑھتے ہیں،یہ وہی خدا کی باتیں ہیں جو حضرت جبرئیل ؑ آپ ؐ کے پا س لایا کرتے تھے۔
آپ ؐ لو گو ں کو خدا کی باتیں بتاتے۔ جو لوگ ان باتوں کو مان لیتے اور آپ ؐ پر ایمان لے آتے ان کو مسلم کہتے اور جو نہ مانتے وہ کافر کہلاتے۔ اس لفظ ”مسلم“ ہی کو ہم اپنی زبان میں مسلمان کہتے ہیں۔ ”مسلم“ کا مطلب ہے ”خدا کا حکم ماننے والا“ اور ”کافر“ کامطلب ہے ”خدا کا حکم ماننے سے انکار کرنے والا“۔
آپ ؐ نے جو ایمان کی باتیں لوگوں کو سکھائیں ان میں سے چند بڑی بڑی باتیں یہ ہیں:
توحید: توحید کا مطلب ہے خدا کو ایک ماننا۔ حضرت رسول اکرم ﷺ نے لوگوں کو سمجھایا کہ مٹی اور پتھر کے بت چھوڑ کر ایک سچے خدا کو مانو۔ سب کام اسی کے حکم سے ہوتے ہیں وہ سب سے بڑا ہے۔ اس جیسا اور کوئی نہیں۔
رسالت: رسالت کا مطلب ہے ”خدا کا رسول ہونا“۔ آپ ؐ نے لوگوں کو بتایا کہ اللہ پاک دنیا میں اپنے رسول بھیجتا ہے۔ وہ رسول لو گوں کو خدا کی باتیں بتاتے ہیں۔ انسانوں کا فرض ہے کہ رسولوں کی باتیں مانیں۔ مجھے بھی خدا نے اپنا رسول بنایا ہے۔ میں تمہیں جو باتیں بتاتا ہوں وہ اپنے دل سے گھڑ کر نہیں بتاتا، وہ تو خدا ہی کی طرف سے میرے پاس آتی ہیں۔ تم خدا کی ان باتوں کو مانو اور کافر نہ بنو۔
آخرت:مرنے کے بعد دوسری زندگی ہو گی۔ اسے آخرت کہتے ہیں۔ کافر سمجھتے تھے کہ جب ہم مر جائیں گے تو پھر دوبارہ زندہ نہیں ہو ں گے۔ آپ ؐ نے لوگوں کو بتایا کہ ایسا نہیں ہو گا۔ ایک دن قیامت آئے گی اور ساری دنیا تباہ و برباد ہو جائے گی۔ اس کے بعد خدا پھر ہم سب کو زندہ کرے گا۔ پھر ہمارا حساب کتاب ہو گا۔ جو نیک ہوں گے وہ جنت میں جائیں گے، جو برے ہوں گے وہ دوزخ میں جلیں گے۔
جن لوگوں نے سب سے پہلے یہ باتیں مانیں اور آپ ؐ پر ایمان لائے ان کے نام یہ ہیں:
۱۔ عورتوں میں آپ ؐ کی نیک بخت بیوی حضرت خدیجہ ؓ
۲۔ مردوں میں آپ ؐ کے مخلص دوست حضرت ابوبکر ؓ
۳۔ لڑکوں میں آپ ؐ کے چچا زاد بھائی حضرت علی ؓ
۴۔ آزاد کئے ہوئے غلاموں میں آپ ؐ کے خاص خادم حضرت زید ؓ
حضرت ابو بکر ؓ بڑے ایماندار شخص تھے۔ انھوں نے آپ ؐ کے ساتھ مل کر چپکے چپکے لوگوں کو خدا کا پیغام پہنچانا شروع کیا۔ حضرت ابو بکر ؓ کے کہنے سے اور آدمی بھی ایمان لے آئے جن میں سے کچھ بعد میں بڑے مشہور ہوئے، ان میں ایک حضرت عثمان ؓ بھی تھے۔
خدا کے پیغام کو خدا کے بندوں تک پہنچانے کو ”تبلیغ“ کہتے ہیں۔ پہلے تین سال تو آپ ؐ چپکے چپکے چھپ چھپ کر تبلیغ کرتے رہے، پھر خدا نے آپ ؐ کو حکم دیا کہا اب میرا پیغام لوگوں کو کھلم کھلا پہنچا ؤ۔

٭٭٭

علانیہ تبلیغ
جب اللہ تعالیٰ نے آپ ؐکو حکم دیا کہ اب میرا پیغام لوگوں کو علانیہ پہنچاؤ تو آپ ؐ ایک پہاڑ پر چڑھ گئے اور پکارا:
”اے قریش کے گروہ!“ لو گ جمع ہوئے تو آپ ؐ نے فرمایا :
”اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر آرہا ہے تو تم کو یقین آجائے گا“؟ سب نے کہا۔ ”ہاں، کیونکہ آپ ؐکو ہمیشہ ہم نے سچ بولتے دیکھا ہے۔“ آپ ؐ نے فرمایا: ”تو میں یہ کہتا ہوں کہ اگر تم ایمان نہ لاؤ گے تو تم پر بڑا سخت عذاب نازل ہو گا“۔
قریش اس بات پر بہت بگڑے۔ ان لوگوں میں آپ ؐ کا چچا ابولہب بھی تھا۔ اس نے آپ ؐکو سخت سست کہا،پھر لو گ چلے گئے۔ آپ ؐ نے ان کے غصے کی ذرا پروا نہ کی اور لوگوں کو خدا کاپیغام سناتے رہے۔

٭٭٭

مسلمانوں کی تکلیفیں
جوں جوں حضرت رسول اکرم ﷺ لوگوں کو خدا کا پیغام پہنچاتے تھے کافروں کو زیادہ غصہ آتا تھا۔ وہ غصے کے مارے آپ ؐ کو ستانے، دکھ دینے اور غریب مسلمانوں پر ظلم ڈھانے لگے۔ مکے میں بہت سے غر یب غلا م اور کنیزیں تھیں ۔ ان میں سے جو مسلمان ہو گئے کافروں نے اُن پر ایسے ایسے ظلم ڈھائے کہ سن کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
مکہ مکرمہ میں ایک غلام تھے ان کا نام بلا ل ؓ تھا۔ عرب کی زمین ریتلی اور پتھریلی ہے۔ دوپہر کو جب سورج چمکتا ہے تو وہ زمین بے حد گرم ہو جاتی ہے۔ ایک کافر حضرت بلال ؓ کو اس جلتی زمین پرلٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھ دیتا تھا۔ کافر انہیں یہ تکلیفیں اس لیے دیتے تھے کہ وہ ایک سچے خدا کو ماننا چھوڑ دیں۔ مگر حضرت بلا ل ؓ ایسے سچے اور پکے مسلمان تھے کہ اس تکلیف کی حالت میں بھی ان کے منہ سے یہی نکلتا: ”خدا ایک ہے، خدا ایک ہے“۔
حضرت خباب ؓ بھی ایک پرانے مسلمان تھے۔ کافروں نے اُنھیں طرح طرح کی تکلیفیں دیں۔ ایک دن کیا کیا کہ کوئلے جلائے۔ پھر جلتے کوئلوں پر اُنھوں چت لٹا دیا۔ حضرت خباب ؓ ان جلتے کو ئلوں پر اسی طرح پڑے رہے۔ یہاں تک کہ کوئلے ان کی پشت کے نیچے ہی ٹھنڈے ہو گئے۔
مکے میں ایک غریب آدمی تھے، جن کا نام یاسر ؓ تھا۔ ان کی بیوی کا نام سمیہ ؓ اور بیٹے کا نام عمار ؓ تھا۔ کافروں نے حضرت یاسر ؓ کو اتنی تکلیفیں دیں کہ وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ حضرت سمیہ ؓ کو ایک کافر سردار نے ایسی برچھی ماری کہ وہ بھی وفات پاگئیں۔ حضرت عمار ؓ کو تپتی زمین پر لٹا کر اتنا مارتے، اتنا مارتے کہ وہ بیہو ش ہو جاتے۔
بڑے گھرانوں میں بھی کئی ایسے تھے کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو رشتے داروں نے اُنھیں تکلیفیں پہنچائیں۔ وہ ظالم لوگ تو خو د رسول اکرم ﷺ کو بھی بہت ستاتے تھے۔ آپ ؐ کے راستے میں کانٹے بچھاتے، آپ ؐ نماز پڑھنے کھڑے ہوتے تو چھیڑے۔ لوگوں میں آپ ؐکو شاعر اور جادو گر مشہور کرتے۔ اللہ کے سچے نبی ؐ یہ سب تکلیفیں صبر سے سہتے اور اپنا کام کیے جاتے۔
آپ ؐ کے چچا حضرت حمزہ ؓ بڑے بہادر تھے۔و ہ بھی مسلمان ہو گئے۔ مکہ مکرمہ میں ایک آدمی رہتے تھے جن کا نام عمر ؓ تھا۔ عمر ؓ مزاج کے بڑے سخت تھے۔ شروع شروع میں مسلمانوں کو بہت برا سمجھتے تھے۔ پھر اللہ نے انہیں اپنی راہ دکھائی اور وہ بھی مسلمان ہو گئے۔
آپ ؐ کو نبی بنے دسواں سال تھا کہ آپ ؐکے چچا ابو طالب فوت ہوگئے۔ آ پؐ کو اس سے بہت صدمہ ہوا کیونکہ وہ ہمیشہ آپ ؐ کی مدد کیا کرتے تھے۔ جس طرح بچپن سے آپ ؐکو محبت سے پالا تھا، آخر دم تک آپ ؐ سے محبت کرتے رہے۔ چچا کی وفات کے چند دن بعد بی بی خدیجہ ؓ نے بھی وفات پائی۔ آپ ؐ کو ان دونوں عزیزو ں کے فوت ہونے کا بڑا رنج ہوا۔ کافرابوطالب او ر بی بی خدیجہ ؓ کا بڑا لحاظ کرتے تھے۔ ان کے لحاظ کے مارے آپ ؐ کو ستانے سے کچھ رکتے تھے۔ اب جب دونوں اُٹھ گئے تو کافر آپ ؐ کو اور بھی زیادہ ستانے لگے۔ جس سال ابو طالب اور بی بی خدیجہ ؓ نے وفات پائی اسے آپ ؐ ”غم کا سال“ کہتے تھے۔

٭٭٭

طائف کا سفر
طائف کا علاقہ مکہ مکرمہ سے چالیس میل دور تھا۔ طائف ایک پہاڑی جگہ تھی۔ وہاں بڑے بڑے باغ تھے اور مزیدار پھل پیدا ہوتے تھے۔ وہاں بہت سے امیر رہتے تھے۔ حضرت رسول اکرم ﷺ نے وہاں کا سفر کیا۔ آپ ؐ چاہتے تھے کہ طائف والوں کو خدا کا پیغام سنائیں، مگر افسوس کہ ان لوگوں نے آپ ؐکی بات نہ مانی۔ اتنا ہی نہیں کیا بلکہ بازار کے شریر لوگوں کو ابھار دیا کہ آپؐ کو دِق کریں۔ وہ شریر راستے کے دونوں طرف کھڑے ہوگئے۔ جب آپ ؐ ادھر سے گزرنے لگے تو انہوں نے آپ ؐ کے مبارک پاؤں پر پتھر مارے۔ آپ ؐ کے پاؤں لہو لہان ہو گئے۔ آپؐ درد کے مارے کہیں بیٹھ جاتے تو آپ ؐ کے بازو تھا م کر پھر اٹھا دیتے۔ شریر پتھر مارتے اور برا بھلا کہتے۔ آپ ؐتھک کر پھر بیٹھ جاتے۔ آخر آپ ؐ نے ایک باغ میں پناہ لی۔
وہ کیسا بے کسی کاوقت تھا! اس وقت آپ ؐ کو خدا کا ایک فرشتہ نظر آیا۔ فرشتے نے آپ ؐ کو خدا کا پیغام دیا اور کہا:
”اے خدا کے رسول ؐ، اگر آپ ؐ کہیں تو طائف کے لوگوں پر پہاڑ گراکر کچل دیا جائے۔“
آپ ؐ نے فرمایا: ”خدا یا، ایسا نہ کرنا۔ شاید ان کی اولاد میں سے کوئی تیر ا ماننے والا پیدا ہو۔“
طائف میں جو کچھ ہوا، اس سے آپ ؐ ذرا نا امید نہ ہوئے۔ آپ ؐ نے ارادہ کیا کہ قبیلے قبیلے میں جا جاکر خدا کا پیغام سنائیں۔ مکہ مکرمہ میں خدا کا گھر تھا۔ عر ب کے دور دور کے کونوں سے وہاں لوگ حج کرنے آیا کرتے تھے۔ وہ لوگ وہاں کئی کئی دن ٹھہرتے تھے۔ مکہ مکرمہ کے ارد گر د میلے لگتے تھے۔ وہاں بھی بہت سے لوگ جمع ہوتے تھے۔ آپ ؐ نے ان لوگوں کے پاس جانا شروع کیا۔ آپ ؐ ایک ایک قبیلے کے پاس جاتے، انھیں قرآن کی آیتیں سناتے اور خدا کا پیغام دیتے۔

٭٭٭

مدِ ینہ منورہ
مدِینہ منورہ کا ذکر تو پہلے ہی ہو چکا ہے۔ ایک دفعہ وہاں کے کچھ لوگ حج کرنے مکہ مکرمہ آئے۔ حضرت رسول اکرم ﷺ ان سے ملے اور خدا کا پیغام سنایا۔ اس پر چھے آدمی مسلمان ہو گئے۔ دوسرے سال مدینہ منورہ سے اور بارہ آدمی آئے اور مسلمان ہوئے۔ جب وہ لوگ واپس جانے لگے تو اُنھوں نے آپ ؐ سے کہا کہ ہمارے ساتھ کوئی ایسا آدمی بھیج دیجئے جو ہمیں اسلام کی باتیں سکھائے۔ آپؐ نے ان کی بات مان لی اور ان کے ساتھ ایک مسلمان کو بھیجا، جن کا نام مُصعب ؓ تھا۔ جب مُصعب ؓمدینہ منورہ پہنچے تو اُنھوں نے لوگوں کے گھروں میں پھر پھر کر خدا کا پیغام پہنچایا۔ ان کے وعظ میں خدا نے تاثیر بھر دی اور لو گ مسلمان ہو نے لگے۔ ابھی ایک سال بھی نہ ہو ا تھا کہ اس شہر کے بہت سے لوگ مسلمان ہو گئے۔
اس سے اگلے سال جب حج کے دن آئے تو مدینے کے بہتر تہتر آدمی آکر آپ ؐ سے ملے۔ وہ لوگ رات کے وقت چھپ کر آپ ؐ سے ملے اور یہ طے ہوا کہ آپ ؐ اور مسلمان مکہ مکرمہ کو چھوڑ کر مدینہ منورہ چلے جائیں۔ مدینہ منور ہ میں بہت سے لوگ مسلمان ہو چکے تھے۔ وہاں مسلمان زیادہ آرام سے رہ سکتے تھے۔ آپ ؐ نے فیصلہ کر لیا کہ وہیں چلے جائیں۔

٭ ٭

ہجرت
اپنا وطن چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جانے کو ہجرت کرنا کہتے ہیں۔ اب مسلمانوں کو مدینہ منور ہ میں ایک پناہ کی جگہ مل گئی تھی۔ اُنھوں نے چپکے چپکے مکہ مکرمہ چھوڑ کر وہاں جانا شروع کر دیا۔ بہت سے مسلمان مدینہ منور ہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ مکہ مکرمہ میں صرف آپ ؐ، آپ ؐ کے چچا کے بیٹے حضرت علی ؓ اور آپ ؐ کے عزیز دوست حضرت ابوبکر ؓ رہ گئے۔ کچھ اور غریب لوگ جو ہجرت نہ کر سکتے تھے، مکہ مکرمہ ہی میں رہے۔
اب کافروں نے سوچا کہ کسی طر ح (نعوذباللہ) آپ ؐکو قتل کر دیں۔ ایک دن رات کے وقت انھوں نے آپؐ کے مکان کو گھیر لیا۔ وہ انتظار کر رہے تھے کہ جب آپ ؐ باہر نکلیں گے تو (نعوذباللہ) آپ ؐ کو قتل کر دیں گے۔ آپ ؐ کو اس کا پتہ چلاگیا۔ آپ ؐ نے حضرت علی ؓکو اپنے بستر پر سلاد یا اور خود چپکے سے باہر نکل گئے۔ خدا کی قدرت کہ کافروں کو ذرا پتہ نہ چلا کہ آپ ؐ کب نکلے۔
وہا ں سے نکل کر آپ ؐ حضرت ابوبکر ؓ کے گھر گئے۔ انہیں ساتھ لیا اور چل دیئے۔ مکہ مکرمہ سے کچھ دور ایک پہاڑ کا غار تھا۔ اس غار کو ”غار ثور“ کہتے تھے۔ دونوں اس میں جا کر چھپ گئے۔ جب صبح ہوئی تو کافروں کو پتہ چلا کہ آپ ؐ تو جا چکے۔اب کافروں نے آدمی دوڑائے کہ آپ ؐکو پکڑ لائیں۔اُنھوں نے انعام بھی رکھا کہ جو شخص آپ ؐکو پکڑ کر لائے گا اس کو اونٹ دیں گے۔ لوگ بہت دوڑے، مگر کوئی بھی آپ ؐ کو نہ پکڑ سکا۔ چوتھے دن آپ ؐ اور حضرت ابوبکر ؓ اس غار سے نکلے اور مدینہ منور ہ کی طرف چل دیئے۔

٭٭٭

مدینہ منورہ میں آنا
مدینے والے آپ ؐ کا انتظار کررہے تھے جب آپ ؐکو آتے دیکھا تو خوشی سے نہال ہو گئے۔ عورتیں چھتوں پر چڑھ گئی تھیں اور بچیاں خوشی سے گیت گاتی تھیں۔ راستے کے دونوں طرف لوگ کھڑے تھے۔ جب آپ ؐ گز رے تو وہ کہتے: ”اے خدا کے رسول ؐ، یہ گھر، یہ جان، یہ مال حاضر ہے۔“
ہر کوئی چاہتا تھاکہ آپ ؐ میرے مہمان بنیں اس لیے آپ ؐ کی اونٹنی کو اپنے گھر کے پاس روکنا چاہتا تھا۔ مدینہ منورہ میں ایک بڑے نیک مسلمان رہتے تھے۔ ان کا نام ابو ایوب ؓ تھا۔ وہ نجار کے خاندان میں سے تھے۔ آپ ؐکو مہمان بنانے کی عزت ان کی قسمت میں لکھی تھی۔ وہ خوشی سے نہال ہو گئے اور آپؐ کو اپنے گھر لے گئے۔
مدینہ منور ہ آکر آپ ؐ نے کئی ضروری کام کیے۔ ایک مسجد بنوائی۔ جس کا نام مسجد ِ نبوی ؓ ہے۔ یہ مسجد آج بھی موجود ہے۔ حاجی لوگ اس کی زیارت کرنے مدینہ منورہ جاتے ہیں۔ مسجد کے پاس حجرے بنے اور آپ ؐ ان میں رہنے لگے۔
آپ ؐ نے مدینے کے مسلمانوں کو اور مکے کے مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دیا۔ جو مسلمان مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے گئے تھے ان کو ”مہاجرین“کہتے تھے۔ ”مہاجرین“ کا مطلب ہے ”اپنا وطن چھوڑ کر دوسری جگہ ہجرت کر کے جانے والے“۔جو مسلمان مدینے کے تھے ان کو ”انصار“ کہتے ہیں۔ ”انصار“کا مطلب ہے ”مدد کرنے والے۔“ مدینے کے مسلمانوں نے مکہ مکرمہ سے آنے والے مسلمانوں کی بڑی مدد کی تھی، اس لیے ان کا یہ عزت والا نام رکھا گیا۔ آپؐ نے ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصاری کو بھائی بھائی بنادیا۔
مدینہ منورہ میں ایک اور قوم تھی جسے یہودی کہتے تھے۔ یہودی بڑے دولت والے تھے۔ وہ خدا کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم تھے۔ آپ ؐ نے ان کو بھی ساتھ ملا لیا۔ آپ ؐ نے ان سے کہا کہ آؤ، ایک دوسرے کے ساتھ عہد کر لیں کہ جب کوئی مدینے پر حملہ کرے گا تو دونوں مل کر مقابلہ کریں گے۔ یہودیوں نے یہ بات مان لی۔

٭٭٭

بد ر کی لڑائی (۲ھ)
مکہ مکرمہ کے کافروں کو اس بات پر بڑا غصہ آتا تھا کہ مسلمان مدینہ منورہ میں آرام سے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کو ابھی مدینہ منورہ میں آئے دوسرا ہی سال تھا کہ کافر ان سے لڑنے کے لئے آگئے۔ کافروں کی فوج میں ایک ہزار سپاہی تھے۔حضرت رسول اکرم ﷺ بھی مسلمانوں کولے کر نکلے۔ مسلمان صرف تین سو تیرہ تھے، مگر ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی امداد تھی اور یہی سب سے بڑی شے ہوتی ہے۔
جس جگہ یہ لڑائی ہوئی، اس کو بدر کہتے ہیں۔ اس لیے اس لڑائی کا نام ہی ”بدر کی لڑائی“ پڑ گیا۔ مسلمانوں اور کافروں کی فو جیں آمنے سامنے پڑی تھیں۔ رات ہوئی تو لوگ آرام کرنے لگے۔ مگر خدا کے رسول ؐ کھڑ ے نماز پڑھتے اور دعائیں مانگتے رہے۔
صبح کو لڑائی ہوئی۔ پہلے کافروں کا ایک آدمی لڑنے کے لئے نکلا۔ اس طرف سے ایک مسلمان آگے بڑھا۔ دونوں کی لڑائی ہوئی اور مسلمان شہید ہو گیا۔ پھر تین اور کافر میدان میں نکلے۔ ایک کانا م عتبہ تھا، دوسرے کا شیبہ اور تیسرے کا ولید۔ مسلمانوں کی طرف سے حضرت حمزہ ؓ، حضرت علی ؓ اور حضرت عبیدہ ؓ ان کے مقابلے کو نکلے۔ لڑائی ہوئی اور تینوں کافر مارے گئے۔
پھر عام حملہ ہوا اور دونوں فوجیں لڑنے لگیں۔ خدا نے مسلمانوں کی مدد کی اور کافروں کے بڑے بڑے سردار مارے گئے۔ ان مرنے والوں میں عتبہ اور ابوجہل بھی تھے۔ مسلمانوں کے صرف چودہ بہادر شہید ہوئے۔ کافر ہار کر بھاگ گئے۔

٭٭٭

اُحد کی لڑائی (۳ھ)
بد رمیں کافرہار گئے تھے۔ اس لیے ان کاغصہ اور بھی زیادہ ہو گیا۔ اگلے سال وہ پھر فوج لے کر آگئے۔ اب کے وہ اپنے ساتھ عورتیں بھی لائے۔ عورتیں اس لیے آئی تھیں کہ مردوں کو غصہ دلائیں اور وہ زیادہ جو ش سے لڑیں۔
مدینہ منورہ کے پاس ایک پہاڑ ہے جس کانام اُحد ہے۔ حضرت رسول اکرم ﷺ نے مسلمانوں کی فوج کو احد پہاڑ کے سامنے کھڑا کیا۔ فوج اس طرح کھڑی تھی کہ پہاڑ ان کے پیچھے تھا۔ اس پہاڑ میں ایک درہ تھا۔ آپ ؐ نے پچاس تیر چلانے والے اس گھاٹی پر کھڑ ے کر دیئے۔ آپ ؐ نے ان سے کہہ دیا کہ دیکھو، تم اس جگہ سے نہ ہلنا۔
پھر لڑائی شروع ہوئی۔ لڑائی بڑی سخت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس لڑائی میں بھی مسلمانوں کو فتح دی۔ کافر بھاگنے لگے اور مسلمانوں نے غنیمت کا مال سمیٹنا شروع کر دیا۔ جو تیر چلانے والے در ے پر کھڑے تھے انہوں نے سوچا کہ اب تو فتح ہو گئی، اب یہاں کھڑے رہنے کی کیا ضرورت ہے۔ ان میں سے بہت سے آدمی درے کے پا س سے ہٹ گئے۔
اب کافروں نے کیا کیا کہ پیچھے سے ہو کر گھاٹی کے راستے سے نکل آئے۔ مسلمان مال جمع کررہے تھے کہ کافروں نے پیچھے سے ان پر دوبارہ حملہ کردیا۔ اس حملے سے مسلمان گھبرا گئے۔ پھر بڑ ی گڑ بڑ ہوئی۔ کئی مسلمان شہید ہو گئے۔ یہاں تک کہ آپ ؐ کے مبارک چہرے پر بھی زخم آئے۔ پہلے مسلمان جیتے تھے اب کافر جیت گئے۔
یہ ہار اس لیے ہوئی کہ درے کے بہت سے تیر چلانے والوں نے آپ ؐ کے حکم کی پوری پوری پابندی نہ کی اور گھاٹی چھوڑ کر چلے آئے۔ اس لڑائی میں آپ ؐ کے پیارے چچا حضرت حمزہ ؓ بھی شہید ہوگئے۔

٭٭٭

خندق کی لڑائی (۵ھ)
یہ تو بیان ہو چکا ہے کہ مدینہ منورہ میں یہودی بھی رہتے تھے۔ پہلے پہلے تو اُنھوں نے مسلمانوں کو کچھ نہ کہا۔ پھر جب اُنھوں نے دیکھا کہ مسلمان طاقت والے ہوتے جارہے ہیں تو وہ جلنے لگے۔ وہ آئے دن شرارتیں کرتے تھے۔ آخر ان کی اور مسلمانوں کی لڑائیاں ہوئیں۔ان لڑائیوں میں یہودی ہار گئے اور مدینے سے چلے گئے۔ کچھ یہودی پھر بھی وہاں موجو درہے۔ جو یہودی مدینے سے رخصت ہو گئے ان میں سے بعض بڑے بڑے سردار خیبر کے علاقے میں چلے گئے، وہ علاقہ شام کے ملک کے قریب تھا۔ پھر ان یہودیوں نے بڑی شرارت کی۔ مکہ مکرمہ کے کافروں کو جا کر اکسایا۔ مدینہ منورہ میں جو یہودی قبیلہ رہ گیا تھا، اس کو بھی ساتھ ملایا اور بہت بڑا لشکر لے کر پھر مدینے پر چڑھ آئے۔
اس لڑائی میں مسلمانوں نے مدینے کے بچاؤ کے لیے مدینے کے سامنے بڑی سی کھائی کھو دلی۔ کھائی کو خندق بھی کہتے ہیں۔ اس لیے اس جنگ کو ”جنگ خند ق“ کہنے لگے۔ اب مسلمان مدینے کے اندر تھے اور کافر باہر۔ بیچ میں خند ق تھی۔کافر بار بار حملہ کرتے مگر جیت ہار نہ ہوتی تھی۔
اسی طرح کئی دن گزر گئے اور کافروں اور یہودیوں کی آپس میں پھوٹ پڑ گئی۔ پھر خدا کی قدرت سے ایسی سخت آندھی آئی کہ ان کے کھانوں کی ہانڈیاں چولہوں پر اُلٹ اُلٹ گئیں۔ آخر وہ تنگ آکر چلے گئے اور مدینہ منور ہ کو خدا نے بچالیا۔

٭٭٭

حدیبیہ کی صلح (۶ھ)
مسلمانوں کا بڑا دل چاہتا تھا کہ مکہ مکرمہ جا کر خدا کا گھر دیکھیں۔ ہجرت کے چھٹے سال حضرت رسول اکرم ﷺ چودہ سو مسلمانوں کو لے کر مکہ مکرمہ کی طرف چلے۔ مسلمان تو چلے تھے خدا کے گھر کا طواف کرنے، کافر سمجھے کہ لڑنے کو آرہے ہیں۔ وہ روکنے کے لیے آگئے۔
آپؐ نے کافروں کو کہلا بھیجا کہ بہتر ہے کہ ہم کچھ دیر کے لئے آپس میں صلح کرلیں۔ اس پر کچھ بات چیت ہوئی اور آخر یہی فیصلہ ہوا کہ دس سال کے لیے آپس میں صلح کرلی جائے۔ یہ صلح جس جگہ ہوئی تھی، اس کا نام حدیبیہ تھا۔ اس لیے اسے ”حدیبیہ کی صلح“ کہتے ہیں۔ مسلمان خدا کا گھر دیکھے بغیر واپس چلے گئے۔

٭٭٭

خیبر کی لڑائی (آخر ۶ ھ یا شروع ۷ ھ)
اب یہودیوں کی سنو۔ وہ ہرطرف سے آکر خبیر میں جمع ہو گئے۔ وہاں ان کے بڑے بڑے قلعے تھے۔ ان کی شرارتیں اب بھی ختم نہ ہوتی تھیں۔ آخر حضرت رسول اکرم ﷺ نے ان پر چڑھائی کی اور مسلمانوں کی فوج لے کر خیبر کی طرف چلے۔
مسلمانوں نے ایک ایک کر کے یہودیوں کے سب قلعے فتح کر لیے۔ ایک قلعے کے فتح کرنے میں بڑی مشکل پیش آئی۔ اس میں ایک رئیس رہتا تھا جس کانام ”مرحب“ تھا۔ مسلمان کئی دن حملے کرتے رہے، مگر قلعہ فتح نہ ہوا۔ آخر آپ ؐ نے حضرت علی ؓ کو فوج کا سردار بنا کر بھیجا۔ حضرت علی ؓ اور مرحب کی لڑائی ہوئی۔ مرحب مارا گیا ور قلعہ فتح ہو گیا۔ خیبر فتح ہو گیا، تو پھر یہودیوں سے لڑائیاں بھی ختم ہو گئیں۔

٭٭٭

مکہ مکرمہ کی فتح (۸ھ)
حدیبیہ میں کافروں نے مسلمانوں کے ساتھ دس سال کے لیے صلح کی تھی،مگر ابھی دوسال بھی نہیں گزرے تھے کہ انہوں نے صلح توڑ دی۔ حضرت رسول اکرم ﷺنے یہ دیکھا تو آپ ؐ فوج لے کر مکہ مکرمہ کی طرف چلے۔
مکہ مکرمہ کے نزدیک پہنچ کر مسلمانوں کی فوج ایک جگہ ٹھہر گئی۔ کافروں میں اب اتنی ہمت نہیں رہی تھی کہ مسلمانوں کا راستہ روک سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بڑی طاقت دے دی تھی۔ ان کی فوج کئی ہزار تھی۔ کافر اب اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔
حضرت رسول اکرم ﷺ مسلمانوں لے کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، کافروں نے مقابلہ نہ کیا۔ صرف ایک جگہ تھوڑی سی لڑائی ہوئی۔ باقی بالکل امن رہا۔ مکہ مکرمہ میں وہ ظالم لوگ موجود تھے، جنھوں نے مسلمانوں کو بڑے بڑے دکھ دیئے تھے۔ وہاں وہ لوگ بھی موجو دتھے جنھوں نے آپ ؐ کی شان میں گستاخیاں کی تھیں اور آپؐ کو بڑا ستایا تھا۔ آپؐ نے ان کی طرف دیکھاا ور فرمایا۔
”تم کو کچھ معلوم ہے کہ میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟“
وہ پکار اٹھے۔ ”آپ ؐ شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں“۔
اللہ کے پیارے نبی ؐ نے انہیں معاف کر دیا اور فرمایا:
”آج تم پر کوئی الزام نہیں۔جاؤ،تم آزاد ہو“۔
ظالم کافروں نے اللہ کے گھر میں بت رکھے تھے۔ آپ ؐ نے خدا کے گھر کو ان بتوں سے پاک صاف کروایا اور خدا کے گھر میں پھر ایک سچے خدا کی عبادت ہونے لگی۔ کچھ دن آپ ؐ مکہ مکرمہ ہی ٹھہرے، پھر واپس مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔

٭٭٭

آخری حج (۰۱ ھ)
ہجرت کا دسواں سال تھا کہ آپ ؐ حج کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ مسلمانوں نے جب آپ ؐ کے جانے کا سنا تو بے شمار لو گ آپ ؐ کے ساتھ جانے کو تیار ہو گئے۔
مکہ مکرمہ کے پاس ایک میدان ہے، اسے ”عرفات“ کہتے ہیں۔ حج کے دن سب حاجی وہاں جا کر ٹھہرتے ہیں۔ آپ ؐ عرفات میں تشریف لائے۔ دوپہر ڈھل گئی تو اونٹنی پر سوار ہو کر میدان میں آئے اور ایک خطبہ دیا۔ آ پ ؐ کایہ خطبہ بڑا ہی مشہور ہے۔ اس خطبے کی کچھ باتیں یہاں لکھی جاتی ہیں۔ آپ ؐ نے فرمایا:
”لو گو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے۔“
”ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں“۔
”غلاموں کا دھیان رکھو، جو خو د کھاؤ وہی ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ“۔
”اگر تم اللہ کی کتاب پر پابندی سے عمل کرتے رہے تو گمراہ نہ ہو گے“۔
پھر آپؐ نے مسلمانوں سے فرمایا:
”تم سے خدا کے ہاں میر ی نسبت پوچھا جائے گا تو کیا جواب دو گے؟“
مسلمانوں نے کہا:”ہم کہیں گے کہ آپ ؐ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا اور اپنا فرض ادا کردیا۔“ یہ سن کر آپ ؐ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور فرمایا:
”اے خدا، تو گواہ رہنا، اے خدا، تو گواہ رہنا، اے خدا، تو گواہ رہنا“۔

٭٭٭

حضوؐر کی وفات (۱۱ھ)
اللہ پاک نے اپنے نبی ؐ کو جس کام کے لیے بھیجا تھا وہ پورا ہوگیا۔ آپ ؐ نے خدا کا پیغام خدا کے بندوں کو پہنچا دیا۔ بے شمار لوگ مسلمان ہو گئے اور خدا کے دین کی روشنی گھر گھر پہنچ گئی۔ اب اللہ پاک نے اپنے پیارے نبی ؐ کو اپنے پاس بلا لینا چاہا۔
ایک دن آپ ؐ گھر تشریف لائے تو طبعت مبارک درست نہ تھی۔ وہ بدھ کا دن تھا۔ دن گزرتے گئے، مگر آرام نہ ہوا۔ کبھی بیماری بڑھ جاتی، کبھی کم ہو جاتی۔ آپ ؐ کا گھر مسجد سے ملا ہوا تھا۔ جس دن وفات ہوئی اس دن پر دہ اٹھا کر مسجد کی طرف دیکھا تو لوگ صبح کی نماز پڑھ رہے تھے۔ آپؐ دیکھ کر مسکرا دیئے۔
لو گوں نے آپ ؐ کی آہٹ پائی تو خیا ل کیا کہ شاید آپ ؐ باہر تشریف لانا چاہتے ہیں۔ انہیں اس قدر خو شی ہوئی کہ قریب تھا کہ نمازیں توڑ دیں، لیکن آپ ؐ پھر گھر کے اندر ہو گئے۔ جوں جوں دن چڑھتا گیا، آپؐ پر بار بار غشی طاری ہوتی رہی۔حضرت فاطمہ ؓ دیکھ کر بولیں:
”ہائے! میرے باپ کی بے چینی!“ آپ ؐ نے فرمایا: ”تمھارا باپ آج کے بعد پھر بے چین نہ ہو گا۔“
تیسرا پہر تھا،سینے میں سانس کی کھڑکھڑا ہٹ محسوس ہوتی تھی، آپ ؐ کے مبارک ہونٹ ہلے تو لوگوں نے آپ ؐ کو فرماتے سنا:
”نما ز اور غلاموں سے نیک برتاؤ“۔
اتنے میں ہاتھ اٹھا کر انگلی سے اشارہ کیا اور تین دفعہ فرمایا:
”اب اور کوئی نہیں، بلکہ وہ بڑا رفیق درکا ر ہے۔“
یہ کہتے کہتے آپ ؐکی پاک جان اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچ گئی۔
درود اور سلام ہو آپ ؐ پر، اور آپ ؐکی آل پر، اور آپ ؐ کے ساتھیوں پر۔

٭٭٭

آپؐ کی مبارک عادات
پیارے نبی ﷺ ہم سب کے لیے ایک نمونہ تھے۔ آپ ؐ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا حکم مانتے تھے۔ آپ ؐ کی سب عادتیں ایسی تھیں جو خدا کو اچھی لگتی تھیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم آپ ؐ جیسی عادتیں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
یہاں آپ ؐکی عادات کے متعلق کچھ باتیں لکھی جاتی ہیں۔ یہ باتیں اس لیے لکھی جارہی ہیں کہ سب بچے ایسی عادتیں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ یادرکھنا چاہئے کہ اچھا مسلمان وہی ہوتا ہے جو اپنے نبی ؐ جیسے کا م کرنے کی کوشش کرے۔
اچھا، تو ہمارے نبی ؐ بڑے ملنسار، مہربان اور رحم دل تھے۔ آپ ؐ اتنے سخی تھے کہ کبھی کسی مانگنے والے سے ”نہیں“ نہ کہتے۔ ایک دفعہ آپ ؐ کے پاس بہت سامال آیا۔ آ پؐنے فرمایا کہ مسجد کے صحن میں رکھ دو۔ پھر مسجد میں تشریف لائے۔نماز پڑھ کر اس مال کو بانٹنے لگے۔ جو آتا اس کو دیتے جاتے۔ آخر سب مال بانٹ دیا اور کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
مہمان کی بڑی خاطر کرتے تھے، چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ ایک دفعہ ایک کافر مہمان آیا۔ آپ ؐ نے اسے ایک بکری کا دودھ پلایا۔ وہ سارے کا سارا پی گیا۔ پھر آپ ؐ نے دوسری بکر ی کا دیا۔ اس نے وہ بھی پی لیا۔ پھر تیسری کا، پھر چوتھی کا، یہاں تک کہ سات بکریوں کی نوبت آئی۔ جب تک وہ سیر نہ ہوا، آپ ؐ پلاتے گئے۔
آپ ؐ بڑے سادہ رہتے تھے۔ جو موٹا جھوٹا کپڑا مل جاتا، پہن لیتے۔ زمین پر، چٹائی پر، فرش پر جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے۔
آپ ؐگھر کا کام کاج بھی کر لیتے، دودھ دوہ لیتے، بازار سے سودا لے آتے، غلاموں اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھ جاتے اور ان کے ساتھ کھانا کھا لیتے۔ غریب سے غریب شخص بھی بیمار ہوتا تو آپ ؐ اس کا حال پوچھنے جاتے۔
آپؐ بڑے شرم و حیا والے تھے۔ بازاروں میں جاتے، تو چپ چاپ گزر جاتے۔ آپ ؐ اونچی آواز سے نہیں ہنستے تھے۔ آپ ؐ تو بس مسکراتے تھے۔
لو گ آپ ؐ کو تحفے دیتے تھے، تو آپ ؐ قبول کر لیتے تھے۔ آپ ؐ خود بھی دوسروں کو تحفے دیتے تھے۔ آپ ؐ فرماتے تھے:
”ایک دوسرے کو تحفے دو تو آپس میں محبت ہوگی“۔
آپ ؐ کسی کا احسان لینا پسند نہیں کرتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ آپ ؐ کے بڑے عزیز دوست تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے آپ ؐ کو ایک اونٹنی دی۔ آپ ؐ نے اونٹنی کی قیمت ادا کر دی۔
مدینہ منورہ کی لونڈیاں آتیں اور کہتیں: ”یارسول اللہ ؐ، میرا یہ کا م ہے۔“ آپ ؐ فورا َاُٹھ کھڑے ہوتے اور ان کا کام کردیتے۔
آپ ؐ بڑے بہادر تھے۔ حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ بدر کی لڑائی میں جب لڑائی بڑے زور شور سے ہونے لگی تو ہم نے آپ ؐکی آڑ میں آکر پنا ہ لی۔
خدا کر ے سب مسلمان بچے یہ اچھی عادتیں سیکھیں! آمین۔

٭٭٭

آپ ؐ نے کیا سکھایا
حضرت رسول اکرم ﷺ دنیا میں اس لیے تشریف لائے تھے کہ لوگوں کو خدا کا پیغام پہنچائیں۔ آپ ؐ نے مسلمانوں کو جو کچھ سکھایا اس میں سے موٹی موٹی باتیں یہاں لکھی جاتی ہیں۔
خداپر ایمان: آپ ؐ نے لوگوں کو بتایا کہ اے لوگوں، خدا ایک ہے۔ بتوں کی پوجا کرنا کفر ہے۔ صرف ایک خدا کی عبادت کرو۔ وہ سننے والا ہے۔ جاننے والاہے، دیکھنے والاہے۔ نہ اس کی بیوی ہے، نہ بچے، نہ ماں باپ، نہ بہن بھائی۔ اس کی شان سب سے اونچی ہے۔ وہ سب کا مالک اور بادشاہ ہے۔ وہی مارتا ہے، وہی زندہ کرتا ہے۔ ہر طرح کا اختیار صرف اسی کو حاصل ہے۔ اس کے حکم کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔
خدا کے فرشتوں پر ایمان: آپ ؐ نے لوگوں کو خدا کے فرشتوں کا حال بھی بتایا۔ آپؐ نے بتایا کہ فرشتے خدا کی پاک مخلوق ہیں۔ وہ گناہ نہیں کرتے۔ جس کا م کا خد ا انہیں حکم دیتا ہے، فورا َ کرتے ہیں۔ بعض بے سمجھ لوگ کہتے تھے کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں۔ بعض انہیں دیویاں اور دیوتا سمجھتے تھے۔ آپ ؐ نے بتایا کہ یہ سب باتیں غلط ہیں۔ خدا کا کوئی بیٹا بیٹی نہیں۔ وہ تو بس اکیلا ہے اور سب سے بڑا ہے۔ فرشتے تو اس کی مخلوق ہیں۔
خدا کے نبیوں پر ایمان: آپ ؐ نے لوگوں کو یہ بھی سمجھایا کہ اللہ کے نبیوں کو سچا مانو۔ بعض لو گ ایسا کرتے تھے کہ خدا کے کسی نبی کو مانتے تھے اور کسی کو نہیں مانتے تھے۔ آپ ؐ نے سمجھا یا کہ یہ ٹھیک نہیں۔ اللہ کے سب نبی سچے تھے۔ تم سب کو مانو۔
خدا کی کتابوں پر ایمان: اللہ تعالیٰ نے اپنے کئی نبیوں کو کتابیں دی تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے ایک کتا ب دی،جس کا نام ”تورات“ تھا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو ایک کتاب دی، جس کا نام ”زبور“ تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک کتاب دی،جس کا نام ”انجیل“ تھا۔ پھر حضرت رسول اکرم ﷺ کو ایک کتاب دی، جس کا نام ”قرآن“ ہے۔ آپ ؐ نے لوگوں کو سمجھایا کہ اللہ کی سب کتابوں پر ایمان لا ؤ۔
آخرت پر ایمان: پانچویں چیز جو آپ ؐ نے سکھا ئی یہ تھی کہ آخر ت کو مانو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں قیامت آجائے گی۔ ایک ڈراؤ نی آواز آئے گی اور ساری دنیا تباہ و بربا د ہو جائے گی۔ لو گ مرجائیں گے۔ پھر سب کو دوسری بارزندہ کیا جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کا حساب کتا ب لے گا۔ اللہ تعالیٰ دیکھے گا کہ کون لوگ نیک ہیں اور کون بُرے ہیں۔ پھر نیکوں کو تو خدا جنت میں جگہ دے گا اور بُروں کو دوزخ میں ڈال دے گا۔ جنت میں بڑا آرام ہو گا، ہر طرح کی نعمتیں ملیں گی اور دوزخ میں بڑی تکلیف ہو گی، بھڑکتی ہوئی آگ ہو گی اور دوزخی اس میں جلیں گے۔
یہ پانچ بڑی بڑی چیزیں ہیں، جو آپ ؐ نے ہمیں بتائی ہیں۔
آپ ؐ نے ہمیں پانچ چیزیں اور بھی سکھائیں ہیں،وہ یہ ہیں:
۱۔کلمہ: کلمہ یہ ہے
لَااِ لٰہَ اِلَّا للّٰہُ مُحَّمَدُٗ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ:
”خدا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں۔“
۲۔نماز پڑھنا
۳۔زکوٰۃ دینا
۴۔روزے رکھنا
۵۔ حج کرنا
یہ پانچوں کام بڑے ضروری ہیں۔ جو کوئی بے وجہ نماز نہ پڑھے اور روزے نہ رکھے، اُسے بڑا سخت گناہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کے پاس مال ہو اور وہ اس کی زکوٰ ۃ نہ دے اور حج کرنے نہ جائے، تو خدا اس سے سخت خفا ہوتا ہے۔
آپ ؐ نے ہمیں اور بھی بہت سی اچھی اچھی باتیں سکھائیں۔ مثلا سچ بولو، امانت میں خیانت نہ کرو، ماں باپ کا حکم مانو،بیمار کا حال پوچھنے جاؤ، وغیرہ وغیرہ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سچا مسلمان بنائے اور ہم وہ سب کام کریں جو آپ ؐ نے ہمیں سکھائے ہیں۔
درود اور سلام ہو آپ ؐ پر اور آپ ؐ کی آل پر اور آپ ؐ کے ساتھیوں پر۔

٭٭٭

آپ ؐ کی کچھ پیاری باتیں
پیارے نبی ؐ نے فرمایا: اسلام کی بنیا د پانچ چیزوں پر ہے۔
٭ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں اور محمد ؐ اللہ کے رسول ؐ ہیں۔
٭ اور نماز قائم کرنا
٭ اور زکوۃ ادا کرنا
٭ اور خانہ کعبہ کا حج کرنا
٭ اور رمضان کے روزے رکھنا۔ (بخاری)
ایک دن پیارے نبی ؐ نے مسلمانوں سے پوچھا کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر ایک نہرہو اور وہ دن میں پانچ مرتبہ اس نہر میں نہایا کرے تو کیا اس کے بدن پر کچھ میل کچیل باقی رہ جائے گی؟
لوگو نے عرض کیا کہ اس پر تو میل کچیل باقی نہیں رہے گی۔
آپ ؐ نے فرمایا کہ پانچ نمازو ں کی یہی مثال ہے (اگر پانچوں نما زیں پڑھی جاتی رہیں تو) ان کے سبب سے خدا تعالیٰ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ (بخاری)
پیارے نبی ؐ نے فرمایا:
بسم اللہ پڑھ کر (کھانا) کھاؤ۔
اور اپنے داہنے ہاتھ سے کھاؤ۔
اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔ (بخاری)
پیارے نبی ؐ نے فرما یا:
تم میں سے سب سے اچھے لوگ وہی ہیں جنہوں نے قرآن سیکھا اور اسے (دوسروں کو) سکھایا۔(بخاری)
ایک شخص پیارے نبی ؐ کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ مجھے نصیحت کیجئے۔ آپ ؐ نے فرمایا: ”غصہ نہ کیا کر“۔
اس شخص نے باربار عرض کیا کہ مجھے نصیحت کیجئے اور آپ ؐ نے بار بار یہی فرمایا کہ:”غصہ نہ کیا کر“۔ (بخاری)
پیارے نبی ؐ نے فرمایا:
اللہ اس بندے سے راضی ہو جاتا ہے جو کھانا کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ا دا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتاہے۔ (مسلم)
پیارے نبی ؐ نے فرمایا:
جس نے مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجا، خداتعالیٰ اس پر اس کے بدلے دس مرتبہ رحمت نازل کرے گا۔ (مسلم)

٭٭٭

پیارے نبی ؐ کی شکل و صورت
غذا، لباس اور چال ڈھال وغیرہ
بچو! پیارے نبی ؐ کے ساتھیوں کو آپ ؐ سے اتنی محبت تھی کہ انھوں نے آپ ؐ کی ایک ایک چیز کو غور سے دیکھا اور یاد رکھا۔ انھوں نے ان باتوں کو صرف یاد ہی نہیں رکھا بلکہ انہیں دوسرے لو گوں تک بھی پہنچایا۔ ان دوسرے لوگوں نے ان باتوں کو اپنے بعد آنے والوں تک پہنچا یا اور اس طرح ایک نسل سے دوسر ی تیسری تک پہنچتے پہنچتے یہ باتیں ہم تک پہنچ گئیں۔ اب ہم یہ باتیں آپ کو بتاتے ہیں اور آپ انہیں اپنے سے چھوٹوں کو بتائیے گا، تاکہ یہ باتیں آگے سے آگے چلتی جائیں۔ اچھا اب سنیئے۔
پیارے نبی ؐ کا قد درمیانہ تھا۔ نہ تو آپ ؐ چھوٹے قد والے تھے اور نہ بہت لمبے۔ آپ ؐ کا رنگ نہ بالکل سفید تھا چونے کی طرح اور نہ بالکل گندمی تھا بلکہ سرخی مائل سفید تھا۔ آپ ؐ کا مبارک چہرہ نہ بالکل گول تھا اور نہ لمبابلکہ کچھ گولائی لیے ہوئے تھا۔
آپ ؐ کے بال بہت گھنے تھے اور کچھ پیچ دار تھے۔ بالکل سیدھے بھی نہیں تھے اور بہت پیچ دار بھی نہیں تھے۔ وفات کے وقت بھی آپ ؐ کے بال زیادہ سفید نہیں ہوئے تھا۔ آپ ؐ کے سر اور ڈاڑھی میں بیس بال بھی سفید نہیں تھے۔
آپ ؐ کی مبارک آنکھیں بہت کالی تھیں، آپ ؐ کی پلکیں لمبی تھیں۔ ایک صحابی ؓ بتاتے ہیں کہ حضوؐر کی آنکھیں ایسے لگتی تھیں جیسے سرمہ لگایا ہوا ہے،حالانکہ نہ لگایا ہوا ہوتا تھا۔ آپ ؐ کے ابرو خمدار تھے۔
آپ ؐ کا سر مبارک بڑا تھا، مگر بہت زیادہ بڑا نہیں تھا۔ آپ ؐ کی پیشانی کشادہ تھی۔ آپ ؐکی ناک بلند تھی اور اس پر ایک چمک اور نور تھا۔ آپ ؐ کے دانت سفید، چمکدار اور خوبصورت تھے جیسے موتی ہوں۔ آپ ؐکی ہتھیلیاں اور پاؤں پُر گوشت تھے۔ ایک صحابی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کوئی ریشم آپؐ کی ہتھیلیوں سے زیادہ نرم نہیں دیکھا۔ ہاتھ پاؤں کی انگلیاں مناسب حدتک لمبی تھیں۔
آپ ؐ کا سینہ فراخ تھا۔ جب آپ ؐ چلتے تو قوت کے ساتھ قدم اٹھاتے اور آگے جھکے ہوئے چلتے۔ آپ ؐ کا بدن بہت خوبصورت اور معتدل تھا۔ آپؐ بہت خوبصورت تھے۔ حضرت علی ؓ بتاتے ہیں کہ میں نے حضور ؐ سے زیادہ خوبصورت نہ کوئی آپ ؐ سے پہلے دیکھا، نہ آپ ؐ کے بعد۔ آپؐ کے ایک ساتھی حضر ت براءؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کبھی کوئی چیز آپ ؐ سے زیادہ حسین نہیں دیکھی۔ حضرت براء ؓ سے کسی نے پوچھا کہ کیا حضوؐر کا چہر ہ تلوار کی طرح شفاف
تھا، تو انھوں نے بیان کیا کہ نہیں بلکہ چودھویں رات کے چاند کی طرح تھا۔ آپ ؐ کے ایک اور ساتھی حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں نے چاندنی رات میں حضوؐر کو دیکھا، میں کبھی چاند کو دیکھتا، کبھی حضوؐرکو۔ آخر میں نے یہی فیصلہ کیا کہ حضوؐر چاند سے زیادہ خوبصورت تھے۔ آپ ؐ کے ایک اور ساتھی حضرت ابوہر یرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضوؐر اتنے خوبصورت تھے، گویا آپ ؐ کا بدن چاندی سے ڈھالا گیا تھا۔
لباس میں آپ ؐ کو کرتہ سب سے زیادہ پسند تھا اور سفید رنگ کے لباس کو پسند فرماتے تھے۔ جب مکہ فتح ہوا تو آپ ؐ کالے رنگ کا عمامہ باندھے ہوئے تھے۔
کھانے کی چیزوں میں آپ ؐ کو میٹھی چیزیں اور شہد زیادہ پسند تھا۔ سبزیوں میں آپ ؐ کدو کو پسند فرماتے تھے۔ ثرید بھی پسند فرماتے تھے۔ ثرید ایک عربی کھانا تھاجسے شور بے میں روٹی بھگو کر تیار کرتے تھے۔
پینے کی چیزوں میں آپ ؐکو میٹھی اور ٹھنڈی چیزیں پسند تھیں۔ آپ ؐ نے دودھ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کھانا اور پانی دونوں کا کام دیتا ہے۔ آپ ؐ بڑے صفائی پسند تھے اور خوشبو کو بہت زیادہ پسند فرماتے۔
آپ ؐ جلدی جلدی باتیں نہیں کرتے تھے بلکہ آرام سے ٹھہر ٹھہر کر صاف باتیں کرتے تھے۔ آپؐ بڑے خوبصورت، بڑے لحاظ والے، بڑے مہربان، بڑے ہمدرد اور بڑے خوش مزاج تھے اور اکثر مسکراتے رہتے تھے۔
درود اور سلام ہو آپؐ پر اور آپ ؐ کی آل پر اور آپ ؐ کے اصحاب ؓ پر۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top