اُجالوں کی منزل
نعیم احمد بلوچ
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کتاب واقعہ شق القمر کے سلسلے کا تیسرا اور آخری حصہ ہے۔اس میں ”اے کے“اور فیصل میں معجزات کے موضوع پر چھڑنے والی بحث اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔
”اے کے“اور فیصل اپنا مقدمہ اپنے استاد فاروقی صاحب کے پاس لے کر جاتے ہیں۔پوری کلاس کی موجودگی میں ایک زوردار بحث ہوتی ہے۔اس نشست میں”اے کے“کے سامنے حقائق کی نئی دنیا روشن ہوتی ہے۔وہ گھر آکر فاروقی صاحب کی گفتگو پر غور کرتا ہے۔جیسے جیسے وہ سوچتاہے،اپنے استاد کی باتوں کی سچائی اس پر واضح ہوتی چلی جاتی ہے۔تب اس کے اندر یہ خواہش جنم لیتی ہے کہ کیوں نہ وہ خود واقعہ شق القمر کا مطالعہ کرے۔اس مقصد کے لیے وہ سیرت کی کتب کو دیکھتا ہے۔اس براہ راست مطالعے سے اس کی کئی غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں۔اس کے بعد وہ قرآن مجید کے باترجمہ مطالعے کا ارادہ کرتا ہے۔اس نے قرآن میں موجود تمام آیات پڑھنے کا فیصلہ کیا جن میں چاند کا ذکر آتا ہے۔قرآن مجید پڑھنے سے پہلے اس کے ذہن میں ایک عجیب بات آئی۔وہ یہ کہ اگر اس نے قرآن مجید اور احادیث کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد بھی اس واقعے کو ماننے سے انکار کیا تو اس میں اور کفار کے رویے میں کیا فرق رہ جائے گا؟اس سوال نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔اسی کیفیت میں اس نے قرآن مجید اٹھایا اور اس کا باترجمہ مطالعہ شروع کردیا….
آگے کے واقعات آپ اس کتاب میں پڑھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکول سے گھر آکر بھی وہ انہی سوچوں میں مگن رہا۔اس نے قرآن مجید کا اردو ترجمہ لیا اور اسے پڑھنے بیٹھ گیا،مگر ایک اور رکاوٹ نے اسے روک دیا۔وہ چاہتا تھا کہ قرآن مجید کی ان آیات کا مطالعہ کرے جن میں چاند کے متعلق بیان کیاگیا ہے….اس نے سوچاپورا قرآن مجید پڑھنا اور اس میں چاند کے متعلق آیات کا کھوج لگانا خاصا مشکل ہوگا اور اس پر بہت زیادہ وقت خرچ ہوگا۔اپنی سکول کی مصروفیات کے ساتھ وہ یہ کام نہیں کر سکے گا۔پھر اس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ ہر کتاب کا انڈکس ہوتا ہے،یعنی کتاب میں آنے والے اسماءاور اصطلاحات کو حروف ابجد سے (Alphabetically)جمع کردیا جاتا ہے اور جہاں جہاں یہ الفاظ کتاب میں آئے ہوتے ہیں،ان کے صفحات درج کر دیے جاتے ہیں۔اس طرح کتاب پڑھنے والے کو آسانی سے وہ معلومات مل جاتی ہیں جو وہ چاہتا ہو۔یہ سوچ کر اس نے اپنے پاس موجود ترجمہ قرآن کو دیکھاتو اس میں کوئی انڈکس نہیں تھا۔اسے خاصی مایوسی ہوئی۔اسی مایوسی کے عالم میں اس نے فاروقی صاحب کو فون کیا۔
فاروقی صاحب یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ ”اے کے“اپنے طور پر مطالعہ کررہاہے۔انہوں نے”اے کے“کی بڑی تعریف کی کہ اس نے بالکل درست فیصلہ کیا۔دراصل انہیں معلوم تھا کہ قرآن مجید نے آج سے چودہ سوسال پہلے چاند کے بارے میں جو کچھ بیان کیاہے،وہ خود ایک معجزہ ہے۔چاند کے بارے میں آج کے جدید دور میں چاند پر جا کر اور جدید دور بینوں اور خلائی اسٹیشنوں کے ذریعے جو باتیں معلوم ہوئی ہیں،اللہ کے رسول ﷺ کے ذریعے قرآن میں وہ سیکڑوں سال پہلے بیان ہوگئی ہیں۔جب ”اے کے “پریہ حیران کن حقیقتیں کھلیں گی تو اس کا دل شکوک و شبہات کے کانٹوں سے پاک ہوگا اور قرآن کی سچائی اس پر واضح ہوگی۔
انہوں نے انڈکس کے حوالے سے اسے یہ بتایا:
”اے کے“بیٹا!بعض ترجمۂ قرآن اور تفسیروں میں تمہیں انڈکس تو مل جائے گالیکن بہتر یہ ہے کہ تم اَلمُعْجَمُ الْمُفَھْرَس استعمال کرو۔“
پھر”اے کے“کے پوچھنے سے پہلے ہی انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کی:
”ترجمہ قرآن سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔تفسیر وہ کتاب ہوتی ہے جس میں قرآن مجید کی ایک ایک آیت کی تشریح ہوتی ہے۔عام طور پر اس کی کئی جلدیں ہوتی ہیں،لیکن اگر تم چاند کے متعلق تفسیریں دیکھنا چاہو گے تو تمہیں کئی جلدوں(Volumes)کا مطالعہ کرنا پڑے گا،اس لیے میں نے تمہیں اَلْمُعْجَمُ الْمُفَھْرَس دیکھنے کا مشورہ دیا ہے۔یہ کتاب اصل میں قرآن مجید کا انڈکس ہے۔اس میں قرآن مجید میں موجود ہر لفظ کو حروف ابجد کے حساب سے لکھ دیا گیا ہے۔پھر اس لفظ کے متعلق بتایا گیا ہے کہ یہ کس کس سورت کی کس کس آیت میں آیا ہے۔آیت اور سورت کا نمبر بھی دیا ہوتا ہے اور آیت کے وہ الفاظ بھی دیے ہوتے ہیں،جن میں وہ لفظ استعمال ہوا ہے۔یوں آپ بڑے آرام سے جان سکتے ہیں کہ پورے قرآن مجید میں آپ کا مطلوبہ لفظ کہاں کہاں آتا ہے۔مثلاً:عربی میں چاند کو ”قمر“کہتے ہیں۔آپ کو ”ق“میں ”قمر“لکھا ملے گا اور پھر ان تمام آیات کی فہرست ملے گی جہاں جہاں پورے قرآن مجید میں یہ لفظ آیا ہے۔“
”اے کے“نے پوچھا:”لیکن سر!فرض کریں مجھے نہیں معلوم کہ چاند کو عربی میں کیا کہتے ہیں،پھر تو بڑی مشکل ہوجائے گی؟“
”ہاں!آپ درست کہتے ہیں،معجم(Concordance)دراصل عربی کی کتاب ہے۔اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے آدمی کو عربی سے کچھ واقفیت ضرور ہونی چاہیے۔جن طالب علموں نے مڈل جماعت میں عربی کا مضمون پڑھا ہے،وہ تو آسانی سے معجم استعمال کر سکتے ہیں، لیکن اگر آپ عربی سے بالکل ناواقف ہیں تو پھر آپ اپنے استاد یا کسی دوسرے شخص کی مدد لے سکتے ہیں۔مثلاً آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ قرآن میں”رسول“ کا لفظ کہاں کہاں آرہا ہے تو بتانے والا آپ کو بتائے گا کہ آپ معجم میں لفظ”رسل“دیکھیں کیونکہ ”رسول“بنیادی طور پر”ر س ل“سے بنتا ہے۔“
بات ”اے کے “کی سمجھ میں آگئی تھی،اس نے فاروقی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور پھر وہ اگلے دن کا انتظار کرنے لگا کہ سکول جائے اور جاکر لائبریری میں اَلْمُعْجَمُ الْمُفَھْرَس دیکھے۔
اگلے دن تفریح کے دوران وہ سیدھا لائبریری گیا۔
پچھلے دن اس نے کتاب کا نام اَلمُعجَمُ المُفَھرَس اچھی طرح یاد کرلیا تھا ،تاکہ لائبریرین اس کا مذاق نہ اڑائے یا غلط نام بتانے کی صورت میں اسے یہ مت سننا پڑے کہ یہ کتاب لائبریری میں ہے ہی نہیں!
اس نے لائبریرین سے بڑے اعتماد سے کہا:”سر!مجھے اَلمُعجَمُ المُفَھرَس دیکھنی ہے،کہاں رکھی ہے؟“
لائبریرین اس کے منہ سے عربی زبان کی ایک مشکل نام کی کتاب کا سن کر حیران رہ گیا….ویسے بھی آج تک کسی نے اس سے یہ کتاب نہیں مانگی تھی۔اس نے”اے کے“کو آزمانے کی خاطر کہا:”بھئی تم تو یہ کتاب ایسے مانگ رہے ہو جیسے یہ کتاب کسی کو جاری (Issue)نہیں ہوئی اور لازمی طور پر لائبریری میں موجود ہے!“
”جی سر!واقعی یہ کتاب لائبریری میں موجو دہے۔یہ کسی کو جاری ہوہی نہیں سکتی۔“
”وہ کیوں؟“
”اس لیے کہ یہ حوالے کی کتاب(Reference book)ہے اور حوالے کی کتابیں مثلاً ڈکشنریاں،نصابی کتب،نقشوں کی کتابیں (Atlases)وغیرہ لائبریری سے جاری نہیں ہو سکتیں….المعجم بھی چونکہ قرآن کا انڈکس ہے،اس لیے یہ کسی کو جاری نہیں ہو سکتا….میں فاروقی صاحب سے اچھی طرح پوچھ کر آیا ہوں!“”اے کے“ نے آخری جملہ مسکراتے ہوئے کہا۔
لائبریرین کے لیے اب خاموشی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔اس نے قریبی الماری سے کتاب نکال کر اس کے حوالے کردی۔
معجم،ڈکشنری کی طرح ایک موٹی سی کتاب تھی۔ڈکشنری ہی کی طرح اس میں حروف ابجد کے لحاظ سے الفاظ درج تھے اور ہر لفظ سے نکلنے والے ان تمام لفظوں کی فہرست تھی جو قرآن مجید میں موجود تھے۔
”اے کے“ نے”ق“ میں ”قمر“کو تلاش کیا تو اسے 27آیات ملیں۔اس نے ان تمام آیات کو ترجمے کے ساتھ پڑھا۔
ان میں سے اکثر آیات میں ایک بات بار بار اور بڑی نعمت کے طور پر کہی گئی تھی….وہ یہ کہ سورج اور چاند سمیت،تمام اجرام(اجسام)فلکی اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں….اور ان کی یہ گردش ایک خاص مدت کے لیے ہے….اور ایک دن سورج چاند سمیت سبھی اجرام سماوی کو ختم ہو جانا ہے ۔
”اے کے“قرآن مجید کے اس بیان پر حیران رہ گیا ۔وہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ جس زمانے میں قرآن نازل ہوا،اس وقت اجرام فلکی کا مداروں میں گھومنا کسی کو معلوم نہ تھا اور یہ بات بھی جدید زمانے ہی میں معلوم ہو سکتی تھی کہ ایک دن زمین سمیت تمام سیارے، ستارے تباہ ہوجائیں گے لیکن قرآن چودہ صدیاں پہلے ہی اسے ایک طے شدہ حقیقت کے طور پر پیش کررہا تھا۔
پھر جب وہ سورۂ فرقان کی آیت نمبر:61پر پہنچا تو حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔اس میں سورج کو”سِرَاج“اور قمر کو”مُنِیر“کہا گیا تھا۔پھر ایک دوسری جگہ اس نے دیکھا کہ سورہ نبا کی آیت نمبر 13میں”سراج“کی وضاحت لفظ ”وَھَّاج“کی گئی ہے یعنی ایک دہکتا ہوا چراغ۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قرآن یہ بتاتا ہے کہ سورج روشنی کا منبع ہے اور چاند اس کی روشنی سے منورہے۔
”اے کے“اچھی طرح جانتا تھا کہ چودہ صدیاں پہلے اس اہم سائنسی انکشاف کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں ہوسکتا کہ قرآن اللہ ہی کی نازل کردہ کتاب ہے لیکن پھر اس کے دل میں شک کا کانٹا چبھ گیا۔
وہ سوچنے لگا کہ قرآن نے اسی بات کو صاف صاف لفظوں میں کیوں نہیں بیان کیا؟اس زمانے کے پڑھے لکھے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ سورج زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے اور چاند زمین کی راتوں کو روشن کرنے والا ستارہ ہے….ایسے کوئی نہیں سمجھتا تھا کہ سورج کی روشنی سے زمین اور چاند دونوں روشن ہیں اور چاند سے روشنی منعکس ہو کر زمین تک پہنچتی ہے….اگر قرآن اس حقیقت کو سائنسی طور پر بیان کردیتا تو سائنس دانوں کو کتنا فائدہ ہوتا….؟یہ وہ سوال تھے جن کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ظاہر ہے اس کے لیے فاروقی صاحب کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
بہرحال وہ چاند کے متعلق تمام قرآنی آیات کا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ قرآن مجید میں جدید ترین سائنسی حقائق کے خلاف کوئی تصور نہیں،بلکہ اس نے تو آج سے چودہ سو برس پہلے بھی حیرت انگیز طور پر اجرام فلکی کے متعلق بالکل ٹھیک اور درست تصورات بیان کر دیے۔اس مطالعے سے فاروقی صاحب کی یہ بات مزید صاف ہو کر اس کے سامنے آئی کہ قرآن مجید نے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کو ایک ایسے واقعے کے طور پر پیش کیا ہے جو کسی انسان کے بس کی بات نہیں بلکہ قطعی طور پر ناممکن کام ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے جھٹلانے والوں کو یہ حیرت انگیز اور ناممکن کام کرکے دکھایا تاکہ ان پر واضح ہوکہ حضرت محمد ﷺ کو اس ہستی نے رسول بنا کر بھیجا ہے جو ناممکن کام کر سکتی ہے اوراس کے نزدیک چاند کو دو لخت کردینا بھی ایک معمولی بات ہے۔
پھر قرآن کی آیات پر غور کرنے کے دوران میں اسے بعض تفسیریں دیکھنے کا موقع ملا جن میں واقعہ اِنْشِقَاقِ قَمَر کے اثبات کے لیے صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث بھی درج تھیں۔گویا متفق علیہ اور صحیح ترین روایات میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے۔
”اے کے“کے ذہن کی یہ گرہ بھی کھل گئی کہ کسی واقعے کو جھٹلانے کے لیے یہ سوال قطعی طور پر نامناسب اور بے تکاہے کہ ایسا کیسے ہو گیا اور یہ کیسے ممکن ہے؟یہ سوال علمی بات کے بارے میں تو اٹھایا جا سکتا ہے کہ دواور دو چار کیسے ہوگئے یا پانی کا فارمولا H2Oکیسے ہوسکتا ہے لیکن کسی تاریخی واقعے کے متعلق جھوٹ اور سچ کا فیصلہ تو اس بات پر ہوگا کہ آیا متعلقہ واقعے کے بارے میں مصدقہ اطلاعات موجود ہیں یا نہیں ….جبکہ چاند کے دو لخت ہونے کے بارے میں قرآن اور صحیح احادیث کی شہادتیں سب سے بڑی ہیں جن کو جھٹلانا ممکن نہیں۔
”اے کے“ذہنی طور پر اب ”انکار“کی کیفیت سے تو نکل آیاتھالیکن ابھی بہت سارے سوالات ایسے تھے جو اس کے ذہن میں کلبلا رہے تھے۔ان کے جوابات کے لیے اسے بہر کیف فاروقی صاحب کے پاس جانا تھا۔
”کیوں نہ فیصل سے بات کی جائے؟اس سے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ اسلام کے متعلق اس کا علم کتنا ہے؟“یہ خیال آنے کے بعد اس نے فیصل سے پوچھنے کے لیے سوالوں کی ایک فہرست ذہن میں بنائی اور ٹیلی فون پر بات کرنے کے لیے اس کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔
رسیور فیصل ہی نے اٹھایا تھا۔”اے کے“کی آواز سن کر وہ خوش بھی ہوا اورحیران بھی۔وہ اس سے کہہ رہا تھا:
”فیصل بھائی!میں آپ سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتا ہوں….کیا یہ ممکن ہے کہ آپ کے گھر آجاﺅں؟“
”بڑی خوشی سے!اس سے اچھی بات اور کیا ہوگی….آپ ابھی آجائیں….میں سراپا انتظار ہوں۔“
”بہت شکریہ،مگر بھئی پہلے مجھے اپنے گھر کا پتا تو سمجھادیں۔“
”ہاں ضرور….“اور فیصل نے اسے راستہ سمجھا دیا۔
”اے کے “بولا:”حیرت ہے،آپ کا گھر تو بہت نزدیک ہے،میں موٹر سائیکل پر صرف پندرہ منٹ میں پہنچ سکتا ہوں۔بس آپ یہ سمجھیں کہ میں بیس منٹ کے بعد آپ کے پاس ہوں گا۔“
فیصل نے ”اے کے“کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیااور اسے پر تکلف چائے بھی پیش کی گئی۔اِدھر اُدھر کی رسمی گپ شپ کرنے کے بعد ”اے کے“نے فیصل کو اپنے مطالعے کے بارے میں مختصر طور پر بتایا اور بات یہاں آکر ختم کی:
”فیصل بھائی!یہ سوال مجھے بری طرح تنگ کررہا ہے کہ چاند کا دو لخت ہونا محض نظر کا دھوکا تو تھا نہیں بلکہ جس حدیث میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے،وہاں یہ بھی درج ہے کہ مکہ میں آنے والے مسافروں نے بھی اس کی گواہی دی کہ انہوں نے بھی چاند کو دولخت ہوتے دیکھا ہے …. میر ے ذہن میں یہ الجھن ہے کہ بھلاکیسے ممکن ہے کہ یہ واقعہ صرف ان لوگوں نے دیکھا ہو اور باقی دنیا میں کسی نے یہ منظر نہ دیکھاہو….“
”ہاں’اے کے ‘بھائی!یہ الجھن میرے ذہن میں بھی پیدا ہوئی تھی ۔اصل میں اس معاملے میں چند حقائق ہماری نظروں سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اس دور میں نہ اخبارات تھے اور نہ ریڈیو،ٹی وی….کہ اُدھر ایک واقعہ ہوا اور اِدھر ساری دنیا نے اس کے متعلق جان لیا….بلکہ اُس دور میںرات کے وقت ویسے ہی انسانوں کی بہت کم مصروفیت ہوتی تھی۔مغرب کے بعد لوگ سونے کی تیاری کرنے لگتے اور اس کے ایک دو گھنٹے بعد زندگی ہر کہیں اندھیرے کی چادر اوڑھ کر میٹھی نیند سو جاتی۔اس لیے بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو اس وقت جاگ رہے ہوں گے جب یہ واقعہ پیش آیا۔پھر ایسے لوگ کتنے ہوں گے جو اس وقت چاند پر نظریں جمائے بیٹھے ہوں گے،ظاہر ہے سوائے ان لوگوں کے جو اللہ کے رسول ﷺ کے ہمراہ کھڑے تھے یا جنہیں سفر میں آسمان کی طرف دیکھنے کا اتفاق ہوا،اور تو کسی کو معلوم ہی نہ تھا کہ یہ عظیم واقعہ پیش آیا ہے….اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور کفار کے علاوہ چند ہی لوگ ہوں گے جنہوں نے یہ منظر دیکھاہوگا۔ پھر یہ واقعہ چند ہی لمحوں میں مکمل ہو گیا،اور اس کی کوئی آواز بھی نہ آئی تھی کہ لوگوں نے چونک کر دیکھاہو….یہ بات بھی ہمارے ذہن میں رہنی چاہیے کہ ہوسکتاہے بعض دیگر لوگوں نے اسے دیکھاہو لیکن وہ اسے شہاب ثاقب سمجھے ہوں،پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں وقت مختلف ہوتا ہے….اب جس وقت یہ واقعہ ہوا تھا،صرف یمن،شام،عراق وغیرہ ہی کے علاقے ہوں گے جہاں تقریباًایسا وقت ہوگا کہ لوگ جاگ رہے ہوں گے۔پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ان علاقوں میں بادل ہوں،موسم خراب ہو اور لوگ چاند دیکھ ہی نہ سکے ہوں ….ان سب وجوہات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے کہ اس عظیم واقعے کو لوگوں کی بڑی تعداد نے دیکھا ہو….“
فیصل اپنی ذہانت اور معلومات کے ساتھ کچھ اور وضاحت کرتا،لیکن”اے کے“بہت حد تک سمجھ چکا تھا۔اس نے خود ہی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا:
”اور فیصل بھائی!یہ بھی تو ممکن ہے کہ بعض لوگوں نے دیکھا بھی ہو….لیکن انہیں کیا خبر کہ یہ واقعہ مکہ میں اللہ کے رسول ﷺ کی نشانی کے طور پر پیش آیا ہے؟ہوسکتا ہے ان کے ہاں،ان کی زبانوں میں اس واقعے کے پیش آنے کے بارے میں کوئی ریکارڈ موجود ہو،لیکن مسلمان چونکہ قرآن ہی کی بات کو حتمی اور آخری سمجھتے ہیں،اس لیے انہوں نے اس موضوع پر تحقیق کی ضرورت ہی محسوس نہ کی ہو۔“
فیصل”اے کے “کے اندر یہ مثبت سوچ دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اس باریک نکتے کو سامنے لانے پر اس کی تعریف کرتے ہوئے بولا:
”بہت اچھی بات کہی آپ نے….اور یقینا یہ آپ کے لیے بڑے اطمینان اور حیرت انگیز خوشی کا باعث ہوگی کہ مالابار کے راجہ نے اپنی یادداشتوں میں اس واقعے کا ذکر کرکے اسے انتہائی حیرت انگیز قراردیا ہے۔چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ نے بیرون ملک مختلف بادشاہوں کی طرف اسلام کا پیغام بھیجا تو ہندوستان کے ایک راجہ نے آپ کے سفیر کی خوب آﺅ بھگت کی۔دوران گفتگواس نے چاند کے دولخت ہونے کے واقعے کی بھی تصدیق کی۔اس لیے ایسی بات بھی نہیں کہ دنیا میں کسی دوسرے شخص نے یہ واقعہ دیکھا ہی نہیں۔اصل بات یہی ہے کہ اس بارے میں کوئی خاص تحقیق نہیں کی گئی،اس لیے کوئی قابل ذکر شہادت سامنے نہیں آئی….ہوسکتاہے آج بھی کوئی تحقیق کرنے والا تحقیق کرے تو اسے کہیں سے اس کی شہادت مل جائے۔“
”اے کے “ نے پوچھا:”فیصل بھائی!یہ مالابار، بھارت کا علاقہ ہے نا؟“
”ہاں! یہ مغربی بھارت کا ساحلی علاقہ ہے کیرالا،گوا وغیرہ اسی ساحل پر واقع ہیں۔“
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد”اے کے“نے اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے دوسرے سوالات بھی فیصل کے سامنے رکھے لیکن اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا:
”واقعی یہ سوالات میرے لیے نئے ہیں،میں نے ان پہلوﺅں پر غور نہیں کیا ۔ہم کل کلاس میں فاروقی صاحب سے پوچھیں گے….اس طرح دوسرے لوگوں کا بھی بھلا ہوجائے گا۔“
”اے کے “نے فیصل کی بات سے اتفاق کیا اور دل ہی دل میں فیصل کی اس خوبی کی تعریف کرنے لگا کہ اس کے اندر اس قدر حوصلہ اور عالی ظرفی ہے کہ اس نے صاف صاف اپنی لاعلمی کا اقرار کیا ہے ورنہ ایسا دوست، جس سے مقابلہ بھی ہو،یہ ماننے کے لیے عام طور پر تیار نہیں ہوتا کہ اس کا علم نسبتاً کم ہے۔
اس کے بعد وہ دوسرے موضوعات پر گفتگو کرنے لگے۔”اے کے“جب فیصل کے گھر سے رخصت ہونے لگا تو اس کے دل میں اس کے لیے خیر خواہی اور محبت کے گہرے جذبات پیدا ہو چکے تھے اور فیصل بھی یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا کہ”اے کے“اور اس کے درمیان بہت ساری باتیں مشترک ہیں۔ان میں سب سے بڑی بات یہ تھی کہ دونوں ہر سچی اور کھری بات کو تسلیم کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے تھے….دراصل وہ اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ حقیقت تک پہنچنے اور علم حاصل کرنے کی یہی ایک بنیادی اور سب سے بڑی شرط ہے۔
چھٹی کے بعد فاروقی صاحب کی کلاس میں ایک مرتبہ پھر کم و بیش تمام لڑکے جمع تھے۔سب کو معلوم تھا کہ آج فیصل اور”اے کے“فاروقی صاحب سے چاند کے دولخت ہوجانے والے واقعے کے بارے میں کچھ اہم سوالات پوچھیں گے۔لڑکوں کے لیے اس بات میں اس لیے دلچسپی پیدا ہوئی تھی کہ انہیں معلوم تھا کہ فیصل اور ”اے کے“میں زوردار بحث ہوتی تھی۔دونوں نے ایک دوسرے سے چبھتے ہوئے سوالات کیے تھے۔پھر فاروقی صاحب نے فیصل کی بات کی تائید کرتے ہوئے”اے کے“کو مطمئن کردیا تھا مگر اب دونوں مل کر فاروقی صاحب سے کچھ پوچھنا چاہ رہے تھے،اس لیے ان کے لیے معاملہ کچھ عجیب سا ہوگیا تھا اور وہ اصل بات جاننے کے شوق میں بے چینی سے ان سوالات کے جواب جاننے کے منتظر تھے۔
فاروقی صاحب نے حسب معمول ایک اچھے استاد کی طرح پچھلی تمام بحث کا خلاصہ بتایا کہ”شق القمر“کے واقعے کے ضمن میں معجزے کی حقیقت اور جادو سے اس کا فرق اچھی طرح بیان ہو چکا ہے۔
پیغمبروں کو معجزے دکھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اس سوال اور سائنسی پہلوﺅں سے معجزات پر ہونے والے اعتراضات کا بھی جائزہ لیا جا چکا ہے اور اب مشترکہ مطالعے اور گفتگو کے بعد کچھ مزید سوالات سامنے آئے ہیں۔ان سوالات کے اصل محرک چونکہ”اے کے“ صاحب ہیں،اس لیے پہلا سوال وہی کریں گے۔
”اے کے“اپنی نشست سے اٹھا اور بولا:”سر!آپ کو معلوم ہے کہ میں نے قرآن مجید میں چاند کے متعلق آنے والی سبھی آیات کا مطالعہ کیا ہے ۔اردو میں ان آیات کی وضاحت میں دو اہم تفسیروں کا بھی مطالعہ کیا اور حیرت انگیز طور پر یہ بات سامنے آئی کہ قرآن مجید نے آج سے چودہ سو برس پہلے ہی چاند کے متعلق وہ باتیں بتائی ہیں جن کا اس زمانے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔مثلاً یہ کہ زمین سمیت تمام اجرام فلکی اپنے اپنے مداروں میں گردش کر رہے ہیں اور سورج اصل میں روشنی کا منبع ہے اور چاند اسی کی روشنی سے روشن ہے لیکن یہ ساری باتیں قرآن مجید نے سائنسی انداز میں پیش نہیں کیں بلکہ ان کا ذکر ضمنی طور پر کیا ہے۔میرے ذہن میں اس سے یہ الجھن پیدا ہوئی کہ قرآن مجید نے ان عظیم انکشافات کویوں غیر اہم انداز میں ضمنی طور پر کیوں بیان کیا،سائنسی انداز میں بیان نہ کرنے کی کیا حکمت تھی؟اگر اسے سائنسی انداز میں بیان کردیا جاتا تو یہ ایک عظیم انکشاف ہوتا اور تمام سائنس دان قرآن کی حقیقت کو تسلیم کرلیتے۔“
فاروقی صاحب اس سوال پر مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔انہوں نے قدرے خاموشی کے بعد یہ سوال کلاس کے دوسرے لڑکوں کے سامنے رکھا کہ اگر کوئی اور اس سوال کا جواب دینا چاہتا ہوتوضرور دے لیکن مکمل خاموشی بتا رہی تھی کہ انہیں خود ہی اس کا جواب دینا پڑے گا۔
آخر وہ گویا ہوئے:
”یہ سوال اس لیے پیدا ہوا ہے کہ آپ کے ذہنوں سے یہ بات اوجھل ہوگئی ہے کہ قرآن مجید کے نازل کرنے کا مقصد کیا ہے؟آپ قرآن کے آغاز میں سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات ہی کی تلاوت کریں تو معلوم ہوگا کہ قرآن مجید کا بنیادی مقصد ہدایت ہے۔یعنی:
”اس کتاب میں کوئی شک نہیں اور یہ پرہیزگار لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔“
گویا قرآن کے نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو یہ حقیقت بتائی جائے کہ کائنات کا خالق و مالک بس اللہ ہی ہے،اس لیے اس کی عبادت کی جانی چاہیے،اسی سے دعا مانگنی چاہیے اور یہ دنیا عارضی ہے،یہاں کی زندگی ایک آزمائش ہے۔یہ انسان کو اس لیے دی گئی ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ وہ آزادی اور مہلت ملنے پر ایک اچھا اور شکر گزار انسان ہونے کا ثبوت دیتا ہے یابرا،نا شکرااور احسان فراموش بنتا ہے۔
اس دنیا کے ختم ہونے پر قیامت کے روز ہر انسان کے بارے میں فیصلہ ہوجائے گا کہ وہ کیسا شخص ہے۔چنانچہ اس حقیقت سے انسان کو آگاہ کرنے،اس دنیا میں انسان کو اللہ کی عبادت کا طریقہ بتانے اور زندگی کے معاملات میں جہاں جہاں اس کی عقل کے ٹھوکر کھانے کا امکان تھا،وہاں وہاں اس کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجا۔ان پر فرشتوں کے ذریعے سے وحی بھیجی،کتابیں نازل کیں اور مخالفوں کے مقابلے میں معجزوں اور نظر نہ آنے والے لشکروں سے ان کی مدد کی۔گویا قرآن مجید ہمیں توحید،رسالت اور آخرت کے عقائد کی تعلیم دیتا ہے اور زندگی گزارنے کے طریقے یعنی شریعت بتاتا ہے۔
ان موضوعات کی وضاحت کے لیے وہ پچھلے انبیاءکے حالات بتاتا ہے،تمثیلوں سے ہمیں سمجھاتا ہے۔انسان کے اندر یعنی”انفس“اور پوری کائنات یعنی ”آفاق“ کی نشانیوں کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے….گویا قرآن ہمیں سائنس پڑھانے یا انسان کے سائنسی نظریات کی اصلاح کے لیے نہیں آیا۔وہ خیالات و نظریات جن تک انسان کی عقل خود،کسی نہ کسی طرح،ٹھوکر کھاکر،تحقیق و جستجو کرکے پہنچ سکتی ہے،اس کا بیان قرآن کا مقصد نہیں….میری بات کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ سائنسی لحاظ سے انسان نے اپنے نظریات میںوقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتری پیدا کی ہے،وہ حقائق کے قریب ہوا ہے لیکن مذہبی معاملات یعنی عقائد میں،عبادات میں،اب بھی کہیں وہ سانپ کو معبود بنائے ہوئے ہے،کہیں گائے کو،کہیں زندہ انسانوں کو،کہیں مردہ انسانوں کو حتیٰ کہ اس معاملے میں اس کی جہالت کا یہ عالم ہے کہ وہ پتھر کی بنائی ہوئی مورتیوں کو بھی عجیب و غریب فلسفوں کی آڑ میں پوج رہا ہے۔اس لیے اللہ نے سائنس اور دنیا کے علوم میں انسان کو ہدایت دینے کے بجائے اسے اس میدان میں ہدایت دی جس تک پہنچنا اس کے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا۔
آپ کو قرآن مجید میں سائنس کے حوالے سے جو انکشافات ضمنی طور پر نظرآتے ہیں،ان کا ذکر اللہ نے اپنی نعمتوں کو واضح کرنے کے لیے اور انسان کے اندر اپنی محبت اور شکر گزاری کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے کیا ہے۔اب ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کا علم ہر قسم کے نقص سے پاک ہے۔اسی لیے قرآن مجید نے اس دور میں بھی وہ باتیں نہیں کیں جو غلط طور پر لوگوں میں مشہور تھیں۔یہیں سے آپ قرآن مجید کی ایک مزید حکمت کو جان سکتے ہیں کہ اگر وہ اس دور میں کائنات اور انسان کے متعلق اصل حقائق صاف صاف لفظوں میں بیان کردیتا….یعنی جس طرح اس نے یہ بتایا کہ شرک ایک غلط اور گمراہ کن عقیدہ ہے، اسی طرح یہ بھی بتا دیتا کہ زمین کو ساری کائنات کا مرکز ماننا غلط عقیدہ ہے تو لوگ جہالت کی وجہ سے قرآن کا مذاق اڑاتے….یا اسی طرح وقت کے لحاظ سے جدید انداز سے جنت کی تصویرکشی کی جاتی تو لوگوں کی سمجھ میں کچھ نہ آتا،اسی لیے قرآن نے اس زمانے کے لحاظ سے مثالوں کے ذریعے سے لوگوں کو سمجھایا….ان کے ماحول کے مطابق ان سے بات کی، ان کی سمجھ اور معلومات کے محدود دائرے کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کے عقائد اور نظریات کی اصلاح کی لیکن اس کے باوجود قرآن کا معجزہ دیکھیں کہ کہیں آپ کو ایسی بات یا بیان نہیں ملے گا جو حقیقت کے خلاف ہو بلکہ اس میں ضمنی طور پر یا اشاروں میں حقیقتیں بیان ہوئی ہیں ان کو بنیادبنا کر اگر تحقیق کی جاتی تو سائنس کی ترقی کا سفر صدیوں کے بجائے برسوں اور مہینوں میں طے ہو جاتا۔“
فاروقی صاحب خاموش ہوئے تو کلاس میں کچھ لمحے کے لیے ایک معنی خیز سناٹا طاری رہا۔آخر”اے کے“نے گھمبیر آواز کے ساتھ اس سکوت کو توڑتے ہوئے کہا:
”سر!آج میں ساری کلاس کے سامنے ایک بات کا اعلان کرتا ہوں کہ اب مجھے اپنے مذہب اور روایات پر کوئی شرم نہیں….میں احساس کمتری کے عذاب سے نکل آیا ہوں اور اب مجھے اپنے نام”عبدالقدیر“ پر کوئی ہچکچاہٹ نہیں۔اس لیے میں آج سے ”اے کے“نہیں بلکہ”عبدالقدیر“ہوں….اس قدیر کا بندہ جس کی قدرت میں آسمانوں اور زمین کی ساری طاقتیں ہیں۔“
”اے کے“یعنی عبدالقدیر کے اس اعلان پر فیصل اور فاروقی صاحب سمیت سبھی”سبحان اللہ “اور” ماشاءاللہ“کہنے لگے۔