skip to Main Content

امیدِ بہار رکھ

عالیہ ذوالقرنین

۔۔۔۔۔۔۔۔

حسن نے ایک لمحے کے لیے پیچھے کرسی سے ٹیک لگائی اور ایک لمبی سے انگڑائی لی ہی تھی کہ ایک عجیب و غریب شور محسوس ہوا جو آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا تھا – کچھ ہی دیر میں شور اتنا بڑھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی – اس اثنا میں اس کا سیکرٹری بوکھلائے ہوئے انداز میں کمرے میں داخل ہوا –
” سلیم! یہ کیسا شور ہے؟ “ اس نے چیخ کر پوچھا –
” سر! یہ درختوں کی آوازیں ہیں “ سلیم نے اس کے کان کے پاس چیخ کر کہا –
” کیا مطلب؟ “ وہ بڑبڑایا اور اٹھ کر کھڑکی کی طرف بڑھا جہاں سے باہر کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا –
بہت سے درخت بینر اٹھائے اسمبلی ہال کے سامنے سراپا احتجاج تھے –

” ہمارے مطالبات پورے کرو “
” ہمیں کاٹنا بند کرو “
” درخت اگاؤ… اپنا مستقبل محفوظ بناؤ “
” وٹ نان سینس… اب درخت بھی احتجاج کریں گے – “ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا –
” سر وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں – “سیکرٹری نے دوبارہ اس کے کان کے پاس چیخ کر کہا-
”ان سے کہو میرے پاس ان فضول کاموں کے لیے کوئی وقت نہیں – “ اس نے تنک کر کہا – سیکرٹری اس کا پیغام لیے لوٹ گیا – وہ جھنجھلا کر اٹھا اور دوبارہ کھڑکی کے پاس آ کر کھڑا ہوا اور تھوڑی سی کھڑکی کھول دی آوازیں مزید واضح ہو گئی تھیں –
” سنو… سنو خاموش ہو جاؤ خاموش ہو جاؤ کیا چاہتے ہو کیوں شور کر رہے ہو؟ “سیکرٹری کی آواز مائک میں گونجی –
” ہم شور کر رہے ہیں؟ ہم تو سوئے ہوؤں کو جگا رہے ہیں -“ ایک بوڑھا برگد آگے بڑھ کر بولا –
” تم ہماری وجہ سے اس زمین پر سانس لیتے ہو “
” ہماری وجہ سے تم پر بارش برسائی جاتی ہے – “ پیپل کا درخت بھی آگے بڑھا –
” ہم تمہارے لیے پھل سبزیاں اور اجناس اگاتے ہیں بھلا گوشت تم کتنے دن کھا سکتے ہو؟ – “آم کے بیڑ نے فخر سے کہا –
” تم جانتے بھی ہو کہ دنیا میں پچیس فی صد رقبہ ہمارے اگائے جانے کے لیے مختص ہے مگر تم لوگ اتنے لاپرواہ ہو کہ سوائے سوا دو فی صد کے تمہارے پاس ہمارے لیے کوئی جگہ نہیں اور انہیں بھی تم کاٹنے سے باز نہیں آتے “ ششم کے درخت نے غصے سے چلاتے ہوئے کہا –
” ہم تمہارے منسٹر سے ملنا چاہتے ہیں ابھی اور اسی وقت تاکہ ہم اسے بتائیں کہ اگر اس نے درختوں کو کاٹنے پر پابندی نہیں لگائی اور شجر کاری پر توجہ نہ دی تو اس کی وجہ سے پورا ملک کن آفات کا شکار ہو سکتا ہے“ بوڑھا برگد ناراضگی سے گویا ہوا –
” ہمارے منسٹر صاحب آج بہت مصروف ہیں-تم کسی اور دن آنا – “ سیکرٹری نے ساری بات سن کر کہا –
” ہرگز نہیں… ہم نے بہت برداشت کیا ہے اگر اب تمہارے منسٹر صاحب نے آج ہم سے بات نہیں کی تو ہم یہیں اسمبلی ہال کے سامنے احتجاجی دھرنا دیں گے جب تک کہ ہمارے مطالبات منظور نہیں کر لیے جاتے – “ ببول کا درخت چلایا –
” ٹھیک ہے ہمارے منسٹر صاحب کا کہنا ہے کہ تم جو چاہیے کرو – فی الحال ان کے پاس ملنے کا وقت نہیں – “
سیکرٹری نے منسڑ صاحب کا پیغام پہنچایا اور شان بے نیازی سے واپس مڑ گیا –

” ساتھیو! ہم میں سے کوئی واپس نہیں جائے گا جب تک کہ تسلی سے ہماری بات نہ سنی جائے گی اور ہمارے مطالبات نہ مان لیے جائیں گے – “ٌ بوڑھا برگد نے دوسرے درختوں سے مخاطب ہو کر کہا –
” اور آج سے ہم ان تمام کاموں سے انکار کرتے ہیں جو ہم حضرت انسان کے لیے پہلے دن سے بغیر کسی معاوضے کے سر انجام دیتے آئے ہیں -“ایک اور درخت آگے بڑھ کر غصے سے بولا –
” ہاں.. ہاں… ہم انکار کرتے ہیں – ہم انکار کرتے ہیں “ سب درخت ہم آواز ہو کر چلائے –

” ہونہہ…. انکار کرتے ہیں… بھاڑ میں جاؤ تم سب “ حسن نے نخوت سے کہا، کھڑکی بند کی اور گاڑی کی چابی اٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہو گیا – تھکن کی وجہ سے بغیر کھائے ہی لیٹا اور خواب خرگوش کے مزے لینے لگا –
نجانے اسے سوئے کتنا وقت گزرا تھا کہ گھبراہٹ سے اس کی آنکھ کھل گئی اسے گلے میں کانٹے سے چبھتے محسوس ہوئے – اس نے قریب رکھی پانی کی بوتل اٹھائی اور ایک ہی سانس میں سارا پانی چڑھا گیا مگر سانس لینے میں دشواری برقرار رہی – اس نے گھبرا کر کمرے کی کھڑکیاں کھول دیں مگر یہ کیا…. ہوا بند تھی اور ساری فضا عجیب گدلی سے محسوس ہوئی – تھوڑا سا سر نکال کر جھانکا تو آسمان کی رنگت سیاہی مائل ہو چکی تھی –
” یا اللہ…یہ کیا ہے؟ کیا ہم نے کوئی کیمیائی تجربہ کیا ہے؟ “ اس نے خودکلامی کی اور باہر نکل آیا – سانس کی دشواری میں زیادتی محسوس ہوئی تو گاڑی کی چابیاں اٹھا کر ہسپتال کا رخ کیا مگر یہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی تھی کیونکہ نا معلوم وجوہات کی بنا پر فضا میں آکسیجن کی شدید کمی ہو گئی جس سے لوگوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہونے لگا تھا اور کئی کئی لوگوں کو بیک وقت ہسپتال پہنچایا جا رہا تھا – وہ یہ سب پریشانی سے دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک اس کا موبائل بجا :
” ہیلو… حسن بول رہا ہوں “ اس نے سینے کو ملتے ہوئے دقت سے جواب دیا –
” سر سارے ملک کے حالات بگڑ چکے ہیں اور سارا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے “ دوسری جانب سے اسے سیکرٹری کی آواز سنائی دی –
” کیوں! کیا ہوا؟ “ اس نے پریشانی سے پوچھا –
” سر درختوں نے آکسیجن بنانی چھوڑ دی ہے اور لوگوں کو سبزی اور پھل دینے سے انکار کر دیا ہے اور تو اور وہ چارہ بھی نہیں دے رہے.. سر بھوک کی زیادتی سے مویشیوں کی جانوں کو بھی خطرہ ہے اور انہوں نے دودھ دینا بھی بند کر دیا ہے – “ سیکرٹری نے جلدی جلدی اطلاع دیتے ہوئے کہا –
” کیا!! “ اس نے بمشکل بولتے ہوئے کہا –
” جی سر…سر وہ پرندوں کو بھی اپنی شاخوں پر بیٹھنے نہیں دے رہے جس سے وہ سارے شہر میں بری طرح شور کرتے ہوئے ادھر ادھر اڑ رہے ہیں، انہوں نے زہریلے جانوروں کو بھی اپنی کھوہ سے نکال دیا ہےاور وہ سب اب آبادی کا رخ کرتے ہوئے لوگوں کے گھروں میں گھس رہے ہیں اور وہ لکڑیاں بھی نہیں دے رہے جس سے فرنیچر کی قلت ہو گئی ہے اور ہمارے دیہاتی بھائی پریشان ہو گئے ہیں ان کے پاس جلانے کے لیے کچھ نہیں.. سر لوگ سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں اور نومولود بچے اس خطرناک سردی کو زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکیں گے “ سیکرٹری نے صورت حال کی اطلاع دیتے ہوئے کہا –
” اوہو… اب کیا ہو گا؟ “ اس نے پریشان ہو کر کہا –
” سر شمالی علاقہ جات میں بھی درختوں نے کام کرنا بند کر دیا ہے جس سے لینڈ سلائیڈنگ میں آٹھ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور تو اور بالائی علاقوں میں سیلاب روکنے میں بھی درخت معاون ثابت نہیں ہو رہے جس کی وجہ سے نشینی علاقوں میں اونچے درجے کا سیلاب ہے اور لوگوں کی جانوں کو خطرہ ہے – “ سیکرٹری نے گھبرائے ہوئے انداز میں کہا-
حسن گاڑی روک کر حقیقتاً سر پکڑے بیٹھا تھا – وہ گھبراہٹ سے گاڑی سے باہر نکلا اچانک اسے اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی اس نے اردگرد نظر دوڑائی تو لوگوں کو آکسیجن کی کمی سے ایک ایک کر کے گرتے دیکھا – اس نے خود بھی لمبا سانس کھینچنا چاہا مگر کھینچ نہ سکا ” کاش میں ایک بار درختوں کی بات سن لیتا “یہ اس کے ذہن میں آنے والا آخری خیال تھا اس نے چیخ کر رونا چاہا مگر اس کی آواز اس کے اندر ہی کہیں گم ہو چکی تھی اور پھر وہ سینے پر ہاتھ رکھے جھکتا چلا گیا –
” حسن… حسن…. کیا ہوا؟ کیوں چیخ رہے ہو؟ “ اس کی والدہ نے اس کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا –
” کیا…. کیا…. وہ سب خواب تھا“ اس نے حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت سے کہا اور بے ساختہ اس کے ہاتھ دعائیہ انداز میں اٹھ گئے –
” !یا اللہ تیرا شکر ہے تو اپنے بندوں پر کتنا مہربان ہے- “اس نے نم آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور اٹھ کر باہر جانے لگا –
” کیا ہو گیا؟ اب کہاں جا رہے ہو ابھی کچھ دیر پہلے تو آئے ہو؟“ حامدہ بیگم نے خفا ہوتے ہوئے ہوچھا-
” نہیں امی… میں اپنا کام کر کے ابھی واہس آتا ہوں ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے – “
اگلے دن منسٹر صاحب کی طرف سے قانون لاگو ہو چکا تھا کہ کوئی بھی عام شخص درخت نہیں کاٹے گا اور حکومت بھی صرف وہ درخت کاٹے جو عمر پوری کر چکے ہیں اور ا آکسیجن کی بجائے نقصان دہ گیسیں پیدا کر رہے ہیں نیز ہر شخص اپنے ہر بچے کے نام سے ایک گملے میں ایک بڑا پودا لگا کر وہ گملاحکومتی کمیٹی میں جمع کروائے گا اور حکومت ان پودوں کو مناسب جگہ لگا کر ان کی صحیح دیکھ بھال کرے گی – اس نے درختوں کا مستقبل روشن کرکے اپنی نسلوں کا مستقبل محفوظ کرنے کی حکمت عملی ترتیب دے لی تھی – کام محنت طلب ضرور تھا مگر نا ممکن نہیں –

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top