امید
مریم طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چاروں تیزی سے گرتے درختوں کو حسرت سے دیکھ رہے تھے۔ جن پرندوں کے اِن درختوں پر گھونسلے تھے، وہ اپنے گھروں کو زمین بوس ہوتا دیکھ کر آسمان پر اڑتے شور مچا رہے تھے۔ چڑیا نے دونوں بچوں کو اپنے پروں کی آغوش میں چھپالیا۔ اُن کا گھر بھی کسی بھی وقت گر سکتا تھا۔ یہ شہر کے وسط میں موجود چھوٹا سا، صاف ستھرا، رنگ برنگے پودوں اور پھل دار درختوں سے لدا ہوا ایک خوب صورت باغ تھا۔ مختلف قسم کے پودے اور درخت ایک خاص ترتیب سے لگائے گئے تھے۔ پھولوں کی مہک اور پودوں کی خوب صورتی باغ کے حسن کو چار چاند لگادیتی تھی۔ رہی سہی کسر شام ہوتے ہی پھولوں جیسے بچوں کی آمد سے پوری ہوجاتی۔
مگر دو ہفتے پہلے حکومت نے باغ کی جگہ بیس سال کے لیے ٹھیکے پر دے دی۔ ٹھیکیدار اس خوب صورت باغ کی جگہ اب ایک پلازہ کھڑا کرنا چاہتے تھے۔سو اگلے ہی ہفتے باغ کا ایک حصہ اجڑ چکا تھا۔ آج یا کل میں چڑا اور چڑیا والے درخت کی باری آجاتی۔ دونوں اپنے بچوں کے ہمراہ ہجرت کا ارادہ رکھتے تھے۔ وہ کوئی محفوظ ٹھکانہ ڈھونڈ رہے تھے جہاں اپنے بچوں کے ساتھ باقی کی زندگی گزار سکیں۔ اگلی شام ہی دونوں اپنے بچوں کے ساتھ ایک گھر میں کھڑے نیم کے درخت پر آچکے تھے۔ انھوں نے اسے ہی اپنا مستقل مسکن بنانے کا فیصلہ کیا اور زندگی بسر کرنے لگے مگر نیا گھر چھن جانے کا دھڑکا بھی ہر وقت انھیں لگا رہتا۔ زندگی امید اور خوف کے درمیانبسر ہو رہی تھی۔ ہر صبح ایک انجانے ڈر کے ساتھ طلوع ہوتی تھی۔
….٭….
ایک دن اور دو رات کی پرواز کے بعد الو تمام پرندوں کے سامنے موجود تھا اور اپنے مشاہدات سنا رہا تھا۔
”حالات بہت خراب ہیں۔ تمام درخت کاٹ ڈالے ظالموں نے ۔عمارتیں کھڑی کرنے کے لیے باغ بھی اجاڑ ڈالا۔ پرندوں نے ایسا شور مچایا کہ کلیجہ منہ کو آنے لگا۔“
الو نے سانس لیے بغیر سنانا شروع کردیا۔
پرندوں کے بادشاہ عقاب کو اپنی طرف متوجہ پاکر طوطے نے اپنی رپورٹ سنانی شروع کی: ”تمام پرندوں کو خوش خبری سنادیں، اچھے دن آگئے۔“
سب حیرت سے طوطے کو تکنے لگے۔
”اس ظالم دنیا میں اب بھی اچھے لوگ باقی ہیں جنھیں درختوں اور ان پر رہنے والے پرندوں کا پورا خیال ہے۔ آج کل ایک نئی مہم شروع ہوئی ہے۔“ طوطا سانس لینے کو رکا۔
”کیسی مہم؟“ عقاب نے تمام پرندوں کی نمائندگی کرتے ہوئے پوچھا۔
”میں پچھلے دو دن سے نوٹ کر رہا ہوں کہ گھروں میں بچوں اور بچیوں نے اپنے ہاتھوں سے مختلف پھل دار اور سایہ دار درخت لگانے کا آغاز کیا ہے۔ نوجوان نسل گھروں سے باہر مختلف جگہوں، محلوں اور ویران جگہوں پر شجر کاری کر رہے ہیں۔ ان شاءاللہ ہماری آنے والی نسلیں اس شجر کاری سے بھر پور فائدہ اٹھائیں گی۔“
”مگر اس مہم کا آغاز کیا کس نے؟“
پروفیسر الو نے آنکھوں پر عینک جماتے ہوئے پوچھا۔
”اللہ بھلا کرے بھائی فیصل صاحب کا، عمرِ خضر عطا کرے جنھوں نے شجر کاری کی اس تحریک کا آغاز کروایا ہے۔“ طوطے نے دعاﺅں کے ساتھ انکشاف کیا۔
”فیصل بھائی کون؟“ ایک بے فکرے چھوٹے طوطے نے اپنے جگری یار کوے سے ٹیک لگاتے ہوئے پوچھا۔
”ارے بھائی ”بچوں کا اسلام“ کے مدیر ہیں وہ۔ ”بچوں کا اسلام“ کے سالنامے کا عنوان سرسبز منتخب ہوا ہے اور ساتھ ہی انھوں نے ایک اچھوتی شرط رکھی ہے۔ وہ شرط ہے شجرکاری کی یعنی جو بھی انعامی مقابلے میں حصہ لے وہ پہلے ایک پودا لگائے گا۔“ طوطے نے تمام پرندوں کے درمیان پھرتے ہوئے صورت حال کی وضاحت کی۔
”یقینا انھوں نے ہم پرندوں کا بھلا بھی سوچا ہوگا۔“ فاختہ نے متاثر ہوتے ہوئے کہا۔ ”اس نفسا نفسی کے دور میں کسی کو تو درختوں اور پرندوں کی پروا ہے۔“ فاختہ نے دل کھول کر دعا دی۔
”جی بی بی واقعی“ چمگادڑ نے آنکھیں چمکائیں۔
”اب ہم اپنے پریشان حال، مظلوم بہن بھائی پرندوں کو یہ خوش خبری سنائیں گے مگر اس کے لیے بہت لمبا سفر طے کرنا ہوگا۔ کون کرے گا یہ کام؟“ عقاب نے سب کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”میرا خیال ہے یہ کام کبوتروں سے لینا چاہیے۔ کیوں کہ ہمیشہ سے کبوتر ہی پیغام رسانی کا ذریعہ رہے ہیں تو آج بھی یہ خدمت کبوتروں کے سپرد کرنی چاہیے۔“ پروفیسر الو نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
”تو ٹھیک ہے پھر کبوتروں کے پاس چلتے ہیں۔“ عقاب نے گویا فیصلہ صادر کرتے ہوئے کہا۔ کبوتروں کے پاس جانے کے لیے سب اڑان بھرنے لگے۔
آج کل کبوتروں کا مسکن ایک مزار تھا۔ انھیں وہاں مفت کا دانہ پانی مل جاتا تھا۔ بے فکری کی زندگی تھی، خوب موٹے تازے ہو رہے تھے۔ عقاب کبوتروں کے سرداسر کے سامنے اپنا مدعا بیان کیا اور دکھی پرندوں کو خوش خبری سنانے کے لیے کبوتروں کی مدد لینے کا متفقہ فیصلہ سنایا۔
”ارے آپ کیوں اِن پرندوں کی فکر میں ہلکان ہو رہے ہیں؟“ سردار کبوتر نے اپنی مونچھوں کو تاﺅ دیتے ہوئے کہا۔ ”آپ نے کون سا درختوں پر رہنا ہے۔ آپ کے لیے تو علامہ اقبال فرما گئے ہیں کہ
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
اور رہی بات ہماری تو ہم قصرِ سلطانی کے گنبد کو اپنا نشیمن بنا چکے ہیں تو ہماری طرف سے جواب ہی سمجھیں۔“ سردار نے باجرے کا دانہ منہ میں لیتے ہوئے جواب دیا۔
”دیکھیں ہم سب کو مل جل کر رہنا چاہیے۔ آج آپ ہمارا ساتھ دیں گے تو کل کسی مشکل میں ہم بھی آپ کا ساتھ دیں گے۔“ پروفیسر الو نے صورت حال قابو کرنے کی کوشش کی۔ آخر تھوڑی منتیں کروانے کے بعد کبوتروں نے دکھی پرندوں تک خوش خبری پہنچانے کی ہامی بھرلی۔
”تو پھر ڈیل ڈن سمجھیں؟“ ایک نوجوان شرارتی کوے نے اپنی عمر کے کبوتر کی طرف پر پھیلا کر کہا۔
”کاکا جی انگلش از ناٹ الاﺅڈ“ پروفیسر الو نے نوجوان کوے کی بات پر نا گواری کا اظہار انگریزی میں کیا تو سب پرندے پروفیسر صاحب کی اس حماقت پر قہقہے لگانے لگے۔
عقاب نے گلا کھنکار کر سب کو اصل موضوع کی طرف متوجہ کیا۔
پروفیسروں اور بزرگ پرندوں نے فیصلہ کیا کہ شام کو ہی دکھی پرندوں کی طرف کبوتروں کی پہلی ڈار پرواز کرے گی۔ سفر کی تیاریاں شروع ہوگئیں اورکبوتروں کی جوڑیاں ترتیب دی جانے لگی۔ آخر عصر کے بعد کراچی سے کبوتروں نے اڑان بھری۔ انھیں آگے جاکر چاروں طرف پھیل جانا تھا۔ ہر اول دستہ آدھا گھنٹہ پہلے ہی روانہ ہوچکا تھا۔ کبوتر اڑتے جا رہے تھے اور جگہ جگہ بچے، بچیوں، نوجوان اور بڑے بوڑھوں تقریباً ہر عمر کے لوگوں کو مختلف جگہوں پر شجر لگاتے ہوئے حیرت سے دیکھ رہے تھے اور راستے میں آتے جاتے پرندوں کو خوش خبری سناتے پھولے نہیں سما رہے تھے۔
….٭….
چڑا اور چڑیا شام کے وقت اپنے دونوں بچوں کے ساتھ بیٹھے پرانے گھر کی یادیں تازہ کر رہے تھے۔ اُس خوب صورت باغ سے ان کی سنہری یادیں وابستہ تھیں۔ دوبارہ بے گھر ہونے کا اندیشہ بھی دل ہولائے جا رہا تھا۔ اِس خوف کی وجہ سے یہ نیا درخت بھی پرایا سا لگنے لگتا تھا۔
”مجھے تو وہ دو ننھے بچے بہت یاد آتے ہیں جو روزانہ شام کے وقت سیر کرنے آتے تھے اور مجھے دانہ ڈالتے تھے۔“ چڑیا کے ایک بچے نے افسردہ لہجے میں کہا۔ ”پتا نہیں وہ بے فکری کے دن دوبارہ کب آئیں گے؟“ دوسرے بچے نے ٹھنڈی سانس بھری۔
”خوشی کے دن آگئے بچو!“ ایک کبوتر نے دونوں بچوں کے گرد گول گول گھومتے ہوئے کہا۔ پھر کبوتروں نے چاروں کو خوش خبری سنائی کہ جلد ہی ملک بھر میں نئے پودے لہرانے لگیں گے۔ پورا ملک سرسبز اور ہرا بھرا ہوجائے گا اور تمام پرندے پھر سے مل جل کر رہیں گے۔“
چڑیا تو یہ خوش خبری سنتے ہی سجدہ ریز ہوگئی۔ ایک بچے کی نظر صحن میں موجود ایک لڑکی پر پڑی جو ہاتھ میں ننھا پودا لیے کیاری میں لگا رہی تھی۔
”امی! یہ دیکھیں ایک اور پودا….“ چڑیا کے بچے نے جوش سے اپنی امی کو متوجہ کیا۔
دونوں والدین یہ منظر دیکھ کر دعائیں دینے لگے۔
”امی! یہ لڑکی کون ہے؟“ ایک بچے نے خوشی سے پوچھا۔
”بیٹا! یہ وہ ہے جس کے ہم کردار ہیں۔ یہ بھی اِس مہم میں حصہ لے کر دعائیں سمیٹ رہی ہے۔“ چڑیا نے بھی نم آنکھوں سے دعائیں دی۔
”مطلب امی جس کہانی کے ہم کردار ہیں وہ انھوں نے لکھی ہے؟“ دوسرے بچے نے خوش ہوتے ہوئے پوچھا۔
”جی ہاں۔“ دونوں والدین نے خوشی سے جواب دیا۔
٭٭٭