برگد کا پیڑ
نوشین فاطمہ
۔۔۔۔۔۔۔۔
میاں معین کے گھر کے مرکزی دروازے کے پہلو میں ہی ایک بوڑھا برگد تھا۔ جس کے نیچے گرمیوں کی دوپہر اچھی گزر جایا کرتی تھی البتہ رات نہیں۔ ایک عرصے سے مشہور تھا کہ اس برگد پر جنوں کا ٹھکانہ ہے اور وہ رات کو اس کے نیچے سونے والے کی گردن دبا دیتے ہیں یا اسے اپنے قابو میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میاں معین فطرت سے محبت کرنے والے انسان تھے۔ وہ اکثر برگد کو دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرا کرتے تھے کیونکہ انھیں اس کے سائے میں وقت گزارنا بہت پسند تھا لیکن ان کے بقول برگد کے جنوں کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔
میاں معین کی حسرت دیکھ کر ان کے دوستوں کا بھی جی للچاتا تھا برگد کی چھاؤں سے لطف اندوز ہونے کے لیے۔ اور وہ بھی برگد کے جنوں کو خوب کوستے تھے۔ کئی ایک نے پہلے پہل تو میاں جی کی بات کو جھٹلایا اور خود رات کو برگد کے نیچے سونے کی فرمائش کی۔ لیکن آدھی رات کو ان کا بھی یہی حال ہوا۔ جسم پسینے میں شرابور اور سانس رک گیا۔ اٹھنے کی ہمت بھی نہ رہی۔ کئی جتن کرنے کے بعد وہ وہاں سے اٹھنے اور بھاگنے میں کامیاب ہوتے اور پھر کبھی بھول کر بھی برگد سے محبت نہ جتاتے۔
اب تو خوف کا یہ عالم تھا کہ رات تو رات ، دن میں بھی لوگ اس برگد کے سائے میں بیٹھنا چھوڑ چکے تھے۔ رہی سہی کسر گاؤں کی بڑی بوڑھیوں نے اور امام مسجد نے پوری کردی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جس گلی جانا نہ ہو اس کی راہ کیوں پوچھتے ہو ؟کیا فائدہ خوامخواہ برگد کے جنوں سے چھیڑ چھاڑ کا ؟کیا پتا ان میں سے کوئی ایسا بھی ہو جو دن کے وقت بھی کسی کا برگد کے پاس پھٹکنا برداشت نہ کرتا ہو۔
وقت یونہی گزرتا گیا اور برگد کے شانے مزید جھکتے گئے۔
میاں معین کے جڑواں بیٹے اختر اور شیراز پڑھتے پڑھتے نویں جماعت میں پہنچ گئے۔ اب ان کی سمجھ بوجھ بھی ذرا بڑھ گئی تھی اور نصاب میںمحض سادہ سائنس کی بجائے بیالوجی، فزکس اور کیمسٹری کی کتابیں تھیں۔ میاں معین گاؤں کے لوگوں کے سامنے پھولے نہ سماتے تھے۔”میرے بچے سائنس پڑھ رہے ہیں سائنس ، ماسٹر صاحب کہہ رہے تھے جس جس نے ہمارے پاس سائنس پڑھی وہ اونچے عہدے پر جا بیٹھا۔“
میاں جی خود اگرچہ سائنس کے مفہوم سے بھی ناواقف تھے البتہ کسی نے ان کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ سائنس پڑھنے والوں کا مستقبل روشن ہوتا ہے۔ میاں جی کے بچوں میں بھی برگد کے بارے میں وہی تاثر پیدا ہوگیا تھا جو بڑوں میں تھا۔ آخر اتنے سارے لوگوں کو جھٹلانا بھی تو ممکن نہیں تھا۔
ایک دن بیالوجی کے لیکچر میں شیراز استاد صاحب کی ایک بات پر چونک پڑا۔ اگرچہ یہی بات پچھلی کلاسوں میں بھی اس کے زیر مطالعہ رہی مگر اس نے کبھی اس طرح سے نہ سوچا تھا۔ استاد صاحب کہہ رہے تھے:
”پودوں کا حیاتیاتی طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ دن میں یہ آکسیجن خارج کرتے ہیں جو زندگی کے لیے بنیادی گیس ہے۔ اس لیے صبح کی سیر کو بہترین خیال کیا جاتا ہے اور دوپہرمیں درختوں کی چھاؤں راحت افزا ہوتی ہے۔ مگر رات کے وقت پودے کاربن ڈائی آکسائڈ خارج کرتے ہیں جس کی زیادتی انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور بعض اوقات تو انسان موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ “
”سر!“ شیراز نے ہاتھ کھڑا کیا۔ ”کاربن ڈائی آکسائڈ کی زیادتی کے فوری اثرات کیا ہوتے ہیں؟“
”بیٹا !انسان کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ جسم پسینے میں شرابور ہوجاتا ہے اور بمشکل ہلا جلا جاسکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کسی زور آور چیز نے آپ کو گرفت میں لے رکھا ہو۔ “
”اوہ !شکریہ سر!“
شیراز اختر کی طرف دیکھ کر زیرلب مسکرایا۔ وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ چکا تھا۔
گھر جاتے ہی وہ اپنے والد کو گھیر کر بیٹھ گیا۔
”ابا !برگد پر کوئی جن نہیں ہیں۔“
”تجھے کیسے پتا؟!“
”ابا !پودے گیس خارج کرتے ہیں۔“
”لاحول ولا قوة الا باللہ“ میاں معین ناک سکیڑنے لگے۔
”ارے نہیں ابا!، سنیے تو سہی“ شیراز نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔
”پودے دن اور رات میں مختلف قسم کی گیس خارج کرتے ہیں۔ دن میں خارج ہونے والی گیس ہمارے لیے فائدہ مند ہے جبکہ رات میں خارج ہونے والی گیس بہت خطرناک۔ اس کی موجودگی میں دن میں خارج ہونے والی گیس کی مقدار کم ہوجاتی ہے اس لیے ہمارا دم گھٹ جاتا ہے۔ “
”میں کیسے مانوں؟!“ میاں معین نے بھنویں اچکائیں۔
”ابا!آپ راتوں کو باری باری مختلف درختوں کے نیچے سو کر دیکھیے۔ آپ کو ہر درخت کے نیچے ایسے ہی محسوس ہوگا۔ “
میاں معین کے لیے اپنے برسوں کے تجربے کو غلط ثابت ہوتا دیکھنا آسان تو نہ تھا مگر انھیں شیراز کی قابلیت پر بھی پورا بھروسہ تھا۔ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ ایک رات وہ آم کے درخت کے نیچے سوئے اور دوسری رات شیشم کے۔ دونوں مرتبہ وہ آدھی رات کو ہانپتے کانپتے گھر آئے اور آکر پانی مانگا۔
بالاخر وہ قائل ہوگئے اور ایک دن بیٹھک منعقد کی جس میں گاؤں کے تمام معتبر لوگوں کو بلا کر انھوں نے شیراز کا کارنامہ بیان کیا۔
جبکہ شیراز من ہی من میں امجد نذیر صاحب کا شعر دہراتے ہوئے مسکرا رہا تھا
چند مشکل سے لفظ بولے اور
گاؤں والوں پر حکمرانی کی
٭٭٭