فائدہ
سائنس کہانی
ڈاکٹر اسامہ زاہد
۔۔۔۔۔۔۔
وہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کے بیجوں کو اگنے میں مدد دیں
۔۔۔۔۔۔
”بھائی! یہ پھل اتنے میٹھے اور مزیدار کیوں ہوتے ہیں؟ “
آم کھاتے کھاتے اس نے اچانک سوال کیا تو میں چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ یہ کس قسم کا سوال تھا؟
سعد ہمارے پڑوسی افتخار صاحب کا بیٹا تھا اور ہمارے گھر بریانی کی پلیٹ لے کر آیا تھا۔امی نے حکم دیا کہ سعد کو کچھ کھلایا جائے ۔لہٰذا اُن کے حکم کے مطابق میں اور سعد آموں سے لطف اندوز ہورہے تھے جب اچانک ہی سعد نے یہ سوال پوچھ لیا تھا ۔
”اصل میں ہمارے گھر کے سامنے ایک خالی پلاٹ ہے، جہاں جامن کا ایک درخت ہے۔ ابھی میں نے دیکھا کہ لڑکے اس پر پتھر پھینک کر جامن توڑ رہے تھے۔ وہ ایسا اکثر کرتے ہیں،لیکن آخر درختوں کو اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟ اگر پھل میٹھے نہ ہوتے توشاید کوئی بھی انھیں پتھر نہ مارتا۔“سعد نے شاید میری حیرت کو سمجھتے ہوئے وضاحت کی تو میں مزید سوچ میں پڑ گیا۔ جتنا آسان یہ سوال تھا، شاید جواب اتنا آسان نہیں تھا۔
”پہلی بات تو یہ کہ درختوں کو پتھر مارنا کوئی اچھا طریقہ نہیں ہے۔ اس سے کوئی زخمی بھی ہو سکتا ہے۔ پھل توڑنے کے اور بہت سے بہتر طریقے ہیں۔“کچھ لمحے سوچنے کے بعد میں نے بولنا شروع کیا۔”اب آتے ہیں تمھارے سوال کی طرف…. دراصل اس دنیا میں ہر زندہ چیز کے دو بنیادی مقاصد ہیں۔ پہلا مقصد ہے زندہ رہنا اور قدرت نے اس کا دارومدار ہمارے باہمی تعلقات پر رکھا ہے۔ مثال کے طورپر کچھ جانور ہیں جوپودے کھاتے ہیں، کچھ ہیں جو دوسرے جانوروں کا شکار کرتے ہیں اور یہی جانور جب مر کر مٹی میں مل جاتے ہیں تو پودوں کے لیے کھاد کا کام کرتے ہیں۔ اس طرح ان میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔
دوسرا بڑا مقصد ہے اپنی نسل کو آگے بڑھانا۔ یہاں بھی ہم اکثر ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں۔ درختوں کی نسل بڑھتی ہے ان کے بیجوں سے …. جتنی دور تک یہ بیج جائیں گے، اتنی ہی نسل تیزی سے بڑھے گی۔ لیکن چونکہ وہ خودحرکت نہیں کر سکتے، اس لیے ان بیجوں کو پھیلانے کے لیے انھوں نے دوسری بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ انسانوں اور جانوروں کا سہارا لینا سیکھ لیا ہے۔ اور وہ اس کے لیے اچھی خاصی محنت کرتے ہیں…. جب بیجوں کے اگنے کا موسم قریب ہوتا ہے تو ان کے پھلوں کا رنگ ایسا ہو جاتا ہے کہ ہم انھیں آسانی سے دیکھ سکیں۔ اس کے بعد ان میں سے ایسی خوشبو نکلتی ہے جو ہم سب کو اپنی طرف بلاتی ہے اور پھر ان کا ذائقہ ایسا ہوجاتا ہے کہ جو ایک بار کھاتا ہے،وہ بار بار آتا ہے۔ اور دیکھ لو یہ طریقہ کتنا کامیاب ہے۔ ان پھلوں کے ساتھ ساتھ یہ بیج بھی کئی ملکوں بلکہ کئی برِاعظموں تک کا سفر کر جاتے ہیں۔“ میں بولتا چلا گیا۔ سعد حیرت سے منہ کھولے میری جانب دیکھ رہا تھا۔
”اس کا مطلب یہ ہے کہ پھل کھانے میں ہمارا اور درخت دونوں کا فائدہ ہے؟“
میرے خاموش ہوتے ہی اس نے پوچھا۔
”ہاں بالکل! نہ صرف کھانے میں مزے دار ہونے بلکہ اپنی بھرپور غذائیت کی وجہ سے پھل ہمیشہ سے انسان کی متوازن خوراک کا ایک اہم حصہ رہے ہیں۔لیکن یہ وہ واحد فائدہ نہیں ہے جو درخت ہمیں دیتے ہیں۔ کیا تم چند اور ایسے فائدے بتا سکتے ہو؟“میں نے اس کی دلچسپی دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”جی، درخت ہمیں سایہ بھی تو دیتے ہیں اور میں نے کہیں پڑھا تھا کہ دس درخت ایک ایئر کنڈیشنر کے برابر ٹھنڈک پیدا کرتے ہیں۔“اس نے جھٹ سے جواب دیا۔
”بالکل ٹھیک درخت نہ صرف ہمیں گرمیوں میں بخارات کے اخراج (Transpiration) کے ذریعے ٹھنڈک فراہم کرتے ہیں، بلکہ سردیوں میں ٹھنڈی ہوا کو روک کر ہمیں سردی لگنے سے بھی بچاتے ہیں۔ اگر انھیں درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو بجلی کے خرچ میں پچیس فیصد تک آسانی سے کمی کی جا سکتی ہے۔“
میں نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
”اور ہم نے اسکول میں سیکھا ہے کہ درخت اپنی خوراک بنانے کے لیے شمسی توانائی کو استعمال کرتے ہیں، جسے فوٹوسینیسز(Photosynthesis)کہتے ہیں ۔ اس دوران وہ ہوا سے کاربن ڈائی آکسائڈکو ختم کرتے اور آکسیجن بناتے ہیں، جو انسانوں اور دوسرے جانوروں کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے۔“اس نے پرجوش لہجے میں بتایا۔
”ہاں بھئی، یہ بھی درست ہے۔ آکسیجن دنیا میں زندگی کا استعارہ ہے۔ اگر ابھی دنیا سے آکسیجن ختم ہوجائے، یا صرف آدھی ہی رہ جائے، تو صرف چند منٹ میں تمام انسان اور جانور مر جائیں۔ یہ کھانے اور پانی سے بھی کہیں زیادہ ضروری چیز ہے۔ درختوں کا کوئی اور فائدہ جو تمھارے ذہن میں ہو؟“میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اسے مزید سوچنے پرابھارا۔
”ارے ہاں…. ہم ان کی لکڑی کومختلف چیزیں بنانے کے لیے اور آگ جلانے کے لیے بھی تو استعمال کرتے ہیں۔“اس بار اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔
”یہ بھی ٹھیک کہا۔ لیکن اس کے علاوہ بھی درختوں کے کچھ فائدے ہیں جو ہم اکثر بھول جاتے ہیں۔ مثلا درخت پرندوں اور بہت سے دوسرے جانداروں کے رہنے کے لیے جگہ فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے جاندار ماحول دوست ہوتے ہیں جو ہمارے اردگرد صفائی رکھنے میں اور ہمیں بیماریوں سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ درخت زمین کو توڑ پھوڑ سے بچاتے، بنجر زمین کو کاشت کے قابل بناتے اور سیلاب وغیرہ میں مٹی کو ضائع ہونے سے بچاتے ہیں۔“
”اور اس سب کے بدلے وہ ہم سے صرف یہ مانگتے ہیں کہ ہم اُن کے بیجوں کو اگنے میں مدد دیں ؟“اس نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں….اب تم ٹھیک سمجھے ہو!“میں نے ہنستے ہوئے کہا اور دوبارہ آم کھانے لگا۔
سعد پلیٹ میں موجود آم کی گٹھلیوں کو گھور رہا تھا۔
….٭….
اگلی صبح افتخار صاحب کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے سعد پر میری نظر پڑی۔ وہ اپنے گھر سے سامنے والے پلاٹ میں اینٹوں کی مدد سے کچھ بنا رہا تھا۔ ”السلام علیکم بھائی!“وہ مجھے اپنی طرف آتے دیکھ کر بولا۔
”وعلیکم السلام!کیا ہو رہا ہے سعد؟“میں نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔ اس نے ایک قطار میں کئی جگہ سے مٹی کو کھودا ہوا تھا۔
”بھائی، کل جو ہم نے آم کھائے تھے، ان کی گٹھلیاں میں نے یہاں بو دی ہیں۔ اب میں ان کے ارد گرد باڑ بنا رہاہوں تاکہ جب وہ اگ جائیں تو آوارہ جانور انھیں نقصان نہ پہنچائیں۔ میں ان درختوں کو مختلف نام بھی دوں گا۔ ایک درخت آپ کے نام پر ہو گا، اور ایک میرے نام پر…. اِن درختوں کے درمیان کی جگہ کی صفائی کر کے ہم وہاں مختلف سبزیاں اگائیں گے۔ یہ پلاٹ میرے انکل کا ہے، اور میں نے ان سے اجازت بھی لے لی ہے۔“
وہ پرجوش لہجے میں بولتا چلا گیا۔ میرے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔
٭٭٭