skip to Main Content

چھوٹے ہاتھ بڑا کام

جاوید بسام

۔۔۔۔۔۔۔

تین معصوم بچوں کی کہانی ،انھوں نے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا تھا

۔۔۔۔۔۔

دوپہر کا وقت تھا۔ تیز دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔وہ تینوں اجاڑ باغ میں بھٹکتے پھررہے تھے۔ وہاں ٹوٹی ہوئی کیاریاں، دھوپ سے جلی سوکھی گھاس اور جگہ جگہ مٹی اور پتھروں کے ڈھیر تھے۔ باغ کا اکلوتا درخت بہت پرانا، دیمک زدہ اور پتوں سے عاری تھا۔ اس پر ایک کوا اداس بیٹھا تھا۔
ہانیہ نے کہا:” یہاں ہماری دلچسپی کی کوئی چیز نہیں ہے۔“
”میں نے تو پہلے ہی کہا تھا۔“عاشر بولا۔
مگر حمدان ابھی مزید دیکھنا چاہتا تھا۔اس نے ایک گڑھے میں جھانکا اور آگے بڑھ گیا۔گرمیوں کی چھٹیاں تھیں ۔تینوں بہن بھا ئی بور ہورہے تھے۔ وہ اپنے چچا کے ساتھ ایک بنگلے میں رہتے تھے جس کا پائیں باغ بہت بڑا تھا۔ اُن کے بابا بیرونِ ملک ملازمت کرتے تھے۔ انھیں بچوں کو لانے کی اجازت نہیں ملی تھی۔
تینوں چلتے ہوئے پچھلے حصے میں نکل آئے۔ وہاں ملازم کا کوارٹر اور اسٹور روم تھا۔ حمدان بولا:” اکثر ایسی جگہ سے خزانے کا نقشہ مل جاتا ہے۔“ اس نے دروازہ دھکیلا اندر کاٹھ کباڑ پڑا تھا جس پر مٹی تھی اور مکڑیوں نے جالے تان رکھے تھے۔
”یہاں لال بیگ اور چھپکلیوں کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔“ہانیہ منہ بناکر بولی
وہ اندر گئے تو فالتو ڈبے، تختے اور لکڑیاں وغیرہ پڑی نظر آئیں۔
ہانیہ بولی:” کیوں نہ برڈ ہاو¿س بنائے جائیں؟“
دونوں نے اِس تجویز کو پسند کیا۔ عاشر، تختے نکالنے لگا تو ہانیہ چیخی۔”رکو! میں باہر چلی جاو¿ں، کہیں کوئی سانپ نہ نکل آئے۔“ وہ دروازے کی طرف بھاگی۔
وہ دونوں ہنسے اور تختے الگ کرکے اوزار تلاش کرنے لگے۔ کیلوں کا ڈبا ، پلاس اور ہتھوڑی تو مل گئے لیکن آری کا کہیں پتا نہ تھا۔ کونے میں ایک پیٹی رکھی تھی۔حمدان نے اسے کھولا تو اس میں پرانے اخبار تھے۔ وہ بولا:”یہاں آری ملنی مشکل ہے۔ چچا جان آرٹسٹ ہیں بھلا آری جیسی کرخت چیز کا اُن کے پاس کیا کام؟“
عاشر نے کہا” پیٹی کے پیچھے کچھ ہے۔“ اس نے پیٹی کو ہلایا تو لال بیگ نکل کر بھاگے۔ ہانیہ نے چیخ ماری، مگر عاشر نے پروا نہ کی۔ اس نے جھک کر کو ئی چیز اٹھا ئی اور بولا:
”یہ لو مل گئی۔“
حمدان نے قہقہہ لگایا اور بولا:”بے وقوف یہ آری نہیں کلہاڑی ہے۔“
”لکڑی تو اِس سے بھی کاٹی جاسکتی ہے۔ “عاشر بولا۔
اچانک ایک باریک سی آواز آئی:” خدارا !مجھے چھوڑ دو۔ مجھے یہیں پڑا رہنے دو!“
” یہ….یہ کون بولا ؟ “عاشر گھبراکر بولا۔کلہاڑی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے جا گری تھی۔حمدان اور ہانیہ کے چہرے بھی خوف سے فق تھے۔
آواز پھر آئی۔” میں کلہاڑی ہوں۔ تم نے میرا بہت استعمال کیا، سب درخت کاٹ ڈالے۔“
” ہم….ہم نے کوئی درخت نہیں کاٹا۔“ حمدان جلدی سے بولا۔
” اب یہاں کون رہتاہے؟“کلہاڑی نے غصیلے لہجے میں پوچھا۔
” ہمارے چچا، وہ مصور ہیں۔“ ہانیہ ہمت کر کے بولی۔
”اچھا، مگر پہلے جو مرزا صاحب یہاں رہتے تھے، انھوں نے مجھے خوب استعمال کیا۔ کبھی اندھیرا ہونے کا بہانہ کیا، کبھی مچھر پیدا ہونے کا اور کبھی لکڑی حاصل کرنے کے لیے تمام درخت ایک ایک کر کے کاٹ ڈالے۔ ہر درخت کٹنے پر میں آٹھ آٹھ آنسو روئی، مگر ظالموں نے ذرا لحاظ نہ کیا۔“
” مگر ہم نے کوئی درخت نہیں کاٹا۔“ حمدان جلدی سے بولا ۔
” پھر کیا تم نے درخت لگائے ہیں؟“ کلہاڑی نے چٹخ کر پوچھا۔
تینوں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔ عاشر بولا۔” ہم درخت کیسے لگاسکتے ہیں؟ یہ تو مالیوں کا کام ہے۔“
”بس تو میرا پیچھا چھوڑو اور یہاں سے چلتے بنو۔ تم بھی اِس بنگلے کے سابقہ مالک جیسے ہی ہو۔“کلہاڑی غصے سے بولی۔
عاشر نے منہ بنایا اور بولا:”کیسی لڑاکا کلہاڑی سے واسطہ پڑا ہے۔“
اس نے ڈرتے ڈرتے اسے اٹھایا اور پیٹی کے پیچھے ڈال دیا۔
ہانیہ بولی۔” اب ہم کیا کریں ؟“
حمدان اخبار اٹھاتے ہوئے بولا:”میرا خیال ہے پرانے اخبار پڑھنا ایک دلچسپ تجربہ ہوگا۔“
تینوں نے کچھ اخبار اٹھالیے اور واپس گھر کے اندر چلے گئے۔ شام تک وہ اخبار پڑھتے رہے۔ انھیں کچھ دلچسپ چیزیں مل گئی تھیں۔
رات کو اچانک طوفانی بارش شروع ہوگئی، جو صبح تک جاری رہی۔ صبح جب وہ ناشتے کے بعد باہر آئے تو دیکھا باغ کا اکلوتا درخت گرچکا ہے۔ وہ قریب چلے گئے۔ وہ مردوں کی طرح زمین پر پڑا تھا۔تینوں بہن بھا ئی خاموشی سے کچھ دیر اس کے پاس کھڑے رہے پھر برآمدے میں آبیٹھے۔ دیر تک انھوں نے کو ئی بات نہ کی۔ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔
پھر حمدان بولا:” یہ کیسی عجیب جگہ ہے یہاں کبھی پرندوں کی چہچہاہٹ سنا ئی نہیں دیتی۔“
”پرندے درختوں پر آتے ہیں اور یہاں درخت کہاں ہیں؟“ہانیہ بولی۔
” یہاں بس لڑاکا کلہاڑی ہے جو بچوں سے لڑتی ہے۔ “عاشر بولا۔
”ویسے کہہ تو وہ ٹھیک رہی تھی۔“ حمدان بولا
ہانیہ کچھ سوچ کر بولی: ”کیوںنہ ہم باغ میں پودے لگائیں؟ میں نے باغبانی پر ایک مضمون پڑھا ہے۔“
”کیاہم پودے لگا سکتے ہیں ؟“ عاشر بولا۔
”کیوں نہیں؟ ٹھہرو میں اخبار لے کر آتی ہوں۔“
وہ دوڑ کر اخبار لے آئی۔ دونوں نے مضمون پڑھا اور بولے۔” یہ کام مشکل تو نہیں مگر پہلے چچا جان سے بات کرنی پڑے گی۔“
وہ چچا کے اسٹوڈیو میں داخل ہوئے، جہاں ہر طرف کینوس اور تصویریں ٹنگی تھیں اور رنگوں کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ چچا ایک تصویر پر کام کر رہے تھے۔ انھوں نے سلام کیا۔چچا نے جواب دیا۔ وہ تجریدی آرٹسٹ تھے۔ اس وقت وہ ایک ناکارہ ٹوٹی پھوٹی بس کی تصویر بنارہے تھے۔ اس کے گرد مختلف رنگ اس طرح نظر آرہے تھے جیسے کسی بچے نے الٹا سیدھا برش پھیردیا ہو۔ وہ کچھ دیر تصویر کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے پھر ناکام ہوکر حمدان بولا:
” چچا جان ہم کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔“
” ضرور کرو میرے کان کھلے ہیں۔“چچا بولے۔
” وہ…. وہ دراصل ہم باغ میں پودے لگانا چاہتے ہیں۔“ عاشر نے کہا۔
چچا گھومے اور چشمے کے اوپر سے انھیں دیکھتے ہوئے بولے:
”تمھیں یہ خیال کیوں آیا ؟“
ہانیہ بولنا چاہتی کہ اسٹور میں پڑی کلہاڑی نے ہماری توجہ دلائی ہے کہ حمدان نے اسے کہنی ماری اوربولا: ” ہم بور ہورہے ہیں۔کچھ شغل کرنا چاہتے ہیں۔“
” نہیں میاں! یہ تمھارے بس کا کام نہیں۔“وہ بولے۔
” چچا!پلیز اجازت دے دیں!ہم پودے اگاسکتے ہیں۔ ہم نے اس پر ایک مضمون پڑھا ہے۔ “ہانیہ التجا ئیہ لہجے میں بولی۔چچا نے کچھ سوچا اور بولے: ” اچھا! چلو کوشش کر کے دیکھ لو۔“انھوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور بٹوہ نکالتے ہوئے بولے۔” لو یہ پیسے، کچھ دور نرسری ہے۔وہاں سے پودے خرید لاو¿۔“
” ہمارے پاس پیسے ہیں۔“حمدان بولا۔
”وہ تم سنبھال کر رکھو ،بڑے ہوکر کام آئیں گے۔ “چچا ہنس کر بولے۔
کچھ دیر بعد وہ نرسری میں تھے۔انھوں نے بہت سارے پودے خریدے۔مالی نے کہا، آپ کو کھاد اور مٹی بھی لینی چاہیے۔ وہ سب سامان لے کر واپس آئے اور کام شروع کر دیا۔ سب سے پہلے انھوں نے فالتو پتھر اور مٹی باہر پھینکی، پھر جھاڑ جھنکار صاف کیا۔ اُس کے بعد کیاریوں کی مرمت شروع کی۔ وہ سارا دن اِس کام میں لگے رہے۔ شام تک وہ تھک کر چور ہوچکے تھے…. مگر انھیں بہت مزا آیا تھا۔ رات کو وہ بڑی بے خبری کی نیند سوئے۔ ایسی نیند انھیں پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔
دوسرے دن تازہ دَم ہوکر انھوں نے پھر کام کا آغاز کیا۔ پہلے کیاریوں میں کھاد اور مٹی ڈالی پھر پودے لگانا شروع کیے۔مضمون سے انھیں بہت مفید باتیں معلوم ہوئی تھیں۔
پودوں کو کس وقت اور کتنے فاصلے پر لگانا چاہیے؟ انھیں کب پانی دینا چاہیے؟ ان کی کیسے کانٹ چھانٹ کرنی چاہیے؟ وہ توجہ سے پڑھتے اور اس پر عمل کرتے۔ ایک ہفتے تک یہ چلتا رہا۔ تینوں نے الگ الگ اپنے ہاتھ سے دس دس پودے لگائے جنھیں نشوونما پاکر ایک دن درخت بن جانا تھا۔ پھولوں کے پودے اور بیلیں اُس کے علاوہ تھیں۔ اب وہ برآمدے میں بیٹھ کر باغ کا جائزہ لیتے اور ہر پودے پر نظر رکھتے۔ انھوں نے پڑھا تھا کہ پودے لگانا اتنا بڑا کام نہیں جتنا بعد میں اُن کی نگہداشت کرنا ہے۔ وہ تینوں تن دہی سے اپنا کام کررہے تھے۔
چھٹیاں ختم ہوگئیں، مگر ان کا شوق برقرار تھا۔ وہ اپنا فارغ وقت باغ میں گزارتے اور پودوں کی دیکھ بھال کرتے۔آہستہ آہستہ پودے بڑھنے لگے، اُن میں جب نئے پتے نکلتے، کوئی کلی پھوٹتی اور دھیرے دھیرے پھول بنتی تو وہ خوشی سے پھولے نہ سماتے۔ وہ فخر کے ساتھ چچا کو اپنی کامیابی کا احوال سناتے۔ چچا حیران بھی ہوتے اور خوش بھی۔
دن گزرتے رہے، یوں ایک سال بیت گیا۔ اب پودے اُن کے قد سے اونچے ہوگئے تھے۔ ایک دن بابا کا فون آیا تو وہ پریشان ہوگئے۔ بابا انھیں باہر بلا رہے تھے۔
حمدان گھبراکر بولا:” مگر ہم ابھی نہیں آسکتے بابا! “
” وہ کیوں بھئی ؟ “انھوں نے حیران ہوکر پوچھا۔
”ہم نے باغ میں پودے لگائے ہیں، اُن کی نگہداشت کون کرے گا ؟“
وہ بولے: ”لویہ تو کو ئی مسئلہ ہی نہیں ،اُس کے لیے مالی رکھا جاسکتا ہے، میں ابھی تمھارے چچا سے بات کرتا ہوں۔“
انھوں نے چھوٹے بھائی سے بات کی تو وہ فوراً راضی ہوگئے۔ ہانیہ کو اندیشہ تھا کہ چچا اپنے کام میں لگ کر مالی کو بھول جائیں گے مگر انھوں نے اگلے دن ہی ایک مالی کو بلالیا۔ تینوں نے اسے باغ کا خیال رکھنے کی تاکید کی اور بابا کے پاس روانہ ہوگئے۔
وہا ںجاتے ہی تینوں اسکول میں داخل ہو گئے۔ وہ اکثر فون کرتے اور مالی سے باغ کا حال احوال پوچھتے۔ انھیں ہمیشہ تسلی بخش جواب ملتا۔
اِس طرح دس سال گزرگئے۔ تعلیم مکمل ہوئی تو انھوں نے بابا سے اپنے وطن چلنے کی فرمائش کی۔ جب وہ ائیر پورٹ پہنچے تو چچا نے اُن کا استقبال کیا۔ وہ تینوں بڑے ہوگئے تھے۔چچا نے اُن سے گلے ملتے ہوئے کان میں سرگوشی کی:
”میاں! چھوٹے ہاتھ بڑا کام۔“
وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھتے، آخر گھر کو روانہ ہوئے۔
جب وہ وہاں پہنچے تو ان کی آنکھیں حیرت سے چمک اٹھیں۔ایک بہت ہی حسین باغ،پرندوں کی چہچہاہٹ سے گونج رہا تھا۔ وہ پودے جوان ہوگئے تھے جو چھوٹے چھوٹے ہاتھوں نے بڑی محنت سے لگائے تھے۔اب وہ تناور درخت بن چکے تھے۔ آم، جامن اور امرود کے پھل دار درخت اور گل مہر، املتاس اور سنبل کے پھول دار درخت باغ کی رونق بڑھارہے تھے۔کیاریوں میں چنبیلی، موتیا، گلاب اور گیندے کے پھول مہک رہے تھے اور سبز گھاس کی دلکشی کا تو کیاہی کہنا تھا۔ خوشی سے اُن کے پا و¿ں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ وہ ایک ایک درخت کے پاس جاتے اور اپنے بابا کو بتاتے کہ یہ میں نے لگایا تھا اور یہ میں نے۔ مسرت ان کے چہروں سے پھوٹی پڑرہی تھی۔ انھوںنے مالی کو انعام میں معقول رقم دی۔
چچا بولے: ”میرے بچو! تمھارے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں نے بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ اس پورے علاقے میں اتنا اچھا باغ کسی کا نہیں ہے۔“
بابا بولے: ”جب عزم راسخ ہو تو کوئی کام مشکل نہیں ہوتا۔ “یہ کہہ کر انھوں نے تینوں بچوں کو خود سے لپٹا لیا۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top