چڑیوں کو بڑا پیار تھا….!
حافظ عبدالرزاق خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”آپ کے پاس صرف پانچ منٹ ہیں۔پودوں، درختوں اور جنگلات سے متعلق کوئی اچھوتا سا جملہ، منفرد سی سوچ یا کوئی یاد گار بات تحریر کریں۔ جس بات نے مجھے متاثر کیا، میرے دل کی تاروں کو چھواتو حسبِ سابق میری جیب میں جتنی رقم ہوئی وہ اس کی۔“
سر ابو بکر نے اعلان کیا تو شہیر نے علی کے کان میں سرگوشی کی:
”دیکھ لینا آج سر کی جیب میں تھوڑے پیسے ہوں گے۔“
”میں سمجھ رہا ہوں شہیر !کہ تم نے علی کے کان میں کیا کہا ہے۔ فکر مت کرو تم سب میرے بچوں کی طرح ہو۔ میں تم پر خرچ کرنے میں کنجوسی نہیں کروں گا۔“
سر ابوبکر کی بات سن کر شہیر نے شرم کے مارے زمین پر نظریں گاڑ لیں۔
”اچھا اچھا اب شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ لکھنا شروع کرو آپ کے پاس صرف پانچ منٹ ہیں۔“ تمام لڑکے کاپیوں پر جھک گئے۔
….٭….
”پلانٹ ہمارے پلانٹ کا زیور ہیں۔“ سر ابوبکر حاشر کے لکھے ہوئے جملے پر چونکے۔ ”ہیں اس کا مطلب کیا ہوا؟“ پھر انھوں نے عینک کا شیشہ صاف کرکے دوبارہ اس جملے کو پڑھا۔ وہ خالی پیریڈ میں بیٹھے اپنے دیے ہوئے ٹیسٹ جانچ رہے تھے۔ دیگر اساتذہ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ اُن کے قہقہے بھی گاہے گاہے بلند ہو رہے تھے مگر سر ابوبکر اپنی سرگرمی میں مصروف تھے۔
”پلانٹ ہمارے پلانِٹ کا زیور ہیں۔اوہ اچھا اچھا بہت اچھے! یعنی پودے ہمارے سیارے (زمین) کا زیور ہیں۔“
سر ابو بکر نے زیر زبر کے فرق کو پہچانا تو بات سمجھ میں آگئی۔
”جنگلات زمین کے پھیپھڑے ہوتے ہیں…. خدا کی شان ہے کہ ہم اگر سانس لیں تو کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کریں اور درخت سانس لیں تو آکسیجن خارج کریں۔ ہم ان کی ضرورت پوری کریں، وہ ہماری۔واہ پھول کے بدلے پھول۔“ باسل کے جملوں سے سر ابوبکر بہت محظوظ ہوئے۔
”درخت سورج کی مضر شعاعوں سے بچاتے ہیں۔بالائے بنفشی شعاعیں(Ultra violet rays) جو جلد کے امراض پیدا کرتی ہیں حتیٰ کہ جلد کا کینسر، اس سے بچاؤ ہوتا ہے اور جس گھر میں کم از کم تین درخت ہوں، وہاں کا درجہ حرارت بھی نارمل رہتا ہے۔“
”زبردست! کیا تحقیقی بات لکھی ہے! آج ہی پروفیسر شمیم صاحب کو بتاتا ہوں جو اپنی اہلیہ کی جلد کی بابت ہر وقت فکر مند رہتے ہیں۔“
ثوبان کا پیرا گراف پڑھنے پر سر ابوبکر کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”حکومت تشویش ظاہر کر ہی ہے کہ موسم میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے، بارشیں رک گئی ہیں، فضا آلودہ ہو رہی ہے اور مہمان پرندوں نے آنا چھوڑ دیا تھا، لیکن کیا کبھی سڑکوں کے ٹھیکے دیتے ہوئے آپ نے سوچا کہ سڑک چوڑی کرنے کے جوش میں کتنے درختوں کا خون ہو گیا؟ زرعی زمینیں تیزی سے رہائشی کالونیوں میں بدل رہی ہیں،بے ڈھنگم اور بے ہنگم طورسے۔“
”سلام ہو سلام ہو ایسی سوچ کو!“ سر ابوبکر نے ابو جندل کے دردِ دل کو خوب سراہا اور آخر میں اس شعر کو پڑھ کر تو وہ جھوم ہی اٹھے۔
درخت یونہی اگر سرسبز کٹتے رہے
بدل نہ جائے زمیں پر نصاب موسم کا
”ہمارے پرائمری اسکول میں جو جامن کا درخت تھا۔ اُس سے میری بہت سی یادیں وابستہ تھیں۔ جس روز پانچویں کے بورڈ کے امتحان میں ضلع بھر میں میری تیسری پوزیشن آئی تھی، اس روز میں نے پرکار سے کھرچ کھرچ کر اپنا نام اور تاریخ اس کے تنے پر لکھ دیے تھے،پھر جب کبھی بھی اِدھر جانا ہوتا تو اسے دیکھ کر ماضی کی یادوں میں کھو جاتا۔ لوہے کا گھنٹہ بھی اسی درخت پر لٹکا ہوتا تھا اور کتنا مزا آتا تھا جب چچا رب نواز لکڑی سے بنا ہتھوڑا اٹھا کر گھنٹہ بجانے آرہے ہوتے تھے اور ہم کنکھیوں سے کھڑکی کے پار دیکھ رہے ہوتے تھے۔ گزشتہ برس اس درخت کو آسمانی بجلی نے جلا کر رکھ کردیا۔ وہ تو شکر ہے کہ بجلی رات کو گری۔ دن میں گرتی تو کتنا نقصان ہوتا۔ اس روز میں ہائی اسکول سے چھٹی کرکے پرائمری اسکول جا پہنچا۔ وہاں میڈیا والے آئے ہوئے تھے اور چوکیدار سے تفصیلات سن رہے تھے۔ درخت کا تنا کالا سیاہ ہوچکا تھا۔ زمین میں دراڑ پڑ گئی تھی۔ بجلی کی تار بھی جل گئی تھی۔ میں نے غور سے دیکھا تو تین بلبلیں، کچھ چڑیاں اور چند فاختائیں چہارم ب والی کلاس کے روشن دانوں میں سہمی ہوئی بیٹھی تھیں۔ انھیں دیکھ کر دل اداس بھی ہوا اور یہ شعر یاد آگیا
گر گیا درخت مگر تعلق کی بات تھی
بیٹھے رہے زمیں پر پرندے تمام رات
”اف بلال! تو نے تو جی اداس کردیا۔“ سر ابوبکر کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
”اگر زمیں پر میڈیسنل پلانٹس (ادویاتی پودے) نہ ہوں تو نہ سنیاسیوں کے نسخے کامیاب ہوں اور نہ دیسی ٹوٹکے کام آئیں۔“ ابو ذر نے مختصر مگر پر اثر بات لکھی۔
”کاش میں وہ درخت ہوتا جس کے نیچے بیعت رضوان ہوئی تھی کہ میرا ذکر قرآن مجید میں آتا۔ میری آنکھیں اُن اصحاب رضی اللہ عنہم کو دیکھتیں جنھوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کے لیے موت پر بیعت کرلی تھی اور میں اس ہستی ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی بھی زیارت کرلیتا جن کے مبارک ہاتھوں کو خدا نے اپنی طرف منسوب کیا۔ کاش میں کھجور کا درخت ہوتا، لوگ میری طرف اسلام کی نسبت کرتے۔ کاش میں دنیا سے شجرة الغرقد کا خاتمہ کردوں کہ جسے یہودی اپنی حفاظت کے لیے بو رہے ہیں کہ وہ یہودیوں کو پناہ دے گا۔ اللہ کا شکر ہے میں وہ درخت نہیں جسے عیسائی ”کرسمس ٹری“ بنادیتے ہیں۔ کاش! میں وہ کھجور کا تنا ہوتا جس سے ٹیک لگا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیا کرتے تھے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی پر بلک بلک کر رویا تھا۔ ہائے ایک خشک درخت جس ذات کی جدائی اور محبت میں روئے آج اس کا امتی ختم نبوت کے ڈاکوﺅں سے محبت کی پینگیں بڑھائے۔“
جنید نے بہت عجیب لکھا تھا۔ اس کی تحریر میں اس کے گھریلو ماحول کی جھلک تھی۔
سر ابوبکر آنکھوں میں نمی لیے کہنے لگے: ”شکر ہے مومن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گندم کے خوشے سے تشبیہ دی ہے جب کہ منافق کو صنوبر کے درخت سے۔ میرا دل بھی نرم ہے گندم کے خوشے کی طرح کہ اِن باتوں سے دل پسیج گیا۔“
اسی دوران میں گھنٹی بج گئی۔ سر ابوبکر نے کاغذوں کو سمیٹا اور گھر کی راہ لی، پھر کاموں میں ایسے جتے کہ رات ہی کو فراغت ملی۔ رات کو پھر اُن کاغذ کے قیمتی پرزوں کو لے کر بیٹھ گئے۔
”درخت محبتیں بکھیرتے ہیں، زمینی کٹاﺅ کو روکتے ہیں، اُن کی بدولت انسان کھل کر جیتا ہے، یہ طوفانوں کی شدت کو کم کرتے ہیں، انھیں صبح سویرے دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہےں،یہ انسان کے ہر وقت کام آنے کو تیار رہتے ہیں، کوئی پتھر مارے تو اسے بھی پھل دیتے ہیں۔ ایندھن بن جاتے ہیں مگر اف تک نہیں کرتے۔“
پیارے سر جی! یہ جملے میں نے اپنی بڑی بہن عاتکہ کی ڈائری پر لکھے دیکھے تھے جو اس کی سب سے اچھی سہیلی مریم حفیظ نے لکھے تھے۔ ان کے آگے مزید یہ رقم تھا:
”آج مجھے اپنے بابا بہت ہی یاد آرہے ہیں کہ آج 2 فروری ہے۔ میرے بابا اسی دن اللہ میاں کے پاس چلے گئے تھے۔ جی ہاں! یہ باپ بھی تو درخت ہی ہوتے ہیں ناں!
ان کے ہونے سے بخت ہوتے ہیں
باپ گھر کے درخت ہوتے ہیں
یہ کتنا پیار کرتے ہیں اپنی بیٹیوں سے، ہر سو محبتیں بکھیرتے ہیں۔ کتنی پر سکون اور من موجوں میں تھی میں ان کے ہوتے ہوئے، بارہا مشکل حالات آئے مگر ان کے ہوتے ہوئے تنگی میں بھی آسانی رہتی تھی۔ روز حج و عمرے کا ثواب ملتا تھا مجھے انھیں پیار بھری نظروں سے دیکھ کر، ہائے منہ سے الفظ نہیں نکلتے تھے کہ ارمان پورے ہوجاتے تھے۔ اللہ جانے وہی ماہر نفسیات تھے یا ہر باپ ایسا ہی ہوتا ہے؟ زندگی بھر خود تکلیفیں سہتے رہے مگر ان کا فیض کم نہ ہوا ایک درخت کی طرح جو دن بھر دھوپ میں کھڑے رہ کر دوسروں کو سایہ دیتا ہے۔ کیا اس بے چارے کا جسم نہ جلتا ہوگا، لیکن ایک دن میرے اور میری بہنوں کے سر سے اِس گھنے شجر کا سائبان ہٹ گیا۔ جب میرے بابا کو کچھ ظالموں نے مار دیا۔ہمارے سر پر کڑی دھوپ آ پڑی´
اس بار جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
”یہ تو نے کیا لکھ دیا ہے انس؟“ سر ابوبکر کے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ وہ بہت دیر تک کچھ سوچتے رہے اور پھر ”چڑیوں “کے لیے خوب دعائیں کیں۔
….٭….
سر ابوبکر صبح جب اسکول میں داخل ہوئے تو ان کی جیب بہت وزنی تھی۔ اس جیب پر نہم الف کے تمام بچوں کا حق تھا اور ان کے ہاتھ میں جامن کا ایک نومولود پودا بھی تھا، جو انھوں نے بلال کو دینا تھا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے پرائمری اسکول میں لگا آئے تاکہ آنے والے سالوں میں پھر سے وہ پرندوں کا مسکن اور کسی کی یادوں کا محور بن جائے۔
٭٭٭