skip to Main Content

مشاعرہ کہانی

ضیاءاللہ محسن

۔۔۔۔۔۔۔۔

جیپ درختوں کے جھنڈ میں آکر رکی تو چودھری وجاہت ڈرائیونگ سیٹ سے نیچے اترے۔ ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے بابا جمال دین بھی دروازہ کھول کر باہر نکل آئے۔ دونوں نے دور تک پھیلے سر سبز باغ پر نگاہ ڈالی، پھر چودھری وجاہت فخر سے بولے:
”جمال بابا! یہ رہا ہمارا باغ…. ابھی دو سال پہلے لگائے تھے یہ پودے۔ ہر طرح کے پھلوں والے درخت یہاں موجود ہیں۔ باغ کے درمیان میں جو آپ ایک بڑا سا برگد کا درخت دیکھ رہے ہیں۔ یہ یہاں کئی سال پہلے سے کھڑا ہے۔“
”واہ بہت خوب صورت! لیکن وہ باغ کے ایک طرف پگڈنڈی پر کیکر اور بیری کے دو درخت بھی موجود ہیں۔ وہ بھی پہلے کے ہیں؟“
بابا جمال نے بیری اور کیکر کی طرف اشارہ کرکے پوچھا۔
”ہاں بالکل! یہ بھی باغ لگانے سے پہلے کے ہیں، مگر میرا ارادہ ہے کہ اِن درختوں کو کاٹ دیا جائے،بس برگد کا درخت باقی رکھنا ہے۔ اس کے علاوہ جتنی بھی جھاڑیاں یا درخت آس پاس موجود ہیں، وہ سب ختم کردیتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟“
”میری گزارش ہے کہ کیکر اوربیری کے درخت رہنے دیے جائیں، سایہ ہی دیں گے۔“
”اچھا؟ چلو ٹھیک ہے بابا…. جیسے آپ کی مرضی۔“ چودھری صاحب نے کہا اور پگڈنڈی پراٹھلاتے ہوئے شعر گنگنانے لگے۔

اپنے ربّ سے اجر کمائیں
آؤ مل کر شجر لگائیں
سب کو جا کر خبر سنائیں
اپنے ربّ سے اجر کمائیں

”واہ چودھری صاحب! آپ تو واقعی درختوں اور سبزے کے شوقین لگتے ہیں۔“
جمال بابا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ہاں یہ تو ہے۔ بس اسی لیے آپ جیسے محنتی انسان کو باغ کی رکھوالی کے لیے لایا ہوں۔ آج کے بعد میرے باغ کی رکھوالی آپ کے ذمے ہے۔“ چودھری صاحب نے کہا۔
”آپ بے فکر رہیں۔“ بابا جمال نے ایک طرف اشارہ کیا تو کئی نوجوان ہاتھوں میں کھرے اور کسیّاں لیے آرہے تھے۔یہ کہہ کر بابا جی بھی گنگنانے لگے۔

رونقِ بحر و بر یہ شجر
خوشبوؤں کا نگر یہ شجر

”واہ مالی بابا واہ! بہت خوب۔“ چودھری صاحب نے بابا جمال کی تعریف کی۔
جمال بابا اپنا ضروری سامان گاڑی سے اٹھا کر برگد کے نیچے بنے ایک کمرے میں شفٹ کرنے لگے۔ اب انھیں یہیں رہنا تھا۔ سامان اٹھاتے ہوئے مالی بابا ساتھ ساتھ گنگنا رہے تھے۔

صدقۂ جان ہے عمر بھر
سبز پیڑوں کا ہو جو نگر
تب ہی یہ انقلاب آئے گا
ہر بشر کم سے کم دو شجر

سارا کام سمجھا کر چودھری صاحب اپنی گاڑی میں روانہ ہوئے تو بابا جمال دین اپنے کام میں جت گئے۔ دو دن کی انتھک محنت کے بعد چار ایکٹر زمین پر مشتمل باغ میں گوڈی مکمل ہوچکی تھی۔ اب اس کی رکھوالی کا کام مالی بابا کے سپرد تھا۔ جو برگد تلے اپنا ڈیرہ جمائے دن رات یہاں موجود ہوتے۔
ایک دن مالی بابا جمال دین نے شہتوت، آم،امرود، مالٹا، کھجور اور دیگر پھلوں کے پودوں کو قریب جاکر غور سے دیکھا، انھیں پیار کیا، پھر تھکے ہارے واپس آکر برگد تلے بیٹھ گئے۔ ٹھنڈی ہوا کے تیز جھونکے آرہے تھے۔ اچانک انھیں محسوس ہوا کہ پھلوں والے سارے درخت کسی بات پر جھگڑ رہے ہیں۔ ایسے میں سب درختوں کو خاموش کراتے ہوئے اُن کے سردار بوڑھے برگد کی بھاری بھرکم آواز گونجی:

نخل سایہ دار ہوں بچو!
سب کا ہی غم خوار ہوں بچو!
جیون اپنا بیت چلا ہے
موت کو اب تیار ہوں بچو!
مجھ کو اب آرام دلاؤ
سرداری سے جان چھڑاؤ
غور سے میری بات سنو تم
اپنا کوئی سردار چنو تم

بزرگ برگد نے سب کو دل کی بات بتائی تو سبھی شجر ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ جیسے انھیں کوئی مشکل کام سونپ دیا گیا ہو۔ تمام درختوں کو خاموش دیکھ کر برگد مسکرا دیا، پھر سب پھلوں والے درختوں کو مخاطب کرکے کہنے لگا: ”تم میں سے ہر کوئی اپنی اچھائی بیان کرسکتا ہے تاکہ ہمیں نیا سردار بنانے میں آسانی ہو۔ ضروری نہیں کہ دوسروں کو برُا بھلا کہا جائے، بس اپنی بات کہی جائے ، توسب سے پہلے میں جامن کواظہار خیال کی دعوت دیتا ہوں۔“
سردار جی کی بات سنتے ہی جامن کے درخت نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور بولا:

پاک ہے صاف ہے میرا دامن
اُجلا اُجلا سا، نکھرا مرا من
مجھ پر کتنے پرندوں کا مسکن
ان سے مضبوط ہے میرا بندھن
مجھ پر پھل رب نے کیسا لگایا
دلکش و دلنشیں میرا سایہ
کوئی انسان جو مجھ کو کھائے
دور بیماریوں کو بھگائے
میری تاثیر ہے خشک لیکن
صحت اور لذتوں کا ہوں ضامن
آپ بھی خوب ہیں مجھ سے واقف
میں کہ فیمس ہوں میں ہی ہوں کامن
مابدولت کو کہتے ہیں جامن

جامن نے اپنی بات ختم کی تو اردگرد سے واہ واہ ماشاءاللہ کی آوازیں گونجنے لگیں۔ استاد برگد نے بھی اسے خوب داد دی لیکن کچھ درختوں نے ناک بھوں چڑھایا۔ اُن کے نزدیک جامن میں باغ کا نیا سردار بننے کی صلاحیت نہیںتھی۔ برگد نے اس کے بعد شہتوت کو دعوتِ خطاب دی تو شہتوت نے اِدھر اُدھر دیکھ کر اپنی بات شروع کی۔

کس قدر مجھ سے ہو بے خبر دوستو!
میں گھنی چھاؤں والا شجر دوستو!
میرے پتوں میں ریشم ہی ریشم چھپا
میرے اوپر گلہری کا گھر دوستو!
مجھ میں تانبا، وٹامن ہے، فولاد ہے
میرا پھل کھانے والا بہت شاد ہے
خون، معدے کا ہو مسئلہ یا جگر
میں ہوں بیماریوں میں بہت کارگر
غور سے دیکھیے کتنا مضبوط ہوں
اب تو پہچان لیں، میں ہی شہتوت ہوں
لال شربت کے جیسا ثمر دوستو
میں گھنی چھاؤں والا شجر دوستو

”ارے واہ وا…. سبحان اللہ کمال ہے۔“ پگڈنڈی کی جانب سے کیکر اور بیری کی آوازیں آئیں۔ برگد نے بھی شہتوت کی تعریف کی۔ ابھی گروجی برگد کی نظر فالسے کے نحیف سے پودے کی طرف اٹھی ہی تھی کہ کئی درختوں نے احتجاج کرنا شروع کردیا۔ اُن کے نزدیک فالسہ بہت کمزور سا ہے۔ پھل بھی چھوٹا سا، بھلا یہ کیسے سردار بن سکتا ہے؟ چناں چہ برگد نے کھجور کے پودے کو دیکھتے ہوئے اسے دعوتِ خطاب دی تو کھجور چہکتے ہوئے کہنے لگی:

لذت میری ہے مشہور
جو بھی کھائے ہو مسرور
پھل منڈی کی شہزادی
خلد میں جیسے کوئی حور
مجھ میں وٹامن، فائبر
کیوں رہتے ہو مجھ سے دور
قوت، طاقت، نور کے ساتھ
شیریں ذائقہ ہے بھرپور
قبض ہو یا کمزوری ہو
میرے دم سے سب کافور
مجھ کو چن لو لیڈر تم
بات مجھے ہے یہ منظور

”ماشاءاللہ…. سبحان اللہ…. سردار جی کے ساتھ ساتھ جامن اور مالٹے نے بھی کھجور کی تعریف کی۔ اس سے پہلے کہ سردار برگد کسی اور کو دعوت دیتا، ایک طرف سے چیخ و پکار شروع ہوگئی۔ یہ فالسے کا ننھا سا درخت تھا جو احتجاج کررہا تھا۔

میں ہوں چھوٹا، مگر یہ گوارا نہیں
مجھ کو محفل میں کیوں کر پکارا نہیں
میں تمہارا ہی ساتھی ہوں اے دوستو!
جو رہوں میں جدا تو گزارا نہیں
ترش ہوں، پھر بھی لذت سے بھرپور ہوں
ہاضمے کے لیے خوب مشہور ہوں
لوگ کھائیں یا شربت بنائیں مرا
مجھ سے پہنچے گا سب کو بہت فائدہ
فالسے سے تو اچھا نہیں فاصلہ
مجھ کو اپنائیے، کیجیے فیصلہ

”بھئی واہ فالسے میاں! خوب کہی….!“ کیکر نے تعریف کی۔ گروجی برگد نے بھی فالسے کو خوب سراہا اور اسے محفل میں بھرپور انداز میں شرکت کی دعوت دی۔ اس بات پر آم بھڑک اٹھا۔ آم کے درخت نے غصے سے کیکر درخت کو دیکھا جو فالسے کی تعریف کر رہا تھا پھر بولا:
”یہاں صرف پھلوں کے درختوں کی محفل چل رہی ہے۔ کانٹوں والے اور نقصان دینے والے درخت یہاں سے دور رہیں۔“ غصے سے آم کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔
”بس بس…. اِس سے زیادہ نہیں کچھ کہنا….“ برگد نے آم کو تنبیہ کی اور ساتھ ہی مالٹے کو دعوتِ خطاب دیا۔ مالٹا کچھ دیر مسکرایا پھر گویا ہوا:

سردیوں میں پھلوں کا میں سردار ہوں
ذائقے اور لذت کا معیار ہوں
ترش ہوں، خوبصورت ہوں، میٹھا ہوں میں
اور قدرت کے رنگوں کا شہکار ہوں
مجھ کو جو حکم دیں، آپ جو بھی کہیں
آپ کے ہم قدم، میں تو تیار ہوں
میں مسمی ہوں، کینو ہوں یا سنگترہ
جو کہو، مالٹا ہی رہوں ہر طرح
ایک محفل پھلوں کی سجائی گئی
اس میں سردار بننے کا حق دار ہوں

”واہ…. قربان جائیں…. کمال ہے۔“ فالسے اور کھجور نے داد دی۔ آم کو بہرحال تھوڑا غصہ ضرور آیا۔ کیوں کہ مالٹا خود کو سردیوں میں پھلوں کا سردار سمجھ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ آم کچھ کہتا۔ بیری اور کیکر نے مالٹے کی نظم پر تالیاں بجائیں اور داد دی۔ اس پر تو آم بھڑک ہی اٹھا اور سردار گرو کے دعوت دینے سے پہلے ہی چیخ اٹھا:

اچھے ہیں سب نام یہاں پر
آم ہی سب سے عام یہاں پر
لوگ تو صدقے واری جائیں
لگتے ہیں جب دام یہاں پر
ہم شاہِ اثمار ہیں بھائی
اپنا ہے اِک نام یہاں پر
اک تجویز ہے میری یارو!
کچھ چیزیں ہیں خام یہاں پر
جان چھڑائیں اِن کانٹوں سے
چبھیں جو صبح و شام یہاں پر
کیکر کا کردار بُرا ہے
اس کا ہے کیا کام یہاں پر
بیری بھی کانٹوں کی ملکہ
ہے وجہِ آلام یہاں پر
میں ہی ہوں سردار پھلوں کا
راج کرے گا آم یہاں پر

آم کی بات پر کئی درخت بھڑک اٹھے۔ کیکر بے چارا تو خاموش ہی ہوگیا مگر برگد نے آم کو فوراً ٹوکا: ”یہ ظلم ہے، زیادتی ہے۔ تمھیں یہ بات نہیں کہنی چاہیے تھی۔ کیکر اور بیری کے بھی فائدے ہیں۔ وہ بھی قدرت کے بنائے ہوئے ہیں۔“
بیری جو کافی دیر سے باقی لوگوں کو داد دے رہی تھی اور ساتھ ساتھ آم کی باتوں اور حرکات کو نوٹ کیے جارہی تھی۔ اب جیسے ہی آم نے اسے کھل کے للکارا تو وہ بغیر کوئی لحاظ کیے بول اٹھی:

تُو ہے آم لیکن یہ اوقات تیری
بتائے گی بڑھ چڑھ کے یہ بات تیری
یہ جرأت تری تو نے مجھ کو لتاڑا
بتا مجھ کو، میں نے ترا کیا بگاڑا
یہ مانا کہ دنیا میں مشہور ہے تُو
مگر سچ تو یہ ہے کہ مغرور ہے تُو
ذرا شرم ہو تو میں تجھ سے بڑی ہوں
کئی سال گزرے، یہیں پر کھڑی ہوں
اگر میرے کانٹے ہیں، دیتی ہوں پھل بھی
نکالے بنا مجھ کو، تھا اور حل بھی
نہیں مجھ کو منظور، گڑبڑ گھوٹالہ
مجھے کیوں نکالا، مجھے کیوں نکالا
میں جب تک ہوں زندہ، یہاں پر رہوں گی
اور ایسے ہی حق بات، سب سے کہوں گی

”خاموش…. خاموش…. اب کوئی نہیں بولے گا۔“ برگد سردار نے ڈانٹا تو ہر طرف سکوت چھا گیا۔ پھر غصے سے لال پیلے برگد نے انھیں کھری کھری سنانا شروع کیں۔

لڑتے ہو، کچھ شرم کرو تم
لہجے اپنے نرم کرو تم
لڑنا اچھا کام نہیں ہے
اپنا یہ پیغام نہیں ہے
سب ہی اچھے، سارے بہتر
کوئی نہیں ہے تم میں کم تر
کوئی پیڑ یا بیل ہے پیارو!
قدرت کا سب کھیل ہے پیارو!
پیدا سب کو اُس نے کیا ہے
وہ رب تو سب کی سنتا ہے
طعنہ و وشنام نہیں ہے
لڑنا اچھا کام نہیں ہے

برگد کی ڈانٹ سنتے ہی آم کے درخت نے صدائے احتجاج بلند کی اور باغ کا سردار بننے کے لیے دھرنا دینے کا اعلان کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ بیری کو تو تھوڑی رعایت ہوگی مگر کیکر کو ہم یہاں ہرگز برداشت نہ کریں گے۔“
برگد نےیہ سن کر آم کو ڈانٹ کر چپ کروایا، مگر آم کا درخت اس طرح استاد برگدکی طرف بڑھا، جیسے ابھی وہ برگد کو اکھاڑ پھینکے گا۔ شور شرابے اور ہنگام میں کان پڑی آواز سنائی پھینکیں گے۔ شور شرابے اور ہنگام میں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اچانک مالی بابا جمال دین ہڑبڑا سر اٹھ بیٹھا۔ اسے یاد آیا کہ وہ برگد کے پیڑ تلے تھوڑی دیر ستانے کے لیے لیٹا تھا۔
”اوہ…. یہ…. یہ کیسا خواب تھا۔“ مالی بابا حیران و پریشان پسینے میں شرابور تھا۔ آنکھ اٹھا کر اس نے ایک نظر تمام پھلوں کے درختوں پر ڈالی۔ پھر بیری اور کیکر کو دیکھا تو ماں بابا کو احساس ہوا جیسے کیکر کا درخت بے چارا رو رہا ہو۔ اچانک مالی بابا کی نگاہیں باغ کے پھلوں والے درختوں کی طرف اٹھیں تو یہ دیکھ کر اس کی چیخ نکل گئی۔ نہ جانے کون لوگ آم اور جامن کے درختوں سے پہلا پہلا اور نیا پھل اتارکر لے جاچکے تھے۔ درخت بے چارے اجڑے ہوئے تھے۔
”اوہ…. اوہ…. یہ کیا ہوااور کس نے کیا؟“ مالی بابا پریشان ہوگئے۔
اگلی صبح مالی بابا نے کیکر کی کانٹوں والی شاخیں کلہاڑی سے کاٹ کر باغ کے اردگرد ایک حفاظتی باڑ لگا دی تھی۔ کہ پھل والے درختوں تک کوئی چور نہ پہنچ سکے۔ آم بے چارا کیکر کی اس قربانی پر شرمندہ تھا۔ جب کہ کیکر دوسروں کی خاطر قربان ہوکر بھی خوش تھا اور فخر سے گنگنا رہا تھا۔

کانٹوں والا بند ہے میرا، کیکر میرا نام
دنیا بھر میں مجھ جیسا بھی کوئی نہ ہو بدنام
اوروں کے جو کام نہ آئے وہ کیسی مخلوق؟
بدی کو نیکی میں بدلو، بس یہ میرا پیغام

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top