لومڑی کی گمشدگی
جاوید بسام
۔۔۔۔۔
سب کو اپنے مسائل حل کرنے کی فکر تھی،اس لیے لومڑی کی تلاش شروع کر دی گئی
۔۔۔۔۔
لومڑی ناراض ہو کر ایسی گئی کہ پلٹ کر خبر نہ لی، دوسرے جانور سمجھے ایسے ہی کہیں نکل گئی ہوگی ، واپس آجائے گی۔ لیکن جب ایک ہفتہ گزر گیا تو انہیں گڑ بڑ کا احساس ہوا۔ آخر سب ٹیلے کے گرد اکٹھا ہونا شروع ہوئے، شیر بھی ٹیلے پر براجمان تھا۔ جب سب جمع ہو گئے تو شیر نے دھاڑ کر گلا صاف کیا اور بولا۔
”لومڑی کئی دنوں سے غائب ہے، کسی کے پاس اس کی کوئی خبر ہے؟“
سب نے انکار کیا ۔ کسی نے بھی اسے اس دن کے بعد سے نہیں دیکھا تھا، وہ حیران پریشان کھڑے تھے کہ شیر غصے سے دھاڑا اور بولا۔
” ہر جنگل کیلئے ایک لومڑی کا ہونا ضروری ہے، ہمیں اسے تلاش کرنا ہو گا ورنہ ہمارے مسائل کبھی حل نہ ہوں گے۔“
تمام جانوروں نے اس کی بات سے اتفاق کیا اور انہیں اپنی وہ تکالیف اور مسائل یاد آنے لگے جن کے بارے میں وہ لومڑی سے مشورہ کرنے والے تھے۔ مثلاً مادہ چیتا کو شکایت تھی کہ جب بھی وہ شکار کرتی ہے، مفت خورے اس سے شکار چھیننے آموجود ہوتے ہیں، لگڑ بھگے اس سے اپنی رفتار بڑھانے کے لیے مشورہ کرنا چاہتے تھے اور زرافے اس سے پانی پینے کا کوئی آسان طریقہ پوچھنا چاہتے تھے کیونکہ ان کی گردن پانی تک بمشکل پہنچ پاتی تھی۔
چنانچہ شیر نے ریچھ کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کی، ریچھ نے کئی ٹیمیں تشکیل دیں جو کیل کانٹے سے لیس ہو کر چہار اطراف لومڑی کی تلاش میں روانہ ہوئیں۔ انہوں نے ہر غار اور ہر کوہ کا کونہ کونہ چھان مارا، ہر ہر جھاڑی کو کھنگالا ، یہاں تک کہ درختوں پر بھی جا چڑھے، حالانکہ سب کو معلوم تھا کہ لومڑی درخت پر نہیں چڑھ سکتی۔ لنگور کی خدمات حاصل کی گئیں وہ برگد کی رسی کی مددسے ان گہرے کھڈوں میں جا اترا جہاں سورج کی کرن بھی نہیں پہنچ پاتی تھی۔ کوؤں کی پہنچ انسانی آبادیوں تک تھی لہٰذا انہیں بھی روانہ کیا گیا کہ کھوج لگائیں اگرچہ کوؤں کے دل میں لومڑی کی طرف سے رنجش تھی، وہ پنیر والے واقعے کو نہ بھولے تھے لیکن اس وقت انہوں نے بھی بخوشی یہ خدمت انجام دی لیکن نتیجہ صفر ہی رہا، لومڑی کا کوئی سراغ نہ ملا۔
آخر سب پھر جمع ہوئے ۔ ریچھ نے اپنی ناکامی کا اعتراف کیا۔ شیر غصے سے بار بار دھاڑنے لگا۔ الو جو لومڑی سے عقل و دانش میں کئی ہاتھ آگے تھا لیکن جنگل کے معاملات میں زیادہ دخل نہیں دیتا تھا، کھنکھار کر بولا۔
”اس کا مطلب ہے کہ لومڑی ناراض ہو کر جنگل چھوڑ گئی ہے، تمہارے الٹے سیدھے سوالوں سے وہ تنگ آگئی تھی۔ “
” اب کیا کریں؟؟“ بہت سے جانور ایک ساتھ بولے۔
”تمہیں اس سے معافی مانگنی ہو گی۔“ الو نے کہا۔
” لیکن جب یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ کہاں ہے معافی کیسے مانگیں۔“ زیبرے نے پوچھا۔
سب سوچ میں پڑ گئے ۔ آخر الو نے تجویز پیش کی کہ جنگل کے اطراف درختوں پر معافی نامہ لکھ کر لٹکا دیا جائے۔ سب نے اس کو پسند کیا، لہٰذا الو نے معافی نامہ تحریر کیا جو کچھ یوں تھا۔
”ہر خاص و عام کو مطلع کیا جاتا ہے کہ لومڑی نامعلوم وجوہات کی وجہ سے جنگل چھوڑ کر چلی گئی ہے اس کے بغیر ہم اپنے آپ کو فکری اور عقلی طور پر کمزور محسوس کررہے ہیں اور اس کے شدت سے منتظر ہیں اگر کسی کو اس کے بارے میں علم ہو تو ریچھ سے رابطہ کرے، اگر وہ خود پڑھے تو بلا جھجک چلی آئے، ہم اس سے معافی مانگتے ہیں اور آئندہ اس کی مرضی کے خلاف کوئی بھی کام نہ کرنے کا عزم کرتے ہیں۔ فقط اہل جنگل“
نیچے دستخط کے طور پر شیر نے اپنے پنجے کا نشان لگایا۔
سب نے الو کی نثر نگاری کو سراہا چنانچہ کیلے کے بڑے بڑے پتوں پر معافی نامہ لکھ کر درختوں کی شاخوں سے لٹکا دیا گیا اور تمام جانور انتظار میں دن گزارنے لگے۔
اب لومڑی کی سنےے جب لومڑی ناراض ہو کر گئی تو چلتی چلی گئی، جنگل ختم ہو گیا لیکن وہ نہیں رکی، اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں جا رہی ہے۔ وہ ویرانوں سے گزرتی کھیتوں اور باغوں تک جا پہنچی، کچھ آگے شہر کی مضافات تھی، جہاں کچھ کاٹیج بنے تھے، ہر کاٹیج کے آگے باغیچہ تھا۔ اس نے دیکھا باغیچے میں بچے کھیل کود رہے ہیں ان کے ساتھ کتا بھی ہے جسے سب پیار کررہے ہیں وہ ان کے ساتھ کھیل میں برابر کا شریک ہے اسے کتے کا کردار پسند آیا۔ وہ باڑ کے پیچھے چھپی انہیں حسرت سے دیکھتی رہی پھر اسے خیال آیا کہ ایسا گھر تلاش کرے جہاں کتا نہ ہو، وہ ہر گھر میں جھانکتی رہی آخر اسے ایسا گھر مل گیا۔ وہاں باغیچے میں ایک آدمی کرسی پر بیٹھا بھنی ہوئی مرغابی کھا رہا تھا۔ وہ ڈرتے ڈرتے اندر داخل ہوئی، آدمی نے چونک کر اسے دیکھا لیکن کھانے میں لگا رہا۔ وہ کتے کی طرح دم ہلانے کی کوشش کررہی تھی اور اس کا سر سعادت مندی سے جھکا ہوا تھا۔ آدمی نے ایک ہڈی اس کی طرف پھینکی، اس نے لپک کر اٹھائی تو یاد آیا کہ وہ کئی دن سے بھوکی ہے، فوراً ہی وہ اسے چٹ کر گئی۔ وہ خوشی سے اپنی بالوں بھری دم ہلا رہی تھی۔
اچانک ایک عورت برآمدے میں چلی آئی ۔ لومڑی کو دیکھ کر اس کی چیخ نکل گئی۔ ” یہ کیا ہے؟“ اس نے خوفزدہ لہجے میں پوچھا۔ ” یہ لومڑی ہے۔ ”مگر میں تمہیں کتا لانے کو کہتی تھی نا۔“
” یہ بھی کتے کی دور پڑے کی رشتہ دار ہے ہم اسے پالیں گے۔“ آدمی بولا۔
” لیکن یہ گھر کی حفاطت کیسے کرے گی؟ “ عورت نے ناک بھوں چڑھا کر پوچھا۔
”ضرور کرے گی یہ بہت چالاک ہوتی ہے، شاید اس کی صحبت میں تمہاری عقل میں بھی کچھ اضافہ ہوجائے۔“ آدمی نے ہنستے ہوئے کہا۔ عورت پیر پٹختی ہوئی اندر چلی گئی۔ یوں لومڑی وہاں رہنے لگی، وہ کتے کی طرح باغیچے میں بھاگتی پھرتی، گیٹ پر آہٹ ہوتی تو اپنی ہلکی آواز میں بھونکتی۔ جب وہ لوگ اس کے لےے ایک زنجیر اور پٹہ لائے تو اسے تشویش ہوئی لیکن پھر یاد آیا کہ ہر کتے کو اسی طرح باندھا جاتا ہے، ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ گھر والوں نے اس پر توجہ دینی چھوڑ دی ۔ ایک دن وہ اسے باندھ کر باہر چلے گئے، وہ سارا دن بھوک سے بلبلاتی رہی۔ آخر وہ بھی اکتا گئی اور موقع پا کر وہاں سے فرار ہو گئی۔
کچھ دور جانے کے بعد اسے ایک جگہ مداری ڈگڈگی بجا کر بندر کا ناچ دکھاتا نظر آیا۔ جب وہ فارغ ہو کر آگے روانہ ہوا تو وہ اس کے پیچھے ہو لی۔ مداری کی بکری مر گئی تھی جس کی وجہ سے وہ بہت سے کرتب نہیں دکھا پا رہاتھا۔ چنانچہ اس نے لومڑی کو اپنے ساتھ رکھ لیا، پھر اس کی تربیت شروع کی وہ اسے بھوکا رکھتا، اسے مارتا اور ہمیشہ باندھ کر رکھتا۔ کچھ دن تک وہ اس تکالیف کو برداشت کرتی رہی لیکن جب وہ بندر کو اچھل کر اپنی پیٹھ پر سوار ہوتا دیکھتی تو اسے برا لگتا۔ جلد ہی اس کی ہمت جواب دے گئی۔ ایک دن مداری سے اس کی زنجیر ٹھیک طرح نہ بندھ سکی تھی تووہ بھاگ نکلی۔
اب وہ شہر مےں داخل ہو چکی تھی لیکن وہاں کی بھیڑ بھاڑ میں اسے چھپ کر رہنا پڑتا وہ صرف رات میں باہر نکلتی ورنہ سارا دن کسی نالے یا گھنی جھاڑیوں میں گزار دیتی۔ ایک دفعہ بھوک سے بے تاب ہو کر دن میں باہر نکلی تو کتے پکڑنے والی گاڑی کی نظر اس پر پڑ گئی، انہوں نے فوراً اسے پکڑ لیا۔ وہ اسے لے جا رہے تھے کہ پنجرے کا دروازہ کھل گیا، وہ چلتی گاڑی سے کودگئی اور ایسی بھاگی کہ پلٹ کر نہ دیکھا۔ جلد ہی وہ شہر سے باہر نکل گئی۔ اب اس کا رخ آگے کی طرف نہ تھا وہ تھک چکی تھی اور واپس پلٹ رہی تھی۔ چلتے چلتے وہ جنگل کے باہر پہنچ گئی۔ درخت پر لگے معافی نامے کو پڑھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ سوچ میں پڑ گئی تھی، آخر اس نے فیصلہ کیا کہ اسے واپس اپنے لوگوں میں چلے جانا چاہیے اسی میں اس کی خوشی اور بھلائی ہے، ہر کوئی اپنے ماحول میں ہی سکھ پاتا ہے چنانچہ وہ جنگل میں چلی گئی جہاں تمام جانور اس کے منتظر تھے۔ اس کی واپسی کی خوشی میں انہوں نے جشن منایا اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔
٭….٭….٭