skip to Main Content

لومڑی نے اڑائی ضیافت

جاوید بسام

۔۔۔۔۔۔۔
وہ بے چینی سے گھوم رہی تھی کہ اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی

۔۔۔۔۔۔۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب جنگل کے تمام جانور خوراک کی کمی کی وجہ سے پریشان تھے۔ وہ دن بھر شکار کی تلاش میں سرگرداں رہتے جونہی کوئی جانور ہاتھ لگتا اسے منٹوں میں ہڑپ کرجاتے لیکن پھر بھی پیٹ نہ بھرتا۔ ایسے میں لومڑی بے فکر تھی ایسا لگتا تھا کہ اسے کھانے کی کوئی پروا نہیں، وہ مزے سے گھومتی رہتی بلکہ دن بدن اس کی صحت اچھی ہو رہی تھی جبکہ دوسرے جانور سوکھ کر کانٹا ہو چلے تھے۔
دراصل جب جنگل سے ہرن، نیل گائے اور دوسرے سبزی خور جانور نقل مکانی کرگئے تو لومڑی کو بھی فاقے کرنے پڑے۔ ایک دن وہ خوراک کی تلاش میں جنگل سے باہر نکلی اور چلتے چلتے آبادی تک جا پہنچی۔ جہاں اسے ایک بڑا مکان نظر آیا جس کی باڑ کے پیچھے سے مرغیوں کے شور کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ لومڑی کے قدم سست پڑ گئے۔ اس نے جھری سے جھانک کر دیکھا تو اسے احاطے میں بے شمار مرغیاں گھومتی نظر آئیں، اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ مرغی کے لذیذ گوشت کے ذائقے سے وہ آگاہ تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح باڑ کے دوسری طرف پہنچ جائے۔ اس نے اطراف کا چکر لگایا لیکن کہیں بھی کوئی سوراخ نہ ملا، دروازہ بھی مضبوطی سے بند تھا۔
وہ بے چینی سے گھوم رہی تھی کہ اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ ایک مناسب جگہ دیکھ کر اس نے سرنگ کھودنی شروع کر دی۔ لومڑیاں عموماً زمین میں کوہ بن کر رہتی ہیں اس کے لیے یہ کچھ مشکل نہ تھا۔ آہستہ آہستہ وہ آگے بڑھتی گئی، آخر کامیاب ہوئی اور باڑ کے دوسری طرف جا پہنچی۔ جہاں درخت اور جھاڑیاں اگی تھیں۔ کچھ دیر تک وہ جھاڑیوں میں چھپی رہی۔ بہت سی مرغیاں اور ان کے چوزے اس سے کچھ فاصلے پر پھررہے تھے۔ وہ صبر سے انتظار کرتی رہی جیسے ہی ایک موٹی مرغی اس کی طرف آئی اس نے پھرتی سے اسے دبوچا اور سرنگ سے بھاگ نکلی۔ اس طرح اس کی خوراک کا مسئلہ حل ہو گیا۔ وہ ایک دو روز بعد خاموشی سے وہاں جاتی اور جو بھی مرغی یا چوزہ ہاتھ لگتا شکار کر لیتی۔
وہاں ایک ریٹائرڈ آدمی اکیلا رہتا تھا۔ وہ انتہا کا تنہائی پسند تھا اور شہر کی تیز رفتار زندگی سے بیزار ہو چکا تھا۔ وہ سارا دن کتابیں پڑھتا یا آرام کرتا رہتا۔ جدید دور کی تمام چیزیں اس نے استعمال کرنا چھوڑ دی تھیں، حتیٰ کہ گھڑی بھی استعمال نہیں کرتا تھا، وقت معلوم کرنے کیلئے وہ دھوپ گھڑی (Sundial)سے مدد لیتا۔ اس نے ایک چھڑی زمین میں گاڑھ رکھی تھی جس پر نشان لگے تھے۔ سورج کی حرکت کے ساتھ وقت کا پتا چلتا رہتا۔ لومڑی مزے سے مرغیاں کھاتی رہی اور اسے معلوم نہ ہوا کیونکہ اس نے بہت دن پہلے مرغیاں خریدیں تھیں۔ ان کے بہت سے چوزے نکل آئے تھے جو اب خود مرغے مرغیاں بن گئے تھے۔ اگرچہ احاطے میں ان کیلئے ڈربے بنے تھے لیکن اس کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا۔ لومڑی کی کامیابی کی وجہ کتے کی عدم موجودگی بھی تھی۔ آدمی کا پالتو کتا مر گیا تھا اور وہ اپنی سستی کی وجہ سے اب تک دوسرا کتا نہیں خرید سکا تھا۔ لومڑی کا شغل جاری تھا، اس کی صحت روز بروز اچھی ہو رہی تھی بلکہ وہ موٹاپے کی طرف گامزن تھا۔
ایک دن جب وہ مزے سے مرغیوں کی ضیافت اڑانے کے لیے سرنگ میں داخل ہوئی تو ذرا سا رینگ کر ہی سرنگ میں پھنس گئی، دراصل وہ پہلے کے مقابلے میں بہت موٹی ہو چکی تھی۔ اس کے لیے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہ تھا، اس نے فوراً پنجوں سے سرنگ کھودنی شروع کر دی لیکن اچانک انکشاف ہوا کہ نیچے کی زمین پتھریلی ہے۔ اس نے ادھر ادھر سے کوشش کی لیکن ناکام رہی، اب تو اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ اس نے نکلنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئی، بے بسی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اب وہ صرف دعا ہی کرسکتی تھی کہ کوئی دوسرا جانور اس کی بو پر وہاں چلا آئے اور اس کی مدد کرے۔
کئی دن گزر گئے ، ریٹائرڈ آدمی صبح سویرے بیدار ہو جاتا گو کہ اس نے الارم استعمال کرنا چھوڑ دیا تھا لیکن ایک نوجوان بھورا مرغ اپنی کراری آواز میں آذانیں دیتا جس سے اس کی آنکھ کھل جاتی، جب کئی دن تک اس کی آنکھ وقت پر نہ کھلی تو وہ پریشان ہو گیا۔ آخر مرغ کو تلاش کرتا ڈربے پر پہنچا لیکن وہ کہیں نہ تھا دراصل لومڑی کا آخری شکار وہ مرغ ہی تھا۔ آدمی سارے احاطے میں اسے تلاش کرتا پھرتا رہا۔ جھاڑیوں میں مرغیوں کے بے شمار پر بکھرے دیکھ کر اس کا ماتھا ٹھنکا پھر اسے سرنگ نظر آگئی۔ جھانکنے پر لومڑی بھی پھنسی نظر آئی۔ وہ فوراً اندر رائفل لینے بھاگا۔ وہ جانوروں کو مارنے کا قائل نہ تھا صرف اسے ڈرانا چاہتا تھا۔
لومڑی نے بھی اسے دیکھ لیا تھا اسے اپنی موت قریب نظر آرہی تھی۔ سرنگ میں پھنسے اسے چار دن ہو گئے تھے، زندگی بچانے کے لیے اس نے آخری کوشش کی کئی دن تک بھوکے رہنے سے وہ کچھ دبلی ہو گئی تھی۔ کوشش کرنے سے وہ بمشکل سرنگ سے نکل آئی اور خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگی۔ آدمی واپس آیا تو لومڑی فرار ہوچکی تھی۔ اس نے بڑے بڑے پتھر ڈال کر سرنگ بند کر دی۔ وہ جانوروں سے محبت ضرور کرتا تھا لیکن نقصان اسے ذرا پسند نہ تھا اور وہ اسی وقت کتا خریدنے کے لیے شہر روانہ ہو گیا۔ لومڑی توبہ کرتی ہوئی جنگل میں پہنچی اور اس نے عہد کیا کہ آئندہ وہاں کا رخ نہ کرے گی۔ ہر چند کہ مرغیاں بہت مزیدار تھیں لیکن زندگی کے آگے ان کی کوئی اہمیت نہ تھی۔
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top