skip to Main Content

دو شکار

جاوید بسام

۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں بھائیوں نے اپنی ذہانت سے ایک گھناﺅنا جُرم بے نقاب کیا

۔۔۔۔۔۔۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب اکبر اور اصغر اپنے چچا جان کے پاس ان کی آبائی حویلی میں رہتے تھے۔ یہ آزادی ہند سے پہلے کا دور تھا۔ ان کا گھر ریاست بھوپال کے ایک دور دراز قصبے میں تھا۔ آبادی کے کنارے واقع پتھر کی بنی حویلی کے چاروں طرف باغ تھا۔ حویلی کی اونچی اونچی دیواروں اور مخروطی محرابوں میں ابابیلوں نے گھونسلے بنا رکھے تھے۔ ساتھ ہی گھنا جنگل شروع ہوجاتا تھا۔ جس میں ایک پرسکون جھیل اور کئی چھوٹی بڑی پہاڑیاں بھی تھیں۔
دونوں بھائی بہت ذہین اور بہادر تھے۔ وہ آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ ان کے چچا جان ایک مصور تھے۔ وہ زیادہ تر اپنے کام میں مشغول رہتے۔ دونوں بھائیوں کو قدرتی مناظر سے بہت دلچسپی تھی۔ وہ اپنا اسکول کا کام کرنے کے بعد جنگل میں گھومنے نکل جاتے جہاں ان کی دلچسپی کی بہت سی چیزیں تھیں۔ وہ درختوں کی پرسکون گھنی چھاؤں میں کبھی ٹہنیوں پر جھولا جھولتے، کبھی ان خوش گلو پرندوں کی جستجو میں لگ جاتے جو پتوں میں چھپے چہچہارہے ہوتے تو کبھی ان پھرتیلی گلہریوں سے کھیلتے جو بجلی کی رفتار سے دوڑتیں اور لمحوں میں درخت کی چوٹی پر جا پہنچتیں۔ وہ ان کے لیے مونگ پھلیاں لے جاتے۔ جب وہ اپنی گھنی دموں کے سہارے بیٹھ کر اپنے اگلے پنجوں سے مونگ پھلیاں پکڑ کر کھاتیں تو وہ ان کی تصویریں بناتے۔ وہاں خاکی کے علاوہ نایاب نسل کی سرخ گلہریاں بھی پائی جاتی تھیں۔
ایک دن جب وہ جنگل کی سیر کررہے تھے۔انھیں دور سے ایک آدمی آتا نظر آیا وہ ایک لحیم شحیم، دراز بالوں اور بڑھی ہوئی شیو والا شخص تھا، لمبا کوٹ پہنے وہ دھب دھب کرتا چلا آرہا تھا۔اس قریب آنے پر انھوں نے دیکھا کہ اس کے بڑے بڑے جوتوں پر کیچڑ لگی ہے۔ وہ جھیل کی طرف سے آیا تھا ان کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے اپنی سرخ آنکھوں سے انھیں گھورا ۔
” یہ کون ہے؟“ اصغر نے سرگوشی کی۔
میں نے اسے اپنے دوست کے گھر کی طرف اکثر دیکھا ہے۔ “ اکبر بولا۔
جب وہ جھیل کے پاس سے گزر کر آگے گئے تو انھیں ایک درخت کے نیچے ایک پنجرہ نظر آیا اس میں کئی گلہریاںقید تھیں۔ وہ آزاد ہونے کے لیے بے چینی سے ادھر ادھر پھدک رہی تھیں۔
”معلوم نہیں کس ظالم نے یہ جال لگایا ہے؟“ اکبر بولا۔
” ہمیں انھیں آزاد کر دینا چاہیے۔“ اصغر نے کہا۔
اکبر نے گردن ہلائی اور بڑھ کر پنجرے کا دروازہ کھول دیا۔ گلہریاں تیزی سے دوڑتی ہوئی درختوں پر جا چڑھیں۔ وہ خوشی سے آوازیں نکال رہی تھیں اور اپنی دُمیں ہوا میں لہرا رہی تھیں۔
اگلے دن انھیں پنجرہ دوسری جگہ رکھا ملا آج بھی اس میں کئی گلہریاں قید تھیں انھوںنے آ ج بھی گلہریوں کو آزاد کر دیا۔ کچھ دیر بعد اُنھوں نے دیکھا کہ لمبا آدمی دور سے خالی پنجرہ اٹھائے چلا آرہا ہے۔ وہ غصے میں نظر آرہا تھا۔ وہ جھاڑیوں کی اوٹ میں ہوگئے۔
اکبر بولا ” چلو ہم دوست کے پاس چلتے ہیں۔“دوست نے بتایا کہ وہ برش فیکٹری میں کام کرتا ہے۔
راستے میں اصغر بولا یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ برش فیکٹری سے گلہریاں پکڑنے کا کیا تعلق ہے؟“
اکبر سوچ میں گم تھا پھر وہ چونک کر بولا ” ایک بار چچا جان کہہ رہے تھے کہ برش جانوروں کے بالوں سے بھی بنتے ہیں۔“
”چلو ان سے بات کرتے ہیں۔“ اصغر نے کہا۔
چچا جان کینوس پر کام کررہے تھے انھیں دیکھ کر بولے ” تم دونوں پڑھائی بھی کررہے ہو یا ہر وقت گھومتے پھرتے رہتے ہو؟“
اکبرنے کہا: ”آپ نے ہماری پچھلے مہینے کی کارکردگی تو دیکھی تھی۔ ہمارا رینک بہتر ہوا تھا۔“ چچا جان گردن ہلانے لگے۔اصغر نے ایک برش اٹھاتے ہوئے پوچھا۔ ”چچا جان یہ برش کس چیز سے بنتے ہیں؟“
وہ بولے ” مصنوعی بالوں سے اور اکثر جانوروں کے بال بھی استعمال ہوتے ہیں۔“
اکبر نے ایک نرم ہموار سرخ بالوں والا برش اٹھایا اور بولا ” ایسا لگتا ہے یہ گلہری کی دم کے بالوں سے بنا ہوا ہے۔“
چچا جان نے نگاہ اٹھا کر دیکھا اور بولے ” ہاں، ممکن ہے۔“ یہ بات ثابت ہوگئی تھی کہ برش بالوں سے بھی بنائے جاتے ہیں ۔ اب وہ کوئی ترکیب سوچ رہے تھے کہ اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔ وہ روز وہاں جاتے اگر پنجرے میں گلہریاں قید ہوتیں تو وہ انھیں آزاد کردیتے۔ ایک دن وہ امتحان کی تیاری کی وجہ سے نہ جاسکے۔
دوسرے دن انھوں نے دیکھا کہ لمبا آدمی پنجرہ اٹھائے چلا آرہا ہے اس میں بہت ساری گلہریاں تھیں، اگرچہ وہ مطمئن نظر آرہا تھا لیکن اس کی نگاہیں کچھ تلاش کررہی تھیں۔ وہ جھاڑیوں میں چھپ گئے۔
”لگتا ہے اسے معلوم ہو گیا ہے کہ کوئی پنجرہ کھول دیتا تھا۔ “ اصغر نے کہا۔
”ہاں جلد از جلد اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔“
دونوں جھیل کے کنارے ایک بڑے پتھر پر سوچ میں گم بیٹھے تھے۔ کوئی حل سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ پھر اکبر چونک کر بولا۔ ” ایک بار میں نے بڑی سڑک پر ادارہ تحفظ جنگلی حیات کا دفتر دیکھا تھا کیوں نہ وہاں چلیں۔“
” ہاں، ٹھیک ہے۔“ اصغر خوش ہو کر بولا۔
دونوں سائیکلوں پر روانہ ہوئے۔ جلد ہی وہ وہاں جا پہنچے۔ سائیکلیں باہر کھڑی کرکے وہ دفتر میں داخل ہوئے۔ وہاں دیواروں پر جانوروں اور پرندوں کی بڑی بڑی تصاویر لگیں تھیں، بھس بھرا ایک بڑا عقاب اپنی چمکدار آنکھوں سے انھیں گھور رہا تھا۔ ایک صاحب آنکھوں پر چشمہ لگائے کسی فائل پر جھکے تھے۔ دونوں نے سلام کیا ۔ وہ چونک کر سیدھے ہوئے اور بولے۔”آؤ بھئی لڑکو! بیٹھو کیسے آنا ہوا؟“
وہ کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ اکبر نے تمام بات بتائی۔ ان کا نام دلاور تھا۔ وہ توجہ سے سنتے رہے پھر بولے ”جنگلی حیات کا تحفظ ہمارے ادارے کی ذمہ داری ہے، خاص طور پر وہ جانور جونایاب نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ سرخ گلہریاں بھی ان میں شامل ہیں لیکن کوئی قدم اٹھانے سے پہلے ہمیں تحقیق کرنی ہوگی۔ مجھے اس فیکٹری کا پتا بتاؤ۔“
اکبر نے پتا بتایا۔ ”ٹھیک ہے ایسا کرو تم لوگ کل آنا۔“ انھوں نے کاغذ پر تفصیل لکھتے ہوئے کہا۔
دوسرے دن دونوں وہاں پہنچے، دلاور صاحب نے مسکرا کر ان کا استقبال کیا، پھر دراز کھول کر چند برش نکالے اور بولے۔
” میں نے معلوم کیا ہے یہ برش اسی کمپنی کے بنے ہوئے ہیں ۔ ایک ماہر کو دکھانے پر یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ برش گلہری کے بالوں سے بنائے گئے ہیں اور اکثر سرخ بالوں سے بنے ہیں۔ ٹھیک ہے بھئی، ہمیں کارروائی کرنی پڑے گی لیکن احتیاط سے کیونکہ ہمیں اسے رنگے ہاتوں پکڑنا ہے، مجھے یقین ہے تم لوگ اس کام میں ہماری مدد کرو گے؟“ دونوں نے اثبات میں گردن ہلائی۔
”اچھا یہ بتاؤ وہ کس وقت وہاں آتا ہے؟“
”اسے ہم نے دوپہر یا شام کے وقت وہاں دیکھا ہے۔“
”ٹھیک ہے، لیکن ہم وہاں اس کے انتظار میں نہیں بیٹھ سکتے ۔ کوئی ایسا ذریعہ تلاش کرنا پڑے گا جس سے اس کی آمد کا پتا چل جائے۔“
وہ سوچتے ہوئے بولے ۔”دونوں بھائی بھی خاموشی سے کچھ سوچ رہے تھے۔ اصغر کی نظریں کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھیں۔ پھر وہ چونک کر بولا :” جنگل کی سب سے اُونچی پہاڑی یہاں سے نظر آرہی ہے، اگر ہم آپ کو وہاں سے دھویں کا سگنل دیں؟“
” بہت خوب، اچھا خیال ہے۔ تم اپنا کام ہوشیاری سے کرنا میں یہاں سے نظر رکھوں گا۔“
دونوں اس معاملے میں بہت دلچسپی لے رہے تھے اور اپنے جسم میں ایک نئی سنسنی دوڑتے ہوئے محسوس کررہے تھے۔
اگلے دن دونوں نے جنگل کا رخ کیا پہلے پنجرہ ڈھونڈا اس میں کئی گلہریاں قید تھیں پھر وہ پہاڑی پر چڑھے اور ایک مناسب جگہ دیکھ کر لکڑیاں الاؤ کی شکل مےں ترتیب دیں اب وہ جنگل کے جانے والے راستے پر جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھ گئے۔
دلاور صاحب سارا دن اپنے کام میں مصروف رہے لیکن وہ کھڑکی سے باہر بھی نظر رکھے ہوئے تھے۔ جب وہ شام کی چائے پی رہے تھے تو انھیں پہاڑی کی سمت سے دھواں اٹھتا دکھائی دیا۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے، سائیکل سنبھالی اور حلقہ¿ کوتوالی کا رخ کیا۔ صبح جا کر وہ تمام بات انھیں بتا چکے تھے۔ حوالدار نے تیار رہنے کا وعدہ کیا تھا۔
دونوں جھاڑیوں میں دبکے دعا کررہے تھے کہ دلاور صاحب وقت پر آجائیں۔ کچھ دیر بعد وہ دو اردلیوں کے ساتھ سائیکلوں پر آتے نظر آئے۔ ” کیا ہوا وہ چلا تو نہیں گیا؟“ انھوں نے ہانپتے ہوئے پوچھا۔
” نہیں ابھی نہیں گیا۔“ وہ لوگ بھی اوٹ میں ہوگئے۔
تھوڑی دیر بعد لمبا آدمی دور سے آتا نظر آیا۔ اردلی تیار تھے، اس کے قریب آنے پر وہ باہر نکل آئے ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے۔ انھیں دیکھ کر لمبا چونکا پھر پنجرہ رکھ کر تیزی سے دوڑا۔ وہ بھی اس کے پیچھے بھاگے، کچھ دور جا کر وہ پکڑا گیا۔ وہ دونوں بھائیوں کو غصیلی نظروں سے گھور رہا تھا۔ حلقہ¿ کوتوالی پہنچ کر اس نے جلد اقرار کرلیا کہ وہ گلہریاں بال حاصل کرنے کے لیے پکڑتا تھا۔
حوالدار نے فیکٹری پر چھاپا مارا تو سب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں برش فیکٹری کی آڑ میں منشیات تیار کی جا رہی ہیں۔ دلاور صاحب بولے ”اسے کہتے ہیں ایک تیر سے دو شکار، ہم پکڑنے برش والوں کو آئے تھے لیکن یہاں تو کچھ اور ہی نکلا۔“
ان سب کو گرفتار کر لیا گیا۔ اگلے دن کے اخبار میں دونوں بھائیوں کے کارنامے کو شہ سرخیوں میں شائع کیا گیا تھا۔
ایک دن وہ دلاورصاحب سے ملنے گئے۔ انھوں نے بہت سی باتیں کیں پھر وہ بولے ” بھئی تم لوگ بہت بہادر اور ذہین ہو، تمھیں جنگلی حیات سے بھی دلچسپی ہے، جنگل کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے میں نے اپنے ادارے کومحافظ بھیجنے کے لیے لکھ دیا ہے۔“
پھر انھوں نے دراز کھول کر ادارے کی جانب سے شائع کر دہ کچھ کتابچے تصاویر اور دو بیج نکالے اور انھیں دیتے ہوئے بولے۔ ” یہ بیج ہم اپنے محافظوں کو دیتے ہیں، اگر تمھاری پڑھائی متاثر نہ ہو اور تمھارے چچا اجازت دے دیں تو میں تمھیں اعزازی طور پر اپنے ادارے کارکن بناتا ہوں۔ جب تک محافظ کا بندوبست نہیں ہوتا تم یہ ذمہ داری سنبھال سکتے ہو۔ تمھیں جنگل پر نظر رکھنی ہوگی اور لوگوں میں جنگلی حیات کے تحفظ کا شعور پیدا کرنا ہوگا۔“
انھوں نے خوشی خوشی بیج لے لیے۔ ان پر ادارے کا مونوگرام ’ہرن‘ بنا ہوا تھا۔ گھر آکر انھوں نے تمام بات چچا کو بتائی۔ انھوں نے اس وعدے پر کہ وہ پڑھائی میں مزید محنت کریں گے، اجازت دے دی۔ اس واقعہ کے بعد جب بھی وہ جنگل میں جاتے اپنے سینے پر بیج آویزاں کرلیتے۔ ان کی ذمہ داری بڑھ گئی تھی جسے وہ محنت اور لگن سے نبھا رہے تھے۔٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top