درخت کا فیصلہ
جاوید بسام
۔۔۔۔۔۔۔۔
تینوں نے فیصلہ کا اختیار درخت کو دے دیا تھا۔ اب فیصلہ درخت کو کرنا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باتھ آئی لینڈ ایک قدیم آبادی ہے جہاں درختوں میں گھرے پرانی وضع کے بڑے بڑے گھر ہیں۔ اس آبادی کی ایک سنسان سڑک پر ایک گھر کے باہر گل مہر (Flame of Forest)کا گھنا درخت لگاہے ۔ موسم بہار میں جب درخت نارنجی پھولوں سے لد جاتا ہے تو کوئی بھی گزرنے والا اس کی خوبصورتی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، روزانہ بے شمار نرم و نازک چار پتیوں والے پھولوں کے گھچے سڑک پر جھڑتے رہتے ہیں اور نئے پھول ان کی جگہ لیتے ہیں۔
بہار کی ایک خوشگوار صبح کو جب ہلکی بارش سے درختوں پر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے اور کئی جگہ پانی جمع ہو گیا تھا، اسی گل مہر پر تین پرندے کسی بحث میں الجھے ہوئے تھے۔ ان میں ایک فاختہ، ایک بلبل اور ایک مینا شامل تھی۔ تینوں غصے میں تھیں اور زور زور سے بول رہی تھیں، جھگڑے کی وجہ درخت کے تنے میں ایک قدرتی سوراخ کی موجودگی تھی جو گھونسلے کے لیے بہترین جگہ تھی۔ ہر ایک پرندہ یہ چاہتا تھا کہ اس پر گھونسلہ بنائے تاکہ جب ان کے بچے دنیا مےں آنکھ کھولیں تو دل کش ماحول کو پائیں۔
گھونسلے کے منہ پر فاختہ براجمان تھی، مینا ناراضگی سے ایک ٹہنی سے دوسری ٹہنی پر آجارہی تھی۔ بلبل کہہ رہی تھی کہ اس نے پچھلے موسم میں ہی اس سوراخ کواپنے گھونسلے کے لےے چن لیا تھا، مینا کا کہنا تھا کہ وہ اس درخت پر رہتی ہے اس لیے وہ اس میں گھونسلہ بنائے گی جبکہ فاختہ کا دعویٰ تھا کہ اس نے پہلے یہاں گھونسلہ بنا لیا ہے اس لیے اس پر اس کا حق ہے ۔ تینوں اپنی چونچیں ہلا ہلا کر اور گردنیں پھلا پھلا کر لڑ رہی تھیں۔ بلبل بہت بھنائی ہوئی تھی مینا کا منہ غصے سے سرخ تھا اور فاختہ جو اپنی امن پسندی اور صلح جوئی کے لیے انسانوں تک میں مشہور تھی۔ آج ایسا لگتا تھا اپنی خو چھوڑ بیٹھی ہے۔
جب ان کی بحث بڑھتے بڑھتے جھگڑے میں تبدیل ہونے لگی تو قریب کے ایک درخت پر بیٹھی کوئل زور سے ہنسی۔ تینوں نے غصے سے اسے دیکھا تو وہ بولی ”تم لوگ مجھے گھونسلہ نہ بنانے کا طعنہ دیتی آئی ہو اور آج اس کے لیے آپس میں لڑ رہی ہو۔ تم سے اچھی تو میں ہوں جو اس جھنجھٹ سے آزاد ہوں۔“
فاختہ غصے سے بولی ”اگر تم اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتیں تو اپنا منہ بند رکھو۔“ کوئل پھر ہنسی اور بولی ”تمہارے مسئلے کا میرے پاس تو کوئی حل نہیں البتہ اگر درخت خود کوئی حل بتا دے تو بات بن سکتی ہے۔“
تینوں نے حیرت سے اسے دیکھا اور بولیں ”درخت تو بولتا ہی نہیں۔“
کوئل نے کہا ”درخت بھی ہماری طرح جاندار ہے ، وہ سانس لیتا ہے اس کی نشو ونما ہوتی ہے وہ محسوس بھی کرتا ہے اگر اﷲ چاہے تو بول بھی سکتا ہے۔“
” ہم نے آج تک کسی درخت کو بولتے نہیں سنا۔“ فاختہ نے کہا۔
” لیکن آج اگر تم اپنا مسئلہ اس کے سامنے رکھو تو شاید وہ اﷲ کے حکم سے بول پڑے۔ “ کوئل بولی۔
بلبل بھپر کر بولی۔”اے درخت ! بتا اس گھونسلے پر کس کا حق ہے؟“
یہ کہہ کر وہ خود ہی اپنی بات پر سہم گئی۔ سب خاموش ہو گئے اور انتظار کرنے لگے۔
ہوا درخت کے پتوں سے سرگوشیاں کررہی تھی اور پھولوں کے شگوفے جھوم رہے تھے، دور کہیں سے کسی کتے کے بھونکنے کی آواز آرہی تھی، پھر سڑک سے پانی کا ٹینکر گزرا جس کا نل ٹپک رہا تھا۔ اچانک تیز ہوا چلنے لگی۔ ایسا لگا کہ آندھی آرہی ہے، درخت کے پتے تیزی سے ہلنے لگے پھر تیز سیٹی کی سی آواز سنائی دی، تمام پرندے شاید گھبرا کر اڑ جاتے کہ ایک بھاری آواز نے ان کے پنجے جما دیئے۔ وہ سہم کر بیٹھے رہے۔ وہ ایک ایسی آواز تھی جس میں تمام موسموں کا اثر نمایاں تھا، چلچلاتی دھوپ، کڑکڑاتی سردی اور طوفانوں کی زور آوری کے ساتھ ساتھ برکھا کی پھوار، پھولوں کی لطافت اور کلیوں کی مسکراہٹ بھی اس میں محسوس کی جا سکتی تھی۔ درخت بولا۔
” میرے بچوں! میں تمہیں اپنے بچے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ تم درختوں پر پیدا ہوتے ہو اس کی شاخوں پر اپنے گھر بناتے ہو اور اسی پر بیٹھ کر چہچہاتے ہو۔ درختوں کی رونق پرندوں سے ہی ہے۔ اگر پرندے نہ ہوں تو شاید درخت بھی نہ رہیں۔“ وہ رک رک کر بول رہا تھا۔
” میرے لیے تو ہمیشہ وارہتی ہیں بلکہ حیوانوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بھی میں فیض پہنچاتا ہوں۔ سڑک پر صبح جھاڑو دینے والا تھک کر میرے سائے میں ہی آرام کرتا ہے۔ اور لوگ اپنی لاکھوں روپے مالیت کی گاڑی بھی میرے نیچے کھڑی کردیتے ہیں۔ جس شخص نے میرا ذرا سا بوٹا لگایا تھا برسوں پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گیا لیکن نیکی کا سفر جاری ہے۔ اب رہا تمہارا مسئلہ میں نے تمام بات سنی ہے۔ تم لوگ ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن میرا خیال ہے کہ فاختہ اپنا گھونسلہ بنا چکی ہے اس لیے اس کا اس گھونسلے پر زیادہ حق ہے۔ البتہ اگلے موسم میں بلبل اور پھر مینا اس میں رہ سکتے ہیں۔ اس طرح کچھ انتظار کے بعد تینوں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔“ ایک بار پھر تیز ہوا چلی اور آواز آنا بند ہو گئی۔
تمام پرندے دم سادھے بیٹھے تھے۔ پھر کوئل ہی ہمت کرکے بولی۔
” میرا خیال ہے درخت نے اچھا حل بتایا ہے۔ کیا تم لوگ اس پر رضا مند ہو؟“
بلبل اور مینا نے گردنیں اثبات میں ہلائیں اور درخت سے پرواز کر گئیں۔ فاختہ نے چہکتے ہوئے کوئل کا شکریہ ادا کیا اور گھونسلے میں چلی گئی۔ پھر کوئل اتنے زور سے کوکی کہ درختوں کے پتے جھومنے لگے اور تیزی سے ایک طرف اڑ گئی۔
٭….٭