چوہے کا روزنامچہ
جاوید بسام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ : ۸۲ مئی ۱۹۸۳ئ
مقام: کتابوں کی الماری کے پیچھے
آج کے دن کا آغاز خوشگوار تھا۔ رات ٹنکو کے آرام دہ جوتے میں بسرکی جو ریک کے نیچے گرا ہوا تھا۔ صبح باہر نکلا تو گھر پر خاموشی طاری تھی۔ سب سو رہے تھے کوئی خطرہ نہ تھا چنانچہ مزے سے ٹہلتے ہوئے باورچی خانہ کا رخ کیا۔ جہاں معمول کے مطابق رات کے جھوٹے برتنوں کا ڈھیر جمع تھا۔ جن میں بے شمار ادھ کھائی چیزیں موجود تھیں۔ کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبو آرہی تھی۔ دل خوش ہو گیا اور بے اختیار خالہ زینت کے لیے دل سے دعا نکلی (ﷲ انہیں سلامت رکھے) انتہائی درجے کی سست و کاہل عورت ہیں۔ ہر کام کو اگلے وقت پر ٹال دینا ان کا شیوہ ہے۔ کبھی بھی رات کو باورچی خانہ صاف نہیں کرتیں۔ برتنوں کا جائزہ لیا تو روٹی کے علاوہ مٹھائی اور پھل بھی موجود تھے۔ پیٹ بھر کر کھایا اور ﷲ کا شکر ادا کرتا ہوا باہر صحن میں نکل آیا۔
پو پھٹ رہی تھی۔ صبح ہونے والی تھی کچھ دیر بعد گھر میں چہل پہل شروع ہوجاتی اچانک گلی میں سے بلی خالہ کی میاؤں میاؤں سنائی دی۔ فوراً اندر چلا آیا۔ کچھ دیر بعد گھر میں سب جاگ گئے اور اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔ خالہ نماز سے فارغ ہو کر بچوں کو اسکول کے لیے تیار کرنے لگیں۔ ایسے اوقات ہمارے لیے بہت نازک ہوتے ہیں۔ ایسے میں ایک کونے میں خاموش چھپ کر بیٹھنا ہی اچھا ہے۔ میں نے اپنی مختصر سی زندگی میں اس اصول کو باخوبی سمجھ لیا ہے کہ جس گھر میں بھی رہو اس طرح رہو کہ گھر والوں سے کم سے کم سامنا ہو۔ یکم مئی کو میری عمر چارماہ ہوئی ہے۔
میں ایک صوفے کے پیچھے چھپا تھا لیکن کان اور آنکھیں باہر ماحول کا جائزہ لے رہے تھے، سب لوگ ناشتہ کررہے تھے۔ اگر آپ چوہے ہو(ﷲ نہ کرے) اور ایک چھوٹی سی اندھیری جگہ پر چھپ کر انسانوں کا جائزہ لیں تو ہنس ہنس کر پاگل ہو جائیں۔ جس طرح وہ بولتے، لڑتے اور ایک دوسرے کی بات کاٹتے ہیں وہ سب بہت دلچسپ ہوتا ہے، خاص طور پر ہم چوہوں کیلئے۔ جلد ہی وہ لوگ ناشتہ سے فارغ ہو گئے اور خالہ نے بچوں کو اسکول روانہ کر دیا۔
جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے آج کل ہمارا قیام خالہ زینت کے گھر میں ہے۔ (ﷲ انہیں سلامت رکھے) میری باتوں سے آپ کو ان کی طبیعت کا کچھ کچھ اندازہ تو ہو گیا ہوگا۔ باقی ان کے گھرانے کے بارے میں بتا دیتا ہوں۔ ماشاﷲ ان کے چار بچے ہیں بڑی بیٹی چھٹی جماعت میں پڑھتی ہے اور سب سے چھوٹے بیٹے ٹنکو نے خیر سے ابھی اسکول جانا شروع کیا ہے۔ اس گھرانے میں جو آسائشیں ہمیں میسر ہیں وہ شاید دوسرے چوہوں کو خواب میں بھی نہیں ملتیں۔ بڑا گھر ہے، ہمارا قیام اسٹور میں ہے جو الا بلا چیزوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہر وہ چیز جو ذرا سی خراب یا کم استعمال ہوتی ہے، اسٹور کی زینت اس امید پر بن جاتی ہے کہ بعد میں کام آئے گی پھر کوئی بھی پلٹ کر خبر نہیں لیتا۔ اسٹور کی پچھلی دیوار میں ایک دراڑ ہے جو بظاہر معمولی لگتی ہے۔ لیکن اندر بہت جگہ ہے۔ ہم اس محفوظ جگہ میں رہتے ہیں میرے ساتھ کچھ اور ساتھی بھی ہیں۔ جب بچے اسکول چلے گئے اور خالہ کچھ دیر آرام کرنے کے لیے لیٹ گئیں تو میں باہر نکلا۔ ایک پیالی میں چائے باقی تھی۔ وہ پی، پھر آرام سے چلتا اسٹور میں گیا اور سو گیا۔
دوپہر کو جب بچے واپس آئے تو ان کے شور سے آنکھ کھلی۔ خالہ کی بیٹی زوبی کی تیز تیز بولنے کی آواز آرہی تھی۔ یہ لڑکی اپنے نام کی طرح مختصر ہے۔ لیکن بہت پڑھاکو ہے جب دیکھو یا تو پڑھ رہی ہوتی ہے یا لکھ رہی ہوتی ہے۔ اپنے کمرے کو بہت صاف رکھتی ہے۔ مجال ہے جو ایک بورا بھی پڑا نظر آجائے۔ کچھ دیر بعد میں گھومتا ہوا اس کے کمرے میں جا پہنچا۔ کھانے کو تو کچھ نہ ملا۔ رائٹنگ ٹیبل پر کچھ رنگ برنگے کاغذ ایک فائل میں لگے نظر آئے ابھی حسب عادت انہیں کترنے بڑھ ہی رہا تھا کہ دروازہ کھلا اور زوبی اندر داخل ہوئی۔ مجھے دیکھ کر اس نے ایک باریک سی چیخ ماری اور جھاڑو اٹھا کر مارنے کو دوڑی ۔ میں دم دبا کر بھاگا۔ اب آگے میں اور پیچھے وہ۔ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں۔ شومئی قسمت کوئی بھی جگہ چھپنے کو نہیں مل رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ زوبی کے ہاتھوں موت لکھی ہے کہ بھاگتے بھاگتے ایک الماری کے پیچھے جا پہنچا اور دیر تک دم سا دھے وہاں چھپا رہا۔ بھاری الماری ہٹانے کی زوبی میں طاقت نہ تھی۔ کچھ دیر بعد وہ وہاں سے گئی تو اسٹور کا رخ کیا۔
شام کو سب لوگ باغیچے میں بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ میں نے پیٹ بھر کر بسکٹ کھائے تھے اور ایک گملے کے پیچھے چھپا ان کی باتیں سن رہا تھا۔ زوبی کہہ رہی تھی کہ اس کی گرمیوں کی چھٹیاں ہو رہی ہیں۔ اب وہ گھر کے کام پر توجہ دے گی۔ خالہ زینت حیرت سے بولیں۔ ”ہائے میری بچی تو ابھی اتنی سی تو ہے۔“ لیکن زوبی کا ارادہ پختہ لگتا تھا۔ وہ کہہ رہی تھی کہ وہ صبح اٹھ کر تمام گھر صاف کرے گی ہر چیز اپنی جگہ پر ہونی چاہیے اور گھر میں چوہے بہت ہو گئے ہیں۔ لہٰذا ایک بلی کا ہونا بھی ضروری ہے اور اس نے سہیلی سے اس کی پالتو بلی عاریتاً مانگ رکھی ہے۔ چند دنوں میں وہ گھر آجائے گی۔ یہ روح فرسا خبر سن کر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ۔ ایسا لگتا تھا کہ اس گھر میں ہمارے دن گنے جا چکے ہیں۔ میں نے تمام ساتھیوں کو یہ بات بتائی وہ بھی پریشا ن ہو گئے ۔ رات کو روزنامچہ لکھا اور اب سونے کے لیے ٹنکو کے جوتے میں جا رہا ہوں۔
٭….٭
تاریخ: ۸ اگست ۱۹۸۳ئ
مقام: باغیچے کا ایک سنسان کونا
زوبی کی چھٹیاں ہو گئیں۔ وہ اپنی بات کی پکی نکلی۔ گھر کی صفائی ستھرائی کا بوجھ اس کے نازک کندھوں نے بخوبی سنبھال لیا۔ ہر طرف صفائی نظر آتی۔ خالہ کو بھی کچھ شرم محسوس ہوئی ۔ وہ بھی وقت پر کام کرنے کی کوشش کرنے لگیں۔ ہمیں خوراک کے لیے بہت تگ و دو کرنی پڑرہی تھی۔ (یہ تحریر آپ کو روزنامچہ نہ لگے گی دراصل یہ کئی دنوں کی روداد ہے جسے میں ایک ساتھ لکھ رہا ہوں)۔ پھر ایک دن وہ بلی بھی گھر لے آئی۔ اس رات تمام چوہوں کا ہنگامی خفیہ اجلاس ہوا بہت بحث ہوئی کچھ کا خیال تھا کہ فوراً اس گھرکو چھوڑ دینا چاہیے جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ ہمیں حالات کا مقابلہ جوانمردی سے کرنا چاہیے میری بھی یہی رائے تھی۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ اول یہ کہ حالیہ تبدیلی صرف دو مہینے کے لیے ہوئی تھی۔ دوسرا یہ کہ بلی عاریتاً لائی گئی تھی۔ اسے بھی ایک دن واپس چلے جانا تھا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس جیسا گھر ہمیں مشکل سے ملتا۔ لہٰذا اکثریت نے یہ فیصلہ کیا کہ وہیں رہا جائے۔ بس اپنی سرگرمیاں انتہائی محدود کر دی جائیں صرف اہم ضرورت پر ہی باہر نکلا جائے۔ لہٰذا ہم لوگ اس اصول پر سختی سے عمل کرنے لگے۔
زوبی کی لائی ہوئی بلی سفید روئی جیسے بالوں والی تھی۔ اس کی نیلی آنکھیں دیکھ کر ہم بھی بہت متاثر ہوئے۔ سب نے اسے پسند کیا۔ زوبی نے اعلان کیا کہ کوئی بھی بلی کو کچھ نہیں کھلائے گا۔ وہ صرف ”پسا ہوا قیمہ“ کھاتی ہے اور اس کا مخصوص برتن ہے اگر یہ کھو گیا تو وہ کسی قیمت پر کھانا نہیں کھائے گی چنانچہ اس کی حفاظت دل و جان سے کی جائے۔ خالہ زینت حیران ہو کر بولیں۔
” اے بیٹا ! یہ پسا ہو قیمہ کیا ہوتا ہے؟“ وہ قیمہ جو کئی بار مشین سے گزارا گیا ہو۔“ زوبی نے جواب دیا ۔ خالہ منہ بنا کر رہ گئیں۔
کئی دن تک زوبی اسے گود میں اٹھائے گھومتی رہی۔ وہ اسے پورا گھر دکھا رہی تھی لیکن ایسا لگتا تھا اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ ہم لوگ چھپے ہوئے تھے۔ پھر زوبی نے بلی کو شکار کے لیے آزاد چھوڑ دیا۔ لیکن ہم نے محسوس کیا کہ اس کی پرورش خاص قسم کے ماحول میں ہوئی ہے یا وہ کسی شاہی خاندان سے تعلق رکھتی ہے وہ زیادہ تر سوتی رہتی صرف کھانے کے وقت اٹھتی، پھونک پھونک کر قدم رکھتی جیسے نازک شیشے پر چل رہی ہو جب وہ سو رہی ہوتی ہم اس کے پاس سے گزر جاتے لیکن اس کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ آہستہ آہستہ ہمارا اس سے خوف دور ہونے لگا۔ ایک دن تو کمال ہو گیا۔ ہم تیزی سے ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے کہ ہمارا ایک شریر ساتھی اس سے جا ٹکرایا۔ ہم سب خوفزدہ ہو گئے۔ اس نے دھیرے سے گردن اٹھائی اور ایک آنکھ کھول کر دیکھا اور پھر دوبارہ سو گئی۔ ہم حیرت زدہ رہ گئے۔ ہمار اخیال تھا کہ یہ بلی چوہوں کی دشمن نہیں ہو سکتی، لیکن تھی تو وہ بلی ہی، ہم اس سے محتاط بھی رہتے۔
گھر میں بہت تبدیلی آچکی تھی۔ زوبی خالہ کے ساتھ مل کر گھر کو صاف رکھتی۔ ہر چیز اپنی جگہ پر نظر آتی لیکن بلی نے اب تک ایک چوہا بھی نہیں کھایا تھا نہ وہ انہیں دیکھ کر چونکتی۔ خالہ اسے غصے بھری نظروں سے گھورتی رہتیں۔ زوبی بھی پریشان تھی۔ لیکن ہمارے اور بلی کے تعلقات دوستی میں تبدیل ہو رہے تھے۔ اکثر وہ دھیرے دھیرے چلتی اسٹور میں آنکلتی۔ ہم لوگ مل کر کھیلتے لیکن زوبی الجھن کا شکار تھی۔ اس نے بلی پر نظر رکھنی شروع کر دی۔
ایک دن جب ہم اسٹور میں دھماچوکڑی مچا رہے تھے۔ دروازہ کھلا اور زوبی اندر داخل ہوئی اور اس نے اپنی زندگی کا سب سے حیرت انگیز منظر دیکھا۔ پالتو بلی چوہوں کے ساتھ کرسی پر سے چھلانگیں لگانے کا مقابلہ کررہی تھی۔ زوبی کی حیرت سے چیخ نکل گئی۔ ہم لوگوں نے فوراً دراڑ میں پناہ لی اور بلی شان بے نیازی سے زوبی کے پاس سے گزرتی باہر نکل گئی۔ اس واقع کا ردِ عمل حسب توقع تھا دوسرے دن ہی بلی کو واپس روانہ کر دیا گیا ۔ خالہ زینت نے خدا کا شکر ادا کیا ۔ اس بلی کی وجہ سے ان کا ماہانہ بجٹ ڈانواڈول ہو گیا تھا۔ ہم لوگ بھی خوش تھے کہ انہیں اپنے مقصد میں شکست ہوئی لیکن پھر ایک دن ہمارے اوپر وہ تلوار گری جس سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ صبح میں اسٹور سے نکل رہا تھا کہ دروازے کے پاس آٹے کی گولیاں پڑی نظر آئیں۔ میں چونک اٹھا ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا مجھے گڑبڑ لگ رہی تھی میں ابھی دوسروں کو اس خطرے سے آگاہ کرنے جا رہا تھا کہ انکشاف ہوا کہ چند ساتھی پہلے ہی دوائی والی خوراک کھا کر دوسرے جہاں کو سدھار چکے ہیں جہاں بہرحال ایک دن سب کو چلے جانا ہے۔ باقی بھی دوسرے دن منع کرنے کے باوجود غلطی کر بیٹھے اور رخصت ہو گئے۔ صرف میں اکیلا بچا۔ میں نے فوراً کھانا پینا چھوڑ دیا۔ کئی دن تک اس گھر کی کوئی چیز نہیں کھائی جب بہت بھوک لگتی تو گملوں کے پاس سے کوئی کیڑا مکوڑا کھا لیتا۔ اس دوران میں خود کو پوشیدہ رکھنے میں کامیاب رہا ۔ انہوں نے دراڑ بھی سیمنٹ لگا کر بند کر دی لیکن میں نے اس سے پہلے ہی جگہ بدل لی تھی۔
کچھ دنوں میں زوبی کی چھٹیاں ختم ہو گئیں اور وہ اپنی پڑھائی میں مصروف ہو گئی۔ خالہ زینت(خدا انہیں سلامت رکھے) اب اگرچہ پہلے جیسی سست وکاہل تو نہ رہیں لیکن بیچاری اکیلی کتنے کام کریں کچھ نہ کچھ رہ ہی جاتا ہے اور مجھ اکیلے کو کھانے کو بہت کچھ مل جاتا ہے۔ انسان نہ جانے کیوں ہم سے اتنی نفرت کرتے ہیں اگرچہ ہم تھوڑے سے گندے ضرور ہوتے ہیں لیکن ہیں تو اللہ کی مخلوق۔ ان ساری واقعات سے میں نے یہ سبق سیکھا کہ اگر ہم ہمت اور عقل سے کام لیں تو بہرحال مشکل وقت بھی گزر جاتا ہے۔
٭….٭